پاکستان کے آئین میں ایک اور ترمیم کی تجویز سامنے آئی ہے جو کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ ترمیم کیا ہے؟ اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ اور یہ کس طرح پاکستان کے عدالتی نظام کو متاثر کرے گی؟ کچھ لوگ اسے آئین کی تدفین کیوں قرار دے رہے ہیں؟ ان اہم سوالات کے جواب کے لیے ہم نے رفتار پوڈ کاسٹ میں سینیئر وکیل اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ جبران ناصر کو مدعو کیا جنہوں نے اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
گفتگو کے دوران کئی اہم نکات سامنے آئے۔ سب سے پہلے، امریکا کے آئین کا موازنہ پاکستان کے آئین سے کیا گیا۔ امریکا کا آئین 237 سال میں صرف 27 بار ترامیم کی گئیں، جبکہ پاکستان کا آئین محض 51 سال میں 26 بار تبدیل کیا جا چکا ہے۔
جبران ناصر نے وضاحت کی کہ حالیہ مجوزہ ترمیم کے ذریعے ایک نئی آئینی عدالت قائم کی جا رہی ہے جو سپریم کورٹ کے مساوی ہوگی۔ یہ عدالت آئینی معاملات پر فیصلہ کرے گی اور اس کے فیصلے سپریم کورٹ پر بھی لاگو ہوں گے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو متاثر کر سکتی ہے۔
ترمیم کے دیگر اہم پہلوؤں میں الیکشن کمیشن کے ارکان کی مدتِ ملازمت، آرمڈ فورسز چیف کی مدتِ ملازمت، اور کینٹونمنٹ بورڈز کے معاملات شامل ہیں۔ جبران ناصر نے ان تمام معاملات پر تنقیدی نظر ڈالی اور ان کے مختلف پہلوؤں کی تفصیلی وضاحت بھی کی۔
اس اہم موضوع پر مزید جاننے کے لیے مکمل پوڈ کاسٹ دیکھیں، جہاں جبران ناصر نے نہ صرف تمام معاملات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے بلکہ موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں اس ترمیم کے اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے۔