کبھی آپ نے کھلے آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کو غور سے دیکھا ہے؟ بہت بھلے لگتے ہیں۔ روشنی بکھیرتے، جگ مگ کرتے لاکھوں ستارے۔ جیسے کسی بڑی سے چادر پر ہیرے بکھرے ہوئے ہوں۔ تا حد نظر، قطار در قطار۔ لا تعداد بے شمار۔ مگر ذرا غور کریں تو چند ایک کی چمک اوروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بلکہ ان میں سے ’’ایک‘‘ تو باقی سب سے منفرد نظر آتا ہے۔ زیادہ بڑا، زیادہ چمکدار۔ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ باقیوں سے مختلف ہے۔ کیونکہ اُس کی اپنی روشنی اسے سب میں ممتاز کر رہی ہوتی ہے۔ اس کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہوتا۔

عمر شریف بھی ایک ایسا ہی ستارہ تھا۔ سب سے الگ، سب سے نمایاں۔ سب سے روشن۔ آج رفتار عمر شریف کی زندگی کے اُن پہلووں کو ان فولڈ کرنے جا رہا ہے جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ کس طرح لالو کھیت کی گلیوں میں بھٹکنے والا ایک یتیم بچہ اپنے عہد میں اردو زبان کا کامیاب ترین کامیڈین بن گیا۔ ایک ایسا شخص جس کے ذکر کے بغیر نہ تو پاکستان میں اردو تھیٹر مکمل اور نہ اسٹینڈ اپ کامیڈی۔ نہ اسٹیج کمپئیرینگ کی بات پوری اور نہ مزاحیہ ڈرامہ نگاری کی تاریخ۔ ہم آج اس عمر شریف کی بات کریں گے جو لوگوں کو ہنسا ہنسا کر رُلا دینے کا ہنر جانتا تھا۔ ہم آج اس عمر شریف کو یاد کریں گے جس کے کہے کامیڈی ڈائیلاگز سے ہماری یادیں سالوں گزر جانے کے بعد بھی مہک رہی ہیں۔

چار کھڑکیوں کے بعد یہ آج اُس کا تیسرا دروازہ ہے، سیکڑوں ٹانکے لگ چکے ہیں لیکن درجنوں اب بھی باقی ہیں۔ ویلڈنگ کے اس مشکل کام سے پہلے گھن چلانے اور لوہے کی سلاخیں سیدھی کرنے کی وجہ سے اس کی ہتھیلیوں پر سوجن ہے، لیکن پیٹ ساتھ لگا ہوا ہے۔ کم عمری میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد کوئی اور آپشن بھی نہیں۔

مگر ڈبل شفٹ کرنا عمر کی مجبوری تھی۔ وہ سب کچھ چھوڑ سکتا تھا لیکن سنیما نہیں۔ اگلا روز جمعے کا تھا اور اُسے پورا دن سنیما میں گزارنا تھا۔ مسکہ بن کھانا تھا، محمد علی کے ڈائیلاگز پر سیٹی بجانی تھی، سوڈے کی بوتل پینی تھی۔

سنیما میں گونجتے ڈائیلاگز، لالو کھیت کی گلیوں کی اپنائیت اور شاید والد کی ایبسیسن نے عمر شریف کو منہ پھٹ، یا یوں کہہ لیجیے کہ ہر بات پر فوری رسپانس دینے والا بنا دیا۔ یہ نوجوان بجلی کی طرح تیز تھا، برجستہ تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلا کی آبزرویشن رکھنے والا۔ ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی واقعہ عمر کی موجودگی میں ہو اور وہ اس میں سے مزاح کا پہلو نکال کر فوری رسپانڈ نہ کرے۔ کچھ دوستوں نے ہمت بندھائی تو یہ صلاحیت عمر کو تھیٹر لے آئی۔ قسمت نے کہا عمر بیٹا۔ چلو قسمت سنیما چلو۔

کہاں لوہے سریے کا جسم توڑ کام اور کہاں لوگوں کو ہنسانے کا لطیف جذبہ۔ عمر شریف کے لیے یہ ٹرانزیشن جلتے توے سے اٹھ کر پھولوں کی سیج پر بیٹھنے جیسی تھی، لیکن آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ تھیٹر کا آغاز سولہ سالہ عمر شریف نے بطور کامیڈین یا ایکٹر نہیں بلکہ ایک سنجیدہ ڈرامہ لکھنے والے رائٹر کے طور پر کیا۔ اور رائٹر بھی ایسا غصے والا جسے اپنی لکھی لائنوں پہ تنقید کا ایک لفظ برداشت نہیں۔

