کیا کبھی پولیس اسٹیشن گئے ہیں؟ ایسے ہی، کیریکٹر سرٹیفیکیٹ بنوانے کے لیے یا اسٹریٹ کرائم کی رپورٹ درج کروانے کے لیے؟ کیسا experience رہا؟ یقیناً ایک بھیانک تجربہ ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے، آپ کو وہاں چُل بُل پانڈے یا سنگھم جیسے کردار تو نہیں ملے ہوں گے۔ بلکہ آپ کو ملے گا ایسا تھانہ کلچر جو پاکستان میں انصاف کے حصول میں پہلی رکاوٹ ہے۔

یہ تھانے چلتے کیسے ہیں؟ انہیں کتنا بجٹ ملتا ہے؟ اُن کی پشت پناہی کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے؟ اور قانون کی رکھوالی کے نام پر تھانہ کن کن دھندوں میں ملوث ہوتا ہے؟

پاکستان پولیس ایکٹ

پاکستان کا پولیس ایکٹ اصل میں برطانیہ کے پولیس ایکٹ 1861 کی باقیات ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد ہی ہندوستان کے عوام کو غلام بنانا تھا، اس لیے پولیس ایکٹ کو کالا قانون کہا جاتا تھا۔ یہی قانون سن 2002 تک ہمارے ملک میں نافذ رہا اور ہم خود اس کالے قانون کو مانتے رہے۔ اسے بدلنے کی کوشش بھی کی گئی، مگر افسوس ہمارے سیاست دانوں کو نئے نظام میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس ریفارمز آج تک نہیں ہو سکیں اور آج بھی ایک شریف آدمی تھانے جاتے ہوئے گھبراتا ہے۔ کوئی چوری ہو جائے، ڈاکا پڑ جائے، اسٹریٹ کرائم میں کچھ چھن جائے، لوگ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم اور نا انصافی کو سہہ جاتے ہیں لیکن شکایت لے کر تھانے نہیں جاتے، کہ کہیں بچی کچھی جمع پونجی بھی نہ چلی جائے۔

جی ہاں! ہمارے ملک کے تھانے ایسے ہی ہیں۔ لیکن ان تھانوں کا ایک پہلو اور بھی ہے، جو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ یہ کہ آخر یہ تھانہ چلتا کیسے ہے؟ سابق ایس ایس پی نیاز کھوسو نے اس سوال کا جواب یوں دیا:

سیلری میں کون گزارا کرتا ہے؟ پورے پاکستان میں ایک سسٹم ہے۔ ایک کرائم ہوتا ہے، آرگنائیز کرائم۔ اب آرگنائیز کرائم کے ذریعے وہ پیسے سب کو گھر بیٹھے، جیسے پولیس ہوگی، کسٹم ہوگی، ایکسائیز ہوگی، ان کو گھر بیٹھے پیسے ملتے رہتے ہیں۔ جیسے جوا ہے، سٹا ہے، شراب ہے، منشیات بھی بک رہی ہے، وہ جب بکتی ہیں تو تھانہ کی اور کسٹم کی اور ایکسائیز کی اجازت کے بعد بکتی ہے۔

معروف صحافی مبشر فاروق اس بارے میں کہتے ہیں:

پرویز مشرف کا دور ہے اور اس کے بعد کا دور ہے، پرویز مشرف کے دور میں وار اینڈ ٹیرر کی جنگ شروع ہوئی تھی تو کچھ فنڈز پولیس کو ملنا شروع ہوئے۔ لیکن ابھی تک اس میں سے بہت محدود حصہ افسران کو ملتا ہے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ اعلی افسران وہ فنڈ کسی مقصد کے لیے مختص بھی ہے تو وہ برائے نام کاغذ میں ان کو ملتا ہے۔ اور ایس ایچ اوز سے سائن کروا کر وہ رقم اعلی افسران ہڑپ کر لیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ٹھیک سے ابھی بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پولیس کے پاس برسا برس سے مروجہ نظام ہے جس نظام کے ذریعے ان کی ایک ناجائز آمدنی ہوتی ہے۔

سینیئر صحافی فہیم صدیقی بتاتے ہیں:

