ہمیں بچپن سے سکھایا گیا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا حصہ ہے، لیکن اگر میں کہوں کہ ایسا نہیں ہے اور جو کچھ ہمیں بتایا اور سکھایا گیا سب جھوٹ ہے۔ تو پھر؟ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں ابھی آگے چل کر بیان کرتا ہوں۔

انور مقصود صاحب نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ہمارے ملک میں تعلیم اور صحت پر جتنی توجہ دی جاتی، وہ گالی ہی ہے۔

جب بھی بجٹ آتا ہے، جیسے ابھی آنے والا ہے، تو خرچوں کی بات ہوتی ہے۔ جیسے تنخواہیں، پینشن، ڈیفنس، تعمیرات، ایگری کلچر وغیرہ۔ ان ہی میں ایجوکیشن اور ہیلتھ کا بھی ذکر آ جاتا ہے۔ لیکن یہ دنوں شعبے کسی ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ بناتے ہیں ’’ہیومن کیپیٹل‘‘!

’’ہیومن کیپیٹل‘‘ کیا ہوتا ہے؟

بھئی ایک پیسہ ہے آپ کی جیب میں اور ایک پیسہ ہے آپ کے اندر، یعنی آپ کی صلاحیت، نالج، ایکسپیرینس۔ بالکل ویسے ہی جیسے آپ کے ٹول باکس میں چیزیں ٹھیک کرنے کے کئی اوزار ہوتے ہیں۔ جب آپ اسکول میں میھتس، سائنس، اسپورٹس سیکھتے ہیں تو آپ کا ٹول باکس بھرنا شروع ہوتا ہے۔

یعنی باس، کسی بھی ملک کے لیے ہیومن کپیٹل سے بڑی کوئی دولت نہیں۔

اب دنیا میں بہت سے ملک ہیں۔ ذرا ذہن پر زور ڈالیے کتنے ہیں؟ گوگل نہیں کرنا، چلیں میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ ایک سو پچانوے۔ اسے یاد رکھیے گا ابھی آگے ضرورت پڑنے والی ہے۔

واپس ہیومن کپیٹل کی طرف آتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کون سا ملک اس ہیومن کپیٹل یا انسانی سرمائے کا بہترین استعمال کرتا ہے؟

آپ نے اکثر سنا ہوگا۔ یار تم امریکا یا کینیڈا کیوں نہیں چلے جاتے، لائف بن جائے گی۔ اور ہوتا بھی یہی ہے، آپ کا پڑوسی سلیم جو چند سال پہلے تک بائیک پر گھوم رہا تھا، باہر پڑھائی کر کے اب NASA میں جاب کر رہا ہے۔ یہاں وہ بے روز گار تھا وہاں تو روز اپنی تصویریں ڈالتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ پاکستانی باہر جا کر بہت ترقی کر جاتے ہیں۔ جبکہ ان کے بھائی ویسے ہی جوتیاں چٹخاتے رہتے ہیں؟

ابھی ہم نے دنیا کے کتنے ملک گنے تھے، یاد ہے نا 195۔ اسکول کے بچوں کی طرح ان سارے ملکوں کو رپورٹ کارڈ جاری کی جاتی ہے۔ اسے کہتے ہیں ہیومن کپیٹل انڈیکس (JC)۔ یہ رپورٹ کارڈ بتاتی ہے کہ کون سا ملک اپنے لوگوں کی صلاحیت بہترین طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ انہیں کام میں ماہر، اسمارٹ، اور ہیلتھی بنانے میں مدد دیتا ہے۔

ذرا عینک لگا کر دیکھتے ہیں کہ اس رپورٹ کارڈ میں ہم پاس ہیں یا فیل۔ رپورٹ میں صفر سے لے کر ایک تک مارکنگ ہوتی ہے۔ یعنی دس درجے تک۔ جو جتنا نیچے ہے وہ پیچھے ہے۔ اور جہاں نمبر بڑھتا جاتا ہے وہاں لوگوں کی صحت اور صلاحیت بھی بہتر ہوتی جاتی ہے۔

195 ملکوں میں فرسٹ آیا ہے سنگاپور، جس کا اسکور ہے 0.88۔ یہ سب سے زیادہ ہے۔ مطلب یہ کہ سنگاپور میں پلنے بڑھنے والا ہر شخص اپنے پوٹینشل کا 88 فی صد اچیو کر لیتا ہے، جو واقعی کمال ہے۔

افریقی ملک ’’ری پبلک آف سینٹرل افریقہ‘‘ کا بھی اس لسٹ میں پہلا نمبر ہے مگر نیچے سے، اس کا اسکور ہے 0.29۔ یعنی یہاں رہنے والے اپنے اصل پوٹینشل کا صرف 29 فیصد ہی اچیو کر رہے ہیں اور باقی 71 فی صد تیل ہو جاتا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے پاکستان اس لسٹ میں کہاں کھڑا ہوگا؟

پاکستان کا اسکور ہے، 0.41۔ یعنی پاکستان میں رہتے ہوئے تو آپ کے ٹیلنٹ، اسکل، انٹیلیجنس کا 60 فیصد ویسے ہی فارغ ہے۔ آپ اپنا بیسٹ دے کر بھی صرف چالیس فی صد اچیو کر سکتے ہیں۔ علی حیدر نے کہا تھا نا!

یہاں کا سسٹم ہی ہے خراب

https://www.youtube.com/watch?v=16e262jslG0

اور اس لسٹ میں ہم سے نیچے صرف افریقا ہے۔ اور افریقا بھی سارا افریقا نہیں، سب-سہارن افریقا یعنی افریقا کا بھی بیک ورڈ ترین علاقہ۔ ویسٹ افریقا کے کینیا کا نمبر بھی ہم سے بہت اوپر ہے۔ ہمارا نظام تو اتنا تباہ ہو چکا ہے، اتنا تباہ ہو چکا ہے کہ فلسطین بھی ہم سے آگے ہے۔ اور تو اور پچاس سالوں سے جنگ زدہ افغانستان بھی ہمارے برابر کھڑا ہے۔ پڑوسیوں کی تو بات ہی نہ کریں: انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال ہم سے آگے نہیں، بہت آگے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے ہیومن کیپیٹل انڈیکس کا ایوریج بھی 0.48 بنتا ہے۔ اس ایوریج اور پاکستان کے نمبر کو دیکھ کر ہی میں نے شروع میں کہا تھا: پاکستان جنوبی ایشیا کا حصہ نہیں ہے۔

اب آپ کچھ کچھ سمجھ گئے ہوں گے کہ جو ملک تعلیم اور صحت پر پیسہ نہیں لگاتے، ان کی معیشت بھی انہیں کما کر نہیں دیتی۔ اب دیکھیں نا، امریکا ہر سال صحت پر خرچ کرتا ہے فی شہری بارا ہزار ڈالر سے بھی زیادہ۔ آپ کو پتا ہے پاکستان میں یہ رقم کتنی ہے؟ فی شہری صرف 38 ڈالر۔ اف میرے خدا!

سب سے بڑی آبادی والا بھارت 56 ڈالر اور جنگ زدہ افغانستان 81 ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اندازہ لگا لیں کہ صورتحال کتنی خراب ہے؟ اسی خراب ہیلتھ سسٹم کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے 51 ایک سال بھی نہیں جی پاتے۔ جو بچ جاتے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ آئیے بتاتا ہوں۔

پاکستان میں دو کروڑ 27 لاکھ بچے تو ایسے ہیں جو اسکول ہی نہیں جاتے۔ جو جاتے ہیں ان میں سے اکثر فٹ نہیں ہوتے؟ کیونکہ نہ انہیں اچھی خوراک ملتی ہے اور نہ اچھا ماحول۔ تو ظاہر ہے یہ چیز ان کے دماغ پر اثر ڈالتی ہے۔

اسکولز کا کام ہے بچوں کو ایسی تربیت دینا، جس سے وہ اچھے انسان بنیں اور پڑھ لکھ کر پروڈکٹوو شہری بنیں۔ کریٹیو اور اینوویٹیو بنیں۔ مگر کیا ہمارے اسکول ایسا کر رہے ہیں؟ اکثر اسکولوں میں تو ٹیچرز کی قابلیت ہی سوالیہ نشان ہے کیونکہ وہ بھی تو اسی ماحول سے گزر کر آئے ہیں۔

تو بھائی! ہیومن کیپٹل بھی ویسا ہی ہوگا جیسے ٹیچرز! یعنی جیسی روح ویسے فرشتے۔

دنیا یوٹیوب سے سمجھ کر سیکھ رہی ہے اور ہمارے اسکولوں میں رٹا لگانا کامیابی ہے۔ زبان چلتی ہے پر دماغ نہیں چلتا کیونکہ وہاں کا فیوز جو اڑا دیا جاتا ہے۔ دس سال کی عمر کے بیشتر بچے ایسے ہیں جو اردو ہو یا انگریزی، ٹھیک سے ایک پیراگراف نہیں پڑھ سکتے۔ الا ماشااللہ۔

یہ تو چلیں بچے ہوئے۔ کالج اور یونیورسٹیوں کا حال بھی مختلف نہیں۔ یہ تو اصل میں ڈگریاں بانٹنے اور بے روزگار کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔ پاکستان میں ہر چار میں سے تین لوگوں کی عمریں پینتیس سال سے کم ہیں۔ یہاں اس ملک میں 15 کروڑ سے زیادہ نوجوان اور بچے ہیں جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

