یہ محمد فاضل ہے۔ جناح اسپتال کے کینسر وارڈ میں بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ دھکے اس کے نصیب میں شروع سے نہیں لکھے تھے بلکہ اپنی زندگی کے پہلے 42 سال تو اس نے بہت اچھے گزارے۔ بس پچھلے چھ مہینے میں فاضل حال سے ایسا بے حال ہوا کہ آج وہ ٹھیک سے بات بھی نہیں کر سکتا۔ نوکری چھوٹ گئی۔ بچے پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اور قرضہ چڑھتا جا رہا ہے۔
صرف چھ مہینوں کے اندر 7 بچوں کے باپ کی زندگی اس کے لیے اور اس کے گھر والوں کے لیے بھی ایک امتحان بن گئی۔ لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں، اس سے کہیں زیادہ تکلیف میں تو محمد ندیم ہے۔ جس کا چہرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ نہ وہ خود کو آئینے میں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی میں آپ کو دکھا سکتا ہوں۔
مگر یہ ڈاکیومنٹری کینسر پر نہیں ہے۔ بلکہ اِس کینسر کو تیزی سے پھیلانے والے زہر پر ہے؛ گٹکا اور ماوا۔ یہ پڑھنے کے بعد اگر آپ گٹکا یا ماوا کھاتے ہیں، تو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے اور نہیں کھاتے تو سکھ کا سانس ضرور لیں گے۔
گٹکا اور ماوا
کراچی اور کچھ شہروں میں تو آپ کو ہر دس میں سے چار لوگوں کے پاس نظر آئے گا۔ ویسے اس کی کئی قسمیں ہیں: خشک ہے تو ’’مین پوری‘‘، چھالیا کے ساتھ چونا اور کتھا ملا ہوا ہے تو ’’ماوا‘‘۔ پان کی پڑیا یا کسی ریپر میں بند ہے تو ’’گٹکا‘‘ یا ’’پان مصالحہ‘‘۔
ہر کھانے والا اپنی پسند اور جیب کے مطابق اسے خریدتا ہے۔ اور پھر اپنی زندگی سے جتنا غافل ہے، اتنا ہی زیادہ اس کا استعمال کرتا ہے۔ اس کی لت اتنی بری ہے کہ پھر وہ بندہ نوکری پر ہو یا گھر پر، کسی تقریب میں ہو یا کہیں عیادت یا تعزیت پر، گٹکے ماوے کے بغیر اس کا گزارا نہیں ہوتا۔ بلکہ کھانے والے تو اس کی خاطر رمضان کے روزے بھی چھوڑ دیتے ہیں۔
آخر اس میں ایسا کیا ہے؟ کیسے بنتا ہے یہ گٹکا ماوا؟ اور کس طرح لوگوں کو بھیانک انداز میں موت کے گھاٹ اتار رہا ہے؟
اونکولوجسٹ ڈاکٹر خلیل احمد کہتے ہیں:
اس کے اندر کتھا ڈلتا ہے۔ گندگی سے بنا ہوا ہے۔ میرا ایک دوست ہے پولیس میں، میں نے اس سے پوچھا کہ آپ لوگ تو چھاپے لگاتے رہتے ہو۔ آپ بتاؤ۔ تو کہتا ہے کہ اتنی گندگی سے بنتا ہے۔ یہ ڈرم ہوتے ہیں۔ اس کے اندر چونا وغیرہ ڈلتا ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ چونا اگر آپ لگائیں اور اسے پانی میں ڈالیں تو آپ کو پتہ ہے کہ کیسے وہ گرم ہوتا ہے۔ تو مجھے بتاؤ وہ منہ کا کیا حال کرے گا؟
اور آپ کو پتہ ہے اس میں چونے کے علاوہ کیا کیا استعمال ہوتا ہے؟ جانوروں کا خون، جان لیوا کیمیکلز، چھپکلی مارنے والا پاؤڈر اور سڑی ہوئی چھالیا۔
گٹکے ماوے کی شروعات
گٹکا ماوا اندرون سندھ سے آیا یا کراچی سے؟ یہ بحث بالکل ویسی ہے جیسے کوئی پوچھے کہ مرغا پہلے آیا یا مرغی؟ بہرحال، گٹکا ماوا شروع کہیں سے بھی ہوا ہو، اب اس کی پہچان ایک ہی ہے: کراچی۔
90 کی دہائی میں لانڈھی میں ’’ملکان‘‘ نامی گٹکا بکنا شروع ہو گیا تھا آہستہ آہستہ اس کی ڈیمانڈ تیزی سے بڑھنے لگی۔ کراچی ملک کا معاشی ہب ہے۔ یہاں ہر صوبے اور علاقے سے تعلق رکھنے والے رہتے ہیں لیکن اس شہر میں سب سے زیادہ ہیں اردو بولنے والے۔ جن کے کلچر کا ایک اہم حصہ تھا پان!
