اٹھارہ دسمبر 2006، رات ڈھائی بجے۔ دلّی میں کڑاکے کی سردی ہے۔ لیکن اُتم نگر کے اِس گھرانے کو موسم کی کوئی پروا نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ۔ اُس کے لیے تو یہ قیامت کی رات ہے۔

آج تو گھر میں سب سے چھوٹے، لا اُبالی اور شرارتی چیکو کے ہاتھ پیر بھی پھولے ہوئے ہیں کیونکہ دوستوں جیسا باپ، آج اُس کی زندگی سے جا رہا ہے۔ لگ بھگ ایک مہینہ بیمار رہنے کے بعد پریم ناتھ کو دل کا دورہ پڑا اور انہوں نے چیکو کے ہاتھوں میں اپنی آخری سانسیں لیں۔

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہوا؟ اتنی سی عمر میں اتنی بڑی آزمائش کیوں؟ لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ بڑا آدمی بننے کے لیے بڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے اور اُس کی زندگی کا پہلا اور سب سے بڑا امتحان یہی تھا: باپ کی موت!

وہ باپ جو گھر سے لے کر کرکٹ کے میدان تک ہر جگہ اُس کا ساتھی تھا۔ جو ہر اچھے بُرے وقت میں سہارا بننے والا دوست تھا۔ وہ اچانک بچھڑ گیا۔

زندگی کا ایک اور اصول ہے: جب کوئی بڑی مشکل آ جائے تو آپ جتنا بڑا فیصلہ کریں گے، زندگی آپ کو اتنا ہی بڑا بنائے گی۔ اٹھارہ سال کے چیکو نے بھی یہی کیا۔ وہ ایک کرکٹر ہے۔ یہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اُس کا پہلا سال ہے بلکہ رنجی ٹرافی میں اُس کا ایک میچ بھی چل رہا ہے۔

پہلے تو اُس کی ٹیم نے ‏446 رنز کھائے اور جواب میں اُن کی صرف 59 پر پانچ وکٹیں گر گئیں۔ دن کا کھیل ختم ہوا تو چیکو کریز پر ہی تھا۔ اس کے کندھوں پر ٹیم کو بچانے کی ذمہ داری تھی۔ لیکن اُسی رات باپ کی موت ہو گئی۔ جب ٹیم مینجمنٹ کو پتہ چلا تو وہ سمجھ گئی کہ چیکو کھیلنے نہیں آئے گا۔ لیکن یہ کیا؟ سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ صبح میدان میں تھا۔

اپنی زندگی کے مشکل ترین وقت میں بھی وہ اُس کھیل کو نہیں بھولا، جس سے وہ محبت کرتا تھا۔ وہ گھر والوں کے سامنے تو بالکل نہیں رویا تھا۔ لیکن چینجنگ روم میں اس کی ہمت جواب دے گئی، وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اور پھر، پھر اُس نے وہ اننگز کھیلی، جو آج بھی اسے ڈیفائن کرتی ہے: 238 بالز پر 90 رنز۔ اگر امپائر غلط آؤٹ نہ دیتا تو وہ سنچری بھی بنا لیتا۔ اس نے غلط آؤٹ کا ری پلے دیکھا اور سر جھکا کر گھر چلا گیا۔ جہاں باپ کی آخری رسومات ہونے والی تھیں۔

ایک دن، صرف ایک دن میں وہ بہت بڑا ہو گیا۔ اور پھر ایک بڑے کی حیثیت سے اپنا فیصلہ بھی سنا دیا کہ اب وہ صرف کرکٹ کھیلے گا، highest لیول تک جائے گا اور اپنے باپ کا خواب پورا کرے گا۔ پھر دنیا کی کسی چیز کی کوئی importance نہیں رہی۔ کرکٹ اُس کی نمبر ون priority بن گئی۔

صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک، اُس کے دماغ پر صرف ایک چیز سوار رہتی: کرکٹ۔ یہاں اسے پسند تھی صرف ایک چیز: جیت، اور نفرت تھی صرف ایک چیز سے: ہار سے۔

اس mentality کے ساتھ وہ کرکٹ ورلڈ کپ میں آگے بڑھا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ ورلڈ نمبر ون بن گیا۔ وہ Gen X کا ڈان بریڈمین اور Gen Z کا سچن تنڈولکر بن گیا۔ وہ ویراٹ کوہلی بن گیا!

