وہ اپنی زخمی بیٹی کو دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ کیا کروں؟ اس کی زندگی کیسے بچاؤں؟ کیسے یہاں سے کسی دوسرے اسپتال لے جاؤں؟ مگر سوائے انتظار کے کوئی آپشن نہیں تھا۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ بچی کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ ماں چیخ چیخ کر مدد مانگ رہی تھی اور باپ عملے کے آگے ہاتھ جوڑ رہا تھا کہ ایمبولینس میں دیر ہے تو ہم گاڑی میں چلتے ہیں، مگر کوئی ڈاکٹر تو ساتھ چلے! لیکن صاف انکار کر دیا گیا۔
ماں نے ایمبولینس کے لیے دوبارہ کال کی تو جواب آیا بس تھوڑی دیر میں پہنچتے ہیں۔ وہ دوڑتی ہوئی بچی کے کمرے میں آئی تو دیکھا کہ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ مگر وقت گزر چکا تھا۔ بچی نے بے بس ماں باپ کے سامنے آخری سانس لی اور۔ Eelovator Machine پر سیدھی لکیر نظر آنے لگی۔
یہ کہانی ہے دس سالہ امل کی جو ڈاکٹروں کی نااہلی، اسپتال انتظامیہ کی بے حسی اور ایمبولینس وقت پر نہ آنے کی وجہ سے دنیا سے چلی گئی۔ مگر اس موت نے ڈاکٹروں کی ان ایفیشینسی اور اسپتال انتظامیہ کی بے رحمانہ پالیسی کو بُری طرح بے نقاب کر دیا۔ آج میں آپ کو بتاؤں گا علاج کے نام پر وہ خوف ناک دھندا، جس کی وجہ سے اپنے پیروں پر آنے والا انسان چار کندھوں پر واپس جاتا ہے۔ آخر کیوں ایک ہی ٹیسٹ کہیں دس ہزار تو کہیں تیس ہزار میں ہوتا ہے؟ یہ سفید کوٹ کیسے دوسرے انسان کو کفن پہنا رہا ہے؟ یہاں تک کہ پرائیویٹ اسپتال بھی! جہاں لوگ صرف اس لیے جاتے ہیں کہ سرکاری اسپتال کے مقابلے مریض کو زیادہ کیئر اور اٹینشن ملے گی۔ وہاں بھی مریضوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ کیوں؟
امل کے والد عمر عادل بتاتے ہیں:
ہم بچوں کو لیکر ایک کنسرٹ میں جا رہے تھے۔ 13 اگست کی رات تھی۔ راستے میں لوٹ مار ہوئی۔ اس کے بعد ہم آگے جانے لگے تو پیچھے سے فائر کی آواز آئی۔ کچھ ہی سیکنڈز میں پتہ چلا کہ ہماری بیٹی کو بھی گولی لگ گئی ہے۔ تو وہ دیکھ رہی تھی ہمیں۔ سانس لے رہی تھی۔ لیکن اس کے گولی لگ گئی تھی۔ ہم سیدھا ساتھ ہی اگلے سگنل پر اسپتال پہنچے این ایم سی۔ چھوٹی بیٹی بھی سائڈ پر کھڑی ہوئی تھی خون میں لت پت۔ وہ چھ سال کی تھی اور امل دس سال کی تھی۔
جب ڈاکو لوٹ مار کر کے فرار ہو رہے تھے تو پولیس والوں نے پیچھے سے فائر کھول دیا جس کی گولی امل کو لگی۔ نیشنل میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹروں اور انتظامیہ نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بچی کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، 20 منٹ تک امل کے والدین کو فارملٹیز میں الجھائے رکھا۔ پروفیشنلزم تو دور انسانیت بھی نہیں دکھائی گئی۔ اور یوں13 اگست، رات 12 بجے۔ ہر طرف پٹاخوں، فائرنگ اور باجوں کے شور میں دس سالہ امل کے ماں باپ کی رونے کی آواز کہیں دب کر رہ گئی۔ کیونکہ جنہوں نے اس بچی کی جان بچانی تھی، وہی موت کے فرشتے ثابت ہوئے۔
اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس واقعہ سوموٹو نوٹس لیا۔ ذمہ داروں کا پتہ لگانے کے لیے پانچ ڈاکٹروں کا ایک کمیشن بنایا گیا، جس نے بتایا کہ نیشنل میڈیکل سینٹر کے ایمرجنسی روم میں وینٹی لیٹر ہی نہیں تھا۔ امل جب زندگی اور موت کے درمیان تھی، تب بھی کسی نیورو سرجن یا کنسلٹنٹ کو بلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ فیسیلیٹی ہونے کے باوجود ایکسرے تک نہیں کیا گیا۔ اسپتال کا اپنا بلڈ بینک تھا، مگر بلڈ بھی ارینج نہیں کیا گیا۔
اسپتال کی غفلت اب کھل کر سامنے آ چکی تھی۔ دباؤ بہت بڑھ چکا تھا اور اسی دباؤ کی وجہ سے حکومت سندھ نے ’’امل ایکٹ‘‘ منظور کر لیا۔ امل تو چلی گئی لیکن جاتے جاتے دوسری بچیوں کی زندگی محفوظ بنانے کے لیے یہ قانون ہمیں دے گئی۔ اس قانون کے مطابق اسپتال ٹائم ضائع کیے بغیر اور بنا کسی لیگل فارمیلیٹی کے ہر زخمی کا فوری علاج کرنے کے پابند ہوں گے۔ اور اس سے فوراً پیسے نہیں مانگے جائیں گے۔ اس کے لواحقین کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔
لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ قانون قانون نہیں اگر وہ عملاً نافذ نہیں ہو سکتا۔ تو مارچ 2019 میں یہ ایکٹ بن تو گیا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ جی ہاں! اس سے بھی زیادہ خوف ناک واقعہ پیش آیا، نو مہینے کی بچی نِشوا کے ساتھ۔! نِشوا کے والد کی زبانی جانیے:
میری دو جڑواں بیٹیاں تھیں۔ نِشوا کی طبیعت خراب ہوئی۔ ہم دونوں کو دارالصحت لے کر گئے۔ ڈاکٹروں نے اس کو کے سی ایل کی ڈرپ لگانے کے لیے دی ہوئی تھی۔ رات میں نِشوا کی طبیعت ٹھیک ہو گئی لیکن دوسری بیٹی کی طبیعت خراب تھی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ دونوں کو صبح لے جائیے گا۔ نِشوا بیڈ پر گھومنا شروع ہو گئی۔ میں گھر آ گیا۔ صبح میں میری اہلیہ کا فون آیا کہ علی! آپ فوراً اسپتال آ جائیں، میری بیٹی کو غلط انجیکشن لگا دیا ہے۔
اصل میں ہوا یہ تھا کہ ڈاکٹر نے 2 انجیکشن دیے تھے۔ ان میں سے ایک ڈرپ میں لگانا تھا اور دوسرا نِشوا کو۔ جو انجیکشن ڈرپ میں لگانا تھا، نرس نے وہ نِشوا کو لگا دیا۔ یہ انجیکشن تھا ’’پوٹاشیئم کلورائیڈ‘‘ کا جو یورپی ممالک میں ان مریضوں کو لگایا جاتا ہے جنہیں وینٹی لیٹر سے ڈیتھ پر لیکر جانا ہو، یعنی جان سے مارنا ہو۔
لوگ آخر پرائیویٹ اسپتال سے علاج کیوں کرواتے ہیں؟ اس لیے نا کہ سرکاری اسپتالوں کے دھکوں سے بچیں؟ وہاں کے ڈاکٹروں کی غفلت کا سامنا نہ کریں۔ لیکن یہاں تو پرائیویٹ اسپتالوں کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ بلکہ زیادہ بُرا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے اکثر پرائیویٹ اسپتالوں کا فوکس مریض کے علاج سے زیادہ ہوتا ہے پیسہ بنانے پر!
