ممبئی، وہ شہر جو کبھی سوتا نہیں، خوابوں کا، اُن کی تعبیر کا شہر اور ہاں! کرکٹ کا شہر بھی لیکن کرکٹ گریٹس یہاں پیدا نہیں ہوتے، بلکہ ممبئی کی چھوٹی چھوٹی گلیاں اور میدان ایسے گریٹس بناتی ہیں۔ تراشتی ہیں اور پھر دنیا کے سامنے لاتی ہیں یہیں پر جنم ہوا گریٹ سنیل گاوسکر کا، اِسی شہر میں جنم لیا لٹل ماسٹر سچن تنڈولکر نے اور یہیں پر پیدا ہوا ایک ایسا کھلاڑی جو دیکھنے میں تو سیدھا سادا لگتا ہے، لیکن لوگ اسے 'بوریوالی کا ڈان' کہتے ہیں ممبئی کا ٹپوری اسٹائل اُس کے لہجے اور بیٹنگ دونوں میں جھلکتا ہے بولے تو رنز بناتا نہیں، پیلتا ہے  بالرز کو کھیلتا نہیں، توڑتا ہے۔ وہ رِنگ کا محمد علی ہے، کورٹ کا مائیکل جارڈن اور کرکٹ میدانوں کا  نہیں، نہیں،  کرکٹ میدانوں پر اُس جیسا کوئی نہیں، وہ اپنی ٹائپ کا 'ون اینڈ اونلی' ہے، وہ روہت شرما ہے۔ کرکٹ ورلڈ کا 'ہٹ مین!'

دی ہٹ مین

انڈیا، یہاں کرکٹ بس ایک کھیل نہیں، بلکہ ایک religion ہے۔ یہاں جو بلّا پکڑتا ہے، اُس کی ہر move کو لوگ دیکھتے ہیں، اسے جانچ تے ہیں، پرکھتے ہیں۔ چاہے وہ گلی میں کھیل رہا ہو یا انٹرنیشنل کرکٹ میں اور جہاں تک بات ہے نیشنل ٹیم کی، تو وہ اربوں لوگوں کا ارمان ہے۔ اور جو یہاں تک پہنچ جائے، سوچیں اس کے لیے امیدوں کا اتنا بوجھ ڈھونا کتنا مشکل ہوتا ہو گا؟ اتنے لوگوں کو خوش رکھنا کتنا کٹھن ہو گا؟ یہ بہت ہی مشکل کام ہے اور  روہت نے یہ کر کے دکھایا ہے۔ پانچ مرتبہ کا آئی پی ایل چیمپیئن دو مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے والا  بلکہ ایک بار اپنی کپتانی میں جتوانے والا سب سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی رنز اور سنچریاں بھی بنانے والا بھی ون ڈے میں دیکھیں تو ایک ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ سنچریز سب سے زیادہ ڈبل سنچریز بلکہ ایک نہیں، دو نہیں، تین تین ڈبل سںچریاں ہیں۔ روہت کی اس فارمیٹ کی سب سے لمبی اننگز بھی روہت نے ہی کھیلی ہے اور ہاں! انٹرنیشنل کرکٹ میں سب سے زیادہ چھکے بھی انھی کے ہیں! روہت گروناتھ شرما! اپنے کام سے سب کے دل جیتنے والا، critics کو خاموش کرنے والا اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی اُس میں کوئی غرور نہیں  وہ آج بھی اتنا ہی سادہ ہے جتنا کبھی بوریوالی کی گلیوں میں ہوتا تھا۔

بوریوالی کی گلیوں میں

روہت کے کرکٹ سفر کا آغاز ہوا ممبئی کی گلیوں سے ناں ناں  یہ مت سمجھیے گا کہ گلی کرکٹ بس ایسے ہی ہوتی ہے، بالکل نہیں! یہ بہت ہی سیریئس میٹر ہوتی ہے بھائی  اور یہ بات میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی اچھی طرح سمجھتے ہوں گے، لیکن بوریوالی میں ٹینس بال سے کھیلتے روہت نے کبھی سوچا ہو گا  کہ وہ انڈیا کے لیے 500 پلس میچز کھیلے گا؟ کبھی نہیں!