جی ہاں! یہ کہانی ہے کرکٹ کے ویراٹ کی، ویراٹ کوہلی کی۔ جو کہانی ہے تبدیلی کی، کیونکہ کوہلی نے خود کو بہت بدلا، physically بھی اور mentally بھی۔ ایک بات بے بات گالیاں بکنے والا لڑکا، آج لوگوں کو موٹیویٹ کرتا ہے، زندگی کی باریکیاں بتاتا ہے، کامیابی کے گُر سکھاتا ہے یعنی میدان میں رنز بٹورنے والا اب گیان بھی بانٹ رہا ہے۔

یہ ماڈرن کرکٹ کی سب سے بڑی success اسٹوری ہے، یہ ویراٹ کوہلی کی اسٹوری ہے۔

ابتدائی زندگی

ویراٹ کوہلی پانچ نومبر 1988 کو دلّی میں پیدا ہوا۔ تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا، سب کا لاڈلا اور بچپن ہی سے کرکٹ کے شوقین۔ اور آخر کیوں نہ ہوں؟ انڈیا میں کرکٹ کو کھیل نہیں بلکہ دھرم سمجھا جاتا ہے۔ ہر انڈین اپنے خون میں کرکٹ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے کرکٹ کوہلی کے ڈی این اے میں بھی تھی لیکن ساتھ ہی اس میں کچھ اور بھی تھا: ٹیلنٹ۔

اُس کی بیٹنگ تو پورے محلّے میں مشہور تھی، اتنی کہ پڑوسیوں نے پریم ناتھ کو مشورہ دیا: بچے کا ٹیلنٹ گلیوں میں ضائع نہ کرو، اسے کسی اکیڈمی میں داخل کرواؤ۔ اور پھر باپ نے فیصلہ کر لیا، وہ ویراٹ کو پروفیشنل کرکٹ کے راستے پر لے آیا۔

یہ 30 مئی 1998 کا دن ہے۔ ویراٹ کی عمر ابھی 10 سال بھی نہیں، جب اسے ویسٹ دلّی کرکٹ اکیڈمی لایا گیا۔ وہاں کہانی شروع ہوتی ہے ویراٹ کے ویراٹ کوہلی بننے کی۔

یہ اکیڈمی چلاتے تھے ایک کوچ: راج کمار شرما۔ کوہلی کے پہلے استاد اور وہ بنا اُن کا بہترین شاگرد کیونکہ اس میں ٹیلنٹ ہی نہیں، commitment بھی تھی، dedication بھی اور attitude بھی۔ ‏commitment ایسی کہ وہ دلّی کی سڑی ہوئی گرمی میں گھنٹوں پریکٹس کرتا۔ اپنی تکنیک کو بہتر بنانے یا صرف ایک شاٹ پکا کرنے کے لیے پورا دن لگا دیتا۔ اور ‏dedication ایسی کہ کرکٹ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار۔ اور attitude؟ اس پر ذرا بعد میں بات کریں گے کیونکہ یہاں ذرا سا مسئلہ تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب پڑھائی اور کرکٹ سب ساتھ چل رہے تھے۔ پڑھائی بھی کیا بس، ویراٹ جتنی محنت کرکٹ کے لیے کرتا، پڑھائی میں اتنا ہی پریشان رہتا۔ ایک انٹرویو میں بتایا کہ پڑھائی میں مَیں اتنا اچھا تھا، اتنا اچھا تھا کہ زندگی میں کبھی کرکٹ کے لیے اتنی محنت نہیں کی، جتنی میٹرک میں میتھ کا پیپر پاس کرنے کے لیے کی تھی۔

لیکن شاید ویراٹ کو پتہ نہیں تھا کہ وہ آگے جا کر کرکٹ اسٹیٹس کی دنیا کو ہلانے والا ہے۔ کس طرح؟ یہ بھی آگے چل کر بتائیں گے، ابھی چلتے ہیں کوہلی کے فرسٹ کلاس کرکٹ تک پہنچنے کی کہانی کی طرف۔

زندگی پوری رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ کوہلی کے جلوے انڈر 15 کے بعد اب انڈر 17 میں بھی نظر آ رہے ہیں، تب اسے زندگی کا ایک بڑا سبق ملا۔

ایک میچ کھیلنے کے لیے دلّی انڈر 17 ٹیم پٹیالہ گئی۔ راج کمار شرما نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ اُن کے شاگرد کا خیال رکھے۔ یہ دوست خود بھی ایک کرکٹ کوچ ہی تھے۔ جنہوں نے میچ ڈے پر دیکھا کہ پریکٹس چل رہی ہے لیکن کوہلی میدان میں آرام سے لیٹا ہوا ہے۔ اُس کے دونوں ہاتھ سر کے پیچھے ہیں، اور وہ اِدھر اُدھر لڑکوں کو کھیلتے دیکھ رہا ہے۔ ایسے جیسے، وہ خود ایک سپر اسٹار ہے اور باقی سب بچے ہیں۔ کوچ نے وہیں ایک فیصلہ کیا۔ اسکواڈ کا اعلان کیا تو اُس کا نام شامل نہیں کیا۔

