مصر

رات کے 9 بج رہے تھے۔ اچانک ایوان صدر فون کی گھنٹیوں سے گونج اٹھا۔ صدر کے key advisor نے ریسیور اٹھایا تو وہ آرمی چیف کے آفس سے تھا۔ کوئی کڑک دار آواز میں بول رہا تھا:

"اپنے صدر سے کہ دو، اب اسے گھر جانا ہوگا اور ہاں دوپہر کا معاہدہ ختم ہوچکا۔"

کال ختم ہوگئی۔ ایڈوائزر کے ہاتھ سے ریسیور چھوٹ گیا۔ دماغ میں جھماکے ہونے لگے۔ اُسے تو لگتا تھا کہ اب ایک صدی کے لیے فوجی آمریت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ کال سے چند گھنٹوں پہلے صدر، آرمی چیف اور وزیراعظم تو اکھٹے بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ حالات ٹھیک کرنے پر بات ہو رہی تھی۔ صدر اپنی نوزائیدہ حکومت اور جمہوریت بچانے کی فکر میں تھے۔ مگر آرمی چیف اِسی ضد پر اڑے تھے کہ بات اپوزیشن کی مانی جائے گی۔ ایک گرما گرم بحث کے بات یہ تو طے ہوگیا تھا کہ وزیراعظم کابینہ سمیت استعفی دے کر گھر چلے جائیں گے اور صدر کے پر کاٹ کر پاورز پارلیمنٹ کو سونپ دی جائیں گی۔ "اب تو ہمارا اتفاق ہوگیا ہے نا؟" اٹھتے اٹھتے صدر نے آرمی چیف سے احتیاطاً پوچھ ہی لیا۔ مگر وہ مسکراہٹ بڑی ہی معنی خیز تھی، جو یہ جملہ سن کر آرمی چیف کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ "ارے یہ آفر تو اپوزیشن کی توقع سے بھی زیادہ ہے۔" آل دا بیسٹ پریزیڈنٹ، آرمی چیف صدر کو گڈ بائے کہہ کر چلے گئے اور پھر اسی رات اپنے confidant کے ذریعے Rejected کا پیغام بھجوا دیا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عوام کی حمایت سے آئے صدر، آخر اپنے ہی لگائے آرمی چیف کے ہاتھوں اتنا مجبور کیوں ہوگئے؟ اور پھر چند گھنٹوں میں ایسی کونسی آفت آن پڑی کہ آرمی چیف نے معاہدہ توڑ کر ملک کے صدر کو فارغ کردیا؟ کیا یہ محض اتفاق تھا، یا پھر کئی مہینوں کی ایک ایسی سازش، جس میں ملکی ہی نہیں غیر ملکی کردار بھی شریک تھے۔آج رفتار پر ہم آپ کو سنا رہے ہیں فوج اور سسٹم کے ہاتھوں ایک نوزائیدہ جمہوریت کے قتل کا قصہ۔ مضبوط آرمی چیف کو ہٹا کر پسندیدہ آرمی چیف لگانے اور پھر اس کے ہاتھوں فارغ ہونے کا قصہ۔ محافظوں کے ہاتھ میں تھمی بندوقوں کی آوارہ نالوں اور ان سے عوام پر برستی گولیوں کا قصہ۔

لیکن ٹہریے، ہر آرٹیکل میں ڈالے سے خبردار کرنے والے بھائی زیادہ پریشان نہ ہوں، ہم یہاں پاکستان کی بات نہیں کر رہے۔ ہاں مگر یہ قصہ ایک پاکستان جیسے ملک کا ہی ہے۔ یہ قصہ ہے مصر کا جہاں طاقت، قانون اور آئین پر غالب ہے۔