لیکن وہ لوگوں کی نظروں میں تھا  گھر والوں کی، محلّے والوں کی نظروں میں اور انھی دیکھنے والوں میں سے کچھ لوگ سمجھ گئے تھے کہ لڑکے میں دم ہے! یہ وہ زمانہ تھا جب روہت اپنے چچا کے گھر پر رہتا تھا جنھوں نے محلّے میں چندہ کر کے اسے ایک اکیڈمی میں داخل کروا دیا تاکہ یہ ٹیلنٹ گلیوں میں ضائع نہ ہو، ‏1999 روہت کے لیے کامیابی کا پہلا سال بنا، ایک کوچ نے روہت کو آف اسپن بالنگ کرتے ہوئے دیکھ لیا  وہ بہت انسپائر ہوئے، یہ تھے دنیش لاڑ، جنھوں نے روہت سے کہا کہ وہ اُن کے اسکول میں داخلہ لے کیونکہ وہاں کی کرکٹ facilities اچھی ہیں، لیکن روہت یہ اسکول افورڈ نہیں کر سکتا تھا  تب اسکالرشپ پر اسے ایڈمیشن ملا  یوں روہت اسکول کی تاریخ کا پہلا بچہ بنا، جو چار سال تک بغیر فیس دیے پڑھا  صرف اور صرف اپنی کرکٹ کی وجہ سے لیکن ابھی اس کا چھپا ہوا ٹیلنٹ ڈسکور نہیں ہوا تھا اور پھر وہ دن بھی آ ہی گیا  دنیش لاڑ نے ایک دن نیٹس میں روہت کو بیٹنگ کرتے دیکھ لیا۔ دُور تک دیکھنے والی آنکھ سمجھ گئی کہ یہ بیٹنگ بہت آگے جائے گی، تب روہت اسکول کی سیمنٹ پچ پر گھنٹوں پریکٹس کرتا اور یہیں اُس کے وہ کٹ اور پُل شاٹس بنے، جنھیں آج دنیا جانتی ہے۔

دنیا کہتی ہے، کھیل ہے! کھیل کو کھیل رہنے دو  لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ آپ سے بہت ڈیمانڈ کرتا ہے، آپ سے آپ کا وقت مانگتا ہے، ٹریننگ، فٹنس، لرننگ، اسکلز اور بہت سارا سفر بھی تو ننھا روہت دو، دو گھنٹے سفر کر کے میچ کھیلنے کہیں جاتا، وہاں پاںچ، چھ گھنٹے کھیلتا اور آخر میں اتنا ہی لمبا سفر کر کے گھر واپس آتا، لیکن یہی سخت زندگی تھی، جس نے روہت کو آگے کے لیے تیار کیا  اسے مشکل سے مشکل فیصلے کرنے کا حوصلہ دیا، کیونکہ زندگی کا بدترین وقت ہو یا بہترین  وہ آپ کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرتا ہے۔ لوگ تو اپنی زندگی کے مشکل دنوں کو یاد نہیں کرتے  اور کرتے ہیں تو انھیں اچھا نہیں سمجھتے  لیکن روہت کا کہنا ہے: وہ بہت اچھا وقت تھا، بلکہ بہت ضروری وقت تھا، اس کا بھی اپنا مزا تھا اور یہ بات کہتے ہوئے وہ خود کو کوئی اسپیشل نہیں بتاتے۔ بلکہ کہتے ہیں: 90 فیصد کرکٹرز کی یہی کہانی ہے۔ بہرحال، زیادہ وقت نہیں لگا روہت ممبئی کی انڈر 16 کرکٹ ٹیم تک پہنچ گیا اور پھر انڈر 17 اسکواڈ میں بھی، جہاں ملاقات ہوئی کوچ پروین امرے سے، جنھوں نے اسے اسکالر شپ پر ایئر انڈیا بلا لیا، یہ بڑا ایکسپوژر تھا اور اس کا بہت فائدہ بھی ہوا، کیونکہ روہت جلد ہی انڈیا انڈر 19 میں سلیکٹ ہو گیا، بچپن کا خواب ہو یا نہ ہو، لیکن یہ اعزاز بہت بڑا تھا کہ آپ کسی بھی لیول پر اپنے ملک کو represent کریں، تو ‏2006 میں انڈر 19 ورلڈ کپ ہوا، جہاں روہت کی ٹیم انڈیا فائنل تک پہنچی، انھوں نے ورلڈ کپ میں چھ اننگز میں تین ففٹیز اسکور کیں اور 205 رنز بنائے، اور اسی سال روہت کا فرسٹ کلاس ڈیبیو بھی ہو گیا، وہ رنجی ٹرافی جیتنے والی ٹیم کا حصہ بنے، اب مستقبل سامنے کھڑا تھا لیکن جوانی دیوانی ہوتی ہے بھائی ۔ ایئر انڈیا کی نوکری، انڈر 19 میں انڈیا کو ریپریزنٹ کرنا سوچ سے بڑھ کر کچھ مل جائے تو بندہ ذرا ریلیکس ہو جاتا ہے لیکن دنیش لاڑ کو پورا اندازہ تھا کہ روہت کے پاس یہ لگژری نہیں ہے  کوئی بھی اسپورٹس مین اس عمر میں ریلیکس ہونا افورڈ نہیں کر سکتا، انھوں نے صاف صاف کہہ دیا: روہت! تمھارے اندر ایک کرکٹر ہے۔ اگر تم ڈسپلنڈ نہیں ہو گے، تو آگے نہیں بڑھ پاؤ گے، روہت ایک بہت اچھا listener تھا، اس نے کوچ کی سنی بھی اور مانی بھی  آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ 2007 آ گیا، ایک ایسا سال جو روہت کے لیے ٹرننگ پوائنٹ بنا۔