کوہلی بہت سٹپٹایا کہ یہ کیا ہوا؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میں نہ کھیلوں؟ میں تو ٹیم کا بہترین بیٹسمین ہوں، سب سے اچھا کھلاڑی ہوں، میں کیسے باہر بیٹھ سکتا ہوں؟ لیکن فیصلہ ہو چکا تھا اور یہیں سے یہ بات بھی کھل گئی کہ اسے اپنے attitude پر کام کرنا ہوگا۔

یہی فیصلہ تھا جس نے کوہلی کے اندر ایک hunger بھی پیدا کی، اس کی تڑپ کو اور بڑھا دیا۔ پھر جب اس نے اگلا میچ کھیلا تو 420 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 251 رنز بنا ڈالے۔ ایک ایسی پرفارمنس جو کوہلی کو فرسٹ کلاس کرکٹ تک لے آئی۔

کوہلی کے اپنے الفاظ میں 2008 ایک بریک تھرو ایئر تھا۔ وہ ایک فرسٹ کلاس کرکٹر بن چکا تھا اور اب کرکٹ ہی اُس کا سب کچھ تھا۔ اس کا اوڑھنا بچھونا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب کرکٹ تھا، اور جب کسی چیز سے بہت زیادہ محبت ہو جائے تو رکاوٹ تو آتی ہے، دھچکا تو لگتا ہے۔ تو اسی سال وہی ہوا، جس کے بعد لگتا تھا کوہلی کا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا بلکہ یوں سمجھیں کہ سب سے اچھے دوست اور گرو چلے گئے۔ اب ویراٹ کوہلی کو زندگی کا ایک نیا روپ دیکھنا تھا، ایک مشکل روپ۔

فیملی کو ایک نہیں، کئی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ emotionally بھی اور financially بھی لیکن یہ کوہلی کی کرکٹ سے dedication تھی کہ زندگی کی کوئی مشکل، کوئی پریشانی، اس کا کرکٹ سے رشتہ توڑ نہیں پائی بلکہ ہر مشکل نے اُس کا کرکٹ سے relation اور مضبوط کیا۔ کرکٹ اُس کی پناہ گاہ تھی، اس کی جائے فرار تھی، جہاں وہ دنیا کی مشکلوں سے بھاگ کر پناہ لیتا تھا۔ پھر یہاں فادر فگر بھی تھے: راج کمار شرما۔ ویراٹ اُن کے پاس دس سال کی عمر میں آیا تھا اور اب وہ انیس سال کا ہونے والا تھا اور یہیں پر اُس کی زندگی کی پہلی بڑی کامیابی داخل ہوئی۔

آگے سے آگے

کوہلی دلّی انڈر 17 سے ہوتا ہوا، پرفارم کرتا ہوا بالآخر انڈیا انڈر 19 تک آ گیا۔ اور اس کا پہلا بڑا امتحان بنا: انڈر 19 ورلڈ کپ، وہ بھی as a captain۔

اس ورلڈ کپ سے پہلے ایک پروموشنل وڈیو بھی سامنے آئی تھی۔ اس میں ویراٹ کوہلی نے بتایا کہ اس کا فیورٹ کرکٹر ہے: ہرشل گبز۔ بالکل ٹھیک بندہ چُنا تھا ویراٹ نے، اس پر گبز جیسا aggressive اور animated کریکٹر ہی جچتا تھا۔ خیر، ورلڈ کپ ہوا، انڈیا نے انگلینڈ، ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کو ہرایا۔ فائنل میں پہنچا اور یہاں ساؤتھ افریقہ کو beat کرتے ہوئے ورلڈ چیمپیئن بن گیا۔

کوہلی نے خود بھی بہت اچھا پرفارم کیا، چھ میچز میں 235 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف اننگز تو دیکھنے والی تھی لیکن جس چیز نے دنیا کی attention حاصل کی، وہ captaincy تھی۔

خیر، ورلڈ کپ ہو گیا۔ انڈیا چیمپیئن بن گيا اور یہاں راہُل ڈریوڈ کوہلی سے ملے اور کہا:

مجھے امید ہے کہ ایک دن آئے گا جب انڈیا ورلڈ کپ جیتے گا اور تم اُس ٹیم کا حصہ ہو گے۔

وہ وقت واقعی آیا۔ لیکن بہت بعد میں، اس سے پہلے انڈین کرکٹ کو ایک revolution کا سامنا تھا اور کوہلی بھی اُس کا حصہ تھا۔

آئی پی ایل ناکامی سے ٹیم انڈيا تک

انڈر 19 ورلڈ کپ جتوانے والا کوہلی اب سب کی نظروں میں تھا۔ بلکہ نہیں، اس سے بھی زیادہ نظریں کہیں اور تھیں۔ یہ انڈین کرکٹ میں انقلاب کا سال تھا، تبدیلی کا سال تھا۔ ایسی تبدیلی، جس نے بعد میں کرکٹ ورلڈ کو بھی بدل دیا۔