پرویز مظہر نے بتایا کہ اس زمانے میں ڈرامہ کیا ’’ڈولی‘‘ لیکن اس میں ایک سین خراب ہو گیا اور ہوٹنگ سے معاملہ اور بگڑ گیا۔ دلبرداشتہ اور ٹوٹے ہوئے عمر شریف کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فرقان حیدر کو پرویز مظہر نے اسٹیج بھیجا۔ ڈولی فلاپ تو ہوا لیکن ہمت بڑھانے کے لیے وہاں موجود سینئیرز نے عمر شریف کو ایک تحفے سے نوازا۔

فرقان حیدر ایک ماہر جوہری کی طرح ہیرا پرکھ چکے تھے اور اب باری تھی اِسے تراشنے کی۔ لیکن یہاں میدان خالی نہیں تھا، اس زمانے میں کراچی کے تھیٹر پر جس ور سٹائل فنکار کا راج تھا اس کا نام تھا معین اختر۔

اب ایک کچھار میں دو شیر کیسے رہ سکتے تھے۔ معاملات بگڑنے لگے۔ کامپی ٹیشن تو رہتا ہے مگر بڑے دل والوں کے لیے انفرادی کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جس روز خدا داد صلاحیتوں اور فنی اعتبار سے بڑے پن کا احساس ہو گیا، عمر شریف نے اُسی روز معین اختر کے آگے سرنڈر کر دیا۔ حالانکہ عمر شریف اپنے طور پر یقین دہانی کروا چکے تھے لیکن معین بھائی کو گارنٹی چاہیے تھی۔ کوئی اور ہوتا تو بات مختلف تھی لیکن عمر شریف کے معاملے میں وہ کوئی رسک لینا نہیں چاہتے تھے۔ خیر اس کے بعد دوستی ہو گئی۔ ڈولی کے اسکرپٹ سے بے حد متاثر معین اختر نے تھیٹر کے لیے لکھنے لکھانے کا سارا کام عمر شریف کو سونپ دیا۔

جواب میں جو بہت ساری باتیں معین اختر نے عمر شریف کو سکھائیں ان میں یہ سبق بھی شامل تھا کہ اسٹیج پر اپنا حلیہ بہتر کھو۔ اچھے نظر آؤ۔ اچھی زبان استعمال کرو۔ وہ سبھی فنکاروں سے کہتے کہ اگر اچھا کام پکڑنا ہے تو تھوڑی بہت انگریزی سیکھنا ضروری ہے۔

خیر وقت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ عمر شریف کی آڈیو کیسیٹس دھڑا دھڑ مارکیٹ میں آ رہی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لی جا رہی ہیں۔ اس دوران پاکستان ٹیلی ویژن کے سینیئر رائٹر ڈائریکٹر شعیب منصور نے اپنے وقت کے کامیاب ترین کامیڈی پروگرام ففٹی ففٹی میں عمر سے کچھ اسکٹس ریکارڈ کروائے۔

لیکن یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ شاید عمر شریف کو ٹی وی اور ٹی وی کو عمر شریف سمجھ نہیں آئے۔

دوسری طرف اسٹیج پر عمر شریف نے اپنی محنت دگنی کر دی۔ حالانکہ وہ لوگوں میں آل ریڈی مقبول ہو رہا تھا لیکن نئے سے نئے تجربات، اچھے سے اچھا اسکرپٹ اور پبلک کی پسندیدگی کا خیال رکھ کر پروڈکشن ڈیزائن کرنا عمر کو سب سے منفرد بنا رہی تھا۔

پبلک تو عمر شریف کو سپورٹ کر ہی رہی تھی لیکن اُس کے پڑوس میں رہنے والی ایک لڑکی کے لیے ہر ڈرامہ ’’مسٹ واچ‘‘ بن گیا۔ عمر شریف کی آنکھیں بھی سیکڑوں فینز کے درمیان۔ اُسی لڑکی کو تلاش کرنے لگیں۔