ٹرننگ پوائنٹ

کہتے ہیں آغاز جیسا بھی ہو  انجام اچھا ہونا چاہیے، انڈیا کے لیے سال 2007 کا آغاز بہت بُرا تھا وہ ون ڈے ورلڈ کپ کے پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گیا اور انڈیا ہو یا پاکستان یہ بات تو کنفرم ہے اگر ورلڈ کپ بُرا گیا ہے تو فیصلے بہت بڑے ہوں گے، انڈیا نے بھی ایسا ہی کیا  نئے زمانے کے لیے نئی ٹیم بنائی، جس میں روہت شرما بھی شامل تھے، ڈیڑھ ارب لوگوں کا خواب ہے ٹیم انڈیا سے کھیلنا، وہاں روہت نیشنل ٹیم تک آ گئے، یہ بہت بڑا اعزاز تھا، ویسے کسی بھی انٹرنیشنل پلیئر سے پوچھا جائے  تو وہ یہی کہتا ہے کہ میں تو بچپن سے ملک کو ریپریزنٹ کرنا چاہتا تھا ۔ بلکہ شاید یہ بھی کہہ دے کہ اسے تو یقین تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا، لیکن روہت سب سے مختلف ہیں، وہ دل کی بات کہتے ہیں اور صاف کہتے ہیں، اُن سے جب کسی نے پوچھا تو انھوں نے کہا: بھائی! ہم تو بچپن میں صرف مزے کے لیے کھیلتے تھے۔ دماغ پر ایک ہی چیز سوار تھی،  کھیلنا ہے بس، لگ کر کھیلنا ہے اور پھر گیم جہاں لے جائے اور یہ گیم روہت کو ورلڈ کپ تک لے آیا! ‏2007 کے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے انڈیا کی نیو ٹیم بنی، جس سے کھیلتے ہوئے ‏‏19 ستمبر 2007 کو روہت نے اپنا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ڈیبیو کیا، انڈیا ٹورنامنٹ کے فائنل تک پہنچا، جہاں مقابلہ ہوا arch rival پاکستان سے، یہاں روہت نے ناٹ آؤٹ 30 رنز بنائے، وہ بھی صرف 16 بالز پر انڈیا یہ میچ صرف پانچ رنز سے جیتا تھا  اس لیے روہت کے 30 رنز بہت امپورٹنٹ تھے، بلکہ یہ ان کی زندگی کی سب سے امپورٹنٹ اننگز ہوگی۔

اس یادگار کامیابی کے بعد انڈیا کی لمیٹڈ اوور سائیڈ میں روہت کی جگہ بنتی نظر آ رہی تھی، سی بی سیریز 2008 میں انڈیا نے انھیں 10 کے 10 میچز کھلائے اور ٹورنامنٹ جیتنے پر سب کو بونس بھی ملا اور روہت نے یہاں ایک کام کیا ایسا کام جو انھیں ہمیشہ بہت پسند رہا ہے  انھوں نے ان پیسوں سے ایک گاڑی خرید لی، ماں باپ ناراض ہوئے  کوچ ناراض ہوئے لیکن گاڑیوں کے معاملے میں روہت کسی کی سننے والے نہیں، پھر انڈین پریمیئر لیگ بھی آ گئی۔ ایسی لیگ جس نے کرکٹ ورلڈ کو بدل دیا، دکن چارجرز نے روہت شرما کو تین کروڑ روپے میں خریدا، وہ اُس دن بہت خوش تھے، لیکن کھیل کوئی بھی ہو، ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا  کیونکہ اُس کے لیے چاہیے ہوتی ہے consistency۔