دنیا کا کوئی بھی ملک ہو، لیبر فورس بھی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں چین کی لیبر پروڈکیٹویٹی میں 8.5 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا میں 5.7 اور بنگلہ دیش کی لیبر فورس نے 3.9 فی صد ایمپرو کیا ہے۔ پتہ ہے پاکستان کی لیبر پروڈیکٹیویٹی کتنی بہتر ہوئی ہے؟ صرف 1.5 فیصد۔

ظاہر ہے کہ جب اپنے ہیومن کیپیٹل پر انویسٹ نہیں کریں گے تو یہی ہوگا نا؟

اس سسٹم میں بھی اگر کچھ لوگ اسٹرگل کر کے، ہمت کر کے کچھ بن بھی جائیں، جیسے ڈاکٹر، انجیئنر یا آئی ٹی ایکسپرٹ تو وہ بھی ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے ’’برین ڈرین‘‘۔

ہر سال پاکستان سے 6 لاکھ اسکلڈ اور قابل لوگ ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ اور یہ جاتے کہاں ہیں؟ ان ملکوں میں جہاں انسانوں پر انویسٹ کیا جاتا ہے۔

سنگاپور کی مثال دیتا ہوں۔ یہ صرف 734 مربع کلومیٹرز کا ملک ہے۔ یہ کتنا چھوٹا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کراچی ساڑھے تین ہزار مربع کلومیٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔ یعنی ایک کراچی میں پانچ سنگاپور آ جائیں۔ لیکن ایکسپورٹ دیکھیں سنگاپور کی: 350 ارب ڈالرز۔ پاکستان کی ٹوٹل ایکسپورٹس 30 بلین ڈالرز ہیں۔

یہ ننھا سا ملک دنیا پر چھایا ہوا ہے، صرف اس لیے کیونکہ اس نے اپنے ہیومن کیپٹل پر انویسٹ کیا ہے۔ اچھی صحت اور اچھی تعلیم پر وسائل لگائے اور پھر اسی ہیومن کیپٹل نے سنگاپور کو بدل ڈالا ہے۔

اس سے کہیں پہلے آزاد ہونے والے پاکستان کے ہیومن کپیٹل کا تو نہ ہی پوچھیں۔ تین کروڑ سے زائد آبادی بیماریوں میں گھری ہے۔ تقریباً 35 فیصد لوگ ڈپریشن اور انگزائٹی کے مریض ہیں۔ تو ایسا ہیومن کیپیٹل کیا پرفارم کرے گا بھائی؟۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف مایوسی ہے۔

چلیں اب کچھ امید کی بات بھی کرتے ہیں، مسئلے کے حل کی بات کرتے ہیں۔ دنیا میں صرف چار ملک ایسے ہیں جن کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے۔ ایک چین، پھر انڈیا، امریکا اور انڈونیشیا۔ آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی جی ڈی پی میں ان چار ملکوں کا شیئر کتنا ہے؟ تقریباً 45 فیصد۔ اور دنیا کے پانچویں بڑے ملک یعنی پاکستان کا شیئر ہے صرف 0.4 فی صد۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ملک کی آبادی اُس کی کتنی بڑی قوت بن سکتی ہے۔ مگر اسی صورت جب اس کا ہیلتھ اور ایجوکیشن سسٹم کام کر رہا ہو۔

اس لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو پرابلم سولونگ بنانا ہوگا۔ ہمارے بچے جب تعلیمی اداروں سے نکلیں تو جاب کے محتاج نہ ہوں۔ وہ اتنے قابل ہوں کہ اپنی کمپنیاں اور اسٹارٹ اپ بنا سکیں، اپنے بزنس کھول سکیں، صرف جاب ہی نہ ڈھونڈتے پھریں۔

اس کے لیے سب سے پہلے ہمارے سیاست دانوں کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ ان کا تو حال ہے یہ کہ پاور میں آ کر صرف وہ کام کرتے ہیں، جس سے انہیں دوبارہ ووٹ ملے۔ تبھی وہ نوکریاں بانٹتے ہیں، سڑکیں، پل اور موٹر وے بناتے ہیں، لیکن ہیلتھ اور ایجوکیشن کو گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ کیونکہ اس کے رزلٹ فوراً دکھائی نہیں دیتے۔

ہم ہمیشہ قومی ترانے میں قوم، ملک سلطنت تو پڑھتے ہیں لیکن اس قوم کو اپنا سرمایہ بنانے کی کبھی فکر نہیں کرتے۔ اور اسی لیے آج ہمارا یہ حال ہے!

شیئر

جواب لکھیں