ظفر عباس کہتے ہیں:
پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار اگر ہیں تو وہ دو ہی ہیں۔ ایک یونیورسٹی کھول لو پرائیویٹ یا اسپتال کھول لو۔ پوچھے گا کوئی نہیں آپ سے چاہے جو بھی کرو۔ غریب کی میت بند کر دو۔ زیور بکوا دو۔ چھپا دو۔ پیسے لاو، یہ کرو، وہ کرو۔
نِشوا کو زہریلا انجیکشن دیا گیا۔ لیکن کسی کو پتہ نہیں تھا۔ اسپتال انتظامیہ نے یہ بات 7 دن تک اس کے ماں باپ سے بھی چھپائی۔ علاج کے نام پر پیسے بٹورے اور بچی پر مختلف تجربے بھی کیے۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ کیس ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
نِشوا کے والد نے اپنی بیٹی ڈسچارج کرانا چاہی مگر دوسرے اسپتال نے ڈیمانڈ کی کہ دارالصحت والے لکھ کر دیں کہ انہوں نے غلط انجیکشن لگایا ہے تو ہم بچی کو ایڈمٹ کریں گے۔ مگر دارالصحت والے ایسا کیوں کرتے؟ انہوں نے منع کر دیا کہ اس سے ہمارے اسپتال کی بدنامی ہوگی۔ یعنی یہ سیدھا سادھا قتل کا کیس تھا۔
تب نِشوا کے والد نے بھی امل کے والد کی طرح لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ بات سوشل میڈیا سے مین اسٹریم میڈیا تک اور وہاں سے عدالت تک پہنچ گئی۔ وزیرِ اعلیٰ، وزیرِ صحت اور آئی جی سندھ نِشوا کے والدین سے ملے۔ کیا قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے؟ بالکل نہیں، سیٹلمنٹ کے لیے۔
اسپتال انتظامیہ پیسے بچانے کے لیے نان پروفیشنل اسٹاف ہائر کرتی ہے۔ جو ایک نو ماہ کی بچی کو غلط انجیکشن لگا دیتا ہے۔ اس کا جرم چھپانے کے لیے ڈاکٹروں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو بچانے کے لیے انتظامیہ آ جاتی ہے۔ انتظامیہ کو ریلیف دلانے کے لیے سیاسی شخصیات آ جاتی ہیں۔ اور جب معاملہ کسی طرح سیٹل نہیں ہوتا تو ’’ملک کے وسیع تر مفاد‘‘ میں ایک فون آ جاتا ہے۔ کیونکہ دھندا ہے اور بہت ہی گندہ ہے۔
نِشوا کے والد بتاتے ہیں:
ہم عدالت گئے جب وہاں میں نے بات کی تو جج وہاں بہت معقول تھا۔ جب میں نے بات کی تو جج نے کہا کہ گرفتار کر لو۔ اور اسپتال انتظامیہ کسی دروازے سے بھاگتے ہوئے نکل گئی اور پولیس خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی جس دن یہ ہو گیا کہ ان کی ضمانت رد ہو گئی تو اس دن میرے چچا میرے ساتھ تھے۔ انہوں نے کہا کہ بات یہاں تک آ گئی ہے اور ان کے اکاؤنٹ فریز ہو جائیں گے تو اب چھوڑ دو تمہیں کہیں سے فون آ جائے گا اور وہی ہوا کہ مجھے کہیں سے فون آگیا۔ کہ بات کر لیتے ہیں۔ فون آنے کے بعد جو میرے ساتھ کھڑے تھے وہ بھی ہلنا شروع ہو گئے۔ جہاں سے فون آتے ہیں وہیں سے آیا تھا۔ اس بات کے لیے اتنا ہی کافی ہے ملک کے وسیع تر مفاد میں فون آگیا۔
ان دو واقعات سے یہ مت سمجھیے گا کہ ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو ہائی لائٹ ہوئے تو ہمیں پتہ چل گیا۔ ورنہ آئے روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹروں کی غفلت، بدسلوکی، نا اہلی یا اسپتال عملے کی لوٹ مار۔ میں سارے ڈاکٹروں کی بات نہیں کر رہا، نہ سارے اسپتالوں کی۔ پاکستان میں بہترین اور پروفیشنل ڈاکٹروں بھی ہیں اور اسپتال بھی۔ لیکن بہت سارے ایسے بھی ہیں جن کا مقصد صرف ایک ہے: پیسہ کمانا۔ بس! یہ تک نہیں دیکھتے کہ مریض بچے گا بھی یا مر جائے گا؟
افضال بتاتے ہیں:
میری بیوی پریگننٹ تھی اس کو اسپتال میں لے کر گئے نارمل ڈیلوری تھی لیکن ہم اس کو دوسرے اسپتال میں لے گئے۔ سرکاری اسپتال میں نارمل ڈیلوری تھی لیکن ہم پرائیویٹ میں لے گئے تاکہ کیئر اچھی ہو۔ خیال رکھتے ہیں۔ تو پرائیویٹ میں گئے۔ القاسم میڈیکل کمپلیکس بارہ کہو میں آتا ہے۔ وہاں پہ گئے ہیں۔ تو اس کو۔ انہوں نے بولا یار اس کا تو آپریشن ہوگا۔ اس کے پیٹ میں بچی یا بچہ جو ہے اس کے پوٹی کر دی ہے۔ جلدی سے آپریشن ہوگا۔ ہم نے ستر ہزار جمع کروائے۔ اور تیس ہزار آپریشن کے بعد میں کہا ہے۔ میری دو فیملیز میں سات عورتیں ہی تھیں میں تو دبئی میں تھا۔ تو کوئی نہیں تھا۔ تو پھر آپریشن شروع کیا۔ تو اس سے پہلے میری وائف اور بچے کی موت ہو گئی۔ وہاں تو عورتیں ہی تھیں۔ اسپتال عملہ وہاں سے بھاگ گیا جب میری وائف کی ڈیتھ ہو گئی تو، تو پورا اسٹاف وہاں سے بھاگ گیا۔
ظفر عباس سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں:
اچھا مجھے ایک بات بتاؤ پوری دنیا میں 80 فیصد بچے سرجری سے پیدا ہوتے ہیں یا نارمل ڈیلوری ہوتی ہے؟ اور ہمارے یہاں 90 فیصد بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ سرجری سے۔ کوئی پوچھنے والا ہے؟ کہ یہ جو 14 ہزار روپے کی ڈیلوری تھی نارمل اس کو تم نے ڈھائی لاکھ تین لاکھ پر پہنچا دیا کوئی پوچھنے والا ہے؟ اور اس سرجری میں تم آ کر بتاتے ہو باہر سوری سرجری میں آپ کی بہن مر گئی، بیوی مر گئی، بیٹی مر گئی۔ آپ شور کرتے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے یہ فارم پڑھ لو۔ جس پر آپ دستخط کر چکے ہو پہلے ہی کہ بچے یا مرے ہم کچھ نہیں بولیں گے۔ چلو جاؤ جو کرنی ہے قانونی کارروائی کرلو۔ تو جہاں کوئی پوچھنے والا نہ ہو کہ جس کی بیٹی جا رہی ہے، سیزر سیزر! مطلب اس ملک میں کوئی نارمل ڈیلوری ہی نہیں ہو رہی۔
ویسے اسپتالوں کی بے حسی کا ایک نمونہ کراچی کے سول اسپتال میں بھی دیکھنے کو ملا، جب فراز اپنی تکلیف سے بلبلاتی بچی ایمرجنسی میں لایا، جسے اپنڈکس کا درد تھا۔ فراز صدیقی بتاتے ہیں:
جون کے مہینے میں میری بیٹی تھی اس کے پیٹ میں درد اُٹھا۔ عید کا موقع تھا۔ تو میں بچی کو سول اسپتال لے گیا۔ جتنی بچی تکلیف میں تھی تو ڈاکٹر یہ خدشہ ظاہر کررہی تھی کہیں اپنڈکس پھٹ نہ گیا ہو اس نے کہا کہ الٹرا ساؤنڈ ہم کرا لیتے ہیں۔ بچی میری درد سے تڑپ رہی تھی۔ خیر۔ ساتھ ہی ایمرجنسی کے اندر الٹرا ساؤنڈ کا ڈپارٹمنٹ تھا۔ میں جلدی سے بچی کو لیکر الٹرا ساؤنڈ میں گیا۔ میں نے گیٹ بجایا۔ تو دروازہ تو نہیں کھلا لیکن سائڈ سے ایک گارڈ آیا۔ میں نے کہا کہ بچی کا الٹرا ساؤنڈ ہے۔ اس نے جواب دیا کہ جو بچی کا الٹرا ساؤنڈ کرتی ہیں۔ اس وقت وہ گئی ہیں عصر کا وقت ہونے والا ہے۔ وہ پہلے سپارہ پڑھتی ہیں۔ سپارے کے بعد وہ نماز پڑھیں گی۔ نماز کے بعد پھر آپ کا الٹرا ساؤنڈ ہو سکتا ہے۔ میں نے درخواست کی کہ دیکھیے آپ کا یہ بچی زیادہ تکلیف میں ہے تو ان کو بلا لیجیے۔ اس نے منع کر دیا۔ میں گھومتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میڈم جو اس وقت صرف وضو کرنے گئی تھیں پھر وہ نیچے آئیں میں ان کو پہچان گیا۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا میری بیٹی کو درد ہے ڈاکٹر نے کہا ہے الٹرا ساؤنڈ کر دیں۔ اس نے کہا کہ آپ رکیں پہلے میں نماز پڑھوں گی پھر الٹرا ساؤنڈ کروں گی۔ انہوں نے 15 سے 20 بیس منٹ بعد الٹرا ساؤنڈ کیا تب تک میری بچی درد سے تڑپتی رہی۔