اچھا ایسا بھی نہیں کہ اس دور میں عمر شریف کا ہر ڈرامہ ہی کامیاب ہوا ہو۔ وہ تھیٹر پر فلاپ بھی ہوئے اور وجہ شاید مسلسل نئے تجربات کرنا۔

اس ڈرامے میں بہروز سبزواری نے جاوید شیخ کا بھی ذکر کیا جن سے متعلق عمر شریف کا ایک لطیفہ بہت مشہور ہے۔

خیر۔ نئے تجربات کے ساتھ ساتھ عمر شریف کا رویہ بھی بعض اوقات ضرورت سے زیادہ سخت ہو جایا کرتا تھا، وہ پبلک کو ہنسانے کے لیے آرٹسٹوں کو سچ مچ زور دار تھپڑ دے مارتے۔ پرانے لوگوں کو تو پتہ تھا لیکن نئے آرٹسٹ گھبرانے لگے، خود عمر شریف کو بھی اس بات کا احساس ہونے لگا تھا۔

تخلیقی ذہنوں پر کریئیٹیوٹی ڈرین آنا فطری بات ہے۔ عمر شریف پر جب یہ کیفیت طاری ہوتی تو وہ گوشہ نشینی اختیار نہیں کرتا بلکہ کریئیٹوٹی کا چینل تبدیل کر لیتا۔

وہاں سے ایکسپیرئینس لینا تو خیر اپنی جگہ۔ لیکن اس پریکٹس کے پیچھے چھپے فارمولے کو سمجھیے۔ ایک بالکل مختلف ماحول سے واپس آنے والا عمر شریف جب دوبارہ کاغذ قلم اٹھاتا ہے تو پھر بکرا قسطوں پہ اور بڈھا گھر پہ ہے جیسے سوپر ہٹ ڈرامے وجود میں آتے ہیں۔

لگتا یہی ہے کہ بکرا قسطوں پہ بہت پلاننگ اور عوامی پسندیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ لکھا گیا لیکن کہانی اس سے بالکل مختلف ہے۔

کچھ یہی ماجرا ’’بڈھا گھر پہ ہے‘‘ کا بھی ہوا۔ ابتدا میں ڈرامے کا جو اسکرپٹ لکھا گیا اس میں نہ تو بڈھے کا کوئی ذکر تھا اور نہ ہی اس کے گھر کا۔ بلکہ یہ شاہکار تھیٹر پلے بھی عمر شریف کے ایک انسٹنٹ تجربے کی پیداوار تھا۔

’’بڈھا گھر پہ ہے‘‘ اور ’’بکرا قسطوں پہ‘‘ نے عمر شریف کو راتوں رات اتنی شہرت دلوا دی جتنی شاید ایک تھیٹر آرٹسٹ ساری زندگی محنت کرنے کے بعد بھی حاصل نہیں کر پاتا۔ پاکستان تو پاکستان بھارت کے ماسس میں بھی انکی مقبولیت اس قدر بڑھی کہ وہاں کے مقامی فنکار عمر شریف کو کاپی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

جس دور کی یہ بات ہو رہی ہے اس دور میں پنجاب عمر شریف طرز کے تھیٹرز کی نعمت سے محروم تھا۔ البتہ پنجاب کے بڑے کامیڈینز عمر شریف سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ اس کی کامیابی پر رشک کر رہے تھے۔

لیکن جناب بڑے دل والوں میں یہ ٹریفک ون وے نہیں ٹو وے چلتا ہے۔ سینیئر کامیڈین خالد عباس ڈار کی اگر نوجوان عمر کے لیے اس درجے پر ایکسیپٹنس ہے تو عمر شریف بھی اپنی بے پناہ شہرت اور بلند تھیٹر کل قد کے باوجود پنجابی جگت کلچر پر فریفتہ ہے۔

ایک منٹ۔ آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ عمر بھائی کا اصل نام عمر شریف نہیں بلکہ محمد عمر تھا۔ یہ شریف کہاں سے آیا۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجیے!!