یہ انڈین پریمیئر لیگ کا پہلا سال تھا۔ کوہلی جیسا جوان خون بھی اس لیگ کا حصہ بنا۔ اسے رائل چیلنجرز بنگلور نے pick کیا۔ اور پھر وہ دنیا کا loyal ترین کھلاڑی بن گیا۔ ایسا کہ آج تک آر سی بی کو نہیں چھوڑا۔ لیکن پہلے سیزن میں کیا ہوا؟ حیرت کی بات، کوہلی پرفارم نہیں کر سکا۔ ‏12 اننگز میں اس نے صرف 165 رنز بنائے، نہ کوئی ہنڈریڈ، نہ ہی ففٹی۔ ایسا لگتا تھا کوہلی اپنا راستہ بھول گیا ہے، اپنا وے آف لائف بھول گیا ہے یا شاید بڑے اسٹارز کے ساتھ اٹھ بیٹھ کر اُس کا دماغ گھوم گیا تھا۔ وہ موج مستی میں لگ گیا، پارٹی اور کھانے پینے کے راستے پر چل پڑا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ خود پر کھلنے والا ہر دروازہ بند کر دے گا۔ یہاں انٹری دی کوچ راج کمار شرما نے، باپ کے بعد وہی اس کا باپ تھا۔

اس نے کوہلی کو سنبھالا اور بتایا کہ اسے اپنا راستہ نہیں کھونا ہے، بلکہ آگے بڑھنا ہے۔ اور انہی حالات میں ایک دن قسمت نے بھی دروازے پر دستک دے دی۔

یہ انڈیا اے کا ایک میچ تھا، ایک اہم میچ! جسے دیکھنے کے لیے انڈین کرکٹ بورڈ کے چیف سلیکٹر کو بھی آنا تھا۔ کوہلی کو کچھ کرنا تھا۔ اسے خود کو prove کرنا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اوپنر آنے پر بھی تیار ہو گیا حالانکہ زندگی میں کبھی اوپننگ نہیں کی تھی۔ لیکن وہ فیصلہ کر چکا تھا: اس نے خود کو اس دلدل سے باہر نکالنا تھا اور جب آپ فیصلہ کر لیں، اس پر جم جائیں تو قسمت بھی ساتھ دیتی ہے۔

تو جیسے ہی سلیکٹر پہنچے، ویسے ہی کوہلی کی میدان میں انٹری ہوئی۔ پھر 120 پلس کی اننگز کھیلی جس نے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازہ کھول دیے۔ ‏2008 میں سری لنکا کے ٹؤر کے لیے کوہلی کا سلیکشن ہو گیا لیکن ٹیم انڈيا میں جگہ پکی کرنا آسان نہیں تھا۔ جب ٹیم میں ایسے ایسے بلے باز ہوتے تھے، جن کے ہوتے ہوئے کوئی پر نہیں مار سکتا تھا۔ سچن تنڈولکر، وریندر سہواگ، راہل ڈریوڈ، گوتم گمبھیر، سریش رائنا اور مہندر سنگھ دھونی، اُن کے ہوتے ہوئے ٹیم میں کون سلیکٹ ہوتا؟

پھر ٹؤر پر کوہلی کی پرفارمنس بھی اتنی اچھی نہیں تھی۔ ڈیبیو پر 12 رنز بنائے اور سیریز کے اگلے چار میچز میں 35، 25، 54 اور 31۔ یوں کوہلی کے ان اینڈ آؤٹ ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا!

لیکن اُس نے کچھ بہت ہی اچھی اننگز بھی کھیلیں جیسا کہ چیمپیئنز ٹرافی 2009 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف، جہاں کوہلی نے ناٹ آؤٹ 79 بنائے اور اور پہلا مین آف دی میچ ایوارڈ جیتا۔ پھر سال کے اینڈ پر ایڈن گارڈنز میں سری لنکا کے خلاف سنچری، وہ بھی چیز کرتے ہوئے۔ یہاں انڈیا کو 316 رنز بنانے تھے اور 23 پر دو آؤٹ ہو چکے تھے، سہواگ بھی اور تنڈولکر بھی۔ جب کوہلی نے گوتم گمبھیر کے ساتھ کمال بیٹنگ کی۔ اس نے ‏107 رنز بنائے، اپنی پہلی سنچری۔

کوہلی کا ہاتھ کھل گیا

سال ‏2010 میں اس نے 25 میچز میں 995 رنز بنا ڈالے، وہ بھی تین سنچریوں کے ساتھ۔ اب وہ انڈیا کا لیڈنگ اسکورر تھا۔ اسے عروج کا راستہ مل گیا تھا۔ اب ورلڈ کپ ڈریم شروع ہو چکا تھا۔