آمریت کے 60 سال

آپ کو 2011 میں مینار پاکستان پر عمران خان کا جلسہ تو ++یاد ہے نا، جس کے بعد سے تحریک انصاف کو ایک بڑی جماعت سمجھا جانے لگا تھا؟ اُس وقت عوام پرانے سیاسی چہروں سے تنگ آکر 'تبدیلی' کے پرستار ہو رہے تھے۔ عین اِسی سال، مشرق وسطی کے نوجوان، اُن ڈکٹیٹرز سے جان چھڑانے کے لیے سڑکوں پر تھے، جو کئی دہائیوں سے اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔ مگر یہ نوبت آئی کیسے۔

وہ 2010 کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی صبح تھی۔ تیونس کی سڑک پر ایک نوجوان محمد بوعزیزی پھٹی پرانی جیکٹ پہنے پھل اور سبزی بیچ رہا تھا۔ وہ اپنی بیوہ ماں اور چھ بہنوں کا اکیلا کمانے والا تھا۔ اس کے پاس ٹھیلا لگانے کا پرمٹ تھا، نہ ہی بھتہ دینے کے لیے جیب میں پیسے۔ پولیس پاکستان کی ہو یا تیونس کی، اسے کسی کے پرابلمز کی پرواہ نہیں ہوا کرتی۔ یہاں بھی وہ آئے اور پھل، سبزی، ترازو سب ہی اٹھا کر چلتے بنے۔

محمد روتا ہوا گورنر ہاؤس پہنچا، مگر اس کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔ ہاں مگر آسمان پر اس کی سنی جا چکی تھی۔ تنگ آکر محمد نے ماچس جلائی۔ اس کے جسم سے شعلے اٹھنے لگے، ان شعلوں کی لپٹیں عرب ملکوں کی بادشاہت اور آمریت کو راکھ کرنے والی تھیں۔ اُس کی سوختہ لاش سے احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ پھوٹ پڑا۔ بوعزیزی کی ریڑھی کیا الٹی، تیونس کا اقتدار ہی الٹ گیا۔ مگر یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ تیونس سے لیبیا، لیبیا سے شام، شام سے عراق، عراق سے یمن اور پھر مصر میں بھی عوام حکمرانوں کے خلاف سڑک پر آگئے۔

اقتدار کی مسند پر تیس سال سے بیٹھا حسنی مبارک، مصریوں کو فرعون دکھائی دینے لگا۔ تحریر اسکوائر میں حکومت مخالف مظاہرے ہونے لگے۔ ویسے یہ صرف حسنی مبارک کا مسئلہ نہیں تھا۔ دراصل 1922 میں انگریزوں سے آزادی کے بعد سے مصر میں جمہوریت صرف نام کی تھی۔ اقتدار ایک ڈکٹیٹر سے دوسرے ڈکٹیٹر کے ہاتھ منتقل ہو رہا تھا۔ 1952 میں ’فری آفیسرز‘ گروپ نے بادشاہت ختم کرکے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ یہ مصری فوج کے چند سر پھرے آفیسرز تھے جن کے لیڈر محمد نجیب تھے۔ صدر بننے کے بعد نجیب نے سوچا کہ اب فوج کو چاہیے کہ حکومت چھوڑ کر اقتدار سیاست دانوں کے حوالے کر دے۔ مگر ان کے ساتھیوں کا کچھ اور ہی پلان تھا، جن میں سب سے آگے تھے ڈپٹی پرائم منسٹر جمال عبدالناصر، وہ سویلینز کو حکومت دینا نہیں چاہتے تھے۔ نجیب کا ناصر سے اختلاف بڑھتا گیا۔ تنگ آ کر نجیب نے استعفی دے دیا، لیکن عوام کے احتجاج پر ارادہ بدلنا پڑا۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ناصر نے انہیں دودھ کی مکھی کی طرح سارے معاملات سے الگ کر دیا۔ انہیں ایک ایسے سرکاری بنگلے میں شفٹ کر دیا جس سے وہ اگلے 30سال تک باہر نہیں نکل سکے۔ یہاں سے ناصر کا مارشل لاء شروع ہوا جو ان کی موت تک چلتا رہا۔