اللہ میاں سے مانگا۔ اور اللہ میاں نے دے دیا۔ عمر بھائی کا اللہ میاں سے ہمیشہ بہت خاص تعلق رہا۔ چھوٹی عمر میں جب انہیں والد اور بھائیوں کی سپورٹ حاصل نہیں ہوئی تو اس سپورٹ کا مطالبہ انہوں نے پوری دیانت داری کے ساتھ اللہ میاں سے کرنا شروع کر دیا۔

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار۔ لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا۔ عمر شریف کے دل و دماغ میں یہ خیال تھا محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ کا کہ جن کا ذکر آتے ہی دنیا کو ہنسانے والا بچوں کی طرح رونے لگتا۔

عمر شریف نے اپنے کیرئیر میں ہزاروں افراد کی پیروڈی کی ہوگی لیکن چند ایک شخصیات کی نقل وہ اس خوبی سے کیا کرتے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ جیسے ادا کار محمد علی، کرکٹ جاوید میانداد، خاں صاحب مہدی حسن اور عزیز میاں قوال مرحوم۔

اسی طرح ہر عمر کی خواتین کو لے کر انکی آبزرویشن اور پھر ڈائیلاگ ڈیلیوری ناقابل یقین تھی۔

ہم آگے بات کرنے جا رہے ہیں تھیٹر کے علاوہ ایک اور بہت بڑے میدان کی جو عمر شریف نے ڈرامائی انداز میں مارا لیکن اس سے پہلے بات۔ کچھ ان کے خاص شاگردوں کی۔ شکیل صدیقی سے لے کر رؤوف لالہ تک ایک طویل فہرست ہے جن کو اسٹیج پر عمر شریف کا ساتھ نصیب ہوا۔ لیکن ایک شاگرد ان کے دل کے بہت قریب رہا۔ حالانکہ وہ ان کی پوری پوری لائنز چرا لیا کرتا تھا۔

تھیٹر، کمپیئرنگ اور پیروڈیز کے محاذ سر کرنے کے بعد عمر شریف کو اپنی پہلی محبت یعنی سنیما کی یاد ستانے لگی۔ وہ خود کو بڑے پردے پر ہیرو دیکھنا چاہتے تھے لیکن یہ کام کسی تجربہ کار اور قابل اعتماد ساتھی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ یہاں ایک بار پھر معین بھائی نے ہاتھ تھاما لیکن اس شرط پر کہ پہلی فلم تم ہیرو نہیں بلکہ کامیڈین اور کو پروڈیوسر کے طور پر کرو گے۔

یوں عمر شریف نے کام روک دیا۔ تھیٹر کو بھی اسٹاپ لگا دیا جو بکرا قسطوں پر اور بڈھا گھر پہ ہے کہ بعد انکے لیے سونے کے انڈے دینی والی مرغی بنا ہوا تھا۔ ان کے سر پر صرف اپنی فلم مسٹر چار سو بیس بنانے اور اسے کامیاب کرنے کی دھن سوار تھی خواہ اس کے لیے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے!!

عمر شریف نے کسی کا بریف کیس ایکسیپٹ نہیں کیا۔ کوئی فون نہیں سنا، کوئی سفارش منت سماجت قبول نہیں کی۔ انہوں نے ایک ماہر ویلڈر کی طرح اپنی فلم کے سرے مضبوطی سے جوڑنے شروع کر دیے۔ جتنا یقین انہیں اپنی کہانی پر تھا اتنا ہی اعتماد بابرہ شریف پر بھی۔

آپ نے وہ ڈائیلاگ سنا ہے۔ سڑک سے اٹھا کر اسٹار بنادوں؟ روبی نیازی کے ساتھ بھی بالکل یہی ہوا۔ مجھے کوئی نہیں جانتا سے مجھے پورا پاکستان جاننے لگا ہے تک کا سفر روبی نے مسٹر چار سو بیس کے ذریعے ایک دن میں ہی کر لیا۔ لیکن جاوید فاضل اور بابرا کے بعد عمر شریف کو سیدھا ہالی وڈ سے ٹکر دینے آ پہنچا آرنلڈ شراوزنیگر۔

اور پھر پاکستان نے دیکھا کہ کھڑکی توڑ رش کیا ہوتا ہے، کامیابی کسے کہتے ہیں۔

جاوید فاضل؟؟ وہی جنہوں نے عمر شریف کے سین کاٹے تھے اپنی فلم سے؟ ان سے تو ناراضی نہیں تھی عمر بھائی کی؟

تھیٹر تک تو ٹھیک تھا لیکن مسٹر چار سو بیس کی اس لیول پر کامیابی کی خبر جب بھارت پہنچی تو وہاں کے پروڈیوسرز کے کان کھڑے ہو گئے۔