ورلڈ چیمپیئن ویراٹ کوہلی

2011 ورلڈ کپ کا سال تھا۔ ایسا ورلڈ کپ جس کا میزبان انڈیا بھی تھا۔ اپنے میدانوں پر اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ ورلڈ کپ کو اپنا بنانے کا کام شروع ہو چکا تھا۔ جو ٹیم بنی، اس میں کوہلی بھی شامل تھا کیونکہ وہ بیسٹ پرفارمر تھا، ون ڈے رینکنگ میں ورلڈ نمبر 2 تھا۔ اس لیے انڈیا نے ورلڈ کپ میں سب میچز کھلائے۔ اور کوہلی نے پہلے ہی میچ میں سنچری بھی بنائی۔

لیکن اصل اور بڑا مقابلہ تھا فائنل کا۔ یہاں 275 چیز کرتے ہوئے صرف 31 پر انڈيا کے دو آؤٹ ہو گئے۔ سہواگ اور سچن پھر جلدی آؤٹ ہو گئے۔ اس sitation میں کوہلی نے گوتم گمبھیر کے ساتھ 83 رنز کی پارٹنرشپ کی اور آخر میں انڈیا جیت گیا۔
دھونی does it with a style!۔ لیکن یہ مومنٹ دھونی کا نہیں تھا، یہ تو سچن کا وقت تھا۔ سچن نے آخر اپنا پہلا ورلڈ کپ جیت لیا تھا۔ پلیئرز نے انہیں کندھوں پر اٹھا لیا، جن میں سے ایک ویراٹ بھی تھے اور یہیں اس نے یہ تاریخی جملہ بھی کہا:

Sachin Tendulkar has carried the burden of the nation for 21 years. It was time we carried him. Chak de India!

اگلا سچن کون؟

ورلڈ کپ کی خوشی اپنی جگہ، لیکن اب سب کو پتہ تھا سچن کا کیریئر ختم ہونے والا ہے۔ ‏ورلڈ کپ کی جیت سے سچن کی ریٹائرمنٹ تک، دو ڈھائی سالوں میں پوری دنیا میں صرف ایک ہی بحث تھی۔ اگلا سچن کون ہوگا؟

کوئی کسی کا نام لیتا تو کوئی کسی کا۔ مزے کی بات، ایک ڈاکیومنٹری تک آ گئیThe Next Sachin جس میں نام لیا گیا 15 سال کے پرتھوی شا کا۔ لیکن کوہلی کا نام کوئی نہیں لیتا تھا، کیوں؟ کوہلی کھلاڑی اچھا تھا، لیکن کیا سچن تھا؟ بہت سے لوگ ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ شاید اس لیے کہ کوہلی میں fire بہت تھی اور anger بھی۔

وہ کامیاب ہوتا تو پاگل ہو جاتا، ایسا لگتا تھا جیسے اسے خود پر کوئی قابو نہیں۔ وہ ایک typical اینگری ینگ مین بن جاتا۔ غصیلا، بھڑکیلا، aggressive۔ وہ جوشیلا بھی بہت تھا، اتنا کہ خود چوتھے نمبر پر کھیلتا لیکن اوپنرز کے میدان میں اترتے ہی پیڈز باندھ لیتا اور اگر آؤٹ ہو جاتا تو میچ ختم ہونے تک پیڈز نہ اتارتا۔

‏attitude اپنی جگہ، ورلڈ کپ 2011 سے 2015 تک کوہلی کا بلّا بہت چلا۔ ‏59 میچز، 4278 رنز، 16 سنچریاں اور 55 سے زیادہ کا ایوریج۔ اِس میں ایسی اننگز بھی شامل تھیں، جنہیں بار بار دیکھنے کو دل کرتا ہے۔ جیسے ‏2012 ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف یادگار اننگز۔ پھر اُسی سال پہلی ٹیسٹ سنچری بھی آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیا میں۔ جب ویراٹ نے ایڈیلیڈ میں 116 رنز بنائے۔ وہ الگ بات کہ یہ سنچری اُس وقت بہت سے لوگوں کو بُری لگی تھی۔ کیوں؟ کیونکہ ٹیم انڈیا کا بُرا حال تھا لیکن کوہلی کو اِس کی کوئی پروا نہیں تھی۔

