کیرلا، بھارت کے جنوب میں ایک خوبصورت ریاست ہے جو بحیرہ عرب کے کنارے واقع ہے۔ یہ علاقہ ناریل کے درختوں سے سجے ساحل اور سمندری نہروں کے جال پر مبنی اپنے بیک واٹرز کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ پھر اس کی پہاڑی ڈھلوانیں چائے، کافی اور مصالحوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔ لیکن کیرلا کی اصل شہرت ہے یہاں کی امن و آشتی اور مذہبی ہم آہنگی والا ماحول۔

کیرلا کی آبادی میں سے تقریباً 54 فیصد ہندو، 26 فیصد مسلمان اور 18 فیصد مسیحی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آج تک مودی جی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے پنجے نہیں گاڑ سکی۔ اب تو پڑوسی ریاست کرناٹک سے بھی اس کا پتہ صاف ہو گیا ہے۔ پھر بھی بی جے پی اپنے ہندوتوا کے نعرے تلے ریاست میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں مصروف ہے، جس کے لیے سرکاری سطح پر بھرپور پروپیگنڈا مشنری کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال ہے کچھ ہی عرصہ پہلے ریلیز ہونے والی فلم "کیرلا اسٹوری"۔جس کے ہدایت کار ہیں سودِپتو سین، اور پروڈیوسر ہیں وِپل امرت لال شاہ۔

فلم کی کہانی ہے کیا؟

فلم کی کہانی شالینی نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جسے مشہورِ زمانہ 'لو جہاد' کے ذریعے، مختلف حیلے بہانوں سے مسلمان کیا جاتا ہے اور بالآخر داعش میں شمولیت کے لیے افغانستان بھیجا جاتا ہے، جہاں وہ گرفتار ہو جاتی ہے۔

فلم بتاتی ہے کہ صرف کیرلا سے 32 ہزار سے زیادہ لڑکیوں کو ورغلا کر مسلمان بنایا گیا اور پھر انہیں داعش میں شامل کرنے کے لیے شام، عراق، افغانستان بھیجا گیا، جہاں وہ بچ نہیں پائیں اور ماری گئیں۔

فلم کس بنیاد پر کھڑی ہے؟

ہٹلر نے کہا تھا لوگوں کو بہکانے کے لیے اتنا بڑا جھوٹ بولو کہ لوگوں کو لگے کہ کوئی کیسے اتنا بڑا جھوٹ بول سکتا ہے۔ ضرور اس میں کچھ نہ کچھ سچائی ہوگی۔ پھر اسی تکنیک کو ہٹلر کے پروپیگنڈا منسٹر جوزف گوئبلز اپنی انتہا پر لے گئے، جن کے مطابق 'اس بڑے جھوٹ کی بار بار گردان کی جائے تو لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ ساتھ ہی آدھا سچ بھی بہت کامیاب پروپیگنڈا تکنیک ہے۔'

یہی سب کچھ کیرلا اسٹوری کا مقصد بھی ہے۔

فلم کے پروڈیوسر سودِپتو سین سے پوچھا گیا کہ جناب! یہ فلم کون سے "سچے واقعات" سے ماخوذ ہے تو موصوف نے اس پر تین حوالے دیے:

‏1۔ کیرلا کے سابق چیف منسٹر اومن چانڈے نے 25 جون 2014ء کو کیرلا اسمبلی میں ایک بیان دیا تھا کہ سال 2006 سے 2014 کے درمیان 2667 نوجوان خواتین نے اسلام قبول کیا۔

‏2۔ کیرلا کے ایک اور سابق وزیراعلیٰ وی ایس اچوتانندن نے کہا تھا کہ کیرلا اگلے 20 سالوں میں اسلامی ریاست بن سکتا ہے۔

‏3۔ فلم میں فاطمہ نامی ایک لڑکی کی کہانی ہے جو افغانستان کی جیل میں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے ۔

