یہ 2 مئی 1994 کی رات تھی۔ ڈیڑھ بج رہا تھا، کراچی میں بلیک آؤٹ تھا۔ فضا سناٹے میں غرق تھی مگر نارتھ ناظم آباد کراچی ایم بلاک میں برف کی دکان کے باہر بیٹھے نوجوان مزمل فاروقی کے اندر ایک طوفان برپا تھا۔ وہ سامنے کھڑے اپنے بھائی فہیم فاروقی کے دو دوستوں سے مخاطب ہوا اور کہا:

جاؤ فہیم کو لے کر آؤ! میں اس کو سمجھاؤں گا کہ اب بس کردے، یہ راستہ چھوڑ دے، بہت ہوا، اب واپس آجائے!

بھائی کے حکم کو دوسرے بھائی تک پہنچنے میں چند ہی منٹ لگے۔ 2K اسٹاپ پر بیٹھے فہیم فاروقی کو مزمل فاروقی کا پیغام مل گیا۔ فہیم نے جوابی پیغام بھیجا کہ جاؤ مزمل بھائی کو بتا دو کہ میں آرہا ہوں۔

ایک طرف فہیم کا پیغام لے جانے والے دوستوں کے قدم مزمل فاروقی کی طرف بڑھ رہے تھے، تو کچھ ایسے نامعلوم قدم بھی تھے جو خاموشی سے مزمل فاروقی کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یہ قدم کس کے تھے؟ اور مزمل فاروقی کا کیوں تعاقب کر رہے تھے؟ یہ وہ لمحہ تھا، جو ایک سیاہ تاریخ رقم کرنے جا رہا تھا۔

اس کہانی کا مرکزی کردار تو ’’فہیم کمانڈو‘‘ ہے، مگر اس اسٹوری میں ہم کراچی آپریشن کے دوسرے کرداروں جیسے فاروق دادا، ریحان کانا، صولت مرزا اور دوسروں کی کہانیاں بھی سنائیں گئے، جنہوں نے دہشت کی دنیا میں میں بڑا نام بنایا۔ یہ لڑکے کسی کے لیے تو ’’گڈ بوائز‘‘ رہے اور کسی کے لیے ’’بیڈ بوائز‘‘!

صحافی محمد احمد انصاری بتاتے ہیں کہ 1992 کے آپریشن کے بعد militancy کا دور ختم ہوا اور دہشت گردی کا دور شروع ہوا۔ اس دہشت گردی کے دور میں نئے نئے نام سامنے آئے، جیسے فاروق دادا، زون ڈی سے لیاقت ٹی ٹی، جس نے باقاعدہ پولیس والوں پر بھی حملے کیے، رینجرز والوں پر بھی حملے کیے اور فائٹ بھی کی۔ 1994 کے بعد تھوڑی سی ترقی ہوئی، منظم ہونے لگے۔ پوائنٹس بن گئے شہر میں، جیسا کہ لیاقت آباد سی ون ایریا میں ایک پوائنٹ بن گیا۔ اس کا انچارج تھا ارشد کے ٹو، عبید کے ٹو کا بڑا بھائی۔ اسی طرح کھجی گروانڈ کے اندر ایک پوائنٹ بن گیا جس کے انچارج ہوا کرتے تھے احتشام کھجی گراؤنڈ والے۔ اورنگی ٹاؤن کے لڑکے بھی وہاں بیٹھا کرتے تھے۔ اس طرح اورنگی ٹاؤن کا ایک پوائنٹ بنا کالی پہاڑی جس کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ اس کو اجمل پہاڑی چلاتے رہے، اور سعید کالیا کا بھی نام آتا ہے اس میں۔ تو یہ پوائنٹ بنا کر ریاست کے اندر ریاست قائم کی گئی۔ نو گو ایریاز بنائے گئے وہ نو گو ایریا ایسے ہوتے تھے جہاں مفرور بھی رہ سکیں، جہاں کی آبادی کو یرغمال بنا کر سخت مخالف مظاہرے بھی کروائے جا سکیں اور سڑکوں پر بھی لایا جا سکے۔ وہاں کسی کی انٹری نہیں ہو سکتی تھی۔ پولیس کی ہمت نہیں تھی کہ وہاں انٹری کرے رینجرز اس لیے انٹری نہیں کرتی تھی کیونکہ وہاں انٹیلیجینس شئیر نہیں ہوتی تھی۔

انیس سو بانوے سے انیس تو چورانوے تک کئی نام سامنے آئے۔ مختلف گروپس بنے مگر شہرت اس کی ہوتی جو گروپ کا اچھا کمانڈر ہوتا۔ ایم کیو ایم کا زیادہ ہولڈ ڈسٹرکٹ سینٹرل، ایسٹ اور ویسٹ میں تھا۔ تب ایم کیو ایم حقیقی اداروں کے لیے مخبری کا کام کرتی اور ایم کیو ایم کو نقصان پہنچاتی۔ خیر ویسے تو یہ سب یک طرفہ بھی نہیں تھا۔ ویسے یہ آپریشن سندھ میں موجود چوروں اور لٹیروں کے خلاف ہوتا ہے، مگر ایک مخصوص جماعت کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ پھر کیا تھا؟ سب نے ایکشن کا ایسا ری ایکشن دیکھا جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

فہیم کمانڈو جس کا نام رمزی یوسف کے ساتھ جوڑا گیا، وہی رمزی یوسف جس نے 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

وہ فہیم کمانڈو، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے تب تک نیند نہیں آتی تھی جب تک وہ کسی یولیس والے کی جان نہیں لے لیتا تھا۔

وہ فہیم کمانڈو، جس کی اُس وقت سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی گئی تھی