جس ٹؤر پر تنڈولکر، ڈریوڈ، لکشمن، سہواگ، دھونی اور گمبھیر سب ناکام ہوئے۔ وہ وہاں ہنڈریڈ بنا چکا تھا۔ اسی لیے اُس نے جشن منایا اور ایسا منایا کہ سب حیران رہ گئے۔ ‏99 پر جب آخری رن لیا تو دوڑتے ہوئے ہی سیلبریٹ کرنا شروع کر دیا، جیسے دوسرا رن لیا ہی نہیں۔ بڑی دیر بعد یاد آیا کہ دوسرا رن بھی لینا ہے اور پھر گالیوں کا ایک طوفان نکلا۔

اس ٹؤر پر یہی controversy نہیں تھی۔ اسی سیریز میں یہ تصویر بھی سامنے آئی۔ ویراٹ تماشائیوں کی طرف کچھ اشارے کر رہے ہیں۔ ایسے اشارے جو انہیں نہیں کرنے چاہیے تھے۔ ایسا لڑکا تو سچن نہیں ہو سکتا۔ کتنا بھی اچھا کھیلے، سچن بننے کے لیے تو positivity چاہیے، اسے calm ہونا چاہیے، اس میں composure ہونا چاہیے۔ لیکن لوگ جانتے نہیں تھے، سچن اور اِس لڑکے میں بہت کچھ ملتا جلتا تھا۔ ورک ethics، خود کو improve کرنے کے لیے dedication، زبردست focus اور مشکل حالات میں بھی ہمت نہ ہارنے والا attitude۔ یہ سب کوہلی میں بہت تھا۔ اسے بس ایک چیز کی ضرورت تھی: ڈسپلن کی۔ اور وہ آیا اُس کے بد ترین سال کے بعد۔

کوہلی کا بدترین سال

کوہلی نے کیریئر میں بڑے ups and downs دیکھے۔ جیسا کہ سال 2012 میں اُس نے آئی پی ایل کا بدترین سیزن کھیلا۔ خود بتایا کہ تب مجھے اپنے کھانے، پینے اور لائف اسٹائل پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ لیکن وہ تھا دُھن کا پکا۔ اگر کچھ ٹھان لیتا تو پھر اپنی بھی نہیں سنتا۔ اس لیے ایک دن آئینہ دیکھا اور فیصلہ کر لیا کہ اب وہ اپنی زندگی بدلے گا۔

اسے پکوڑے اور سموسے بہت پسند تھے، چھوڑ دیے۔ وہ دن بھر کوک پیتا نظر آتا، چھوڑ دی۔ بریانی پسند تھی، چاول ہی کھانا چھوڑ دیے۔ اگلے دس مہینے میں اس نے 6 سے 7 کلو وزن کم کیا۔

یہی وہ زمانہ تھا جب اس کے attitude کی شکایتیں بہت بڑھ گئی تھی۔ اس کا attitude تو attitude کی باؤنڈریز پار کر کے اب arrogance تک پہنچ گیا تھا۔ اس لیے جس نے بھی دیکھا یہی کہا کہ کوہلی کو اپنے ٹیمپرامنٹ پر کام کرنا پڑے گا، اتنا aggression اچھا نہیں، اتنی arrogance نہیں چلتی فیلڈ پر۔

اتنا ٹیلنٹ ہو تو تو بندہ بہک جاتا ہے، بگڑ جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے ٹؤر نے اس پر مہر بھی لگا دی۔ لیکن۔ حالات تو ابھی اور بھی خراب ہونا تھے۔ یہ 2014 میں انگلینڈ کا ٹؤر تھا، جس نے ویراٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ پہلے بلّا تو چل رہا تھا لیکن یہاں تو بلّے نے بھی جواب دے دیا۔ دس اننگز میں صرف 134 رنز، ایوریج 13، نہ کوئی ففٹی، نہ کوئی سنچری۔ اور انگلینڈ یہ سیریز تین-ایک سے جیتا۔

کوہلی کا پہلا انگلینڈ ٹؤر بری طرح ناکام ہوا اور اس ٹؤر نے ہی اُس کی زندگی بدل دی۔ اس کے بعد کوہلی بدلا، اور بدلتا چلا گیا۔ اتنا بدلا کہ آج کا کوہلی پہلے کے کوہلی سے بالکل مختلف ہے۔ وہ تو کوئی اور تھا، یہ کوئی اور ہے، وہ بھی ایسا کہ ایک بدمعاش اور بدتمیز۔ کھلاڑی سے آج ایک رول ماڈل بن چکا ہے۔ کوہلی کی زندگی میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟ وہ کون تھا جو ویراٹ کی زندگی میں داخل ہوا اور پھر اس کی زندگی بدل دی، اس بارے میں آپ کو آگے چل کر بتائیں گے، ابھی چلتے ہیں ویراٹ کوہلی کے میگا اسٹار بننے کی طرف۔