یہ کلچر پھیلتا چلا گیا اور دوسری کمیونٹیز میں بھی سرایت کر گیا۔ لیکن پان تھا مہنگا۔ اب بس، رکشا یا ٹیکسی ڈرائیور ہو یا کوئی عام آدمی، اسے پان کے مقابلے میں گٹکا سستا بھی ملتا تھا اور جہاں تک بات ہے نشے کی، تو یہ ٹکاؤ بھی تھا۔ اس لیے وقت گزرتا گیا اور گٹکا ماوا پھیلتا گیا۔
دنیا نئی صدی میں قدم رکھ رہی تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبے میں پھیل رہے تھے اور ہم! یہاں گٹکے اور ماوے کو پھیلتا دیکھ رہے تھے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں گٹکا کھانے والوں میں نمبر ون ہیں اردو اسپینگ۔ پھر دوسرے پر بلوچ، تیسرے پر سندھی، پھر پنجابی اور آخر میں پشتون۔
تو شہر میں ڈیمانڈ بڑھتی جا رہی تھی اور ساتھ ہی گٹکا ماوا بنانے کے کارخانے بھی کینسر کی طرح پھیل رہے تھے۔ یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ اس کام میں منافع بہت تھا۔ جو انڈیا سے گٹکا آ رہا تھا، وہ تو چیز ہی الگ تھی۔ لیکن یہاں کے ان پڑھ اور بے روز گار لوگوں نے گھروں میں بھی ماوا بنانا شروع کر دیا اور یوں یہ کینسر پھیلانے والی ایک اسمال انڈسٹری بن گئی۔
اسمال بزنس سے ایک انڈسٹری
وہ بڑے بزرگ کہتے ہیں نا کہ کراچی میں کچرا بھی بکتا ہے۔ اور میں، بلکہ آپ بھی، اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے کہ شہر میں کچرا صرف بکتا نہیں، کھایا بھی جاتا ہے۔ اور اس کے کارخانے ہیں کورنگی، ملیر، گودھرا کالونی، لانڈھی میں، جہاں گٹکا اور ماوا ہوم انڈسٹری بن گیا۔ اور پھر یہ کاروبار کراچی سے باہر نکل کر ٹھٹہ، بدین، سجاول، ٹنڈو آدم، ٹنڈو الہ یار تک پھیل گیا۔
اب ایک کاروبار جو غیر قانونی ہو، اس میں منافع بھی بہت ہو تو حصے دار تو آئیں گے نا؟ تو جیسے جیسے یہ کام بڑھتا گیا، ویسے ویسے پارٹنرز میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پولیس کے بعد سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کے علاوہ صحافی تک اس دھندے میں ملوث ہوتے گئے۔
امی جان کہتی ہیں کہ کوئی دھندا چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔
یہ جملہ تو شاہ رُخ خان نے کہا تھا، لیکن اس پر عمل ہمارے والوں نے زیادہ کیا۔ کیونکہ وہ ماوے کے آگے مذہب، اخلاقیات، قانون، اصول، انسانیت سب بھول گئے۔ جنہوں نے ماوا روکنا تھا وہی سپلایئر بن گئے۔
اس کا اندازہ آپ سندھ پولیس اسپیشل برانچ کی اس رپورٹ سے لگائیں کہ کراچی میں 151 گٹکا ماوا بنانے والے کارخانے موجود ہیں، جن میں سے 41 کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ 773 گٹکا فروشوں میں سے 103 کے سر پر پولیس کا ہاتھ ہے۔ حیدر آباد میں گٹکے کے 253 کارخانے ہیں جن میں سے 74 کو پولیس والے چلا رہے ہیں۔ میرپور خاص میں 102، سکھر میں 35، لاڑکانہ میں 34 اور نواب شاہ میں 84 ماوے اور گٹکے کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔
صحافی عبد اللہ جمال کہتے ہیں:
اے ایس آئی روک نہیں سکتا، ایس ایچ او روک نہیں سکتا، ڈی ایس پی روک نہیں سکتا، ایس پی روک نہیں سکتا، ایس ایس پی کے پاس اختیار ہے روکنے کا لیکن کیسے روکے گا؟ جب ڈی آئی جی اس گٹکے ماوے کے پیچھے ہوگا۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں ہے۔ اتنا بڑا نیٹ ورک چل رہا ہے۔ اب اس میں بڑے بڑے لوگ آگئے ہیں۔ پہلے جب پچاس ہزار بیٹ تھی تو پولیس تھی جب دس لاکھ ہوئی تو اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی آگئے جو کہ میں نام نہیں لے سکتا ورنہ آپ کو یا مجھے ویگو اُٹھالے گی۔
صحافی سید شہریار عاصم بتاتے ہیں:
جس پارٹی کی جس جگہ بد معاشی ہوتی تھی وہاں کا کوئی نا کوئی یا تو عہدیدار یا کارکن یا کوئی نہ کوئی ضرور ہمارے سامنے بھی آیا ہے اس نے ہمیں کالز بھی کی ہیں اس نے ہمیں اپنے طور پر دھمکانے کی بھی کوشش کی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پارٹی لیڈر کی طرف سے یہ احکامات ہوتے ہیں کہ آپ یہ کام کرلیں لیکن جتنے بھی لوگ جو علاقہ سنبھال رہے ہوتے تھے وہ کسی بھی پارٹی کے ہوں وہ ان کو سپورٹ کرتے تھے۔
سابق آئی جی سندھ غلام شبیر کہتے ہیں:
گٹکا ماوا تو انڈیا سے آتا ہے۔ دیکھا جائے کہ وہاں پوسٹ کون سی ہے؟ یہاں پر جو پوسٹ ہے اس کے سربراہ پولیس والے نہیں ہیں۔ آپ کیوں الاؤ کرتے ہیں۔ جب آپ کے گھر کا چوکی دار گیٹ پر کھڑا ہے اور چور گھر کی دیوار پھلانگ کر آجائے گا تو لازمی سی بات ہے کہ وہ پھر چوری کرے گا۔
الزام کوئی کسی پر بھی لگائے، کچھ بھی کہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ فائدہ تو سب ہی اُٹھا رہے ہیں۔ پولیس والے کہتے ہیں کہ مال تو بارڈر پار سے آتا ہے، بھئی! اگر بارڈر سے آتا بھی ہے تو کھوکھے والا کیسے کھلے عام بیچتا ہے؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں، یا پھر وہ دینا نہیں چاہتے کیونکہ۔ خیر، رہنے دیں۔
اور اگر مال بارڈر پار سے آتا ہے، تو ہم آپ یہ بھی پوچھ نہیں سکتے، ورنہ بارڈر پار کے ایجنٹ کا سرٹیفکیٹ پکڑا دیا جائے گا۔
تو کراچی کی ہر سیاسی جماعت کے منشور پر بڑی بڑی باتیں ہیں، بڑے بڑے منصوبے ہیں۔ بس اس کینسر کو روکنے کا کوئی پلان نہیں۔ بلکہ پلان تو دُور کی بات ہے، اس کا کوئی ذکر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتا۔ شاید اس لیے کہ انہیں ایسے ہی بند دماغ اور بند منہ والے لوگ چاہییں، جو خاموشی سے انہیں ووٹ دیتے رہیں۔ زبان نہ کھولیں اور زبان بند رکھنے کے لیے گٹکے ماوے سے بہتر کوئی چیز نہیں۔
اب اس زباں بندی کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ آخر میں یا تو کھانے والے بھگتتے ہیں یا پھر ان کے چاہنے والے۔ جیسے نسیم حیدر کی بیٹی، جس نے اپنے باپ کے کیے کی سزا بھگتی۔ مزمل ممتاز میو ایڈوکیٹ بتاتے ہیں:
نسیم حیدر کو گٹکے سے کینسر ہوا تو اس کے منہ سے کیڑے نکلتے تھے۔ اور اس کی وجہ سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ اس کی بیٹی تھی، ظاہر بات ہے اس کی والدہ بھی نہیں تھیں جب والد بھی مرگیا تو اس کی بیٹی سفر کر گئی۔ لازمی سی بات ہے ماں باپ نہیں ہیں تو کون پرورش کرے گا۔ اپنا گھر چلانے کے لیے ان کی بیٹی نے جو ہے کمپنی میں جاب کی تو وہاں پر ایک بندہ ان کے پیچھے لگ گیا۔ اس نے غلط ڈیمانڈیں پوری کر دیں۔
کیا نسیم حیدر نے ماوا کھاتے ہوئے ایک بار بھی سوچا ہوگا کہ اس کا نتیجہ نہ صرف اسے بلکہ اس کی بیٹی کو بھی یوں بھگتنا پڑے گا؟ شاید نہیں مگر آپ ضرور سوچیے گا۔
یعنی ایک طرف کچھ لوگ گٹکا ماوا بیچ کر کروڑ پتی بن رہے ہیں تو دوسری طرف اسپتال کینسر کے مریضوں سے بھر رہے ہیں۔ روزانہ سیکڑوں لوگ کیسنر اسپتال میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ ہم نے یہ اپنے ساتھ کیا کیا؟ بگڑی ہوئی شکلیں، جن کو کبھی ماسک تو کبھی کسی کپڑے سے چھپا کر گھنٹوں اسپتال میں ڈاکٹر کا انتظار اور پھر انتہائی تکلیف دہ علاج۔ اور شاید آخر میں ایک بہت اذیت ناک موت!
افسوسناک بات یہ ہے کہ اس امتحان میں خود کو ڈالنے والے بھی یہی لوگ ہیں۔ اونکولوجسٹ ڈاکٹر خلیل احمد کہتے ہیں:
اگر یہ ہمارے پاس ارلی اسٹیج میں آ جائیں جسے اسٹیج ون یا ٹو کے اندر تو پھر سرجری ہے۔ لیکن اس کی سرجری ایک دو نہیں بلکہ آٹھ سے بیس لاکھ تک کی ہے جو کہ کسی پرائیویٹ سیکٹر کے اندر آتا ہے۔ کیونکہ اس کے اندر ایک سرجن نہیں بلکہ کئی سرجنز ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بھی کہہ نہیں سکتے کہ سرجری کامیاب جاتی ہے یا نہیں۔ دوسرا مرحلہ ریڈی ایشن کا آ جاتا ہے۔ پھر کیموتھراپی ہوتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ملا کر میں کہوں تو لاکھوں روپے اس پر خرچہ ہے۔
گٹکا اور ماوا کھانے والے زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو غریب ہیں یا پھر اُن کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہوتا ہے۔ تو بھائی! مجھے یہ بتائیں کہ سو روپے کے گٹکے ماوے کے لیے اتنی مشکلات اور لاکھوں کا انتہائی تکلیف دہ علاج کروانا کیا فائدے کا سودا ہے؟ بالکل نہیں!
محمد ندیم جس کی اسٹوری میں نے آپ کو شروع میں سنائی تھی یہ اُس کی کینسر کے پہلے کی تصویریں ہیں۔ کتنا صحت مند اور خوش شکل انسان ہے نا؟ مگر صرف 14 مہینوں کے اندر یہ حالت ہے کہ دوست اور رشتہ دار بھی پاس جانے سے ڈرتے ہیں۔ اور جو لوگ ملتے ہیں وہ بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ وہ دو قدم چلنے کے لئے بھی دوسروں کے سہارے کا محتاج ہو چکا ہے۔
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ندیم کا یہ حال صرف 100 روپے میں ملنے والی چیز نے کیا ہے؟ لیکن حقیقت یہی ہے۔ اور اگر اس کا علاج کامیاب ہو بھی جائے، تب بھی زندگی کبھی پہلے جیسی نہیں رہے گی!