ناصر کی ایک دلچسپ بات بتاؤں، وہ تقریریں بہت اچھی کرتے تھے۔ ایسے شعلہ بیاں تھے کہ لوگ گھنٹوں کھڑے رہ کر ان کی تقریریں سنتے۔ کہیں اگر عوام حکومت سے ناراض ہو جاتے تو ناصر تقریر کرتے اور سب کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا۔ کتنی سادہ ہوتی ہے یہ عوام۔

پاکستان اور بھارت کی طرح مصر کی اسرائیل کے ساتھ ازلی دشمنی رہی ہے۔ جمال عبد الناصر کی تقریروں کا مرکز اسرائیل ہی تھا جو ہر وقت حملے کی تاک میں لگا رہتا۔ مصر میں کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے ہر وقت تیاریاں جاری رہتیں۔ جیسے ہماری فوج بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ مگر 1967 میں جب عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو ناصر کی تمام تقریریں کھوکھلی ثابت ہوئیں۔ مصری فوج میدان میں ہار گئی۔ ثابت ہوا کہ جنگ باتوں اور تقریروں سے نہیں جیتا کرتے۔ اس کے لیے جذبے اور کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام میں اس شکست کو لے کر کافی غصہ تھا اور ہر کوئی توقع کر رہا تھا کہ اب ناصر اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ مگر ناصر نے وہی کیا جس کی وہ مہارت رکھتے تھے، یعنی ایک اور پر جوش خطاب، جہاں انہوں نے کچھ وعدے کیے اور کچھ بہانے۔ ویسے اس جنگ میں مصر کی مشہور گلوکارہ ام کلثوم نے بھی فوجی جوانوں کا خوب لہو گر مایا۔ بالکل میڈم نور جہاں کی طرح جن پر ہمارا یہ آرٹیکل آپ ضرور پڑھیے گا۔ یعنی مصر اور پاکستان میں صرف سیاست نہیں اور بھی کئی باتیں مشترک ہیں۔ ام کلثوم سیاسی اور عسکری ایجنڈا بڑی خوبصوری سی گنگناتیں۔ ایک بار انہوں نے اقبال کا شکوہ عربی میں پڑھا تو سامنے بیٹھے جرنیلوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ مصر میں ان کے گائے نغمے آج بھی قومی ترانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

خیر، ناصر کی وفات کے بعد ان کے دست راست انور السادات اقتدار میں آ گئے۔ تھی تو یہ بھی فوجی حکومت ہی مگر ایک روز فوجی پریڈ کے دوران چند نوجوانوں نے انہیں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ سادات حکومت ختم ہوئی، مگر فوجی آمریت پوری شان سے چلتی رہی۔ سادات کے بعد حسنی مبارک کی باری آئی، وہ بھی تمام عمر حکومت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ بلکہ وہ تو اپنے بیٹوں کو بھی تیار کر رہے تھے اور شاید ایسا ہو بھی جاتا، لیکن حسنی مبارک اور ان کے ارادوں کے درمیان عرب اسپرنگ حائل ہوگئی۔ تیونس کی سڑک سے شروع ہونے والی تحریک مصر کے تحریر اسکوائر پہنچ گئی۔ ایک طرف عوام، عشروں سے جاری ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے لیے زور لگا رہے تھے تو دوسری طرف حسنی مبارک اپنی کرسی بچا رہے تھے۔

