پاکستان کے عدالتی نظام میں ہمیشہ سے ایسی شخصیات سامنے آتی رہی ہیں جو تاریخ کے اوراق میں مختلف زاویوں سے درج ہوتی ہیں۔ انہی میں سے ایک نام چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ہے۔ ان کے فیصلوں، عدالتی کردار، اور نظام پر ان کے اثرات پر تفصیلی گفتگو جاری ہے۔ جہاں ایک طبقہ انہیں عدلیہ کی آزادی کا ضامن سمجھتا ہے، وہیں دوسرا انہیں جانبداری اور مخصوص سیاسی مفادات کا حامی قرار دیتا ہے۔

رفتار پوڈ کاسٹ میں اس موضوع پر روشنی ڈالنے کے لیے سینئر وکیل اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنما معیز جعفری شریک ہوئے۔ گفتگو کا آغاز اس سوال سے ہوا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا عدالتی کردار کیوں اتنا اہم اور متنازع ہے؟

معیز جعفری نے اس نکتے پر کھل کر بات کی کہ قاضی فائز عیسیٰ کے کئی فیصلے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی( کے لیے مشکلات کا سبب بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں پی ٹی آئی کی درخواستوں کو مسلسل تاخیر کا سامنا رہا۔ سب سے اہم فیصلہ جنوری 13 کو سامنے آیا جب پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ معیز نے مزید وضاحت کی کہ یہ صرف "ایک فیصلہ" نہیں تھا بلکہ اس کے اثرات پورے سیاسی منظرنامے پر مرتب ہوئے۔

اس گفتگو میں قاضی فائز عیسیٰ کے ان عدالتی اقدامات کا بھی ذکر آیا جو بظاہر غیر سیاسی معاملات میں کیے گئے لیکن ان کے اثرات سیاسی طور پر محسوس کیے گئے۔ مثال کے طور پر منال ریسٹورنٹ کیس کے فیصلے کو "معاشرتی انصاف" کا اقدام کہا گیا، مگر معیز کا کہنا تھا کہ ایسے فیصلے "میک اپ" کے مترادف ہیں جو ان کے متنازع فیصلوں کا توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گفتگو میں یہ سوال بھی اٹھا کہ کیا فائز عیسیٰ صاحب نے ذاتی عناد کی بنیاد پر کچھ فیصلے دیے؟ معیز جعفری کا کہنا تھا کہ یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب پی ٹی آئی کی حکومت نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ اس وقت جو کچھ ان کے ساتھ ہوا، وہ یقیناً غیر منصفانہ تھا، مگر اس کے بعد جو ردعمل آیا، وہ بھی اعتدال سے ہٹ کر نظر آتا ہے۔ قاضی صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے فیصلے عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف واضح جھکاؤ رکھتے تھے، اور یہی وجہ ہے کہ انہیں "نظام کا ضامن" کہا جا رہا ہے کیونکہ ان کے فیصلے حکومت وقت کے حق میں گئے۔

پوڈ کاسٹ میں اس بات پر بھی بات ہوئی کہ قاضی فائز عیسیٰ کے بعد منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر جیسے ججز کا کیا کردار ہوگا؟ حالیہ معاملات میں ان دونوں ججز نے کئی بینچز میں بیٹھنے سے انکار کیا، جسے معیز نے ایک اصولی موقف قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ایک قانونی کمیٹی کا قیام ہی مشکوک بنیادوں پر ہوا ہو، تو اس کے فیصلوں کو تسلیم کرنا بھی درست نہیں۔

معیز جعفری نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ صرف پاکستان کے عدالتی نظام کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ جمہوری اقدار کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ آئینی ترامیم کی کوششیں دراصل عدلیہ کو کمزور کرنے اور اس کی خودمختاری کو سلب کرنے کی سازش معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ ترمیم پاس ہو جاتی ہے، تو یہ عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ ہوگا۔

اس گفتگو میں ایک اور اہم سوال بھی زیر بحث آیا: کیا مولانا فضل الرحمان واقعی آئینی ترامیم کی رکاوٹ ہیں؟ معیز کا کہنا تھا کہ مولانا صاحب اس وقت غیر متوقع طور پر ایک اصولی موقف پر کھڑے ہیں۔ جہاں دیگر سیاسی جماعتیں چھبیسویں آئینی ترمیم کے لیے تیار ہیں، مولانا فضل الرحمان نے اس وقت ایک مضبوط مؤقف اپنایا ہوا ہے، اور ان کے قانونی مشیر کامران مرتضیٰ اس موقف کے پیچھے مضبوط دلائل پیش کر رہے ہیں۔

پوڈ کاسٹ کے اختتام پر معیز جعفری نے عدلیہ کی آزادی اور سیاسی مداخلت کے اثرات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ آئینی ترامیم اسی طرح پاس ہو گئیں، تو مستقبل میں عدالتی فیصلوں کا دارومدار سیاسی حکومتوں کی مرضی پر ہوگا۔

یہ پوڈ کاسٹ ان تمام افراد کے لیے اہم ہے جو پاکستان کے نظام انصاف، سیاسی مداخلت اور جمہوری مستقبل کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ کیا قاضی فائز عیسیٰ واقعی نظام کا ضامن تھے؟ یا ان کے فیصلے عدلیہ کی تاریخ کا ایک اور متنازع باب بن کر رہ جائیں گے؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے مکمل پوڈکاسٹ ضرور دیکھیں۔

شیئر

جواب لکھیں