ویراٹ بنا اسٹار

‏2014 کا بدترین سال ہی اصل میں تبدیلی کا سال ثابت ہوا۔ وہ جو مغرور تھا، گھمنڈی تھا، اپنی ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتا تھا، میدان میں کچھ کر لیتا تو سامنے والے کے پورے خاندان کو یاد کرتا۔ لیکن پھر وہ بدلا، میدان میں بھی اور میدان سے باہر بھی۔

انگلینڈ کے بد ترین ٹؤر کے بعد وہ سال کے آخر میں آسٹریلیا گیا۔ ایک ایسا قلعہ، جسے فتح کرنا کرکٹ ورلڈ میں سب سے مشکل کام تھا۔ ‏2012 کے آخری آسٹریلین ٹؤر پر جو ہوا تھا، وہ سب کو پتہ تھا، کوہلی کو بھی پتہ تھا۔ اس لیے وہ کچھ کرنا چاہتا تھا، پہلے سے کہیں اچھا کرنا چاہتا تھا اور اس نے کیا۔

چار میچز میں 86 کے ایوریج سے چار سنچریز اور ایک ففٹی۔ پہلے ٹیسٹ میں 115 اور 141، میلبرن میں 169 اور پھر سڈنی میں میچ سیونگ 147۔ انڈیا سیریز تو نہیں جیت سکا، لیکن 26 سال کے کوہلی نے خود کو منوا لیا تھا۔ ایک میگا اسٹار نے اپنی آمد کا اعلان کر دیا تھا، کھلے عام، ڈنکے کی چوٹ پر، اپنی زبان سے بھی اور بلّے کی زبان سے بھی!

اور یہی وہ سال تھا جب نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو نے "ینگ فیب 4" کا نام لیا۔ اسٹیو اسمتھ، کین ولیم سن، جو روٹ اور ویراٹ کوہلی۔

کپتان کوہلی

آسٹریلیا کے ٹؤر پر ایم ایس دھونی نے اچانک ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کر دیا، تب نیا کپتان بنایا گیا کوہلی کو۔ وہ چھوٹی موٹی ٹیموں کے خلاف ون ڈے میچز میں کپتانی کر تو چکا تھا لیکن آسٹریلیا میں آسٹریلیا کے خلاف؟ یہ بڑا مشکل کام تھا لیکن کوہلی کے لیے نہیں۔

جن دو میچز میں کوہلی نے کپتانی کی، وہ دیکھنے کے لائق تھے۔ پہلے ٹیسٹ میں انڈیا 364 چیز کرتے ہوئے 315 رنز تک پہنچا۔ کوہلی نے 147 رنز کی اننگز کھیلی، اگر وہ آؤٹ نہ ہوتے شاید انڈیا جیت جاتا۔ پھر آخری ٹیسٹ، جہاں کوہلی کی 147 رنز کی اننگز نے میچ بنا دیا اور انڈیا یہ میچ بھی بچانے میں کامیاب ہو گیا۔

یہ کیپٹن کوہلی تھا! ایک aggressive اور never say die attitude والا۔ جو ڈرتا بھی نہیں، fearless ہے۔ آگے بڑھ کر حالات کو خود سنبھالتا ہے۔ پریشر کو سب سے پہلے خود ڈیل کرتا ہے اور یہی سب ایک بڑے کھلاڑی میں ہوتا ہے، ایک بڑے لیڈر میں ہوتا ہے۔

کرکٹ میں کیپٹن کا رول کتنا important ہے؟ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ عمران خان کو دیکھ لیں، اس کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ ڈریسنگ روم کا قانون بن جاتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عمران خان جو کہتا پہلے خود کر کے دکھاتا۔ کوہلی میں بھی کچھ ایسا ہی ہے، بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نیا عمران خان ہے۔

خود کر کے دکھانے والا، aggressive اور سب سے بڑھ کر ایک بہت بڑا motivator۔ یہ ٹرانسفارمیشن کیسے ہوا؟ اس میں ایک بڑا کردار تھا انوشکا شرما کا۔

ٹرننگ پوائنٹ

کوہلی نے ایک بار کہا تھا کہ اگر انوشکا شرما میری زندگی میں نہ آتی تو آج میں نجانے کہاں ہوتا؟ جی ہاں! کوہلی کی زندگی میں جو کمی تھی، اس کی زندگی کا جو اسٹرکچر بگڑا ہوا تھا، اسے بنایا انوشکا نے۔ بقول کوہلی کے as a person اس نے مجھے کئی لیول آگے پہنچا دیا۔

جی ہاں! یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا کوہلی کی زندگی کا۔ لیکن انوشکا لوگوں کو آسانی سے ہضم نہیں ہوئی۔ ہم نے بتایا تھا کہ انڈیا میں لوگ کرکٹ کو دھرم سمجھتے ہیں، اس میں ناکامی ہو جائے تو کوئی برداشت نہیں کرتا۔ تو جب جب کوہلی ناکام ہوتا اور اس کی وجہ سے انڈیا ہارتا، تو دوش انوشکا کو دیا جاتا۔ کتنی بے وقوفانہ بات ہے نا؟