تحریر اسکوائر

تحریر اسکوائر کا نام تو آپ میں سے کئی لوگوں نے سنا ہی ہوگا، بہار عرب کی حکومت مخالف تحریک جب مصر پہنچی تو اس کا مرکز یہی تحریر اسکوائر تھا۔ بس آپ اسلام آباد کا ڈی چوک سمجھ لیں جہاں عوام کی بڑی تعداد روزانہ اکٹھا ہو کر مبارک حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتی۔ جواب میں پولیس اپنے روایتی طریقوں سے مظاہرین کو منتشر کرتی۔ شیلنگ، پتھراؤ لاٹھی چارج اور گرفتاریاں روز کا معمول تھیں۔ مگر یہاں ایک انتہائی دلچسپ بات دیکھنے میں آئی۔ ایک طرف جہاں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہو رہی تھیں، تو دوسری طرف فوج اس معاملے پر خاموش تماشائی بنی کھڑی تھی۔ کبھی تو یہ بھی ہوتا کہ جب پولیس اور مظاہرین میں ٹکراؤ شدت اختیار کر جاتا تو دونوں کے درمیان فوجی ٹینک آ جاتے۔ فوج کا یہ رویہ دیکھ کر مظاہرین کو بھی حوصلہ ہوا کہ واقعی یہ ہماری فوج ہے، جو چپ کھڑی رہتی ہے مگر ہم پر گولیاں نہیں چلاتی۔ بس پھر کیا تھا۔ وہ 'فوج زندہ باد' کے نعرے لگانے لگے، مگر اُس وقت ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جب وقت بدلے گا تو یہی وردی والے گولی چلانے میں دیر نہیں کریں گے اور یہی کچھ آگے چل کر ہوا۔ تو جناب حسنی مبارک گھر روانہ ہوگئے، 2012 میں مصر میں نئے انتخابات کا اعلان ہوا جس میں اخوان المسلمین کے محمد مرسی کامیاب ہوئے۔


مرسی ساؤتھ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی تھے اور قاہرہ یونیورسٹی میں پروفیسر بھی رہ چکے تھے۔ مثال شاید سو فیصد درست نہیں مگر اندازہ لگانے کے لیے یوں سمجھیے کہ 70 سال کی مسلسل ڈکٹیٹر شپ کے بعد انجنیئر حافظ نعیم الرحمن ملک کے پہلے سویلین صدر بن جائیں! اور مصر کے صدر کو پاکستانی صدر جیسا مت سمجھیے گا۔ مصر کے صدارتی نظام میں ساری طاقت پریذیڈنٹ کے پاس ہے جو جب چاہے حکومت تحلیل کر سکتا ہے۔


تو مرسی کے صدر بننے سے تحریر اسکوائر پر شروع ہونے والی عوامی تحریک مکمل طور پر کامیاب ہوگئی، اس کے نتیجے میں نہ صرف ایک ڈیکٹیٹر کی حکومت کا خاتمہ ہوا بلکہ شفاف انتخابات کے نتیجے میں ایماندار افراد کی عوامی حکومت بھی قائم ہو گئی اور 'پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے' لیکن نہیں، ایسا تو صرف کہانیوں میں ہوتا ہے۔ ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ عوام مرسی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ایسا کیا ہوا کہ مرسی اتنی جلدی ایک controversial figure بن گئے، مرسی کو کونسی سازش کا سامنا تھا اور اپنے پسندیدہ شخص کو آرمی چیف بنانے کے باوجود وہ اس سازش سے کیوں نہ بچ سکے؟ پھر مصر کے روشن جمہوری مستقبل کا نشان کیسے ایک سال میں مدھم ہو کر سلاخوں کے پیچھے اور پھر خاموشی سے مٹی تلے دفن ہوگیا؟ آئیں اس قصے کے مشکل حصے کی طرف چلتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد مرسی کے اقتدار کے ابتدائی دن بڑی آسانی سے گزرے۔ انہوں نے اپنی کابینہ تشکیل دی اور داخلی معاملات کو حل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ ہلیری کلنٹن نے مصر کا دورہ کیا جس میں انہوں نے فوجی قیادت سے ملاقات کی اور مصر کے داخلی معاملات پر تبصرہ کیا، جو مصری عوام کو پسند نہ آیا۔ اس دوران دفاعی بجٹ جیسے معاملات پر صدر مرسی اور فوجی قیادت میں اختلاف سامنے آیا۔ عشروں کی ڈکٹیٹر شپ سہنے والی عوام کو محسوس ہوا کہ عوامی حکومت کے خلاف شاید کوئی کچھڑی پک رہی ہے، وہ پھر سڑکوں پر آگئے اور ہیلری کلنٹن کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔ افواہوں کا بازار اس وقت تھما جب ایک روز ایوان صدر کے ترجمان نے ایک پریس بریفننگ کی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ صدر نے وزیر دفاع اور آرمی چیف کو معزول کر دیا ہے اور اب ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ عبد الفتاح السیسی یہ عہدے سنبھالیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ صدر مرسی، السیسی کی تابعداری، دین داری اور اچھی گفتگو سے بہت متاثر تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پرانے دور کے پرانے جرنیلوں کو ہٹا کر السیسی جیسے بے ضرر شخص کو آرمی چیف بنایا جائے۔ تاکہ سویلینز کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہو اور فوج کو حکومتی معاملات سے نکال کر بیرکوں تک محدود کرنے میں آسانی ہو۔ یہ کم وبیش وہی خیال تھا جو بھٹو کا جنرل ضیا اور نواز شریف کا جرنل مشرف اور جنرل باجوہ کے متعلق تھا جو ان کے سامنے ہمیشہ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔ مرسی بھی یہی سمجھے کہ اب فوج اور حکومت سیم پیج پر ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ جب کبھی مفادات کا ٹکراؤ ہوا تو یہی لو اسٹوری جنگ میں بدل سکتی ہے اور پھر اقتدار کی جنگ میں تو جیت فوج کی ہی ہوا کرتی ہے۔

التحریر اسکوائر دوبارہ گرم ہو گیا

آپ کو یاد ہو گا عمران خان کے دور میں جب کوئی حکومت پر تنقید کیا کرتا تھا تو خان کے حامی بار ایک رٹا لگایا کرتے تھے۔ '70 سال کا گند ہے، چار سال میں کیسے صاف ہوگا'؟۔ اب کپتان اور ان کے وسیم اکرم پلس کے متعلق فیصلہ تو آپ خود کیجیے مگر مصر میں ایک سال بعد بھی کئی ایسے مسائل تھے جو حل نہیں ہو رہے تھے۔ مہنگائی اور بیروزگاری بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ فوج کو یہ لگ رہا تھا کہ حالات مرسی سے نہیں سنبھلیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ مرسی کو ہٹانے کے بعد یہی مہنگائی، بیروزگاری اور بدامنی دگنی سے بھی زیادہ ہوگئی۔ لیکن فوج کے پاس اس کا بھی حل تھا۔ میڈیا کو ایسا کنٹرول کیا کہ ہاتھی بھی خود کو ہرن کہنے لگا۔ جو آواز اونچی کرتا اسے ڈالا پک کرنے آ جاتا۔ اب تو اینکر اور تجزیہ کار سب ہی حکومت کے گن گانے لگے۔ آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یاد دلا دوں کہ ہم ابھی تک مصر کی ہی بات کر رہے ہیں۔

مرسی کے دور میں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ شمالی علاقے سینا میں دہشتگردی بھی بڑھ رہی تھی۔ ویسے سینا، سیاسی اور سیکورٹی کے لحاظ سے کافی حد تک وزیرستان کے قبائلی علاقوں جیسا ہے۔ بہرحال ان مسائل پر اپوزیشن جماعتوں کی چھتری تلے عوام نے ایک بار پھر تحریر اسکوائر کا رخ کیا اور مرسی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ سمجھیں مرسی کے خلاف پی ڈی ایم نے جنم لے لیا۔ یہ مظاہرے بڑے ضرور تھے مگر ان میں وہ شدت نہیں تھی جو حسنی مبارک مخالف مظاہروں میں تھی، شاید اسی لیے مرسی حکومت نے ان پر زیادہ توجہ نہیں دی، مگر دوسری جانب داخلی و خارجی کردار ان مظاہروں کی اوٹ میں سازشوں کا جال بن رہے تھے۔

محمد مرسی کے اقتدار کے آخری ایام کافی eventful تھے۔ اقتدار کے خاتمے سے ایک ہفتہ قبل ثقافت کے موضوع پر ایک تقریب ہوئی جس میں آرمی چیف عبد الفتاح السیسی بھی شریک تھے۔ وہاں انہوں نے اپنی تقریر میں پہلی بار مرسی مخالف مظاہروں پر تبصرہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم چاہتے ہیں کہ فریقین ایک ہفتے کے دوران مصالحت کر کے معاملات حل کر لیں۔ یہ سیاست میں کھلی مداخلت تھی۔ مگر تیسری دنیا کے ملکوں میں شاید یہی ہوتا آیا ہے۔ ایک باوردی افسر مائک کے سامنے کھڑا ہی سیاست پر تبصرہ کرنے کے لیے ہوتا ہے، چاہے وہ ظاہری طور پر اس سے کتنا ہی انکار کیوں نہ کرے۔ سیسی کی تقریر سے یوں لگا جیسے وہ مرسی حکومت کی حمایت میں اپوزیشن کو احتجاج کے خاتمے کا الٹی میٹم دے رہے ہیں۔ مگر حقیقت کچھ اور تھی، مشرق وسطی پر نظر رکھنے والے امریکی عہدیدار بتاتے ہیں کہ مصر میں امریکی سفیر این پیٹریسن کے مطابق اُن دنوں سیسی کا رویہ بدل چکا تھا۔ امریکی سفارتخانے کو مارشل لاء کے امکانات صاف نظر آ رہے تھے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے حامی امریکا نے اس مارشل لاء کو روکنے میں کردار ادا کیوں نہیں کیا؟
اس کی وجہ تو ظاہر ہے یہی تھی کہ امریکا ہمیشہ سے جمہوریت پسند نہیں بلکہ مفاد پرست رہا ہے، دوسری وجہ یہ تھی مصر کے معاملے پر اوباما ایڈمنسٹریٹشن بھی تقسیم کا شکار تھی۔ صدر اوباما نے ان دنوں دو بار خود صدر مرسی سے فون پر بات کی۔ ایک طرف وہ اپوزیشن کے مطالبے پورے کرنے پر زور دیتے تو ساتھ ہی امریکی حمایت کا یقین بھی دلاتے۔ لیکن پینٹاگون کی رائے مرسی کے خلاف ہی تھی۔ اس معاملے میں امریکہ کے اُن دوست ملکوں کا کردار بھی اہم تھا جومشرق وسطی میں تھے۔ مصر میں نیویارک ٹائمز کے رپورٹر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مرسی مخالف مظاہروں کو مصری فوج کی ہی نہیں بلکہ سعودی عرب کی بھی بھر پور حمایت حاصل تھی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے بڑے فخر سے کہا کہ مصر کے معاملے پر ہمارے موقف کو کامیابی ملی۔ فوجی بغاوت کے بعد انہوں نے سیسی حکومت کو ہر طرح کی پولیٹیکل، فائنانشل اور ڈپلومیٹک سپورٹ بھی فراہم کی۔ تو ایک طرف خارجی محاذ پر یہ رسہ کشی چل رہی تھی تو دوسری جانب اپوزیشن نے مظاہروں کی نئی تاریخ دے دی۔ جواب میں حکومت کے حامی بھی سڑکوں پر آگئے اور کشیدگی کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس دوران فوج نے ایک اور الٹی میٹم جاری کیا جس میں حکومت کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی تھی۔ یہ فوجی بیان جب میڈیا پر نشر ہوا تو صدر مرسی آرمی چیف کے ساتھ ایک اجلاس میں بیٹھے تھے۔ مرسی نے حیرانی سے مڑ کر سیسی کی طرف دیکھا تو آرمی چیف جھینپتے ہوئے بولے کہ ہم تو بس معاملات حل کرنا چاہتے ہیں۔

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی


مرسی کے اقتدار کی گھڑیاں تیزی سے ختم ہو رہی تھیں، اس دوران انہوں نے ایک تقریب سے بڑا لمبا اور پرجوش خطاب کیا۔ جس میں کچھ مطالبات ماننے کے علاوہ انہوں نے کہا کہ 'ہماری فوج میں سونے جیسے قیمتی نوجوان ہیں۔ اُس وقت آرمی چیف سامنے ہی بیٹھے تھے۔ لیکن وہ تمام وقت سنجیدہ نظر آئے۔ جب حاضرین تالیاں بجا رہے تھے تو وہ اس وقت بھی ٹکٹکی باندھ کر صدر مرسی کو دیکھ رہے تھے۔ اگلے دن صدر مرسی عبد الفتاح السیسی کے ساتھ وہ ملاقات کرتے ہیں جس کا ذکر ہم نے شروع میں کیا تھا، یاد نہیں رہا تو پیچھے جاکر پھر سے دیکھ لیں۔ اس ملاقات میں تمام معاملات طے ہو جاتے ہیں اور آرمی چیف ہاتھ ملا کر ایوان صدر سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ مگر شام کو فوج کی طرف سے پیغام آتا ہے کہ 'اس شخص کو جانا ہوگا'۔ مرسی جو اب تک اپنے آرمی چیف پر اعتماد کرتے آ رہے تھے، انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ وہ آستین کے سانپ سے ڈسے جا رہے ہیں۔ الٹی میٹم ختم ہونے پر آرمی چیف نے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو ساتھ کھڑا کیا اور ایک تقریر کی، جس میں حکومت ختم کرنے، آئین معطل کرنے اور عبوری حکومت تشکیل دینے کے فیصلے سنائے گئے۔
مرسی اپنی پوری کابینہ کے ساتھ بیٹھے یہ تقریر لائیو دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد کرنل زکی ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ مسٹر پریزیڈنٹ 'آپ کو محفوظ جگہ منتقل کرنے کے آرڈرز ہیں۔ صدر مرسی نے حیرانی سے کہا کرنل تم تو میری حفاظت پر مامور تھے، تم کس سے احکامات لینے لگے؟ کرنل زکی سپاٹ چہرے کے ساتھ خاموش کھڑے رہے۔


صدر مرسی کو کچھ روز اپنے ساتھیوں سے ملنے کی اجازت ملی بعد میں ان کو مختلف جگہوں پر قید میں رکھا گیا جہاں ان کا متنازعہ ٹرائل چلتا رہا۔ اور بالآخر ایک دن جیل سے خبر آئی کہ محمد مرسی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔


لیکن ٹہریے، اس کہانی کا سب سے خوفناک اور افسوسناک پہلو کوئی اور ہے۔ وہ بھی بتاتا ہوں۔ جب ایک طرف مرسی قید میں تھے تو دوسری طرف ہزاروں حامی ان کی رہائی اور عہدے پر واپسی کے لیے دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ کئی دن گزرنے کے بعد بھی جب دھرنا ختم نہ ہوا تو ایک دن وہی مصری فوجی جنہیں عوام زندہ باد کہہ رہے تھے ، ایک ری پروگرامڈ ٹرمینیٹر کی طرح دھرنے والوں پر پل پڑے۔ نہتے شہریوں پر کھلے عام گولیاں چلانے لگے۔ وہی گولیاں اور بندوقیں جو ان کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی گئی تھیں۔ کیونکہ انہیں عوام سے تو کوئی غرض تھی نہیں۔ وہ تو کرنل زکی کی طرح حکم کے غلام تھے، وہ اپنی عقل بھلا کیسے استعمال کر سکتے تھے۔ ایک ہزار سے زائد شہری اپنے محافظوں کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر دم توڑ گئے۔ جمہوریت کی آخری امید، وہ آخری کونپل، فوجی بوٹ تلے کچھ اس طرح مسلی گئی کہ آج دس سال گزرنے کے بعد بھی مصر سیسی کے شکنجے میں ہے اور مصری عوام، پھر کسی بو عزیزی کے انتظار میں۔

شیئر

جواب لکھیں