قرآن کہتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ تو یہ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ اگر اس خاتون کی عبادت کے دوران بچی مر جاتی تو انہیں ثواب ملتا یا عذاب؟ اور ہاں! یہ بات ذہن میں رکھ کر فیصلہ کیجیے گا کہ خاتون ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہی تھیں جو بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ ہنگامی طور پر مریضوں کو فیسیلیٹیٹ کیا جا سکے۔
بہرحال، سرکاری اسپتالوں میں سہولتوں یا ڈاکٹروں کی کمی سمجھ بھی آتی ہے کیونکہ ماشاءاللہ سے پاکستان اپنی جی ڈی پی کا پورا 1.4% پر خرچ کرتا ہے۔ اس لیے کہ ہمیں دشمن کے بچوں کو بھی پڑھانا ہے، پھر ڈیجیٹل دہشتگردی سے بچنے کے لیے اربوں کی فائر وال بھی لگانی ہے۔ ایسے میں ہیلتھ سیکٹر کے لیے کچھ کیسے بچے گا؟ تو پرائیویٹ اسپتال ان حالات کا بھرپور بلکہ ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ سماجی رہنما ظفر عباس بتاتے ہیں:
ایک خاتون تھیں ان کے شوہر کووِڈ میں ایک پرائیویٹ اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے۔ اور ان کی چار بیٹیاں تھیں تو ان کو پیکج دیا گیا تھا ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا۔ کوڈ اتنا ڈراؤنا تھا جب آیا تھا کہ ہر شخص ڈرتا تھا۔ ان کو ساڑھے پانچ لاکھ کا پیکج ملا پرائیویٹ اسپتال میں انہوں نے اپنی بیٹیوں کا زیور بیچا۔ کرائے کے گھر میں رہتی تھیں۔ اپنے شوہر کو ایڈمٹ کروا دیا۔ اسپتال نے ان کا بل بنا دیا 9 لاکھ روپے۔ ہوتے ہوتے پہنچ گیا 14 لاکھ روپے۔ اسپتال کے اسٹاف نے کہہ دیا کہ اماں پیسے لے آؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم وینٹی لیٹر بند کردیں۔ وہ ڈر گئیں، بھاگی بھاگی میرے پاس آئیں۔ پھر میں اسپتال گیا اور پوچھا کہ آپ کا اسٹاف یہ کیا باتیں کر رہا ہے بھائی؟ جب آپ پیسے لے رہے ہو تو پھر پانچ لاکھ تو دے دیے۔ پھر جب ان کا بندہ ثابت ہوا کہ اس نے غلطی کی تھی تو اسپتال نے بل معاف کیا پھر جب میں نے پوچھا کہ بھئی ان کا بندہ صحیح ہو گیا جب پیسے پورے لے لیے تو انہوں نے کہا کہ وہ تو ہم نے وینٹ پر ڈال دیا۔ پھر ان کی فیملی میرے پاس آئی چھ دن بعد کہ ہمارے شوہر کی میت تو ریلیز کرا دو۔ میں نے کہا کہ وہ صحیح نہیں ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مر گئے۔ ساڑھے پانچ لاکھ بھی لیا۔ اضافی پیسوں کا بل بھی بنا۔ شوہر بھی مرگئے اب میت ریلیز کرانے کے لیے جو مزید پندرہ لاکھ بل بڑھ چکا ہے وہ؟
پاکستان میں ایک پرانا رواج ہے، ڈیزاسٹر کو اپرچونٹی میں بدلنے کا۔ اگر ایمرجنسی ہو تو یہ رکشے والے سے لے کر پرائیویٹ اسپتال تک۔ سب کے لیے کسی گولڈن چانس ہوتا ہے۔ تب یہ پیسے اپنی مرضی کے لیتے ہیں کیونکہ دینے والا مجبور ہوتا ہے۔
لوگ سرکاری اسپتالوں میں ذلیل نہیں ہونا چاہتے اس لیے پرائیویٹ اسپتال ملک میں ایک خوف ناک اور کامیاب کاروبار بن چکا ہے۔ اس میں پیسے بنانے کے کئی طریقے ہیں، علاج سستا ہے تو ٹیسٹ مہنگے۔ ٹیسٹ سستے ہیں تو دوائیں مہنگی۔ لیبارٹری بھی اسپتال میں اور فارمیسی بھی اسپتال میں۔ تو یہ سمجھ لیں کہ پرائیویٹ اسپتال چلانے والے کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑھائی میں ہوتا ہے۔