کہتے ہیں نا ’’اوپن سیکرٹ‘‘ والی بات ہے کہ علاقہ میں ہونے والے جرائم کی رقم تھانے پہنچتی ہے۔ اور اگر کوئی کرائم واقع ہو جائے تو پھر اور وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ پھر تو اس میں سے اور بہت کچھ لیا جاتا ہے۔ ملزم اگر کسی واقع کے بعد پکڑا گیا ہے، ابھی وہ مجرم نہیں ہے، ابھی اس پر صرف الزام ہے، تو اس شخص جس پر الزام ہے وہ کمائی کا ایک ایسا ذریعہ بن جاتا ہے تھانے کے لیے کہ وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ تو یہ ایسے اوپن سیکرٹ ہیں، اس شہر کی کیا بات کروں یہ پولیس کلچر تھانہ کلچر تو پورے ملک کا ایک جیسا ہے۔

جو افسران مقابلے کے امتحان سے آتے ہیں، ان کے پاس پولیسنگ کا تجربہ کم ہوتا ہے اور 90 فیصد جرائم کو نان پی ایس پی افسران ہی دیکھتے ہیں۔ کانسٹیبل ہو یا انسپکٹر عوام سے ڈائریکٹ ڈیل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تھانے کا سربراہ ہر چیز کا بادشاہ ہوتا ہے، وہ کالا کرے یا سفید اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ تھانہ تو سمجھیں پیسہ بنانے والی فیکٹری ہوتا ہے اور اس فیکٹری میں کام کرنے والے آپ کی سوچ سے زیادہ کر کماتے ہیں۔

آج سے تقریباً بیس سال پہلے یہ فیکٹریاں کتنا ناجائز پیسہ کماتی تھیں؟ مبشر فاروق بتاتے ہیں:

میں سن دو ہزار تک کا آپ کو کنفرم کر سکتا ہوں کہ کراچی پولیس کی سالانہ آمدنی کتنی تھی یعنی کراچی پولیس کو تقریباً یعنی کم و بیش 5 ارب آمدنی تھی ایک سال کی یہ میں آپ کو پولیس کے مروجہ نظام کے تحت بتا رہا ہوں اس وقت کے ایم سی کا جو بجٹ ہوتا تھا جو سڑکوں کی تعمیر اور دیگر کاموں کے لیے وہ بھی 5 ارب ہوتا تھا اتنا ہی بجٹ پولیس پیدا کر لیتی ہے اور ویسے جو اصل واقف حال کہتے ہیں کہ یہ رقم اس سے بھی زیادہ ہے۔ آپ اس کو تقسیم کر دیں تو مختلف تھانوں میں وہاں کے جرائم کے حوالے سے الگ الگ آمدنی ہے کچھ تھانے گولڈن تھانے کہلاتے ہیں جہاں پر آمدنی زیادہ ہوتی ہے اور کچھ تھانوں میں آمدنی بالکل ہی کم ہوتی ہے کراچی کے جو اچھے تھانے ہیں جہاں اچھی آمدنی ہے مثال کے طور پر جیکسن تھانہ ہے، رضویہ تھانہ ہے، سرجانی تھانہ ہے ہر جگہ جرائم کی نوعیت مختلف ہے اور اس حساب سے ایس ایچ اوز تھانوں میں تعیناتی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اور سب سے جو چھوٹا تھانہ ہے، جہاں آمدنی کم ہے وہ ملیر تھانہ ہے، وہاں پر آمدنی 80 ہزار تھی۔ اب میں نے سنا ہے کہ وہ اور بھی کم ہوگی ہے کیونکہ وہاں کی مینجمنٹ کوئی غلط کام نہیں کرنے دیتی۔ اس طرح میوچل انڈر اسٹینڈنگ کے ساتھ ایس ایچ او کو 50 ہزار کی آمدن ہو جاتی ہے۔ مگر وہاں صرف وہ افسران جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں جو کم آمدنی پر گزارہ کریں اور وہاں رہ کر اپنے کنیکشن کو مضبوط کریں۔ کیونکہ جو طبقہ وہاں رہتا ہے وہ بہت با اثر اور طاقت ور طبقہ ہے۔/ وہ اس سے کنیکشن مضبوط کر لیتا ہے اور دو یا چار سال بعد جب کنیکشن مضبوط ہو جاتا ہے، تب اس سے فائدہ اٹھا کر کوئی اور بڑی پوسٹ بھی حاصل کر لیتے ہیں عموماً ملیر کینٹ پولیس افسر نہیں جانا چاہتے۔

فہیم صدیقی بھی اس بات سے متفق ہیں، کہتے ہیں:

ہمارے ہاں تھانہ ہر ہفتہ نیلام ہو جاتا ہے۔ جس شخص کے پاس پیسے اچھے ہوں وہ تھانہ خرید لے اور تھانہ کوئی بھی پولیس افسر کیوں خریدتا ہے بولی لگتی ہے باقاعدہ اور وہ خریدتا اس لیے ہے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس تھانے سے مزید کمائی کر سکتا ہے ایک وقت ایسا تھا جب زمین کے معاملات کے لیے شہر کے مضافات کے جو تھانے ہیں سب سے زیادہ بولی وہاں لگا کرتی تھی منگھو پیر کے تھانے کا اگر آپ کو ایس ایچ او لگنا ہے اس کے پیسے الگ ہوتے تھے اگر آپ کو سکھن کا ایس ایچ او لگنا ہے تو اس کے پیسے الگ ہیں اگر آپ کو ملیر یا گڈاب کا ایس ایچ او لگنا ہے، تو اس کے پیسے الگ ہیں۔ اور وہ پیسے شہر کے کسی بھی تھانے سے کئی گنا زیادہ ہوتے تھے۔ اور آنے کے بعد ایس ایچ او یہ نہیں کرتا تھا کہ وہ تھانے کے 26 رجسڑ پڑھتا تھا، اس کی کوشش ہوتی تھی کے جتنے پیسے وہ دے کر آیا ہے سب سے پہلے وہ پورے کر لے۔ اور پھر کچھ بچا بھی لے اس سے پہلے کے کوئی دوسرا شخص پوسٹنگ آرڈر لے کر یہاں آ جائے۔

تھانہ چلانے میں کئی لوگ مدد کرتے ہیں، یہ لوگ کون ہوتے ہیں؟ جی ہاں! ناجائز کام کرنے والے۔ ان کی مقامی ایس ایچ او سے مختلف ڈیلز ہوتی ہیں کہ تھانے کی حدود میں کتنا دھندا ہوگا اور وہ کتنا گندا ہوگا؟ ایس ایچ او جرم کی نوعیت کے مطابق پیسے طے کرتے ہیں۔ یہ سب ایک خاص ہیرارکی کے تحت ہوتا ہے، یعنی اوپر سے نیچے تک سب کو مال ملتا ہے۔ اس سسٹم میں کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں۔ ہاں! اگر مال اوپر تک نہیں پہنچتا تو اس کا ذمہ دار بھی ایس ایچ او ہی ہوتا ہے۔

مبشر فاروق اس بارے میں مزید بتاتے ہیں:

ایس ایچ او نے چارج لیا تھانے کا چارج لینے کے بعد ایس ایچ او ہیڈ محرر کو بولے گا کہ بیٹر کو بلا لو۔ پولیس میں بھتہ کو ’’بیٹ‘‘ بولتے ہیں۔ پولیس میں ہم جب بیٹ بولتے ہیں تو اس کا مطب ہے کہ ناجائز آمدنی کا حساب کتاب رکھنا اس کی پرمیشن دینا اور اس کی کلیکشن کرنا اس کو بیٹ سسٹم بولتے ہیں شراب چرس اور ہیروئن، جوا اور لڑکیاں سپلائی مختلف قسم کے جو لوکل آرگنائیز کرائم ہیں پولیس کی پرانی لینگوئیج میں اس کو ’’مؤکل‘‘ کہتے ہیں یعنی مؤکل وہ ہوتا ہے جو جرم کرے گا مؤکل ایس ایچ او کو بولتے ہیں یہ دونوں تو ناگزیر ہیں اس بیٹ سسٹم کے لیے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے اس میں ایک وکیل بھی ہوتے ہیں وکیل اس کو کہتے ہیں کہ ایک آدمی پہلی بار جرم کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ایس ایچ او تک رسائی نہیں رکھتا تو وہ کسی بااثر آدمی یا کسی لوکل بندے کے ذریعے ایس ایچ او تک پہنچے گا تو وہ بتائے گا کہ میں اپ کے علاقے میں کام کرنا چاہتا ہوں ایس ایچ او اس سے پوچھے گا کہ کتنی کھپت ہے اور وہ بتائے گا کہ میں مہینے میں 5 ہزار بوتلیں سپلائی کر سکتا ہوں تو ایس ایچ او حساب کتاب لگا کر بتائے گا کہ آپ مجھے اتنے پیسے دو گے ناجائز کاروبار شروع کرنے کا جو طریقہ ہوتا ہے اس میں پہلے تین دن فری ہوتے ہیں۔ صرف جوئے میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک زرِ ضمانت رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جوا اتنے سائز کا ہوگا، چھوٹے لیول کا ہے، بڑے لیول کا ہے، تو ایس ایچ او بولے گا کہ مجھے اتنے پیسے دے دو اگر 5 ڈاٹ ہو تو بہت زیادہ رقم ہوتی ہے۔ آپ تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔

فہیم صدیقی نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا:

ایس ایچ اوز بھی تو کم نہیں ہوتے نا، اسی لیے لسٹیں بنتی رہتی ہیں۔ تین دن پہلے کراچی کے کئی تھانوں میں رہنے والے صاحب جو ابھی ڈی ایس پی ان کا فون آیا اور وہ بہت رو رہے تھے کے شہر کے کرپٹ افسران کی لسٹ میں ان کا نام بھی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ آج تک ان کو کبھی شو کاز نوٹس نہیں ملا۔ نہیں ملا ہو گا شو کاز، لیکن آپ نے بھی تو کہیں ڈنڈی ماری ہوگی۔ اوپر جو حصہ پہنچانا ہوگا وہ آپ نے اوپر والے کی بجائے گھر والی کو دے دیا ہوگا۔ تو اس کی وجہ سے ناراضیاں تو ہوتی ہیں۔ اگر صرف یہ کہیں نا کہ جناب ایس ایچ او ڈی ایس پی لیول کے لوگ کی کرپٹ ہیں، تو یہ بات بالکل غلط ہے۔ بھتہ کہاں تک جاتا ہے، بات بہت آگے نکل جائے گی۔ ایس پی وزیر داخلہ کے دفتر کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھا کرتے تھے اور اس وقت ایک تھانہ کا ریٹ 20 لاکھ ہوتا تھا۔

آپ حیران ہوں گے کہ ایس ایچ او کا تعلق صرف چھوٹے موٹے جرائم پیشہ افراد سے نہیں، بلکہ انڈر ورلڈ سے بھی ہوتا ہے۔ لیکن ایسا تعلق بنانا ہر ایس ایچ او کی بس کی بات بھی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے بڑا اثرو رسوخ ہونا چاہیے۔ مبشر فاروق نے اس بارے میں ایسی ایسی باتیں بتائیں جنہیں جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ سابق ایس ایس پی نیاز احمد کھوسو کہتے ہیں کہ تھانے میں افسران کی تعیناتی کے پیچھے سیاست دان ہوتے ہیں یہ آئی جی یا ڈی آئی جی تعینات نہیں کرتے۔

پولیس کا آرگنائزڈ کرائم کرنے والوں کے ساتھ رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے۔ آپ کو ایک ایسا دلچسپ واقعہ بتاتے ہیں جسے سن کر آپ بھی کہیں گے کیا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

ایک بہت مشہور کریمینل سرتاجا تھا۔ اس کا بہت بڑا گینگ تھا۔ اس کی گرفتاری تقریباً ناممکن تھی۔ مگر اس کو گرفتار کرنے کے لیے ایس پی اطہر رشید بٹ نے قدم بڑھایا اور مختلف مقامات پر چھاپے پڑوائے۔ پھر کیا ہوا؟ مبشر فاروق بتاتے ہیں:

ایک دن اطہر رشید کو فون آیا جس میں کسی نے ان کو مخاطب کر کے گالیاں دیں اطہر رشید بٹ کو بہت غصہ آیا اس نے کہا کہ اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ ایک کریمنل ایس پی کو گالیاں دے رہا ہے! جیکسن تھانے کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ فوری ریڈ کرو کاروائی کرو اور اس کو گرفتار کر کے لاؤ۔ ایس ایچ او نے انکار کر دیا کہ صاحب سرتاجا کے خلاف تو کچھ نہیں کر سکتا چاہے آپ نوکری سے نکال دیں۔ کوئی افسر ریڈ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ پتہ یہ چلا کہ سرتاجا سب کو پیسے دیتا ہے۔ آخر ایک بڑے زبردست افسر تھے انسپکٹر ادریس بنگش جو کام اچھے اچھے پولیس والے نہیں کر سکتے تھے وہ یہ کام کر دیتے تھے یہ گئے اور انھوں نے سرتاجا کو گرفتار کر لیا۔ مجھے جب انٹیروگیشن کے لیے بلایا گیا تو میں جیکسن تھانے گیا تو وہاں جو تماشا دیکھا وہ بڑا دلچسپ تھا۔ آپ سن کر حیران ہو جائیں گے کہ ملزم اندر ہے، میں کاغذ پن لے کر باہر بیٹھا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ باہر ہر شفٹ کا پولیس افسر کھڑا ہے سب اکھٹے ہو رہے ہیں اور گاڑیوں کا بازار لگ رہا ہے۔ پتہ یہ چلا کہ سرتاجا نے بولا ہے کہ ان پولیس افسران سے یہ شرط لگی تھی کہ اگر بد قسمتی سے میری گرفتاری پیش آئے تو میں نے اپنی جیب سے ایک روپیہ نہیں خرچ کرنا، اب جس پولیس والے کے پاس جتنے پیسے تھے وہ ٹیبل پر اتنے پیسے اکھٹے کر رہا تھا۔ اس وقت سرتاجا کو بیس لاکھ کی ضرورت تھی تقریباً دو گھنٹے میں پولیس والوں نے بیس لاکھ اکھٹے کر لیے۔ ایک طرف ایس پی کہنے پر سرتاجا کے خلاف کاغذی کاروائی ہو رہی ہے، اس کے خلاف ہیروئن کا مقدمہ بنایا گیا۔ پھر ہوا یہ کہ ایف آئی آر بھی درج ہوئی سب کچھ ہوا مگر ان پیسوں سے یہ ہوا کہ جو ہیروئن لیب ٹیسٹ کے لیے گئی، اس لیب ٹیسٹ کو پولیس نے پیسے کھلا دیے اور لیبارٹری سے عدالت کو جو رپورٹ آئی کہ یہ ہیروئن نہیں یہ تو ٹیلکم پاوڈر ہے۔

