یہ سال 2006 کی بات ہے۔ آئی جی سندھ اپنے کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہے ہیں۔ ان کے چہرے پر پریشانی ہے۔ اور کیوں نہ ہوں؟ سات روز میں سات پولیس والے مارے جا چکے ہیں۔
ملیر کے علاقے سعود آباد میں یہ ایک ایسی واردات تھی جس نے عوام کے محافظوں کا خون خشک کر دیا تھا۔ آرڈر جاری ہوا کہ کوئی جوان وردی نہیں پہنے گا اور نہ ہی پولیس کی سفید موٹر سائیکل استعمال کرے گا۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ قاتل کا اب تک کوئی اتا پتہ نہ تھا۔ نہ گواہ نہ ثبوت۔ بس اتنا معلوم تھا کہ کوئی پیچھے سے فائر کرتا ہے جو سیدھا سر پر لگتا ہے۔
سابق سب انسپکٹر سندھ پولیس سلیم اختر خان بتاتے ہیں:
کراچی پولیس کا ہر جوان اور افسر اس کوشش میں تھا کہ یہ جو عفریت ہے یہ پکڑی جائے اور ختم ہو۔ کیونکہ ہمارے بے گناہ بھائی مارے جا رہے تھے۔
سات پولیس والوں کے قتل کے بعد خاموشی ہو جاتی ہے۔ پولیس سمجھتی ہے کہ شاید قاتل فرار ہو چکا ہے۔ افسران سکون کا سانس لیتے ہیں۔ لیکن ٹھیک دو مہینے بعد پھر ایک پولیس والا، ویسے ہی مارا جاتا ہے۔
اب تو ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔ چالاک قاتل دو ماہ سے اسی علاقے میں تھا اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔ ایک بار پھر دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ اور اس بار بھی پولیس قاتل کو پکڑنے میں ناکام رہتی ہے۔ تنگ آ کر حکومت قاتل کو پکڑوانے پر انعام کا اعلان کر دیتی ہے۔
ایس ایس پی سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب بتاتے ہیں:
حکومت سندھ نے ان ٹارگٹ کلرز یا سیریل کلرز کو پکڑنے کے لیے تیس لاکھ روپے کا اعلان کیا۔ ہمارا نیٹ ورک جیل میں بھی ہے۔ کسی نے اپروچ کیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ لیکن میں نہیں گیا لیکن پھر جب اس نے خط لکھ کر بھیجا تو میں ملنے گیا۔ اس نے کہا کہ میں جیل میں اتنے سال سے پڑا ہوں آپ میری مدد کریں میں آپ کی کرتا ہوں۔ اس نے کہا کہ یہ جو لوگ ہیں جو یہ بندے مار رہے ہیں میں پکڑوا دوں تو کیا ملے گا؟ تو میں نے کہا کہ تیس لاکھ کا انعام ہے وہ مل جائے گا۔ تو اس نے پہلی ٹپ مجھے دی۔
وہ پہلی ٹپ کیا تھی؟ یہ بھی بتاتے ہیں لیکن اس سے پہلے آنے والی فارنزک رپورٹ کو پڑھ کر پولیس والے بھی چکرا گئے۔ آٹھ نو پولیس والوں کو مارنے کے لیے ایک ہی ’’ویپن‘‘ استعمال ہوا تھا۔ یعنی یہ کوئی گروپ نہیں تھا جو الگ الگ ہتھیار استعمال کرتا۔
جعلی مقابلوں کے لیے مشہور سندھ پولیس کے لیے یہ ایک انوکھا کیس بن چکا تھا۔ ان کا سامنا کسی دہشتگرد تنظیم یا سیاسی جماعت کے ملیٹنٹ ونگ سے نہیں بلکہ ایک اکیلے شخص سے تھا۔
- نہ کوئی تاوان، نہ ڈیمانڈ
- نہ قتل کے بعد ذمہ داری لینے کا اعلان
- ویپن بھی ایک، بندہ بھی ایک
- مقصد بھی ایک، اور ٹارگٹ بھی ایک
اب آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ پہلی ٹپ کیا تھی۔ راجہ عمر خطاب مزید بیان کرتے ہیں:
ایک ڈکیتی کے دوران اس شخص کو جعلی کرنسی ملی جو انہوں نے کسی دکان پر دی اور اس وجہ سے یہ پکڑے گئے۔ دو مہینے یہ جیل میں رہ کر گیا اور جس دن ضمانت ہوئی اس کے اگلے دن اس نے پہلا قتل کیا۔ اب پھر شروع ہوگئی کلنگ تو اس سے مزید خوف پھیل گیا۔
سندھ پولیس کو نشانہ بنانے والا کوئی معمولی ٹارگٹ کلر نہیں بلکہ ایک ’’سیریل کلر‘‘ تھا۔ سیریل کلرز پر آپ نے ہینی بال، امیرکین سائیکو، سیون اور کاپی کیٹ جیسی موویز دیکھی ہوں گی۔ ویسا ہی ایک سیریل کلر 2006 میں کراچی کی سڑکوں پر پولیس والوں کو بے دردی سے قتل کر رہا تھا۔ مگر یہ آخر تھا کون؟ اور یہ صرف پولیس والوں کو ہی کیوں نشانہ بنا رہا تھا؟ اس پر بات کرتے ہیں لیکن پہلے ذرا یہ تو جان لیں کہ ’’سیریل کلر‘‘ آخر کس بلا کا نام ہے اور ایک انسان کیسے اتنا خوف ناک روپ اختیار کر لیتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں:
اس کے پیچھے اکثر بیک گراؤنڈ ہوتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ جب کوئی ناانصافی ہو جاتی ہے، ہو سکتا ہے نا ہوئی ہو، لیکن اس کو نظر آ رہی ہو مثال کے طور پر ایک ٹیچر نے صحیح فیل کیا ہے بچے کو لیکن اس کو لگتا ہے کہ غلط کیا۔ تو اس لیے انسان اپنے نظریے سے دیکھتا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ میرے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ میں اس کا بدلہ اس طرح لوں، اس کی تسکین اس طرح سے کروں۔
مثال کے طور پر ڈاکٹر یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کوئی زیادتی ہو گئی، تو پھر اس کو وہ ذہن میں رکھ کر ایسے لوگ ٹارگٹ بناتے ہیں کہ میری تسکین یہ ہے کہ میں ایسے لوگوں سے بدلہ لوں۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس ایک مریض تھا جو خاکی رنگ لباس کو دیکھتے ہی اس کو بے چینی ہونا شروع ہو جاتی تھی کہ کچھ ہو رہا ہے مجھے کچھ ہو رہا ہے۔
سابق سب انسپکٹر سلیم اختر کہتے ہیں:
جو ہم نے دیکھا کہ اس کی زندگی میں کہیں نا کہیں شاید کسی پولیس والے کی طرف سے کوئی زیادتی ہوئی ہے اس کے ساتھ جس کی وجہ سے اس کے ذہن میں وہ پولیس پھنس گئی۔
جیسے فلموں میں ہر سیریل کلر کی کوئی اسٹوری ہوتی ہے جو اسے انسان سے خون خوار بھیڑیا بنا دیتی ہے۔ بالکل ویسی ہی کراچی کے سیریل کلر کی بھی ایک کہانی تھی۔ اور یہ شروع ہوئی 1980 میں۔
کامران اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس کا باپ نشہ کرتا اور کئی کئی ہفتے گھر سے باہر رہتا۔ پولیس ہر دوسرے روز ان کے گھر کا چکر لگاتی۔ باپ کا ہونا نہ ہونا برابر تھا اور بھوک نے گھر میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔
ایسے میں کامران کی ماں نے بڑے بیٹے کے ساتھ مل کر چرس بیچنی شروع کر دی۔ ایک روز بھائی پکڑا گیا اور لمبے عرصے کے لیے جیل چلا گیا۔ اب سارا کام، کامران کی ماں نے سنبھال لیا۔
علاقے میں ان کا گھر پہلے ہی بدنام تھا۔ پولیس سے بھی آئے روز گالم گلوچ ہوتی۔ کامران یہ سب دیکھ رہا تھا اور وہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا۔