کوہلی ڈٹ گیا، بالکل ویسے ہی، جیسے اُس کی عادت تھی۔ اس نے ہر ہر جگہ، ہر اسٹیج پر، ہر ہر لمحے انوشکا کو ڈیفینڈ کیا۔ ایک بار انسٹاگرام پر یہ پوسٹ کر دیا:

اُن لوگوں کو شرم آنی چاہیے، جو انوشکا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اس کے بارے میں نیگیٹو باتیں کرتے ہیں۔ وہ تو صرف مجھے پازیٹیوٹی دیتی ہے اور مجھے موٹیویٹ کرتی ہے۔

اور حقیقت بھی یہی ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں ناں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔

‏2017 میں جب انڈیا چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل ہارا۔ ایسا فائنل جو ٹیم انڈیا کو کو ہمیشہ haunt کرتا رہے گا۔ کیونکہ وہ میچ کسی اور سے نہیں پاکستان سے ہارا تھا۔ تو زندگی کے سب سے مشکل وقت میں کوہلی نے بڑا فیصلہ کیا، اس نے انوشکا شرما سے شادی کر لی۔ اور آج کوہلی جس مقام پر بھی ہے، اس میں واقعی انوشکا کا بڑا کردار ہے۔

کم بیک کنگ

ٹیسٹ کرکٹ زندگی کی طرح ہے، اگر پہلے دن معاملات آپ کے ہاتھ میں نہیں آتے تو آپ جائیں، سو جائیں اور اگلے دن واپس آئیے گا۔ واپس آنا پڑے گا کیونکہ اگر آپ نہیں آئے تو ٹیم میں 10 کھلاڑی رہ جائیں گے اور آپ ٹیم سے باہر بھی ہو جائیں گے۔ ہاں! اگر آپ نے پہلے دن اچھا بھی کیا، تب بھی آپ کو آنا پڑے گا اور دوبارہ محنت کرنا پڑے گی، اتنا ہی اچھا کرنے کے لیے یا اس سے بھی اچھا کرنے کے لیے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں کئی ups and downs آتے ہیں، بالکل زندگی کی طرح۔ کبھی تین گھنٹے تک کھیل کر بھی ایک رن نہیں بنانا۔ زندگی میں بھی ایسا کرنا پڑتا ہے، رکنا پڑتا ہے، جمنا پڑتا ہے، اپنے وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

یہ الفاظ کسی اور کے نہیں ویراٹ کوہلی کے ہیں!

تو چیلنجز زندگی میں آتے ہیں، ویراٹ کی زندگی میں بھی آئے۔ پہلے لوگوں نے اسے ایک showman کہا۔ جو ہر کامیابی کے بعد کہتا: دیکھو مجھے! Look at me! پھر وہ کھیلا ایسا کہ سب دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ تھی کوہلی کی پہلی کامیابی!

پھر اس کے دشمن بھی بہت بنے۔ ایک آسٹریلین اخبار نے تو یہ تک لکھ دیا: کرکٹ دنیا کا ڈونلڈ ٹرمپ، لیکن آج وہی کوہلی آسٹریلیا میں فینز کا فیورٹ ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ دنیا ہر ایرے غیرے کو اگلا سچن سمجھتی تھی۔ لیکن پھر وہ وقت آیا کہ سچن نے بھی ویراٹ کے بارے میں کہہ دیا کہ ویراٹ کو کھیلتا دیکھ کر بہت مزا آتا ہے۔

تین سال ہو گئے ہیں، سنچری بن رہی ہے۔ کوہلی واپس آیا اور اس کے بعد اپنی سب سے بڑی اننگز کھیلی، پاکستان کے خلاف تاریخ میں سب سے زیادہ تماشائیوں کے سامنے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 کا وہ میچ، جس میں کوہلی نے کھیلی ایسی اننگز جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ تو کوہلی کم بیک کنگ ہے۔

آج کوہلی کے پاس بہت سے ریکارڈز ہیں: سب سے زیادہ ون ڈے ہنڈریڈز کا ریکارڈ، آٹھ ہزار سے 13 ہزار تک، ہر مائل اسٹون کو سب سے تیزی سے پار کرنے کا ریکارڈ، ٹی ٹوئنٹی میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ، سب سے زیادہ پلیئر آف دی میچ کے ایوارڈز، پلیئر آف دی سیریز کے ایوارڈز۔

لیکن ریکارڈز سے کیا ہوتا ہے؟ کوہلی کے پاس اسٹوری ہے۔ ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی!

شیئر

جواب لکھیں