آپ تو کو سمجھ گئے ہوں گے کہ تھانے کے اخراجات بھی سرکاری بجٹ سے پورے نہیں کیے جاتے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جو سسٹم بنایا گیا ہے، وہ بڑا دلچسپ ہے۔ شاید آپ بھی کئی بار اس سسٹم کا شکار ہو چکے ہوں۔

پولیس کے نظام کو شاید جان بوجھ کر بہتر نہیں کیا جاتا۔ تو اس گلے سڑے نظام سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟ اس کا کچھ اندازہ تو آپ کو بھی ہو گیا ہوگا۔ جب پولیس جرائم ختم کرنے کی بجائے مجرموں سے ہی یارانہ بڑھا لے، تو کس کا گلہ کریں؟ ویسے کوئی بہتری کا امکان ہے بھی یا نہیں؟ سینیئر صحافی فہیم صدیقی اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:

دیکھیں اربوں روپے کا بجٹ ہے سندھ پولیس کے لیے۔ صرف سیلریز کو نکال کر بھی اتنا بجٹ ہے کہ آپ آرام سے سب کچھ چلا سکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہر سال پولیس کے بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے اور جب امن و امان کی بات ہوتی ہے تو بجٹ کا اضافہ ہوتا ہے اور کوئی اپوزیشن بھی نہیں بولتی۔ آج پچیس سے تیس سال ہو گئے، رینجرز اس شہر میں موجود ہے اور آپ اربوں روپے رینجرز کو یہاں رہنے کے اوپر ادا کرتے ہیں، ان کی رہائش کے اوپر ان کے اخراجات کے اوپر سندھ حکومت وہ بجٹ میں سے دیتی ہے وفاق سے الگ ملتا ہے سندھ حکومت الگ سے دیتی ہے یہ پیسہ اگر پولیس کی کیپیسٹی بلڈنگ کے اوپر لگایا جاتا تو میں سمجھتا ہوں پولیس زیادہ بہتر پرفارم کر سکتی ہے۔

مبشر فاروق ایک اور حیرت انگیز پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

میرا جو 38 سال کا تجربہ ہے پولیس کے اوپر میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی بھی انٹیلیجنس ایجنسی کے پاس وہ معلومات نہیں ہوگی جو پولیس کی انٹیلیجینس اور پولیس کے پاس ہے اس چیز کا ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا کراچی میں جتنی بھی یہ آٹھ نو ایجنسیاں کام کر رہی ہیں میں کہتا ہوں ایک ترازو میں ساری ایجنسیاں رکھ دیں اور دوسرے پلڑے میں اسپیشل برانچ ایجنسی رکھ دیں اسپیشل برانچ جیت جائے گی اس کا آج تک کسی نے فائدہ نہیں اٹھایا۔

تھانوں کو سیاسی دباؤ سے نکالنے کی بات بار بار کی گئی، کئی بار کی گئی لیکن یہاں ہر چیز بدل جائے گی، نہیں بدلے گا تو تھانہ کلچر نہیں بدلے گا۔

شیئر

جواب لکھیں