  مستقل مزاجی کی تلاش

کہانی کتنی ہی مشہور کیوں نہ ہو، کتنے ہی عظیم کھلاڑی یا شخصیت کی کیوں نہ ہو، اس میں زوال تو آتا ہے، کہانی ہوگی تو موڑ تو آئے گا بھائی، روہت کی زندگی میں بھی آیا بلکہ یہ عروج اور زوال کی کہانی کا پہلا پارٹ تھا، ہوا یہ کہ روہت نے انڈین پریمیئر لیگ میں تو بڑا اچھا اسٹارٹ لیا، لیکن لگ رہا تھا کہ انٹرنیشنل کرکٹ انھیں راس نہیں آ رہی، وہاں ناکامیوں پر ناکامیاں دیکھ رہے تھے، آپ کو سن کر شاید حیرت ہوگی کہ روہت جیسے بلے باز کو پہلی ون ڈے سنچری کے لیے 42 میچز کھیلنا پڑے، جی ہاں! 42، لیکن یہ بات ہے کہ روہت نے ایک نہیں، ایک ساتھ دو سںچریز بنائیں، لگ رہا تھا اب سب ٹھیک ہو جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا، ان سنچریز کے بعد سے ورلڈ کپ 2011 کے اسٹارٹ تک  روہت نے 16 اننگز میں بس 290 رنز بنائے  ایوریج تھا صرف اور صرف 18 اور پھر وہ ہو گیا، جس کا خطرہ تھا، ورلڈ کپ 2011 کی ٹیم کا اعلان ہوا اور روہت کا نام شامل نہیں تھا، انھیں یقین نہیں آیا کیونکہ وہ تو پہلے 14 ممبرز اسکواڈ کا پارٹ تھے  لیکن جب فائنل 15 اناؤنس ہوئی تو روہت کا نام نہیں تھا، ایسا لگا خواب ٹوٹ گیا  سب کچھ بکھر گیا، یہ غم اور بڑھ گیا، جب انڈیا نے 28 سال بعد ورلڈ کپ بھی جیت لیا  وہ بھی روہت کے بغیر۔

زندگی میں بہت ضروری ہوتا ہے کہ کوئی چیز آپ کی مرضی کے خلاف ہو جائے  آپ جیسا چاہتے ہوں، ویسا نہ ہو، کیونکہ اُس کے بعد آپ کو ایک چانس ملتا ہے،  خود کو جانچنے کا، سنبھالنے کا، کچھ بہتر کرنے کا، ورلڈ کپ 2011 مس ہونے کا غم بہت بڑا تھا لیکن اُس کے بعد روہت نے اپنا جائزہ لیا، خود کو evaluate کیا، اور پھر بدلا بھی، تو 2011 جو غم کا سال تھا  روہت نے اسے اپنے ریوائول کا سال بنا لیا، یہی وہ سال تھا جب وہ آئی پی ایل میں اپنے شہر کی ٹیم میں بھی آئے، یعنی ممبئی میں، پھر 2011 سے 2013، یہ سال روہت کے بیسٹ آئی پی ایل ایئرز بن گئے، آئی پی ایل میں انھوں نے کیا کارنامے کیے؟ اس پر تو آگے چل کر بات کریں گے  ابھی چلتے ہیں اس زمانے کے ایک واقعے کی طرف، مارچ 2012، سچن تنڈولکر نے 100 انٹرنیشنل سنچریز مکمل کیں، جس کی خوشی میں ممبئی میں ایک ایونٹ ہوا، بالی ووڈ کے اسٹار سلمان خان بھی آئے ہوئے تھے، جنھوں نے کہا: سچن کا ریکارڈ توڑنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے اور پھر سچن سے بھی پوچھا: کوئی ہے جو آپ کا ریکارڈ توڑ سکے؟ تو تنڈولکر بولے: بالکل، بلکہ وہ تو یہیں پر بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ویراٹ اور روہت یہ ریکارڈ توڑنے کی ability رکھتے ہیں۔ اور یہ ریکارڈ کوئی انڈین پلیئر توڑے تو مجھے کوئی دکھ نہیں ہو گا، مزے کی بات پتہ ہے کیا ہے؟ تب روہت کا ٹیسٹ ڈیبیو تک نہیں ہوا تھا اور انٹرنیشنل کرکٹ میں اُن کی صرف دو سنچریاں تھیں۔ یہ تھا روہت کا ٹیلنٹ اور ایبلٹی  اور ہاں expectations بھی۔

سنچریز میں تو روہت تنڈولکر کو پیچھے نہیں چھوڑ سکے شاید کوئی بھی نہ چھوڑ سکے لیکن ہاں! ایک چیز ایسی ہے جو روہت کو سچن کیا؟ دنیا کے ہر بڑے کھلاڑی سے الگ کرتی ہے، وہ ہیں اُن کی ڈبل ہنڈریڈز