عمر سے پہلے معین اختر کا بھی بھارت آنا جانا لگا ہوا تھا اور وہ اُسے وہاں کام کرنے کے طریقہ کار اور ماحول سے آگاہ کرتے رہتے تھے لیکن بہرحال، دونوں کے مزاج میں فرق تو تھا۔

اسی بیچ عمر کے منہ سے کچھ ایسا نکل گیا جس نے پڑوسی ملک کے چھوٹے دل رکھنے والے انتہا پسندوں کو اس بڑے دل والے فنکار کے خلاف ایک جواز فراہم کر دیا۔

بال ٹھاکرے نے عمر بھائی کو اپنا دشمن مان کر ملک سے نکلوایا تو ایک بھارتی شخصیت ایسی بھی تھی کہ جس کے ساتھ دوستی نے عمر شریف کے لیے اس ملک میں رہ کر کام کرنا مزید مشکل بنا دیا۔

اس دوران عمر شریف کو بالی وڈ کے فلمی ایوارڈ کے لیے بھارت مدعو کیا جاتا رہا۔ عوام تو دیوانی تھی ہی، بالی وڈ کے تقریباً ہر بڑے ادا کار کی آنکھوں میں عمر شریف کے لیے پسندیدگی دیکھی جا سکتی تھی۔

فلموں کا چیپٹر تو کلوز ہوا لیکن ایوارڈ شوز کے ساتھ ساتھ بھارتی پروڈیوسرز نے ٹی وی پر لافٹر شوز کے لیے کسی نہ کسی طرح مقامی حلقوں کو عمر شریف کے حق میں قائل کر لیا۔ ویسے بھی یہ بات سب جانتے تھے کہ پاکستان ہو یا بھارت۔ عمر شریف کے نام پر پبلک پیسے ضرور نکالے گی۔ اسی مناسبت سے شو کا نام رکھا گیا اب کون بنے گا عمر شریف۔

لین دین کے معاملات میں بھی عمر شریف کو انڈیا سوٹ نہیں کیا۔ یوں بھی وہ کبھی پیسے کے پیچھے نہیں گئے بلکہ ہمیشہ پیسے نے عمر شریف کا تعاقب کیا۔

لاہور سے یاد آیا کہ عمر شریف پنجاب آیا۔ اُس نے دیکھا اور فتح کر لیا۔ ڈیمانڈ اتنی زیادہ تھی کہ عمر شریف کو اپنا تھیٹر خریدنا پڑ گیا۔ اور اس تھیٹر کا افتتاح بالکل شاہی انداز میں کیا گیا۔

لیکن لاہور شفٹ ہونے کی وجہ صرف مداحوں کا مطالبہ اور محبت ہی نہیں تھی۔ خود عمر شریف بھی امان اللہ کی طرح پنجابی زبان میں کامیڈی کرنے والے ایک آرٹسٹ کی محبت بلکہ یوں کہیے عقیدت میں لڑکپن سے گرفتار تھے۔

منور ظریف سے محبت، امان اللہ سے محبت۔ پنجاب سے سندھ سے، پاکستان بھر کے لوگوں سے اور دنیا بھرمیں بسنے والے اپنے فینز سے محبت ایک طرف اور حرا سے محبت ایک طرف۔ وہ جتنی زیادہ اپنی بڑی بیٹی سے محبت کرتے تھے وہ اتنی ہی جلدی انہیں چھوڑ کر چلی گئی۔

حرا کی موت کیسے واقع ہوئی اور عمر بھائی نے کس شدت کے ساتھ اس کا اثر لیا یہ آگے چل کر آپ کو بتائیں گے لیکن اس سے پہلے تذکرہ شکیلہ قریشی کا۔ جن سے شادی کے بعد عمر شریف کی پنجاب پر گرپ ڈھیلی پڑنے لگی۔

سیاست سے یاد آیا۔ عمر بھائی نے پالیٹکس میں بھی حصہ لیا۔ ملک کی ہر دوسری سیاسی جماعت انہیں اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کرتی لیکن ایک تو کراچی اوپر سے لالو کھیت۔ اب عمر شریف کہاں کسی اور کے پاس جاتے۔ قسمت دیکھیے کہ ایک صوبے کی اسمبلی میں عمر شریف کو نشست آفر ہو رہی تھی تو دوسرے صوبے کا ایوان انکے خلاف تحریکیں پیش کر رہا تھا۔

