دنیا بھر میں جاری سیاسی اور سماجی تنازعات کا اثر ہر طبقہ زندگی پر پڑ رہا ہے، اور پاکستان کے نوجوان بھی ان حالات سے متاثر ہو کر اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں نوجوانوں کی جانب سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بائیکاٹ کی ایک مہم نے عوامی توجہ حاصل کی ہے۔ اس تحریک کا مقصد اسرائیل کی جارحیت کے خلاف احتجاج کرنا ہے، جس میں بڑے برانڈز جیسے کوک، پیپسی، اور KFC کے خلاف ایک مضبوط موقف اختیار کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بائیکاٹ واقعی اثرانداز ہو رہا ہے یا یہ محض ایک جذباتی اقدام ہے؟

اس اہم موضوع پر روشنی ڈالنے کے لیے معروف صحافی منیزہ صدیقی کو رفتار پوڈ کاسٹ میں دعوت دی۔ آپ پاکستان کے معاشی اور سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ پوڈکاسٹ کے دوران گفتگو کا آغاز اس سوال سے ہوا کہ بائیکاٹ کامیاب ہے؟

منیزہ صدیقی نے بتایا کہ یہ مہم عالمی سطح پر بی ڈی ایس (Boycott, Divestment, Sanctions) موومنٹ کا حصہ ہے، جس کا مقصد اسرائیل کو مالی نقصان پہنچانا ہے۔ اگرچہ پاکستانی بائیکاٹ سے اسرائیل کی معیشت کو براہ راست بڑا دھچکا نہیں پہنچا، لیکن مجموعی طور پر بی ڈی ایس موومنٹ کے اثرات قابل ذکر ہیں۔ اس یسے اسرائیل میں سرمایہ کاری کی شرح میں 63 فیصد کمی اور معاشی مشکلات کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

نوجوانوں کی اس مہم کی مؤثریت پر گفتگو کرتے ہوئے، منیزہ صدیقی نے بتایا کہ یہ تحریک دراصل اس گہری مایوسی کی علامت ہے جو موجودہ نظام سے پیدا ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی غزہ کی تصاویر اور ویڈیوز نے نوجوانوں کو بیدار کیا اور انہوں نے اپنے احتجاج کو ایک منظم مہم میں تبدیل کر دیا۔ تاہم، بڑی تعداد میں مظاہروں کے نہ ہونے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے منیزہ صاحبہ نے وضاحت کی کہ پاکستان میں عوام سڑکوں پر نکلنے سے زیادہ بائیکاٹ جیسے اقدامات کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ یہ زیادہ مؤثر اور کم نقصان دہ ہے۔

اس دوران میزبان نے یہ سوال اٹھایا کہ بائیکاٹ کی کامیابی کے باوجود کیا مقامی صنعتیں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکتی ہے؟ منیزہ صدیقی نے بتایا کہ کوک اور پیپسی جیسی مصنوعات کے بجائے مقامی برانڈز کو فروغ ملا ہے، لیکن ان کی قیمتیں ابھی بھی برابر ہیں کیونکہ پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ یہ مسئلہ تب تک موجود رہے گا جب تک مقامی صنعتوں کو حکومتی تعاون حاصل نہیں ہوتا۔

پوڈکاسٹ کا ایک اہم نقطہ یہ بھی تھا کہ ایسی تحریکیں جن کی قیادت واضح نہیں ہوتی، وہ کسی بھی وقت کسی منفی گروہ کے ہاتھوں ہائی جیک ہو سکتی ہیں۔ اس لیے حکومت اور سماجی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے جذبات کو مثبت سمت میں لے کر آئیں تاکہ معاشرے میں بگاڑ کے بجائے بہتری آ سکے۔

یہ پوڈکاسٹ نہ صرف نوجوانوں کی موجودہ سوچ کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے سماجی اور معاشی نظام میں کس طرح بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مزید تفصیلات جاننے اور اس فکر انگیز پوڈ کاسٹ کو دیکھنا نہ بھولیں۔

شیئر

جواب لکھیں