ایک روز اسے پتہ چلا کہ اس کی ماں کو چرس بیچتے ہوئے خیبر پختون خوا کی پولیس نے پکڑ لیا ہے۔ وہ کچھ دے دلا کر گھر تو واپس آ گئی مگر کامران نے اپنے دل میں اس بے عزتی کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔
اب وہ جوانی میں قدم رکھ چکا تھا۔ اس نے 11 افراد کا گینگ بنا کر ڈکیتیاں شروع کر دیں۔ مگر کامران کے اندر نفرت کی بھڑکتی آگ بجھ نہ سکی۔ اس نے اپنے دوست فرحان کو دل کا حال سنا ڈالا۔ وہ پولیس والوں کو عبرت کا نشان بنانا چاہتا تھا۔ فرحان تیار ہو گیا اور پھر وہ دونوں ایک ایک کر کے سات پولیس والوں کو مارتے چلے گئے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی کہتے ہیں:
بہت سارے یہ جو سائیکوپیتھ یا دوسروں کو نقصان پہنچانے والے یا قتل کرنے والے کئی نفسیاتی بیماریوں میں بھی ہوتی ہے جس میں سائیکوسس سیزوفینیا بہت کامن ہے۔ بائی پولر میں بھی ہوتی ہے البتہ وہ تو قابل علاج ہیں اس کو ہم قابو کر سکتے ہیں اور وہ بعد میں پچھتاتے بھی ہیں۔
لیکن کچھ کیسز ایسے ہوتے ہیں جس کو ہم اینٹی سوشل یا سائیکوپیتھ کہتے ہیں اس کا راہ راست پر لانا مشکل ہوتا ہے لیکن اس پر بھی کئی ریسرچز ہوئے ہیں۔ کہ اگر اس کو تھیراپی کریں اور دوائیں دیں تو وہ راہ راست پر آ سکتے ہیں لیکن جس گاڑی کا فریم خراب ہو۔ جس بلڈنگ کا اسٹرکچر خراب ہو اس کو ٹھیک کرنا کافی مشکل ہوتا ہے لیکن جس کا فریم اور اسٹرکچر ٹھیک ہو اس پر ہم رنگ روغن کر کے اس کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔
کامران عرف ’’کامو‘‘ نے بچپن سے ہی جرائم کے ذریعے زندگی گزارنا سیکھا تھا اس لیے وہ ذہنی طور پر اتنا سنگدل اور بے رحم ہو چکا تھا کہ اس کا ٹھیک ہونا ناممکن تھا۔ کامران کی دہشت جمشید ٹاؤن، لیاقت آباد، ملیر، بن قاسم، شاہ فیصل کالونی سمیت کئی علاقوں میں بیٹھ چکی تھی۔
سلیم اختر کہتے ہیں:
میری نظر میں وہ ایک انتہائی سائیکو قسم کا آدمی تھا۔ کوئی مقصد نہیں تھا۔ پولیس والوں سے اگر وہ بائیک پر جا رہا ہے اور راستے میں اس کو کوئی پولیس والا مل گیا۔ اس کے اندر کوئی شیطان تھا جو اسے اکساتا تھا اور وہ جا کر اس کو مار دیتا تھا۔
پولیس والوں کے بعد جب کامران نے 2 رینجرز کے جوانوں کو شہید کیا تو معاملات بہت زیادہ خراب ہوگئے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس نے رینجرز کے جوانوں کو شہید کیوں کیا۔
راجہ عمر خطاب کہتے ہیں:
جب دو جوان رینجرز کے شہید ہوئے تو اور ان کا پھر پستول بھی چلا گیا تو پھر اور زیادہ ٹینشن بڑھ گئی۔ وہ اس وقت نماز پڑھنے جا رہے تھے کامو کو اس کا پستول پسند آگیا تھا تو وہ پید اترے اور جا کر ان دو رینجرز کے جوانوں کو شہید کر دیا۔
اور پھر وہ وقت آگیا جب پولیس کو ایک اہم ٹِپ ملی۔ کہتے ہیں چور کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہوئی کوئی نہ کوئی نشانی ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ کامران نے بھی ایسی ہی ایک نشانی چھوڑ دی تھی۔