دیگر سیاستدانوں کی طرح بی بی شہید بے نظیر بھٹو کو بھی عمر شریف پسند تھے۔ اور جب انہیں پسند تھے تو پھر زرداری صاحب کو کیوں نہ ہوتے؟

جب سب کی بات ہو رہی ہے تو عمران خان صاحب کی کیوں نہ ہو۔ عمر شریف نے شوکت خانم اسپتال کی فنڈ ریزنگ تقاریب میں عمران خان کا بہت ساتھ دیا۔

اس دوران عمر شریف کی طبیعت خراب ہوئی اور انہیں اسپتال منتقل ہونا پڑا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ کوئی آئے نہ آئے عمران خان ان کی عیادت کو ضرور آئیں گے۔

خیر کیا عمران خان، کیا زرداری صاحب اور کیا عام آدمی۔ سب ہی عمر شریف کو پسند کرتے تھے۔ لیکن حرا کی موت سے عمر شریف کو جو صدمہ پہنچا اُس نے اِس حساس آدمی کی بنا دیں ہلا دیں۔

لاہور کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ کر آنے والا عمر شریف وہ عمر شریف تھا ہی نہیں جو یہاں سے گیا تھا۔ یہ تو کوئی اور شخص تھا، بیماریوں میں گِھرا ہوا، حرا کی یادوں میں گُم۔ نہ آنکھوں میں وہ پہلے جیسی مستی۔ نہ باتوں میں وہ پہلے جیسا جادو۔ بقول فراز،

چراغ جاں کو کہاں تک بچا کے ہم رکھتے
ہوا بھی تیز تھی منزل بھی چل چلاؤ کی تھی

اصل عمر شریف تو شاید حرا کے ساتھ جا چکا تھا۔ اب جو جسم باقی تھا اسے چلتا پھرتا رکھنے کے لیے اہل خانہ اور ڈاکٹروں نے کوششیں تیز کر دیں۔ بہتر علاج کے لیے عمر بھائی کو بیرون ملک لے جانے کا مشورہ ہوا لیکن دونوں فیملیز میں ٹھن گئی۔ اس بیچ بہت سارا قیمتی وقت ضائع ہوا۔

حالانکہ فیصلہ امریکا لے جانے کا ہی ہوا لیکن اس میں سب بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اتنا لمبا سفر عمر شریف جیسا کریٹیکل مریض سیٹ ہر بیٹھ کر نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا ضرورت پڑی ائیر ایمبولنس کی۔

جرمن ڈاکٹرز کا خیال یہی تھی کہ ڈائیلاسز کے بعد ان کی حالت سنبھل جائے گی اور وہ امریکا سفر کے قابل ہو جائیں گے لیکن اوپر والے کی جانب سے بلاوا آ چکا تھا۔ سفر تو در پیش تھا لیکن اب عمر شریف کی منزل کوئی اور تھی۔

لڑے تو اور بھی بہت ہوں گے اُس رات یہ خبر سننے کے بعد اپنے آپ سے۔ بڑی مشکل پیش آئی ہوگی یقین کرنے میں۔ لیکن جو آیا ہے بہرحال اس نے جانا تو ہے۔ زیادہ تر خاموشی سے آتے ہیں، خاموشی سے چلے جاتے ہیں۔ لیکن عمر شریف جیسے چند ایک اس شان سے آتے اور جاتے ہیں کہ زمانہ دیکھتا ہے۔

دولت شہرت عزت۔ زندگی گزارتے ہوئے یہ سب تو ملا ہی ملا۔ لیکن قسمت دیکھیے کہ جس مبارک جگہ آخری آرام گاہ چاہی۔ مرنے کے بعد اللہ نے وہ بھی عطا کر دی۔

آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کو غور سے دیکھا ہے؟ ہمیشہ ایک ستارہ سب سے بڑا اور سب سے روشن نظر آتا ہے۔ عمر شریف ایسا ہی ستارہ تو تھا۔ ایسے ستاروں کی روشنی ان کے غائب ہو جانے کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ یہی روشنی انہیں اور ان کی یادوں کو زندہ رکھتی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں