مشرقِ وسطیٰ میں ایک بار پھر جنگ کی نئی چنگاری بھڑک اٹھی ہے۔ شام کا دوسرا بڑا شہر ’’حلب‘‘ تحریر الشام نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس بڑے واقعے کے دوران بشار الاسد کی حکومت اور اس کے اتحادیوں، ایران اور روس، کی طرف سے کوئی خاص مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایسے میں سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا یہ بڑی تبدیلی شام کے مستقبل کو ایک نئی سمت دے رہی ہے؟
اس پیچیدہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے ہم نے معروف تجزیہ کار فیض اللہ خان کو رفتار پوڈ کاسٹ میں مدعو کیا۔ فیض اللہ عالمی امور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور کلعدم تنظیموں کے پس منظر پر خاصی معلومات رکھتے ہیں۔
پوڈ کاسٹ کے دوران فیض اللہ نے شام کی تازہ صورتحال کی جڑیں 2011 میں عرب اسپرنگ کے آغاز سے جوڑیں جب شام میں عوامی احتجاج نے بشار الاسد حکومت کی بنیادیں ہلا دیں۔ مظاہروں کو کچلنے کے دوران ہزاروں لوگ مارے گئے، کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہوا، اور عوام کی مایوسی بڑھتی گئی۔ انہی مظالم کے نتیجے میں مختلف عسکری گروہ اُبھرے، جن میں سے ایک طاقتور گروہ ’’تحریر الشام‘‘ ہے، جس کی قیادت ابو محمد الجولانی کر رہے ہیں۔
فیض اللہ نے بتایا کہ تحریر الشام کے قیام کا سفر جبہت النصرہ سے شروع ہوا، جو ابتدا میں القاعدہ سے منسلک تھی۔ لیکن 2016 میں الجولانی نے القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے تحریر الشام کو تشکیل دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ تحریر الشام نے اپنے اہداف کو ’’مقامی‘‘ قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف بشار الاسد کی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں اور خلافت کا قیام ان کا بنیادی مقصد ہے۔
رفتار پوڈ کاسٹ میں مزید گفتگو ہوئی کہ ترکی، جو ایک طرف تحریر الشام پر پابندی لگانے والوں میں شامل ہے، دوسری طرف ممکنہ طور پر اس گروپ کی خاموش حمایت بھی کر رہا ہے۔ اس کے برعکس بشار الاسد، ایران اور روس کی غیر فعال حکمتِ عملی حیران کن ہے۔ فیض اللہ نے اس کی بڑی وجہ روس کا یوکرین جنگ میں الجھنا اور ایران کا اسرائیلی دباؤ کے سامنے کمزور ہونا بتائی۔
ایک اور اہم پہلو جس پر روشنی ڈالی گئی وہ یہ تھا کہ شامی عوام، جو برسوں سے ظلم اور جنگ کی چکی میں پس رہے ہیں، بشار الاسد کے خلاف اس مزاحمت کو اندرونی حمایت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ عوامی حمایت کے بغیر کسی گروہ کے لیے اتنی بڑی کامیابی ممکن نہیں۔
پوڈ کاسٹ کے آخر میں فیض اللہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر اس مسئلے کا جلد سیاسی حل تلاش نہ کیا گیا تو یہ جنگ شام سے بڑھ کر ترکی اور دیگر خطوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتیں محض بیانات کی حد تک محدود ہیں، جبکہ انسانی جانوں کا نقصان مسلسل جاری ہے۔
اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ شام کی اس پیچیدہ صورتحال کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں اور یہ کیسے پورے خطے کو متاثر کر سکتا ہے، تو اس دلچسپ اور معلوماتی پوڈ کاسٹ کو ضرور دیکھیں۔