وہ فہیم کمانڈو، جس کی گرفتاری اور ہلاکت دونوں کا تذکرہ وزیر اعظم اور صدر مملکت کی سطح تک ہوتا تھا۔

وہ فہیم کمانڈو، جس کی دہشت سے وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے دورے بدل دیتی تھیں۔

کیا وہ سچ مچ اتنا بڑا دہشت گرد تھا؟

ایک پڑھے لکھے خوبصورت اور اچھے گھر کے لڑکے نے آخر ایم کیو ایم کا وہ ونگ کیوں جوائن کیا جس کا مقصد صرف لڑائی جھگڑا تھا؟

فہیم فاروقی نارتھ ناظم آباد کے مسجد منورہ گراؤنڈ میں اکثر شام کو ہاکی کھیلنے جاتا تھا، جہاں فہیم سے دس سال بڑا فہیم زیدی اس کے ساتھ کھیلتا تھا۔ فرید ایم کیو ایم کا کارکن تھا اور یونٹ 173 کے لیے کام بھی کرتا تھا۔ ایک روز روٹ 2K کی بس نے کسی بچے کو کچل دیا۔ فرید نے سب بچوں کو اکسایا کہ چلو چلو بس پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ سب بچوں نے بس پر پتھراؤ کیا، جن میں فہیم فاروقی بھی شامل تھا۔ تب فہیم آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ بس اس دن سے فہیم کا ہاتھ کھل گیا، فرید جو کہتا فہیم اس کا ساتھ دیتا۔ لیکن فہیم بہت ایکٹو تھا، اس لیے فرید پیچھے رہ گیا اور فہیم بہت آگے نکل گیا۔

ایک روز 173 یونٹ کے انچارچ مسعود کے قریب بچوں نے پٹاخے پھوڑے تو فہیم نے ان بچوں کی پٹائی کردی۔ اس دن پہلی بار پولیس فہیم کو حوالات میں لے آئی مگر ایم کیو ایم کے اثرورسوخ کی وجہ سے فہیم ایک رات بھی حوالات میں نہیں رہا۔ فہیم کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔

اب فہیم باقاعدہ یونٹ 173 کا رکن تھا۔ وہ پارٹی کے چھوٹے موٹے کام دیکھنے لگا۔ فہیم گرلز کالج کے سامنے بدمعاش لڑکوں کو کھڑا دیکھتا تو انہیں وہاں سے بھگا دیتا۔ چونکہ فہیم کراٹے میں بلیک بیلٹ بھی تھا، اس لیے کوئی بھی اس کا سامنا نہیں کر پاتا تھا۔ پڑھائی میں اچھا تھا، بی کام کر چکا تھا، انگریزی زبان پر بھی عبور تھا۔ لیکن الطاف حسین کی سالگرہ پر فہیم نے پہلی بار گن اٹھائی اور خوشی میں فائرنگ کرنے لگا۔ یونٹ انچارچ مسعود نے فائرنگ کرنے پر سزا دی اور کہا کہ سو بار لکھو کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ فہیم نے تحریری معافی تو مانگ لی مگر دل اور دماغ سے غصہ نہیں نکل۔

کچھ عرصے کے بعد وہ لائنز ایریا کے جاوید لنگڑا سے جا ملا۔ جاوید لنگڑا فہیم سے عمر میں ڈبل تھا اور منجھا ہوا کھلاڑی تھا۔ جاوید نے فہیم کی صلاحیتوں کا خوب فائدہ اٹھایا اور اسے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مگر ابھی فہیم کے نام کے ساتھ کمانڈو نہیں لگا تھا۔ ادارے فہیم کا صرف نام جانتے تھے اس کی شکل و صورت سے واقف نہیں تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اسے پولیس نے پکڑا مگر اس کی خوبصورتی اور معصومیت کو دیکھ کر اسے چھوڑ دیا۔ لیکن اب فہیم ایک نئی دنیا کا مسافر تھا۔ اس نے گھر آنا جانا کم کر دیا، زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزرتا۔ تب کراچی آپریشن کے دوسرے مرحلے میں تیزی آ رہی تھی اور یہاں انٹری ہوتی ہے انسپکٹر بہادر علی کی۔ فہیم کی چھوٹی موٹی کارروائیوں کے بعد سارا پریشر فہیم کی فیملی پر آتا۔ بہادر علی آئے روز چھاپے مارنے لگے، مجبوراً فہیم کے بڑے بھائی مزمل، مستفیض، مفیض اور فرخ کو اسلام آباد شفٹ ہونا پڑا۔ اور یہیں پر کہانی جڑ جاتی ہے، اس واقعے سے جو ہم نے آپ کو ابتدا میں سنایا۔

مزمل فاروقی اس وقت اسلام آباد میں ایک کورئیر کمپنی میں کام کرتے تھے۔ آفیشل وزٹ پر کراچی آئے تو سوچا فہیم فاروقی کو سمجھاتا ہوں اور اسے اِس دلدل سے نکالتا ہوں۔ وہ نارتھ ناظم آباد ایل بلاک، جہاں اُن کا آبائی گھر تھا، وہاں سے نکلتے ہیں اور ایم بلاک ایک برف کی دکان پر آتے ہیں،،جہاں ان کی ملاقات فہیم کے دوستوں سے ہوتی ہے۔

جی ہاں یہ 2 مئی 1994 کی وہی رات تھی جس میں مزمل فاروقی کو قتل کیا جاتا ہے۔

حالات ایسے تھے کہ فہیم فاروقی اپنے بھائی کے جنازے میں بھی شریک نہ ہو سکا۔ اس کے دل میں پولیس کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی اور بدلے میں اس نے پولیس والوں کو چن چن کر مارنا شروع کردیا۔ حالات بگڑے تو مستفیض فاروقی کو بیرون ملک جانا پڑ گیا اور مفیض اور فرخ فاروقی اپنے والے کے ساتھ دوبارہ اسلام آباد شفٹ ہو گئے۔