ابھی تک کامران کے دوست فرحان عرف ’’گول‘‘ کو ہی معلوم تھا کہ وہ پارٹ ٹائم سیریل کلر بھی ہے۔ پھر فرحان نے باتوں باتوں میں سب سے اس بات کا ذکر کر دیا۔ جب حکومت نے تیس لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا تو بعض گینگ ممبرز لالچ میں آ گئے۔ انہوں نے پولیس کو کامران کے بارے میں سب بتا دیا۔
اب ایک طرف کامران اپنا اگلا شکار ڈھونڈ رہا تھا تو دوسری طرف پولیس اُس چالاک سیریل کلر کو پکڑنے کی پلاننگ کر رہی تھی۔
یہ اکتوبر کی ایک شام تھی۔ پولیس کانسٹیبل غلام غوث ڈیوٹی سے گھر واپس جا رہا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک انجانا سا خوف تھا۔ پچھلے ایک مہینے سے روزانہ کوئی پولیس والا مارا جا رہا تھا۔ مگر غوث یہ سوچ کر مطمئن تھا کہ اس نے نہ تو وردی پہنی ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے پاس پولیس کی سفید بائیک ہے۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ کامران موت بن کر اس کے پیچھے ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی بتاتے ہیں:
یہ لوگ ذہین ہوتے ہیں لیکن ان کی ذہانت کا رخ تبدیل ہوتا ہے اس میں اچھائی کی طرف ہر کام کرتے ہیں جو کہ نارمل وے میں اخلاقیات کے دائرے سے ہٹ کر ہو۔ تو ایسے لوگ پھر اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایسی ریہرسل ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں کہ وہ پھر یہ ساری چیزیں کر بیٹھتے ہیں۔ ان کی ذہانت تو بہت اچھا ہوتا ہے لیکن ذہانت کچھ اور ہے اور اخلاقیات کچھ اور ہے۔
مثال کے طور پر ہم مہمان بنتے ہیں تو بھوک لگی بھی ہوگی تو نہیں مانگیں گے کھانا جبکہ یہ لوگ اس دائرہ کو بھی وائلیٹ کرتے ہیں کہ کسی کا کچھ بھی ہو چاہے کوئی مرے یا زندہ رہے میں نے اپنی تسکین کرنی ہے۔
دراصل کامران نے غوث کے جوتے دیکھ لیے تھے جو ایک پولیس والے کے سوا کسی کے نہیں ہو سکتے۔ پھر کیا تھا، کامران کے اندر کا وحشی پھر سے جاگ اٹھا۔ اس نے تاک کر سر کا نشانہ لگایا اور فائر کر دیا۔ کانسٹیبل غلام غوث وہیں دم توڑ گیا۔ لیکن یہ قتل کامران کا آخری قتل ثابت ہوا۔ کیونکہ پولیس کو کامران کے ٹھکانے کا پتہ لگ چکا تھا۔ اب صرف انتظار تھا صحیح وقت کا اور پھر وہ دن بھی آگیا۔
راجہ عمر خطاب بتاتے ہیں:
ہمیں اس کا گھر پتہ چل گیا تھا۔ اس گھر پر تالہ لگا ہوا تھا۔ دو کمروں کا گھر تھا۔ کچن تھا۔ ہم نے اس کے اندر ریڈ کرنے کے بجائے کیونکہ وہ ہوشیار تھے بہت زیادہ اگر ان کو شک ہوتا تو وہ نکل جاتے تو پھر کبھی ملتے بھی نہیں کیونکہ اس پر ہم نے کافی محنت کی تھی تو ہم نے یہ کیا کہ ہم اس کے گھر کے اندر جا کر بیٹھ گئے ان کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ تالہ کھلا تھا یا نہیں کھلا تھا اندر کوئی ہے بھی یا نہیں۔ جیسے آپ اپنے گھر میں جاتے ہیں تو دروازہ کھول کر اندر جاتے ہیں۔ آگے سے کوئی ری ایکشن آ جائے تو توقع نہیں رکھتے پہلے تو شاک میں چلے جاتے ہیں کہ ہوا کیا ہے میرے ساتھ۔ تو وہی ہوا کہ ہم ایسے بیٹھے تھے کہ یہ جیسے ہی اندر داخل ہوئے ہنستے ہوئے گپ مارتے ہوئے اسلحہ لیکر۔ تو ان کو ہلنے کا تو کیا سوچنے کا موقع بھی نہیں۔ وہ دونوں ہولڈ ہوگئے۔ اس سے فائدہ ہمیں یہ ہوا کہ ویپن بھی ہمیں سارے ری کوور ہوگئے۔