کیا ہے 'سچی کہانی' ہے؟

تو کیا واقعی 'کیرلا اسٹوری' سچے واقعات پر مبنی ہے جس کے تحت 32 ہزار لڑکیوں کو ‘لو جہاد’ کے ذریعے پھانس کر مسلمان کیا گیا اور پھر انہیں دہشت گرد تنظیموں کے حوالے کیا گیا؟ بالکل نہیں! بلکہ یہ 'ہاف ٹرتھ' یعنی آدھے سچ کی ہی ایک مثال ہے۔

سب سے پہلے سابق چیف منسٹر اومن چانڈے کے بیان کو ہی لے لیتے ہیں۔ انڈیا ٹوڈے کے اس آرٹیکل میں ان کا پورا بیان موجود ہے کہ جس میں ان کا کہنا ہے کہ 2006 سے 2014 تک تقریباً 2667 نوجوان خواتین نے اسلام قبول کیا۔ لیکن اس میں کہیں بھی فورسڈ کنورژن یا جبری تبدیلی مذہب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی ریاست میں کسی کو زبردستی کرنے نہیں دیں گے اور نا ہی ہم 'لو جہاد' کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی کسی مہم کو برداشت کریں گے۔ اب آپ خود سوچیں کہ اس میں 32 ہزار خواتین اور داعش کہاں ہے؟

اب ایک اور سابق وزیر اعلیٰ وی ایس اچوتانندن کے بیان کو لیں۔ ان کی وڈیو حال ہی میں یوٹیوب پر اپلوڈ کی گئی ہے اور اسے اپلوڈ کرنے والے 'سن شائن پکچرز' ہیں۔ یعنی وہی کمپنی جس نے کیرلا اسٹوری بھی بنائی ہے۔ انٹرویو ملیالم زبان میں ہے اور اس کے ترجمے /سب ٹائٹلز میں بڑی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ جبکہ حقیقت میں سابق وزیر اعلیٰ مسلم انتہا پسند تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا ( پی ایف آئی) پر تنقید کررہے تھے کہ وہ زبردستی پیسے دے کر دوسرے مذاہب کے نوجوانوں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی مسلمان عورتوں سے شادی کروا رہے ہیں۔ اہم بات یہ کہ اس بیان کو دیے ہوئے بھی 13 سال گزر چکے ہیں اور کیرلا آج بھی اتنا ہی سیکیولر اور محفوظ ہے، جتنا 13 سال پہلے تھا۔ یہاں سوال پھر وہی ہے کہ اس میں ہندو عورتوں کی 'فورسڈ کنورژن' اور داعش کہاں ہے؟

فاطمہ نامی لڑکی کی کہانی کے لیے اخبار 'دی ہندو' کا یہ آرٹیکل دیکھ لیتے ہیں، جس میں لکھا ہے کہ کیرلا کی 4 عورتیں 2016 سے 2018 کے درمیان اپنے شوہروں کے ساتھ افغانستان گئیں تاکہ داعش خراسان جوائن کر سکیں۔ ان کے شوہر مختلف حملوں میں مارے گئے۔ ان چاروں خواتین کے نام : نمیشا /فاطمہ، سونیا سبیسٹین / عائشہ، میرین جیکب / مریم اور رفیلہ تھے۔

نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کی 2016 کی انتہائی مطلوب اشتہاریوں کی فہرست میں ان چار عورتوں کے نام دیکھے جا سکتے ہیں، جن کا تعلق داعش سے تھا۔ ان کے علاوہ دو اور عورتیں ہیں جن کے نام اجمالہ اور شماسیہ ہیں۔ ان چھ خواتین میں سے دو پہلے ہی مسلمان تھیں جبکہ دو مسیحیت چھوڑ کر مسلمان ہوئیں اور صرف ایک نے ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔ یعنی صرف ایک خاتون ہی ہندو تھیں جن کا نام نمیشا نائر تھا۔ نمیشا کے شوہر خود بھی ایک نومسلم تھے جن کا نام عیزا تھا، جو مسیحیت چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے۔ ان کا پرانا نام 'بیکسن ونسنٹ ' تھا، تو یہاں 'لو جہاد' کا الزام بھی نہیں لگ سکتا۔

بہرحال 2020 میں ان خواتین کا انٹرویو ایک ڈاکیومنٹری میں دکھایا گیا، جس میں یہ عورتیں اب بھی ویسا ہی طرز زندگی اپنانا چاہتی تھی۔ جبکہ فلم میں جس کردار کو دیکھا گیا وہ اتنا معصوم ہے کہ شاید حقیقی زندگی میں ایسا کوئی کردار یقیناً اس دنیا میں موجود نہ ہوگا۔

اسٹراٹ نیوز گلوبل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 تک 60 ہندوستانیوں نے افغانستان کا سفر کیا، جن میں 26 مرد اور 13 عورتیں اور 21 بچے شامل تھے۔ اقوام متحدہ آفس آف کاؤنٹر ٹیرر ازم کے انڈر سیکریٹری جنرل ولادیمیر ورنکوف کے مطابق 110 ممالک سے تقریباً 40،000 جنگجو شام اور عراق میں لڑنے کے لیے گئے تھے۔ جبکہ انٹرنیشنل سینٹر فار دی اسٹڈی آف ریڈیکلائزیشن، کنگز کالج لندن کے مطابق80 ممالک سے 41,490 افراد داعش سے منسلک ہوئے ان میں 79 فیصد افراد مرد تھے۔

ان دونوں رپورٹس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 40 سے 42 ہزار کے درمیان غیر ملکی دہشت گرد داعش سے منسلک ہوئے ۔ ان میں سے کتنے ہیں جن کا تعلق بھارت سے ہے؟ امریکہ کے بیورو آف کاؤنٹر ٹیررازم کی کنٹری رپورٹ کے مطابق بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے دہشت گردی کے 34 کیسز کی جانچ کی اور 160 لوگوں کو داعش سے تعلق کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا۔ یعنی اگر ہم 200 کیسز بھی مان لیں تو صرف کیرلا سے 40 کیسز ہیں ۔ ان 200 کیسز میں سے بھی سب ہی لوگ داعش کے لیے نہیں گئے تھے، بلکہ صرف 66 لوگ ہی لڑنے کے لیے گئے تھے۔ ان میں 13 عورتیں تھیں جبکہ کیرلا سے خواتین کی تعداد 6 خواتین تھیں۔ ان میں سے بھی صرف تین نومسلم تھیں، جنہوں نے دوسرے مذاہب سے اسلام قبول کیا، دو مسیحی اور ایک ہندو۔

ان اعداد و شمار کی بنیاد پر با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ 'کیرلا اسٹوری' نامی فلم میں جو کچھ دکھا یا گیا ہے، شاید حقیقی زندگی میں صرف ایک عورت کے ساتھ ہی ایسا ہوا ہو۔ کہاں فلم کے دعوے کے مطابق 32 ہزار عورتیں اور کہاں صرف ایک عورت؟

سب سے بڑا جھوٹ

یہی وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جس کی بنیاد پر ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ کوئی اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتا ہے؟ 32 ہزار نہ سہی پانچ، دس ہزار عورتوں کے ساتھ تو ایسا ہوا ہوگا؟ پانچ ہزار نہ سہی ایک ہزار کے ساتھ تو ہوا ہوگا۔ جبکہ در حقیقت ایسا کسی ایک خاتون کے ساتھ بھی نہیں ہوا ہوگا، جیسا فلم میں دکھایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی 'لو جہاد' کی کانسپرسی کا الزام بھی ہوا ہو جاتا ہے۔

لیکن مودی جی جھوٹ پر مبنی اس فلم کو اپنی الیکشن مہم کے دوران خوب استعمال کرتے رہے ہیں۔

وزیرداخلہ امیت شاہ نے بھی کرناٹک کے انتخابی مہم کے دوران کیرلا کا نام لیتے ہوئے کہا کہ "آپ کے برابر میں ہی کیرلا ہے، بس اب میں اور کچھ نہیں کہوں گا"۔ یہ سب کچھ بی جے پی کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے کر کرناٹک اور دیگر جنوبی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت بنانا ہے، جیسی مرکز میں بنائی گئی۔

اب خود ہندوستان کے اندر سے بھی اس فلم کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور وہ فلم میں دیے گئے اعداد و شمار پر سوال اٹھانے لگے ہیں کیونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

شیئر

جواب لکھیں