اب ایک جنگ تھی، کون مر رہا تھا؟ کون مار رہا تھا؟ کچھ نہیں معلوم۔ صحافی محمد احمد انصاری اس بارے میں بتاتے ہیں:

قتل بہت ہوئے دہشت گردی کا عنصر ایک یہ بھی تھا کہ وہاں لندن سے فون آجاتا کہ آج ہمیں اتنے اسکور چاہیے۔ باقاعدہ اسکور کی لسٹ آتی، جیسے کہا جاتا کہ آج بیس کا اسکور چاہیے، آج دس کا اسکور چاہیے، بہت دن ہو گئے سکون میں چل رہا ہے۔ اپنا کوئی بندہ مر گیا تو اس کے بعد ایک لائین لگا دی جاتی تھی کشت و خون کی۔ اسی رات ہڑتال کی کال آجاتی تھی۔ ہڑتال ہونی ہے کل، اس سے پہلے ایک دن جلاؤ گھیراؤ شروع ہوجاتا۔ خاص طور پر ان دو تین نو گو ائیریاز میں جن کا میں نے آپ کو پہلے بتایا۔ شہر چار یا پانج دن کے لیے بند ہوجاتا تھا۔ اب معاشی حب، جہاں سے معیشت کا پہیہ چل رہا ہوتا ہے، جب وہ پہیہ جام ہوجائے گا چار سے پانج دن کے لیے تو پھر پورے ملک پر کیا اثر پڑے گا؟ اور بین القوامی سطح پر کیا اثر جائے گا کہ ممبی کا مماثل شہر بند پڑا ہوا ہے 5 دن سے۔ یہ تھی دہشت گردی۔

صحافی فہیم صدیقی بھی ہوش ربا حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں:

ہم نے مخصوص آبادیوں کے گھیراؤ، مخصوص آبادیوں سے گرفتاریاں، تو اس کا ری-ایکشن تو میرے خیال سے آنا ہی تھا۔ ہم نے اس شہر میں قتل و خون کی وہ بارش دیکھی ہے کہ الحٖفیظ الایمان۔ طارق رپیٹر ہے، فہیم کمانڈو ہے، نعیم شرعی ہے، ریحان کانا ہے، کیا یہ جب پیدا ہوئے تھے تو ان کے ناموں کے ساتھ جو عرفیت ہے، یہ ان کے ماں باپ نے رکھی تھی؟ اس وقت کی اگر آپ ایف آئی آرز اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو ہر ملزم، ہر شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی عرفیت لکھی ہوئی ملے گی۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں ایک ایف آئی آر پڑھتے ہوئے ہنس پڑا تھا کہ ملزم کے نام کے ساتھ لکھا ہوا تھا ’’اسٹیل باڈی والا‘‘۔ تو ان چیزوں نے ہی ان لوگوں کو ہیرو بنایا، اپنے اپنے علاقوں کا۔ اور یہ سمجھا جانے لگا کہ جن جن علاقوں سے یہ لوگ وابستہ ہیں۔ یہ اب اپنے اپنے علاقوں میں سکیورٹی اور سیفٹی کا کام سر انجام دیں گے۔ اور جیسے جیسے آپریشن آگے بڑھ رہا تھا تب مختلف علاقوں سے لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری تھا۔ ایم کیو ایم کی اس دور میں جو ایک کامیابی تھی وہ ہیومن انٹیلی جینس تھی، جو شاید اب نہیں ہے، ان کو پتہ ہوتا تھا کہ ان کے علاقے میں کون کس چیز میں ملوث ہو سکتا ہے اور ہے۔ جب ری ایکشن دینے کا وقت آیا تو وہ لڑکے جو اپنے اپنے علاقوں میں ہیرو تھے، انہوں نے ان ہی انفارمیشن کی بنیاد پر کارروائیاں کرنا شروع کر دیں۔ مارنے سے پہلے ان کا کرائم کی دنیا میں قد بنایا گیا ان کے ناموں کے ساتھ عرفیت جوڑ کر یا ان سے کرائم کی بڑی وارداتیں جوڑ کر۔

صرف فہیم نہیں، ریحان کانا، فاروق دادا، صولت مرزا اور بھی کئی لڑکے، جو اچھے اور پڑھے لکھے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے، حالات نے انہیں مجرم بنا دیا۔ لڑ تو یہ مہاجر کاز کے لیے ہی رہے تھے، مگر شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ دیگر کاموں کے لیے بھی استعمال ہوں گے۔ یہ اپنے اپنے گروپس کے کمانڈر تھے، جب بھی کسی پولیس والے یا حقیقی کے کارکن کا قتل ہوتا یا گاڑی جلتی یا پھر کہیں پتھراؤ ہوتا تو انہی کمانڈرز پر الزام عائد ہوتا۔

اُس دور میں پولیس کی انٹیلی جینس اتنی کمزور تھی کہ کسی بھی کارروائی پر کسی کا بھی نام بغیر تحقیق اور تصدیق کے شامل کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ اسی لیے بہت سی ایف آئی آرز میں جھوٹے نام بھی شامل ہوئے۔

محمد احمد انصاری کہتے ہیں کہ اگر ریاست اس وقت، جس طرح سے آپریشن کر رہی تھی اور جس طرح سے معاملات خراب ہوئے، اگر نہیں کیا جاتا تو فہیم کمانڈو یا صولت مرزا جیسے کردار سامنے نہیں آتے۔ بہت سارے لوگ تو انتقام کے جذبے سے سامنے آئے۔ جو بھی ریاستی ادارے تھے، جیسے رینجر تھی یا آرمی تھی ان کو کون گائیڈ کر رہا تھا؟ ایم کیو ایم حقیقی کے جو کریمینل لوگوں نے اپنے ذاتی انتقام نکالنے کے لیے ان کو بہت گمراہ کیا، اور یہ زیادہ تر چیزیں ملیں گی ڈسٹرک سینڑل میں، ڈسٹرکٹ ویسٹ میں اور ڈسٹرکٹ ایسٹ میں۔

