’’پولیس مقابلہ‘‘ دنیا بھر میں ہمیشہ ہی سے ایک متنازع معاملہ رہا ہے۔ پاکستان بالخصوص شہرِ کراچی میں سندھ پولیس کے مقابلوں کی تعداد تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں ہونے والے اکثر پولیس مقابلوں کے لیے ’’جعلی‘‘ کا سابقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں تفصیل سے بات کرنے کے لیے ہم نے دعوت دی سینیئر صحافی مقصود یوسفی صاحب کو جو صحافت کا پچاس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ ان پانچ دہائیوں میں انہوں نے ملک میں ہونے والے کئی ایک کو اپنے سامنے رونما ہوتے دیکھا اور اس سے بھی زیادہ اہم واقعات کو رپورٹ کیا۔ اس رفتار پوڈکاسٹ میں مقصود یوسفی نے ذرائع ابلاغ کے ارتقا، سیاسی منظر نامے، پولیس اور مختلف معاشرتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جس میں ان کہی کہانیوں اور ان پوشیدہ سچائیاں بھی سامنے آئیں۔

مقصود یوسفی کے صحافت میں وسیع کیریئر نے انہیں میڈیا کے بدلتے ہوئے منظر نامے، خاص طور پر ڈیجیٹل دور میں ایک منفرد نقطہ نظر فراہم کیا ہے۔ نصف صدی پر محیط کیریئر میں مقصود صاحب نے میڈیا پلیٹ فارمز کے ارتقا اور روایتی صحافت پر ڈیجیٹلائزیشن کے اثرات کو قریب سے دیکھا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے عروج کے باوجود، وہ پرنٹ میڈیا کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ہیں کیوں کہ کاغذ پر شائع ہونے والی خبر کو دستاویز اور شہادت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

گفتگو کے دوران یوسفی نے صحافت میں غیر جانبداری کی اہمیت پر زور دیا اور ذاتی تعصبات یا وابستگیوں سے قطع نظر معلومات فراہم کرنے میں صحافی کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے صحافیوں کی ذمہ داری پر زور دیا کہ وہ عام لوگوں کی ضروریات کو پورا کریں اور انہیں بہتر فیصلہ سازی کے لیے درست اور غیر جانبدارانہ معلومات فراہم کریں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور ضیاء الحق دور میں سیاسی ہلچل جیسے تاریخی واقعات پر بات کرتے ہوئے مقصود صاحب نے پاکستانی سیاست کی پیچیدگیوں، حکومتی پابندیوں اور سنسر شپ کے باوجود سچائی پر مبنی رپورٹنگ کرنے میں صحافیوں کو ہونے والی مشکلات کے بارے میں بھی بات کی۔ انھوں نے صحافیوں کو درپیش خطرات اور دباؤ کے باوجود رپورٹنگ میں شفافیت کے لیے کوشش کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

مقصود یوسفی صاحب نے محکمۂ پولیس کے غیر معمولی اثر و رسوخ اور سیاسی پشت پناہی پر بھی بات کی۔ گفتگو کے دوران سندھ پولیس مقابلوں کا احوال بھی سنایا اور بتایا کہ کئی مقابلے شک کے دائرے میں آتے ہیں جن سے پولیس کے شعبے میں عدم احتساب اور غیر متوازن طاقت کے استعمال پر سوال اٹھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پولیس پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی اس بات کا مظہر ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شفافیت کا شدید فقدان ہے۔ انھوں نے کئی ایک مثالوں سے یہ واضح کیا کہ کس طرح پولیس کو سیاسی فائدے اور مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور افراد کی جانب سے ذاتی یا سیاسی مفاد کے لیے اختیارات سے تجاوز کرنے کا معاملہ بھی زیرِ گفتگو رہا۔

سندھ پولیس کے انکاؤنٹرز، 1992 کے آپریشن اور ذوالفقار علی بھٹو کے جنازے جیسے کئی تاریخی واقعات کے بارے میں سینئر صحافی مقصود یوسفی سے جاننے کے لیے مکمل پوڈکاسٹ ملاحظہ کیجیے۔

شیئر

جواب لکھیں