ڈیڑھ ماہ میں چودہ پولیس والوں کو نشانہ بنانے والا یہ سیریل کلر بالآخر پکڑا گیا۔ یہ ایک بہت بڑی لیکن ادھوری کامیابی تھی۔ ابھی اس کے پاس سے رینجرز کا وہ پستول نہیں ملا تھا جسے حاصل کرنے کے لیے کامران نے دو جوان موت کے گھاٹ اتار دیے تھے۔ وہ اس کا پسندیدہ پستول تھا جسے ری کوور کرنا پولیس کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکا تھا۔ بات یہ تھی کہ اگر وہ پستول نہ ملتا تو یہی کہا جاتا کہ پولیس نے اپنے سر سے بلا ٹالنے کے لیے کسی اور کو پکڑ لیا ہے۔
سلیم اختر کہتے ہیں:
اگر رینجرز کے صوبے دار کا پستول نہ ملتا ہمیں تو شاید رینجرز بھی اور رینجرز کے بڑے افسران بھی یقین نہ کرتے کہ یہ ہمارا ملزم ہے۔ اس نے وہ پستول لاکر اپنے گھر پر رکھ لیا۔ کیونکہ یہ رینجرز کے اہلکار کی شہادت کے بعد یہ معاملہ بہت گرم ہو گیا۔ تو اتنا تو اسے بھی پتہ تھا کہ یہ پستول میرے خلاف بڑا ثبوت بن جائے گا۔ گودرا کیمپ کے پاس ایک نالہ بہتا ہے چھوٹا سا، وہاں پھینک دیا تھا۔
اب جب گول کو ہم نے پوچھا تو گول نے بتایا کہ میں نے اس کی والدہ کے ساتھ جا کر یہ پستول پھینکا ہے ہم اس کو لیکر گئے تو اس نے جگہ بتائی۔ پھر جب ہم اپنی تیاری کے ساتھ گئے۔ ایک کرین لیکر گئے تھے جس پر بڑا مقناطیس لگا ہوا تھا۔ جو اس لڑکے نے پن پوائنٹ کی جگہ تو اس جگہ پر جب ہم نے مقناطیس مارا ہے تو بہت سارا کچرا اور اس کے ساتھ وہ پستول آگیا تھا۔ جس کو پھر رینجرز والوں نے اس کا نمبر چیک کیا اور بتایا کہ وہی پستول ہے۔
اب کامران کے خلاف تمام ثبوت مل چکے تھے۔ مقدمہ چلا اور اس کو سزائے موت سنا دی گئی۔ یہاں آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہوگی کہ اٹھارہ سال گزرنے کے بعد بھی وہ خطرناک سیریل کلر نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس نے سپریم کورٹ میں رحم کی اپیل بھی کر رکھی ہے۔
راجہ عمر خطاب کہتے ہیں:
ہم نے ان کو پکڑا 2006 میں۔ اٹھارہ سال سے وہ جیل میں ہے۔ سزائے موت ان کو تمام کورٹس سے ہو چکی ہے سپریم کورٹ میں ابھی تک ان کی اپیل پڑی ہوئی ہے۔ نظام کا یہ حرج ہے کہ اٹھارہ سال سے سزائے موت کا قیدی پڑا ہوا ہے۔ تو اگر اٹھارہ سال بعد وہ چھوٹ گیا تو کیا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی کہتے ہیں:
کسی کو سزا اور جزا فوری طور پر ملے تو وہ ٹریفک کے قانون نہ توڑیں۔ ہمارے یہاں جو کہتے ہیں کہ جسٹس ڈیلیڈ مین جسٹس ڈینائڈ، یہ غلط ہے۔ جسٹس ڈسٹرائڈ ہے۔ اس لیے کہ اس کے دماغ میں بیٹھتا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے بجلی کے تار کو ہاتھ لگایا اور تین دن بعد آپ کو کرنٹ لگا تو آپ کے دماغ کو پتہ نہیں چلے گا کہ تار کا کمال تھا کہ کسی اور چیز کا تھا۔
کامران اپنی بری تربیت کا بدلہ بے گناہ پولیس والوں کو نشانہ بنا کر لے رہا تھا، لیکن ایک دن پکڑا گیا۔ مگر افسوس کہ تقریباً دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہمارا نظام ایک سزائے موت کے مجرم کو نشانِ عبرت بنانے سے معذور ہے۔