فہیم کمانڈو کا نام رمزی یوسف کے ساتھ بھی جوڑا گیا، وہی رمزی یوسف جس نے 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ رمزی یوسف 1995 میں اس وقت کی پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں بھی ملوث تھا۔ اس معاملے میں جب ایف آئی اے ٹیم رمزی یوسف سے تفتیش کے لیے امریکا گئی تو مبینہ طور پر فہیم کمانڈو کا بھی نام سامنے آیا۔ تب ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل رحمان ملک تھے اور الزام لگایا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کرنے کے لیے رمزی کی کہانی گڑھی۔

وفاقی وزیر داخلہ ریٹائرڈ میجر جنرل نصیر اللہ بابر دہشت گردی کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کے لیے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے اجازت لے چکے تھے۔ اسی لیے بہادر علی، ذیشان کاظمی، چوہدری اسلم اور سرور کمانڈو جیسے پولیس افسران کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے ایسی ایسی حکمت عملیاں بنائی گئیں، جنہیں سن کر آپ حیران ہو جائیں گے۔ محمد احمد انصاری اس بارے میں بتاتے ہیں:

جہاں تک بات ہے آپریشن میں کامیابیوں کی، جیسا کہ میں نے بہت سے وی لاگز میں دیکھا جن میں بتایا گیا کہ ذیشان، سرور کمانڈر یا توفیق زاہد نے، نصیر اللہ بابر کی انٹری کے بعد۔ یہاں بہت سے صحافی اور تجزیہ کار ایک بات مِس کر دیتے ہیں، اور وہ یہ کہ حکمت عملی کیا بنائی گی تھی؟ نصیر اللہ بابر اپنے ساتھ ایک نئی حکمت عملی لے کر آئے تھے جو کولمبیا اور میکسیکو میں ہوتی تھی۔ کولمبیا اور میکسیکو کے نارکوٹیکس کو ختم کرنے کے لیے ڈی ای نے ان کی بیویوں کو، ان کی گرلز فرنڈز کو استعمال کیا۔ یہی چیز لے کر ڈوبی فاروق دادا سے لے کر جاوید بندا کے لوگوں کو۔ اب مثال لے لیتے ہیں ارشد کے ٹو یا ریحان کانا کی، کیا ان کی ’’ارینج میرج‘‘ ہو سکتی تھی؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی ارینج میرج نہیں ہو سکتی تھی۔ ان کو خاندان میں کہیں رشتہ نہیں ملتا۔ پھر دوسرا یہ کہ یہ لوگ مفرور تھے۔ ان کے لیے یہی آسانی تھی کہ کہیں ان کا معاشقہ ہوجائے، چاہے وہ ون سائیڈڈ ہی ہو۔ جیسے فاروق دادا نے عزیز الرحمن چھری، جو ڈی ایس پی تھے، ان کے بیٹے سے منسوب شازیہ سے شادی کی تھی اور ان کے بیٹوں کا قتل کیا تھا فاروق دادا نے۔ اس طرح شازیہ سے شادی ہوئی۔ شادی کے بعد ایک عورت نارمل زندگی گزارنا چاہتی ہے، تو نارمل زندگی کس نے دی؟ جب چھاپے پڑتے ہیں تو عورت کہتی ہے میں کہاں پھنس گئی؟ ایسے میں کچھ کردار آتے ہیں اور رابطہ کرتے ہیں پھر ڈیل کی جاتی ہے۔ یوں ہر پکڑے جانے والے کے پیچھے عورت ہی نکلتی ہے۔

فہیم کمانڈو کو پکڑنے کے لیے بھی ایک جال بچھایا جاتا ہے۔ ایک غیر مہاجر خاتون جو بٹ فیملی سے تھیں، ان کو انجیکٹ کیا جاتا ہے۔ خاتون کی فہیم کمانڈو سے کسی نہ کسی طریقے سے دوستی کروائی جاتی ہے، جو فہیم سمیت دیگر مہاجر ایکٹیوسٹ لڑکوں کی ہمدردی حاصل کرتی ہے۔ کبھی پریس کانفرنس میں دعویٰ کرتی کہ اُسے پولیس سرچ آپریشن کےدوران برہنہ کیا گیا اور کبھی کوئی اور طریقہ۔ معروف صحافی اور لکھاری عثمان جامعی اس حوالے سے بتاتے ہیں:

فہیم کمانڈو کے بارے میں جو ایک اہم بات تھی وہ یہ کہ فہیم کمانڈو کی ایک خاتون کے ساتھ دوستی تھی، شاید ’’ناہید بٹ‘‘ نام تھا ان کا۔ ایک واقعے میں ایم کیو ایم نے الزام لگایا تھا کہ گھروں میں لوگ داخل ہوئے ہیں اور ایک خاتون کے ساتھ بہت بدتمیزی کی گئی ہے، ان کو بے لباس کیا گیا ہے، تو اس کے بعد ان خاتون کا نام سامنے آیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ فہیم کمانڈو کی دوست تھیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پارٹی میں بھی شامل تھیں حالانکہ یہ غیر مہاجر خاتون تھیں۔ اور جب فہیم کمانڈو گروپ کے لڑکے آپریشن کے لیے نکلتے تھے تو یہ لڑکوں کے سروں پر قرآن رکھ کر کھڑی ہوتی اور لڑکے قرآن کے نیچے سے گزرتے۔ پھر اس ہی خاتون پر الزام لگا کہ اس نے مخبری کی ہے اور اس کی مخبری پر لڑکے مارے گئے۔

ایم کیو ایم کے مطابق اس خاتون کی وجہ سے ہی گروپ کے کئی لڑکے مارے گئے۔ بہرحال، فہیم کمانڈو کو لندن سے ندیم نصرت کی کال آتی ہے۔ آرڈر ملتا ہے کہ بٹ فیملی کی خاتون کو ٹھکانے لگایا جائے۔ مگر، شاید فہیم کی محبت جاگ جاتی ہے اور وہ اپنی دوست کو مارنے سے انکار کر دیتا ہے۔ پھر کئی کالز آئیں، مگر فہیم کمانڈو کی بندوق خاتون پر نہ چلی۔ ندیم نصرت کو یہ انکار بالکل پسند نہیں آتا اور وہ پارٹی لیڈر الطاف حسین کو بتاتا ہے کہ ’’بھائی! لڑکا تو ہاتھ سے نکل گیا‘‘۔

اس طرح فہیم الطاف بھائی کے ریڈار پر آجاتا ہے۔ یہاں سے پارٹی اور فہیم کی راہیں جدا ہونے لگتی ہیں۔ مگر رکیے! یہاں ہمارے ذرائع کچھ اور بھی بتاتے ہیں۔ فہیم کا پارٹی سے اختلاف بھتہ لینے پر ہوا۔ فہیم کو وہ کام بتائے جاتے جو مہاجر کاز سے بالکل مختلف تھے۔ جیسے ایک بار ایم کیو ایم کے سینئیر رہنما شعیب بخاری نے فہیم کمانڈو کو کہا کہ جاؤ اور جا کر متین پکوان والے سے بھتہ لاؤ۔ جواب میں فہیم نے شعیب بخاری کو بڑی بڑی گالیاں دیتے ہوئے کہا کہ کیا میں آپ کو بھتہ خور لگتا ہوں؟ اس بات پر فہیم کو اتنا طیش میں آیا کہ اس نے شعیب بخاری کو مرغا بھی بنا دیا۔

فہیم پارٹی سے بھی منہ موڑ چکا تھا اور ادارے تو اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے تھے۔ 2 اگست 1995 کو جب تمام تر کوشش کے باوجود فہیم کمانڈو نہیں پکڑا گیا تو اس کے بھائی مفیض فاروقی اور فرخ فاروقی کو اسلام آباد میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک بات آپ کو تھوڑا حیران کرے گی، وہ یہ کہ مفیض فاروقی اسلام آباد شفٹ ہونے سے پہلے پولیس میں اے ایس آئی تھے۔ مگر کیونکہ وہ فہیم کمانڈو کے بھائی تھے اس لیے انہیں پولیس کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔

بہرحال، 6 اگست 1995 کو فہیم کمانڈو اپنے تین ساتھیوں سمیت ناظم آباد، کراچی سے پکڑا جاتا ہے۔ فہیم کے پکڑے جانے کے بعد مفیض اور فرخ کو چھوڑ دیا گیا۔ چونکہ فہیم پولیس کی حراست میں آ چکا تھا، اس لیے مفیض، فرخ اور ان کی والدہ دوبارہ کراچی آ جاتے ہیں، یہ سمجھ کر کہ اب انہیں کوئی بھی تنگ نہیں کرے گا۔ یہاں شروع ہوتا ہے ’’ریاستی جبر‘‘۔

فہیم کمانڈو کو پار لگانے کے لیے خون سے بھری غیر قانونی کہانی لکھی جاتی ہے۔ اس میں فہیم کمانڈو کے بھائی مفیض فاروقی کو بھی جعلی کردار بنا کر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ظلم کی حد یہ کہ نمازی پرہیز گار مفیض کے سر اور چہرے کے بال بھی مونڈ دیے جاتے ہیں۔ ایس ایچ او ایئرپورٹ راؤ انوار کو جعلی پولیس مقابلے کے لیے حکم ملتا ہے۔ دس اکتوبر کو فہیم اور اس کے تین ساتھیوں کو جیل سے نشاندہی کے لیے نکالا جاتا ہے۔ نارتھ ناظم آباد کی ایک کوٹھی کو جائے وقوعہ بنایا جاتا ہے۔ اسٹوری یہ بنائی جاتی ہے کہ مفیض کوٹھی کی چھت پر تھا، جیسے ہی پولیس فہیم کمانڈو اور اس کے ساتھیوں سمیت کوٹھی کے گیٹ پر پہنچی، مفیض چھت سے فائرنگ کرنے لگا اور اس کے نتیجے میں فہیم اور اس کے ساتھی مارے گئے۔

ظلم یہیں ختم نہیں ہوتا، پولیس مفیض کو لا وارث قرار دے کر اس کی لاش ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیتی ہے۔ جس دن فہیم کمانڈو کی تدفین ہوتی ہے، اس سے اگلے دن فہیم کی ماں کو مفیض کی موت کا پتہ چلتا ہے۔ اس جنگ میں ایک ماں اپنے تین بچوں کو کھو دیتی ہے۔

ویسے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ فہیم کو پکڑوانے میں ’’اپنوں‘‘ نے ہی کردار ادا کیا۔ محمد احمد انصاری انکشاف کرتے ہیں:

جیسے آپ نے ذکر کیا فہیم کمانڈو کا، یہ لوگ سفاک نہیں تھے۔ ایک حیرت انگیز واقعہ سناتا ہوں۔ جب فہیم کمانڈو کے مرڈر کی اطلاع آئی تو آفاق احمد افسردہ ہو گئے۔ چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد کی بات کررہا ہوں۔ وہ اپنے بدترین دشمن تنظیم کے اہم کمانڈر کے مارے جانے پر افسردہ ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں غمگین ہیں؟ تو وہ کہنے لگے کہ یہ بہت اچھا لڑکا تھا، بہت بہادر تھا، سفاک نہیں تھا، بزدل نہیں تھا۔ اگر اس کو نہ مارا جاتا تو یہ کوئی اور ہی چیز بن جاتا۔ کیسے کیسے ہیرے مہاجر لڑکوں کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ خیر یہ الزام آفاق احمد نے الطاف حسین پر ہی رکھا تھا کہ الطاف حسین نے لڑکوں کو گمراہ کیا۔ لیکن اس کے پیچھے تو انتقام تھا نا! جیسے فہیم کے بھائی کو مار دیا گیا تھا۔ بعد میں کئی جگہ سے تصدیق بھی ہوئی کہ مقبوضہ کشمیر میں فہیم جہاد کر چکا تھا۔ چرار شریف کا ایک بہت مشہور واقعہ تھا۔ چرار شریف پر ایک محاصرہ توڑا تھا انڈین آرمی کا۔ تو اس کا ہیرو قرار دیا جاتا تھا ’’میجر مست گل‘‘ نامی صاحب کو لیکن اصل ہیرو تو فہیم کمانڈو ہی تھا۔ فہیم نے ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ فہیم بلیک بیلٹ تھا، بہترین سویمر تھا اور بہادری کا عالم یہ تھا کہ اس نے اسلام آباد جا کر وزیر اعظم کو فون کیا اور ڈائریکٹ بے نظیر کو یہ میسج دیا تھا کہ تم کو اور تمہاری پوری فیملی کو اس کا حساب چکانا پڑے گا، جو ہمارے اوپر تم نے ظلم و ستم کیا ہے۔ اس بات کی تصدیق اس طرح سے ہوتی ہے کہ جس نے مجھے یہ بات بتائی کہ فہیم نے اس طرح سے دھمکی دے دی ہے کہ اب یہ پکڑا جائے گا اور یہ نکال کر مارا جائے گا مگر جب تک یہ نہیں ہوگا، چاہے اس میں ایک ماہ لگ جائے، بے ںظیر صاحبہ کراچی نہیں آئیں گی اور ایسا ہی ہوا۔ جب تک فہیم مارا نہیں گیا تب تک بے نظیر کراچی نہیں آئیں۔

یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ ان بگڑے حالات کو سیاسی و قانونی انداز سے کیوں نہیں حل کیا گیا؟ اگر اسٹریٹجی ٹھیک بنائی جاتی تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔ اگر ہم اس اسے سیاسی دہشت گردی سمجھ بھی لیں تو پھر نواز شریف یا بے نظیر بھٹو کی حکومتیں دس دس برس تک ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کر کے اقتدار میں کیوں رہیں؟

خیر، اُس وقت ماحول بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ فاروق دادا کا پہلے تھوڑا سا ذکر ہو چکا ہے، وہ اور فہیم کمانڈو میوچل آپریشن بھی کرتے تھے۔ فاروق دادا کھجی گراؤنڈ میں عدالت لگاتا تھا۔ تب ویسٹ اور سینٹرل کے گروپس کی بلدیہ کو سپورٹ حاصل تھی۔ اسی لیے فاروق دادا کے مخبر بہت تیز تھے۔ ایک بار فاروق دادا نے ایم کیو ایم حقیقی اور دیگر پیشہ ور مخبروں کو پکڑ کر کھجی گراؤنڈ میں عدالت لگائی۔ یہ سلسلہ چند روز تک جاری رہا، تب رضویہ تھانہ نہیں بنا تھا اور گل بہار تھانہ کی پولیس یہاں آنے کی جرات نہیں کرتی تھی۔ اگر فاروق دادا کا مخبر کسی پولیس والے یا پھر اجنبی کو پکڑ لیتا تو وہ کھجی گراؤنڈ میں مار دیا جاتا۔ فاروق دادا کو مقامی لوگ بہت پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اکثر غریب افراد کی بیٹیوں کے جہیز اور شادی کا بندوبست کرتا تھا۔

فہیم کمانڈو کی موت کے تین دن بعد فاروق دادا کو بھی راؤ انوار نے پار لگا دیا۔ پولیس نے فاروق دادا کو کس طرح پکڑا اور جعلی انکاؤنٹر میں مار دیا۔ یہ بڑا ہی درد ناک اور خطرناک واقعہ ہے۔ اس واقعے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو’’بیڈ کاپس آف کراچی‘‘ کے نام سے موجود وڈیو ضرور دیکھیں۔

اسی طرح ریحان کانا کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ بھی بہت اچھی فیملی کا لڑکا تھا۔ ریحان سول انجینیئر بننا چاہتا تھا، آپ جناب کر کے بات کرتا اور بڑوں کے سامنے نگاہیں نیچی رکھتا۔ مگر بہت جلد حالات نے اس کی معصومیت کو بھی درندگی میں بدل دیا۔

ریحان کانا کا سب سے بڑا واقعہ لیاقت آباد سپر مارکیٹ فائرنگ کیس تھا۔ ریحان اکثر کرپٹ افسران سے بھتہ لیتا تھا۔ اس کے گروپ نے 15 جون 1995 کو کے ایم سی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے دس افراد کو فائرنگ کر کے مار دیا۔ حملہ آوروں میں فہیم کن کٹا اور ارشد کے ٹو بھی شامل تھے۔ چونکہ مرنے والے ان دس افراد میں سے 7 افراد سندھی تھے، اس لیے شہر بھر میں فسادات کی لہر نے مزید 24 جانوں کو نگل لیا۔ مرنے والوں میں پولیس ملازمین بھی تھے۔

ریحان کو نیو کراچی کے ایس ایچ او انسپکٹر توصیف زاہد نے علاقہ دستگیر سے پکڑ کر جعلی پولیس مقابلے میں مارا۔ اس مقابلے میں ریحان کا چھوٹا بھائی جنید اور پھوپھی زاد بھائی پاشا بھی مارے گئے تھے۔ فہیم صدیقی ریحان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ریحان کانا کی اتنی دہشت تھی کہ جس ایس ایچ او نے اسے مارا، تو وہ مارنے کے بعد کانپنے لگا اور اس نے پولیس سے نفری مانگی کہ مجھے بکتر بند گاڑی میں لے جایا جائے۔

ریحان کانا بھی فہیم کمانڈو کا دوست تھا۔ اس نے اپنے دوست کے دشمن پولیس افسر انسپکٹر بہادر علی کو کس طرح قتل کیا؟ جاننے کے لیے آپ کو ہماری وڈیو ’’بیڈ کاپس آف کراچی‘‘ دیکھنا پڑے گی جس کا ذکر اوپر بھی آ چکا ہے۔

تو شدت بڑھ رہی تھی۔ ایم کیو ایم کی کارروائیوں کا انداز مزید خوفناک ہونے لگا اور پولیس نے بھی شک کی بنیاد پر بہت سی معصوم جانیں لیں۔ انتقام کی آگ نے پھر کسی کو نہ بخشا۔ محمد احمد انصاری نے کھجی گراؤنڈ کے خوف ناک واقعات بھی ہمیں سنائے جن میں سعید گنجا اور احتشام کا بھی ذکر آیا۔ ظلم تو پھر ظلم ہوتا ہے چاہے کوئی بھی کرے۔ کھجی گراؤنڈ کی اس کہانی میں ملوث ان کرداروں کا انجام بھی بہت برا ہوا۔ فرعون کا روپ دھارے ان کرداروں کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کا درد ناک جواب وڈیو میں محمد احمد انصاری کی زبانی سنیے۔

انیس سو پچانوے تک بڑے نام جیسے فہیم کمانڈو، فاروق دادا، ریحان کانا سب مٹی میں مل گئے۔ اب نئی پیڑھی آ رہی ہے، یہ پیڑھی کیا گل کھلائے گی؟ کہانی ابھی جاری ہے۔ محمد احمد انصاری نے اس پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے بتایا:

اب آ جائیے ٹارگٹ کلنگ پر۔ ٹارگٹ کلنگ کا سیٹ اپ شروع ہوا 1998 میں اور یہ قائم کیا تھا ڈاکٹر عمران فاروق نے۔ پہلی میٹنگ ذوالفقار حیدر اور واسع جلیل کی ہوئی۔ انہوں نے چنیدہ چنیدہ جو نام بن چکے تھے، ارشد کے ٹو تو مارا جا چکا تھا فاروق دادا بھی مارا جا چکا تھا، تب تک ریحان کانا اور فہیم کمانڈو ان سب کے کام اتر چکے تھے، عبید کے ٹو تھا، اجمل پہاڑی وغیرہ تھے، وسیم باس تھا اور بھی بہت سارے نام ان چنے ہوئے لڑکوں کو بلایا اور کہا کہ آج ہم آپ کے سامنے اپنے کپڑے اتار رہے ہیں۔

ہم یہ چاہتے ہیں کہ عوام کو ریلیف دیا جائے عوام کو ریلیف دینے کے لیے ضروری ہے کہ ڈرگ لارڈز، جوئے کے اڈے چلانے والے اور جن جن سے ہماری نوجوان نسل متاثر ہو سکتی ہے، ان کو ختم کرنا ہے۔ یہ کہا گیا ان لڑکوں کو اور انہیں لوپ میں لیا گیا۔ یہاں سے شروع ہوتا ہے ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا منظم سیٹ۔ اس سے پہلے ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں ندیم نصرت نے براہ راست اس کی کمان سنبھال لی تھی۔ علی بھائی کوڈ سے وہ بات کرتے تھے۔ تو وہ جو سورس ہے اس کے مطابق ہمیں استعمال کیا گیا۔ ہمیں تو یہ کہا گیا نا کہ عوام کو ریلیف دیا جائے گا لیکن ہٹ کس کو کیا جا رہا ہے، ہٹ ان سیاسی مخالفین کو کیا جا رہا ہے، ہٹ علما کرام کو کیا جا رہا ہے، ٹھیک ٹھاک علما کرام بھی مروائے گئے۔ ٹھیک ٹھاک سیاسی مخالفین بھی مروائے گئے، یہ دنیا ہی الگ بن گی تھی۔

یہ جو بھی ہو رہا تھا ہم اس کو ایکشن کا ری ایکشن سمجھتے ہیں مگر ہم مشرف دور کی ایم کیو ایم کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ ٹیرر تو اُس دور میں بھی تھا اور جو کچھ بارہ مئی کو ہوا وہ کیا کم terror تھا؟

چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معطلی کے بعد وکلا اور ججز کی احتجاجی لہر نے مشرف مخالف سیاسی تحریک کو نیا رخ دے دیا تھا۔

12 مئی 2007 کا سورج طلوع ہوا تو چیف جسٹس اسلام آباد سے کراچی کے ہوائی اڈے پہنچ تو گئے مگر شہر میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ اس دن کراچی میں بد ترین قتل و غارت ہوئی۔ پچاس سے زیادہ لوگ مارے گئے اور ڈھائی سے تین سو کے لگ بھگ افراد گولیاں لگنے یا تشدد کی وجہ سے زخمی ہوئے۔ اُس دن جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد میں اپنا جلسہ کیا۔ ہوا میں مکے لہرا لہرا کر اپنی طاقت کا اظہار کیا۔

اس دور میں مشرف نے اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے لیے ایم کیو ایم کو کھلی چھوٹ دی اور اب ایم کیو ایم ’’محب وطن‘‘ جماعت بن کر سامنے آئی۔ الطاف حسین کے ایسے ایسے بیانات سامنے آئے جنہیں سن کر شاید آپ کی ہنسی نکل جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر طالبان دہشت گردوں سے لڑنے کی ضرورت پڑی تو ایم کیو ایم پاکستان فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑے گی۔ مشرف اور ایم کیو ایم کا رومان بڑا سحر انگیز ہے، مگر اس لو اسٹوری نے بہت سوں کی جانیں بھی لیں۔ محمد احمد انصاری بتاتے ہیں:

اب انہوں (ایم کیو ایم) نے پرانے حساب مٹانے شروع کیے۔ مثال کے طور پر 1992 آپریشن کے جتنے سرگرم کردار تھے، اسلم حیات، توفیق زاہد یا پھر اور دیگر لوگ، انہیں چن چن کر مارا گیا۔ پرویز مشرف کے دور میں یہ تھا اس ٹارگٹ کلنگ کا اصل مقصد صرف پولیس افسران ہی نہیں آئی اوز بھی مارے گئے، گواہان بھی مارے گئے۔ اس کے علاوہ جو پولیس کے مخبر یعنی انفارمر بھی مارے گئے، وکیل مارے گئے۔ جن جن سماجی رہنماؤں نے اپنے اپنے علاقوں میں کام کیا تھا ایم کیو ایم کے خلاف، وہ مارے گئے۔ پرویز مشرف حکومت کی آشیرباد کا فائدہ اٹھایا گیا۔ ایک تیر سے دو شکار ہوئے۔ انتقام بھی پورا ہوا لڑکوں کا اور جذبات بھی ٹھنڈے ہوئے۔ دوسرا پولیس کو یہ پیغام بھی مل گیا کہ آئندہ اگر ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہو تو اپنی اوقات میں رہنا۔ اس چیز کا امپیکٹ بہت خطرناک تھا۔ توفیق زاہد کی مثال دیتا ہوں، جب توفیق کو مارا گیا تو تیسرے یا چوتھے دن سرور کمانڈو، جو بڑا پولیس کا بڑا نام تھا، نائن زیرو پر معافی نامہ جمع کروانے کے لیے حاضر ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کا وفا دار، آپ جس کو کہیں گے میں اس کو کاٹوں گا اور جس کو کہیں گے اس کو چھوڑوں گا، بس میرا یہ معافی نامہ الطاف بھائی تک پہنچا دو اور مجھے معاف کر دو۔ یہ وہ سرور کمانڈو تھا جو ایم کیو ایم کے لیے دہشت کی علامت تھا۔ اور اب وہ اپنی جان کی بھیگ مانگ رہا تھا نائن زیرو کے دروازے پر۔ یہ اس ٹارگٹ کلنگ کے ثمرات تھے۔

یہ نیا دور ہے، اب مارکیٹوں سے چھوٹی موٹی بھتہ خوری نہیں کی جاتی۔ لیکن ٹارگٹ کلنگ سیٹ اپ سے بہت بڑے فائدے ضرور اٹھائے جانے لگے۔ کے ایم سی اور کے ڈی اے کے سرکاری ملازمین اڑا دیے گئے۔ ایسے کئی بلڈرز بھی اڑا دیے گئے جو اینٹی انکروچمنٹ افسر تھے۔ بدر الدجیٰ، جو ایم کیو ایم کے بانی کارکنان میں شامل تھے، انہیں بھی مار دیا گیا۔ غرض جو بھی سامنے آیا اسے نہیں بخشا گیا۔ یوں بھتہ خود بخود پہنچنے لگا۔ بس مقصد یہ تھا کہ اب ہم جب چائنہ کٹنگ کریں تو کسی مائی کے لال کی جرات نہ ہو کہ وہ سامنے آئے۔ اس کام سے بھی خوب پیسہ بنایا گیا۔ کئی پارکوں پر قبضے ہوئے، کئی نالوں پر گھر بنا دیے گئے۔ مگر جب برا وقت آیا تو سارا سیٹ اپ مصطفی کمال کی لانڈری میں دھل کر ’’نیٹ اینڈ کلین‘‘ ہو کر آگیا۔

محمد احمد انصاری گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں:

تو یہ ساری چیزیں ہیں۔ ان سے سبق سیکھنا چاہیے، کیونکہ ہم نے اگر ماضی کو پستول کا نشانہ بنایا تو مستقبل ہمیں توپ سے اڑا دے گا۔ یہ حقیقت ہے۔ یہ جو آج باتیں بیان کی جا رہی ہیں ظاہری بات ہے یہ ماضی کا قصہ ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہیں گے کہ ماضی کی راکھ میں کریدنے سے کیا ملے گا، تو ماضی کی راکھ میں کریدنے سے ہمیں مستقبل کے جگنو ملیں گے چنگاریاں نہیں ملیں گی۔ ریاست کو بھی سوچنا ہوگا کہ ہم کیا myth create کر رہے ہیں جو آگے چل کر مونسٹر بن سکتا ہے اور مونسٹر بننے والے کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ زیادہ وقت نہیں لگے گا مجھے دوبارہ ڈبّے میں پیک ہونے میں۔ نوجوان نسل کو یہ پیغام ملنا چاہیے کہ کس طرح ہمارے جذبات کو استعمال کیا جاتا ہے، ہم آنکھوں کے تارا بن جاتے ہیں اور کس طرح سے دامن جھٹک کر صاف کر دیے جاتے ہیں۔ بس یہی آپ سے عرض کرنا تھی۔

شیئر

جواب لکھیں