ڈبل سنچریوں کا بادشاہ

ون ڈے انٹرنیشنل میں ڈبل سنچری بنانا کئی کھلاڑیوں کا خواب تھا، ‏80s میں کپل دیو کی 175 اور ویوین رچرڈز کی 189 رنز کی اننگز سے لے کر  90s میں سعید انور کی 194 رنز کی باری تک کئی کھلاڑی اس magical نمبر کے بہت قریب پہنچے  لیکن کبھی کوئی اسے حاصل نہیں کر پایا، یہاں تک کہ فروری 2010 آ گیا اور سچن تنڈولکر نے ایسا کر دیا  ناٹ آؤٹ 200 رنز، ایک ایسا کام جو کبھی کسی سے نہیں ہوا  سچن نے کر دکھایا۔

تب لگتا تھا کوئی دوسرا یہ نہیں کر پائے گا  لیکن ایک ایسا بلے باز تھا، جو یہ کر سکتا تھا اور اُس نے کیا بھی: وریندر سہواگ نے لوگوں نے کہا بس بہت ہو گیا! جو حقدار تھے، اُن دونوں نے یہ کارنامہ کر دیا ہے، اب کوئی نہیں آئے گا۔

لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، آگے کنگ آف ڈبل ہنڈریڈز آنے والا ہے، وہت شرما 2013 میں اپنے عروج پر نظر آئے  27 اننگز میں 1196 رنز  دو سنچریز اور 8 ففٹیز ان میں ایک اننگز وہ تھی جو روہت کو لیگ آف لیجنڈز میں لے آئی یہ نومبر 2013 ہے، میدان ہے بنگلور کا ایم چناسوامی اسٹیڈیم میچ دیکھنے آنے والے تقریباً 30 ہزار لوگ موجود ہیں، جنھیں اندازہ نہیں کہ کچھ  دیر میں وہ کیا دیکھنے والے ہیں، یہ وہ دن تھا جب روہت دیو جیسے لگے  اور آسٹریلیا کے بالرز ان کے سامنے بالکل بونے، ‏‏158 گیندوں پر 209 رنز  12 چوکے اور ریکارڈ 16 چھکے، بلکہ انھوں تو ڈبل سنچری بھی چھکے کے ساتھ کمپلیٹ کی۔

ایسی انٹرٹینمنٹ بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے، سب ڈبل سنچری پر حوش تھے  لیکن روہت کو اس کی اتنی خوشی نہیں تھی، جتنی سب سے زیادہ چھکے لگانے کی تھی، تو اُسی دن جنم ہوا 'ہٹ مین' کا!

ہٹ مین کا جنم

اب روہت کو روکنے والا کوئی نہیں تھا، کیونکہ ون ڈے میں اُن کی جگہ پکی ہو گئی تھی، وہ اپنی پسندیدہ بیٹنگ پوزیشن پر کھیل رہے تھے اور کیا کمال کھیل رہے تھے! اور ہاں! چیمپیئنز ٹرافی کا ٹائٹل بھی تو جیتا تھا،  بہرحال، پہلی ڈبل سنچری کے صرف اور صرف 16 میچز بعد  جی ہاں! صرف 16 میچز کے بعد روہت نے ایک اور ڈبل سنچری مار دی، اس مرتبہ میدان تھا ایڈن گارڈنز کا، یعنی روہت نے پہلے بنگلور فتح کیا  اور پھر کولکاتا، یہاں انھوں نے 173 گیندوں پر 264 رنز بنائے  33 چوکے اور 9 چھکے  یہ تھی ون ڈے کرکٹ history کی سب سے بڑی اننگز  بلکہ ون آف دی بیسٹ او ڈی آئی اننگز ایور!

اس اننگز کی خاص بات یہ تھی کہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی، اس کا pace بھی بڑھتا جا رہا تھا، آخری 50 رنز تو روہت نے صرف 15 گیندوں پر بنائے، دنیا اس اننگز پر حیران تھی اور روہت کو اس کی خوشی تھی کہ وہ آخری بال تک کریز پر موجود رہے پچاس اوورز کھیلنا اُن کے لیے زیادہ خوشی کی بات تھی، روہت یہاں پر رکے نہیں  ایک اور ڈبل سنچری بھی بنائی! جی ہاں! تیسری ڈبل سنچری بھی، ‏2017 میں موہالی کے میدان پر ‏153 بالز پر 208 رنز 13 چوکے اور 12 چھکے۔

اسی اننگز کے بعد ویراٹ کوہلی نے کہا تھا: تین ڈبل سنچریاں؟ مجھے یقین ہے کہ پہلی ٹرپل سنچری بھی روہت بنائے گا، تبھی کہتے ہیں: یہ روہت کا سال تھا  جس میں چھ سنچریوں کے ذریعے بنائے 1293 رنز لیکن اس سے بھی بڑا سال آنے والا تھا  جو روہت کے لیے تو شاندار تھا  لیکن انڈیا کے لیے بہت بُرا  2019، جس میں انڈیا فیورٹ ہونے کے باوجود ورلڈ کپ سیمی فائنل ہار گیا، اُن کی بڑی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ بڑی ناکامیاں کون سی ہیں؟ ان پر بات کریں گے لیکن پہلے روہت، ممبئی انڈینز اور آئی پی ایل کی کیونکہ روہت کی کہانی اِس کے بغیر ادھوری ہے۔

حادثاتی کپتان

جو اٹیکنگ اسٹائل اور ایگریشن ہے نا روہت کا وہ تو بنا ہی ٹی ٹوئنٹی اور آئی پی ایل کے لیے ہے، ‏2007 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے کے صرف پانچ مہینے بعد پہلا آئی پی ایل آکشن ہوا لیکن ممبئی کے علاقے بوریوالی کا ڈان ہونے کے باوجود ممبئی انڈینز نے روہت کو نہیں خریدا  بلکہ یہ کام کیا حیدر آباد کی ٹیم دکن چارجرز نے جس نے بولی لگائی ساڑھے سات لاکھ ڈالرز یعنی تقریباً تین کروڑ روپے کی پھر پہلے ہی سیزن میں روہت نے چار ففٹیز کے ساتھ 404 رنز بنائے اور شاید بہت سے لوگوں کو پتہ نہ ہو  روہت نے ایک آئی پی ایل ٹائٹل دکن سے بھی جیتا تھا، جب ‏2009 میں دکن چارجرز چیمپیئن بنا اُس سیزن میں بھی روہت نے 362 رنز بنائے تھے اور یہی نہیں بلکہ بالنگ بھی بہت اچھی کی  اپنی فیوچر ٹیم ممبئی انڈینز کے خلاف ایک ہیٹ ٹرک کی بہرحال، روہت نے پہلی آئی پی ایل ٹرافی اٹھائی، لیکن ابھی تو یہ ٹرافی انھیں بار بار ملنا تھی  کب؟ جب وہ ممبئی انڈینز میں آئے بلکہ جب کیپٹن بنے، ‏2011 کے سیزن کے لیے ممبئی نے روہت شرما کو دو ملین ڈالرز یعنی تقریباً سوا 9 کروڑ انڈین روپے میں خریدا، لیکن ممبئی نہ اُس سیزن میں اور نہ ہی آنے والے سیزن میں ٹائٹل جیتا desperation بڑھ رہی تھی اور 2013 آ گیا یہ آئی پی ایل کا چھٹا سیزن تھا لیکن star studded ممبئی انڈینز کا دامن خالی اب بھی تھا، اُن کے پاس دنیا کا سب سے بڑا بلے باز تھا: سچن تنڈولکر سب سے بڑا کیپٹن رکی پونٹنگ تھا، اور بھی بہت تھے، بس ٹائٹل کوئی نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ سیزن کے بیچ میں رکی پونٹنگ نے کپتانی چھوڑ دی  بالکل اچانک، اب نیا کپتان کون ہو گا؟ ٹیم میں بڑے بڑے کھلاڑی تھے  کوئی بھی بن سکتا تھا لیکن کپتان بنایا گیا روہت شرما کو بس یہ سمجھیں کہ وہ accidental captain بن گئے، لیکن اتنی بڑی ذمہ داری ملی  اتنا بڑا ٹارگٹ ملا  لیکن روہت کا اسٹائل وہی پرانا والا۔ کپتان بننے کے بعد پہلا سوال یہ پوچھا: اب میرے کو ہوٹل میں ڈیلکس سوئٹ ملے گا نا؟ اسٹائل ہے بندے کا یار! اور اسی اسٹائل کے ساتھ روہت شرما نے پہلے سیزن میں ہی ممبئی کو چیمپیئن بھی بنا دیا  اور پھر سلسلہ چل ہی نکلا! اگلے 8 سالوں میں ممبئی ایک، دو نہیں ٹوٹل پانچ مرتبہ آئی پی ایل ٹائٹل جیتا! واہ! ‏2015 آئی پی ایل تو بہت ہی اسپیشل تھی  ممبئی eliminate ہونے والا تھا لیکن آخری 8 میں سے 7 لیگ میچز جیت کر پلے آف تک پہنچا اور آخر میں فائنل بھی جیت گیا ‏2017 اور 2019 کی خاص بات یہ تھی کہ دونوں بار ممبئی نے فائنل صرف ایک، ایک رن سے جیتا اور 2020 میں روہت نے اپنا پانچواں آئی پی ایل ٹائٹل جیتا  اور history میں اپنا نام ایم ایس دھونی کے ساتھ لکھوا لیا۔

 روہت، ایک ٹیسٹ اوپنر

آپ نے نوٹ کیا، اتنا سب کچھ ہو چکا ہے لیکن اب تک روہت کے ٹیسٹ کیریئر پر کوئی بات نہیں ہوئی  کیوں؟ کیونکہ روہت کا ٹیسٹ کیریئر بہت لیٹ شروع ہوا انٹرنیشنل کرکٹ میں آنے کے چھ سال تک انھیں ایک ٹیسٹ تک نہیں ملا اور آپ کو پتہ ہے، چاہے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کا کتنا ہی بڑا کھلاڑی کیوں نہ ہو، لیکن تاریخ میں اپنا نام محفوظ کروانا ہے تو ٹیسٹ کھیلنا ضروری ہے، تو چھ سال ہو گئے تھے لیکن روہت کو کوئی ٹیسٹ نہیں ملا تھا، یہاں تک کہ 2013 آ گیا، سچن تنڈولکر کا آخری سال، ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں سچن کا آخری جلوہ دیکھا گیا، یہ تو سیریز تھی ہی سچن کی  روہت شرما آئے  یا کوئی بھی آئے، کسی کی کوئی اہمیت نہیں تھی، تو اسی ہنگامے کے بیچ چھ نومبر 2013 کو روہت نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور آتے ہی کرائسس سچویشن میں پڑ گئے، 82 پر انڈیا کے چار آؤٹ ہو گئے اور روہت اپنی پہلی ٹیسٹ اننگز کھیلنے میدان میں اترے اور سنچری بنا کر واپس آئے، یہی نہیں، انھوں نے تو اگلے میچ میں بھی سنچری بنائی، ٹیسٹ کیریئر کا ایک ڈریم اسٹارٹ لیا لیکن پھر ایسا لگا جیسے خواب ٹوٹ گیا، تیسری سنچری کے لیے روہت کو پانچ، دس نہیں پوری 35 اننگز اور چار سال کا انتظار کرنا پڑا  جی ہاں! چار سال، لوگ اُن سے تنگ ہو رہے تھے، انھیں خراب فٹنس رکھنے والا کہتے  وڑا پاؤ کھانے والا کا طعنہ دیتے، کپل دیو تک نے کہہ دیا کہ روہت کو اپنی وکٹ کو ویلیو دینا ہوگی، اور روہت نے یہ بات مان لی، خود کو ٹیسٹ کا بھی اچھا بیٹسمین بنا کر دکھایا  2019 میں ساؤتھ افریقہ کے خلاف تو وہ عروج پر نظر آئے، وشاکھاپٹنم میں دونوں اننگز میں سنچریز کیں  اور پھر رانچی میں ڈبل ہنڈریڈ بھی روہت شارٹر فارمیٹ کے تو استاد ہیں ہی، لیکن ٹیسٹ گرو بھی بن گئے، بلکہ ویراٹ کوہلی کے بعد کپتان بھی بن گئے، انڈیا کے نئے کیپٹن۔

کیپٹن کول 2.0

مارچ 2022، سری لنکا کے خلاف سیریز کا پہلا ٹیسٹ ہے، یہ پوسٹ کوہلی era ہے ۔ ویراٹ اپنا 100 واں ٹیسٹ کھیل رہے ہیں، لیکن as a player جبکہ یہ روہت کا پہلا ٹیسٹ ہے، as a captain  کہتے ہیں روہت کو ساری رات نیند نہیں آئی تھی، کتنی حیرت کی بات ہے نا؟ ایک بندہ جو 14 سال سے انٹرنیشنل کرکٹ میں موجود ہے  کئی آئی پی ایل ٹائٹلز جیت چکا ہے، دوسرے فارمیٹس میں کپتانی بھی کر چکا ہے  لیکن as کیپٹن پہلا ٹیسٹ کھیلتے ہوئے گھبرا رہا ہے. یہ پریشر ہوتا ہے ٹیسٹ کا اور ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ کوئی چاہے کتنا ہی بڑا کھلاڑی کیوں نہ ہو؟ وہ بالآخر انسان ہی ہوتا ہے اور اُس کا انسان ہونا، ان تمام فزیکل اور مینٹل چیلنجز سے لڑنا ہی اسے گریٹ بناتا ہے، روہت اب تک 18 میچز میں انڈیا کی captaincy کر چکے ہیں اور مزے کی بات 12 جیت بھی چکے ہیں، ان کا وِن ریشو کسی بھی دوسرے انڈین کیپٹن سے زیادہ ہے، جی ہاں! ویراٹ کوہلی، ایم ایس دھونی اور سارو گانگلی سے بھی زیادہ اور جب بات ہو روہت کی کپتانی کی تو ہم 2024 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ روہت کے نمبرز دیکھیں  اسٹیٹس دیکھیں، بہت ہی اچھے ہیں ، لیکن چاہے جتنے بھی اچھے ہوں  بہرحال، نمبرز ہی ہیں اور روہت تو نمبرز سے کہیں آگے کے کھلاڑی ہیں، وہ ایک ایسی کہانی کا مین کریکٹر ہیں، جو کوئی فینٹسی نہیں، دیومالائی کہانی نہیں  اُن کی اسٹوری میں کئی اپس اینڈ ڈاؤنز ہیں، خود دیکھیں، روہت نے کپتانی سنبھالی تو آتے ہی کئی دھچکے لگے  ایشیا کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں ناکامی کا سامنا کیا، بہت ٹرولنگ ہوئی  روہت کی فٹنس پر تو لوگ سوال اٹھا ہی رہے تھے  لیکن ٹیم کو بھی 'ڈیڈیز آرمی' کہا جاتا تھا، کیونکہ روہت، ویراٹ، کے ایل، کارتک، آشون، شمیع، بھونیشور  سبھی 30 سے 35 سال کے تھے، پھر انڈیا ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن 2023 کا فائنل بھی ہار گیا، ممبئی انڈینز کی کپتانی بھی روہت سے چھن گئی، ایسا لگتا تھا اُن کا darkest پیریڈ شروع ہو چکا ہے

لیکن روہت روہت ہیں، وہ کہا تھا نا کہ یہ کہانی ہے ہی اپس اینڈ ڈاؤنز ہے  ہر مرتبہ گرنے کے بعد اٹھ کھڑے ہونے کی تو روہت نے 2023 کرکٹ ورلڈ کپ میں جو کر دکھایا  وہ اُن کی واپسی تھی، بس ایک کمی رہ گئی، انڈیا فائنل ہار گیا  کیونکہ وہ آسٹریلیا کا دن تھا، بہترین سے بھی بہترین کھیل کے باوجود انڈیا ورلڈ چیمپیئن نہيں بن سکا اربوں لوگوں کے دل ٹوٹ گئے اور ان کو جوڑنے کا کام کیا 2024 میں جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈیا نے 13 سال بعد پہلی آئی سی سی ٹرافی جیتی ٹیم نے ایک میچ بھی نہیں ہارا اور unbeaten رہتے ہوئے ورلڈ چیمپیئن بنی۔لیکن آج بھی بہت کچھ ایسا بھی ہے جو روہت کو آج تک نہیں ملا۔

منزل کہاں؟

 روہت شرما کے کیریئر میں انڈیا کئی بگ میچز ہارا ورلڈ کپ 2015 ہو یا 2019  ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے دو فائنلز ہوں یا چیمپیئنز ٹرافی 2017 کا فائنل  جہاں پاکستان کے خلاف روہت زیرو پر آؤٹ ہوئے، پھر ورلڈ کپ 2019 میں روہت نے پانچ سنچریز بنائیں، ایک ورلڈ ریکارڈ قائم کیا، لیکن سیمی فائنل میں روہت نہیں چلے، اُس سال روہت وزڈن کرکٹر آف دی ایئر تو تھے لیکن ورلڈ چیمپیئن نہیں بن سکے، اور باقی ناکامیوں کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اِن میچز میں پرفارم نہیں کر پائے، روہت کی اتنی ساری امپیکٹ فل اننگز ہیں  ایک، دو سنچریز سیمی فائنل اور فائنل جیسے میچز کے لیے بھی ہونی چاہیے تھیں، لیکن ایسا ہو نہیں سکا  وہ کئی بگ میچز میں ناکام ہوئے اور انڈیا کا ون ڈے ورلڈ کپ جیتنے اور ٹیسٹ چیمپیئن بننے کا خواب خواب ہی رہ گیا اور روہت کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح اندازہ ہے، خود کہتے ہیں ہمارا مقصد ہے سیمی فائنل اور فائنل جیتنا۔ جب تک یہ مقصد مکمل نہیں ہوتا، چاہے میں ٹورنامنٹ میں کتنے ہی رنز کیوں نہ بنا لوں اور کتنی ہی سنچریز کیوں نہ اسکور کر لوں، دل مطمئن نہیں ہو گا، تو یہ تھیوری ہے روہت کی اور اسی تھیوری کے ساتھ وہ اب بھی ورلڈ کرکٹ میں موجود ہیں اور بالکل کسی فلمی کہانی کی طرح  ہو سکتا ہے اس کہانی کا اینڈ بھی peak پر ہو؟ روہت جاتے جاتے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن بھی بن جائیں اور ODI ورلڈ کپ بھی جیت جائیں؟ کیونکہ جب تک روہت میدان میں ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے اور نجانے کیوں دل کہتا ہے، ایسا ہو کر رہے گا! آپ کو کیا لگتا ہے؟

شیئر

جواب لکھیں