پلس انٹرنیشنل کے شوکت علی نے رفتار پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے بل، گیس کے بل، بچوں کی فیس، کسی نے ائرکنڈیشن لگانا ہے وہ لگواتے ہیں۔ یہ ’’وہ‘‘ کون ہیں؟ اس کا جواب جاننے کے لیے آپ مکمل پوڈ کاسٹ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
ظفر عباس سوال اٹھاتے ہیں:
آپ کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ ہمارے ملک میں دوائی کی کمپنی کسی بھی ڈاکٹر کو آ کر یہ کیوں بولتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب تھائی لینڈ جائیں گے؟ ڈاکٹر صاحب فیملی کے ساتھ ترکی کا وزٹ کرا دیں؟ سیون اسٹار ہوٹل ہوں گے۔ گاڑی جی ایم سی ہوگی آپ کے پاس! کیوں؟ مجھے بولو نا۔ عام آدمی کو آفر کرو۔ ڈاکٹر کو کیوں؟
سابق ممبر آف سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن ڈاکٹر محمد سلیمان اس بارے میں کہتے ہیں:
اگر ایک پروفیشنل کی حیثیت سے مجھ سے پوچھیں تو میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔ ایسے بہت سارے کیسز ہیں جو ہمارے نالج میں بھی ہیں۔ اور ہمیشہ اس حوالے سے بحث چلتی رہی۔ اور اس حوالے سے ہمارا ایک گروپ بھی بنا ہوا ہے۔ جس میں باقاعدہ یہ بحث ہوتی رہی کہ جو ڈاکٹر اور فارماسوٹیکل کمنپی کا جو نمائندہ ہے اس کا کتنا آپس میں تعلق ہونا چاہیے؟ تو یہ جو الزامات ہیں ان میں کسی حد تک سچائی ہے۔
مہنگے ٹیسٹ۔ بڑی بڑی فیسیں۔ کومپرومائزڈ دوائیں۔ بے رحمانہ رویہ۔ غفلت۔ نااہلی کے ساتھ لاکھوں روپے کا علاج۔ یہ تو بہت ہی محترم پیشہ تھا نا؟ ڈاکٹروں کو تو ’’مسیحا‘‘ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس کا کام لوگوں کی زندگیاں بچانا ہے۔ لیکن اب یہ صرف اور صرف کاروبار بلکہ ایک دھندا بنتا جا رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت کہاں ہے؟ کوئی قانون سازی کی گئی؟ اگر کی گئی تو اس پر عمل ہوا؟ کیا ایسے اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا؟
پاکستان میں ہیلتھ سے ریلیٹڈ تمام مسائل کو دیکھنے کے لیے ایک ادارہ ہے جسے ’’پی ایم ڈی سی‘‘ یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ ادارہ کتنا ایکٹو تھا اس کا اندازہ آپ کو یہ سن کر ہو جائے گا کہ ماضی میں کسی کو پان کا کیبن بھی کھولنا ہو تو کے ایم سی سے اجازت لازم تھی مگر پرائیویٹ اسپتال یا کلینک کھولنے کے لیے کسی سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ویسے بھی پی ایم ڈی سی پریکٹیکلی اتنے سارے معاملات کو ڈیل نہیں کر سکتا تھا۔ ملک بھر کے ڈاکٹروں کو لائسنس جاری کرنا، میڈیکل کالجز کا فیس اسٹرکچر دیکھنا، سرکاری اسپتالوں کو ریگولیٹ کرنا یہ سب پی ایم ڈی سی کی ذمہ داری تھی۔ اس طرح گورنمنٹ اسپتال تو ریگولیٹ ہو رہے تھے مگر پرائیویٹ اسپتالوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا مگر پھر پنجاب، کے پی اور اس کے بعد 2018 میں سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن ڈپارٹمنٹ بنا۔ اگر اختیارات اور قانون دیکھے جائیں تو لگے گا کہ یہ ادارہ بنانے کا مقصد تو بہت اچھا تھا مگر 71 سالوں کا بوجھ محدود اختیارات کے ساتھ انتہائی کم بجٹ میں اٹھانا، بہت مشکل کام تھا۔
سی ای او سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن ڈاکٹر احسن صدیقی کہتے ہیں:
جناح اسپتال کا نام سنا ہے؟ وہاں اس وقت بھی 350 نوکریاں خالی ہیں مگر کیونکہ بجٹ نہیں ہے اس لیے وہاں ریسورسز ہائر نہیں ہو رہے۔ یہی ہمارا مسئلہ ہے۔ ملک کو بنے ہوئے ستتر سال ہو گئے۔ ہیلتھ سسٹم ستتر سال سے چل رہا ہے۔ ہمیں بنے ہوئے چھ سال ہوئے ہیں۔ کیا ستتر سال کا سسٹم چھ سال سے ٹھیک ہو سکتا ہے؟ وقت لگے گا۔ ہاں ہماری پروگریس ہے۔ جب ہم نے اسٹارٹ کیا تھا تو وہ لوگ آہستہ آہستہ بڑھ گئے۔ 155 کے قریب لوگ ہو جائیں گے۔ اگر آپ اسپیڈ کی بات کریں گے تو میں مطمئن ہوں۔
سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے موجودہ سی ای او ڈاکٹر احسن صدیقی تو اپنے ادارے کی کارکردگی سے بالکل مطمئن ہیں مگر اس کے سابق فاؤنڈنگ ممبر تو کچھ اور ہی سوچتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیمان کہتے ہیں:
ہم تو ابتدائی طور پر آئے تھے، ہمارا کام ان کو ریگولیشن بنا کر دے دینا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ہم زیادہ ان کے ساتھ کام کرتے۔ وہ ان کا اپنا پوائنٹ آف ویو ہو سکتا ہے، میں اس میں نہیں جا رہا۔ لیکن اگر ہمیں یہ نظر آئے کہ یہ صحیح ڈائیریکشن میں کام ہو رہا ہے اور صحیح کام ہو رہا ہے کچھ بہتر ہو گیا، کچھ بہتر ہو گیا، کچھ بہتر ہو گیا، اور ہمیں نظر آنے لگا تو ہم کہیں کہ ہاں جی ماشاءاللہ چیزیں ہو رہی ہیں۔ وہ میں سمجھتا ہوں کہ اتنی افیکٹیو نظر نہیں آ رہیں۔
یہی نہیں، امل کیس میں سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن گئی نیشنل میڈیکل سینٹر گئی اور وہاں کا سروے کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کروائی تو جج صاحب نے وہ رپورٹ پڑھ کر کہا:
اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ وہاں پر صرف چائے پینے گئے تھے؟ جب اتنا بڑا کیس ہوا ہے اتنا بڑا سانحہ ہوا ہے۔ بات سپریم کورٹ تک گئی ہے تو آپ سروے کیا کر کے آئے ہیں؟
کیونکہ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس اسپتال میں ایمرجنسی روم کہاں ہے۔ بہرحال، ایک طرف ادارہ بن گیا، قانون بن گیا، اختیارات مل گئے، فنڈنگ بھی ہو گئی۔ اور دوسری طرف بڑے بڑے انوسٹرز اپنا پیسہ پرائیویٹ اسپتالوں میں لگا رہے تھے۔ اب لازمی سی بات ہے کہ جب کوئی بزنس مین کسی ادارے میں پیسہ لگائے گا تو کس لیے؟ پرافٹ کے لیے! ہوا بھی وہی۔
ظفر عباس اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
آپ فائیو اسٹار ہوٹل کا سپر ڈیلکس روم لے لیں کتنے کا ہوگا؟ پچاس ہزار؟ پرائیویٹ اسپتال کا روم اس سے مہنگا ہے۔ کیا کمال ہے بھائی وہاں ہنی مون منانے آئے ہیں؟ ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے۔ آپ روم کے اتنے پیسے چارج کر رہے ہو؟
سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے سی ای او ڈاکٹر احسن صدیقی اس کا جواب یوں دیتے ہیں:
ہمارے ایکٹ میں ایسا کوئی اختیار نہیں کہ ہم پرائس کنٹرول کر سکیں۔ پرائیویٹ اسپتال ہیلتھ کیئر کے ساتھ ساتھ ایک بزنس ہے۔ آپ نے ایک اسپتال بنایا۔ آپ کا مقصد مریضوں کی صحت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ آپ نے پیسے کما کر ایک بزنس کرنا ہے۔ آپ ایک رقم مقرر کرتے ہیں کہ میں ہرنیا کا آپریشن پچاس ہزار میں کروں گا۔ برابر میں ایک اسپتال ہے وہ کہتا ہے کہ میں تیس ہزار میں کروں گا۔ اس کے برابر والا اسپتال کہتا ہے میں تین لاکھ میں کروں گا۔ تو آپ تین لاکھ والے کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ یہ آپ کی چوائس ہے۔ کیا تین لاکھ والا آپ کے گھر جا کر کہتا ہے کہ میرے اسپتال میں آپریشن کراؤ؟ نہیں؟ آپ اپنی پسند سے جاتے ہیں۔
سابق ممبر آف سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن ڈاکٹر سلیمان کہتے ہیں:
بہت سارے ایسے لوگ تھے جن کا میڈیکل فیلڈ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انوسٹرز تھے، ان کے پاس پیسہ تھا اور انہوں نے جگہ لی اور اسے اسپتال ڈکلیئر کر دیا۔ ابھی بھی کچھ انوسٹرز ہیں جو یہ کر رہے ہیں وہ اسپتال لے کر چلا رہے ہوتے ہیں۔ ابھی بھی کچھ ایسے اسپتال ہیں جو میرے نالج میں ہیں جہاں بہت سارے سرمایہ دار ہیں جو آپ کے اسٹاک ایکسچینج کے ممبرز ہیں۔ ایک نان ڈاکٹر آدمی اگر مجھ سے توقع رکھ رہا ہے تو ظاہر ہے وہ مجھے تو کہے گا کہ ظاہر ہے اس کے بیس یا دس ٹیسٹ تو ہونے چاہیں۔ اور ایسا ہوا بھی تو میں نے تو ان جگہوں سے پریکٹس ختم کرلی۔
ڈاکٹر محمد سلیمان کے مطابق سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے پاس پرائیویٹ اسپتالوں کے ٹیسٹ کی قیمتیں ریگولیٹ کروانے کے اختیارات موجود ہیں جبکہ ڈاکٹر احسن صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ وہ پرائس کنٹرول کرنے کی پاورز نہیں رکھتے۔ لیکن جو بھی ہے، پرائیویٹ اسپتال والے زیادہ پیسے اس لیے چارج کر رہے ہیں کہ پیچھے جو پرائیویٹ اسپتال کا مالک ’’بزنس مین‘‘ بیٹھا ہے اسے تو اپنے کاروبار میں منافع چاہیے۔ بس!
جیسے میڈیا میں کچھ صحافی بھاری تنخواہوں اور مالکوں کو خوش کرنے کے لیے ’’سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپتے ہیں۔ اپنے قلم سے صحافت کا چہرہ بگاڑتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی کچھ ڈاکٹروں بھی کر رہے ہیں۔ ان ساری باتوں میں آپ بھول تو نہیں گئے کہ ہیلتھ سیکٹر پر کتنا پیسہ لگتا ہے؟ جی ڈی پی کا صرف 1.4%۔ اس ڈیڑھ پرسنٹ میں بھی کرپشن اور سیاست کے الزامات لگتے رہیں، تو پھر آپ ایک کیا، جتنے چاہے کمیشن اور بنا لیں، ان کا حال بھی ایبٹ آباد کمیشن اور حمودالرحمان کمیشن جیسا ہی ہوگا۔
ویسے یہ رپورٹ بنانے کے لیے میں نے پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے ہیلتھ کمیشن سے بھی رابطے کیے۔ ان کے نمائندوں سے بات کرنے کی کوشش کی، کالز بھی کیں، میلز بھی کیں۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ مگر ان صوبوں کے ہیلتھ کمیشنز کی ویب سائٹ دیکھیں تو نظر آ جائے گا کہ کتنی کمپلینز کی گئیں اور کتنی پر ایکشن ہوا۔
سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے سی ای او ڈاکٹر احسن صدیقی کہتے ہیں:
ہمارے پاس اب تک 350 کے قریب شکایات آئیں۔ 350 کے قریب شکایات میں سے 205 حل کر دیں۔ آج تک جتنی بھی شکایات آئیں ان میں سے 52 فیصد غلط اور 48 صحیح تھیں۔
سرکاری اسپتالوں میں جائیں تو پہلے دھکے کھائیں کیونکہ صحت کا بجٹ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ بیڈز کم مریض زیادہ ہیں۔پرائیوٹ اسپتالوں میں جائیں تو جس کا جتنا دل چاہے اتنی فیس لے۔ کیونکہ یہ بزنس بھی ہے۔ کسی سستے اسپتال جائیں تو مریض کی جان داؤ پر لگائیں۔ ڈاکٹروں اور فارماسوٹیکل کمپنیاں کے خلاف ایکشن لینے والا ادارہ ڈریپ ہے مگر اس کے پاس بھی فورس نہیں۔ کمیشن بھی ہے مگر فنڈز اور اختیارات نہیں۔ قانون بھی ہے مگر نفاذ نہیں۔ اسی قانون میں مزید بہتری کرنی ہو تو امل اور نِشوا کے والدین کی طرح سسٹم سے لڑنا پڑے گا۔
نیا، پرانا یا ہمارا پاکستان ہو، بد قسمتی سے کمپنی یہی چلے گی!