مزمل ممتاز میو ایڈووکیٹ بتاتے ہیں:
میرے والد صاحب کے ایک دوست تھے اختر رضوی صاحب وہ ڈی ایس پی تھے۔ ان کو گٹکے کی وجہ سے کینسر ہو گیا۔ کینسر اتنا خطرناک ہو گیا کہ یہ جو سائڈ کا گوشت ہے یہ کاٹنا پڑا۔ اس گوشت کو کاٹنے کے بعد ڈاکٹر نے ان کے کولھے کا گوشت لے کر چہرے پر لگایا۔ وہ بہت خوبصورت انسان تھے۔ جب سرجری ہوئی تو ایسے ہو گئے جیسے دو سو سال کے بڈھے۔ ایک دفعہ میں نے ان کو دیکھا کورٹ میں تو وہ چھپ رہے تھے۔ مجھے بڑا دکھ ہوا ان کی کنڈیشن دیکھ کر۔ پھر ان کا انتقال ہو گیا۔
قانون سازی یا؟
یہ جتنی دکھ بھری کہانیاں ہیں، اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے حکومت کا رویہ۔
جب گٹکا ماوا پندرہ بیس سال بک گیا، ایک پوری جنریشن اس کی لت میں مبتلا ہو گئی، کینسر زدہ ہو گئی بلکہ اس نے یہ لت نئی نسل میں بھی ٹرانسفر کر دی، تب کہیں جا کر حکومت کو کچھ خیال آیا۔ اور اس نے کیا کیا؟ جی ہاں! قانون سازی، یعنی قانون بنا دیا۔ بس! اِس پر عمل کون کروائے گا؟ پولیس؟ وہی پولیس جو یہ کارخانے چلاتی ہے؟
اور یہ قانون بھی کوئی خود سے نہیں بنایا بلکہ مزمل ممتاز ایڈوکیٹ کی ایک درخواست کے بعد بنا، وہ بھی پورے دو سال بعد۔ سنجیدگی کا اندازہ لگا لیجیے۔ عبداللہ جمال، صحافی اس بارے میں کہتے ہیں:
اچھا ایکٹ لانے میں دکھانے میں تو بہت اچھا ہے۔ کہ بھئی ہم نے قانون سازی کرلی لیکن قانون سازی کے پیچھے ایک لفظ ہے جو استعمال ہوتا ہے دھب چال۔ دھب چال یہ ہوتی ہے کہ قانون سازی سے پہلے گٹکا ماوا پچاس روپے کا تھا۔ قانون سازی کے بعد سو روپے کا ہو گیا۔ قانون سازی کے پہلے اس کی بیٹ ایس ایچ او پچاس ہزار لیتا تھا قانون سازی کے بعد ایس ایس پی نے کہا کہ پچاس ہزار نہیں ہفتے کے دس لاکھ روپے لوں گا۔
ڈاکٹر خلیل احمد کہتے ہیں:
عدالتیں اور آپ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ نہیں کر رہے۔ میں گارنٹی کے ساتھ کہتا ہوں کچھ نہیں کر رہے۔ اگر یہ کریں تو پان گٹکا بالکل بند ہوجائے۔ روڈوں پر پولیس والوں کے ساتھ کوئی بات کرے تو اس کے منہ میں پان ہوتا ہے۔ کیا ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے کمزور ہیں کہ اس کو پوچھیں کہ آپ نے منہ میں کیا ڈالا ہوا ہے؟
یعنی قانون بنا لیا تو اس سے عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ الٹا یہ کاروبار مزید منافع بخش بن گیا۔ بھئی بات ہے سیدھی سی۔ جب ہفتہ کے پچاس ہزار کے بجائے دس لاکھ روپے ملیں گے تو ہر بندہ اس کاروبار میں کودے نہ کودے، وہ ضرور کودے گا جو قانون کو ڈاج دے سکتا ہے۔
یوں با اثر لوگوں نے اور کارخانے لگائے اور قانون بننے کے بعد گٹکا ماوا کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا۔ اور جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا، تب کہیں جا کر 2023 میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن کو خیال آیا اور انہوں نے گٹکا مافیا کے خلاف ایک ٹاسک فورس بنائی۔
پھر کئی کارروائیاں ہوئیں، کئی ایس ایچ اوز رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، چھاپے پڑے اور وہ وقت بھی آیا جب گٹکا اور ماوا بنانے والے کراچی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پھر کیا ہوا؟ جی ہاں! غلام نبی صاحب کا ٹرانسفر ہو گیا اور یہ کاروبار پھر پرانی شان و شوکت کے ساتھ چلنے لگا۔
پہلے کھلے عام بکتا تھا، پھر چھپ چھپ کر۔ پہلے سستا بکتا تھا، پھر مہنگا بکنے لگا۔ پہلے سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر سپلائی ہوتا تھا، پھر ویگو، لینڈ کروزر اور ایمبولنسز میں بھی ہونے لگا۔ گھروں سے لیکر مسجدوں کی چھتوں پر بھی گٹکا ماوا بنایا جانے لگا۔ ممتاز میو ایڈوکیٹ بتاتے ہیں:
سندھ حکومت اس لیے ایکشن نہیں لے رہی کہ ان کے لگائے ہوئے جو ایس ایس پیز ہیں وہ نہیں چاہتے کہ یہ بند ہو۔ کیونکہ جو وہ پیسے دے کر پوسٹنگ لیتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ جب یہاں سے ریکوری ہوتی ہے تو وہ آگے دیتے ہیں نا۔
ویسے غلام نبی میمن صاحب آج دوبارہ آئی جی سندھ ہیں اور گٹکا مافیا کے خلاف پھر ٹاسک فورس بنانے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ مگر کیا پولیس ڈپارٹمنٹ کے وہ بڑے افسر، وہ سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات جو ہر ہفتے کروڑوں روپے ان گٹکے ماوے والوں سے کما رہے ہیں، اس کاروبار کو بند ہونے دیں گے؟ یہ ہے ہنڈرڈ ملین ڈالرز کا سوال!
لیکن بھئی! سارا ملبہ صرف حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ڈالنا بھی نا انصافی ہوگی۔ کیونکہ جب لوگ خود اپنی زندگی کی قدر نہ کریں، اور سب کچھ دیکھ کر بھی سبق حاصل نہ کریں تو آئی جی کیا، آرمی چیف بھی کچھ نہیں کر سکتا!
اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ لت کتنی بُری ہے۔ گٹکے ماوے کی وجہ سے تباہ ہونے والی زندگیاں دیکھ کر بھی لوگ سبق حاصل نہ کریں، تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ اس سے واضح ہے کہ گٹکے کو چھوڑنا کتنا مشکل ہے۔ لیکن یقین جانیں! اسے روکنا اُتنا ہی آسان ہے۔ کم از کم حکومت کے لیے تو بالکل آسان ہے۔
حکومت میں بیٹھنے والے کینسر اسپتالوں کے فیتے کاٹنے کے بجائے صرف اس گٹکے ماوے پر پابندی لگا دیں، تو یہ اسپتال بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کچھ علمائے کرام بھی اپنا حصہ ڈالیں۔ منبر کو استعمال کریں تو شاید کئی لوگ اسے کھانا چھوڑ دیں۔
ہمارے یہاں تو ویسے بھی زہر کو شہد کہنے کا رواج ہے اور بڑا پرانا ہے۔ اس لیے کھانے والا کوئی نا کوئی لاجک نکال کر خود کو مطمئن کر لیتا ہے۔ لوگ عجیب و غریب دلیلیں دیتے ہیں۔ جیسے: گٹکا اور ماوا کھانے سے کینسر نہیں ہوا بلکہ چھوڑنے سے ہوا۔ جیسے بھی ہوا لیکن اس اذیت ناک زندگی اور خوف ناک موت کا سامنا کون کر رہا ہے؟ اب مدد کے لیے کون آئے گا؟ نہ گٹکا ماوا بیچنے والا اور نہ ہی حکومت۔ نصیب میں ہوں گے تو سرکاری اسپتالوں کے دھکے اور پچھتاوا۔
محمد فاضل بتاتے ہیں:
پچھتاوا تو ہے مجھے غلط ہے یہ۔ میں نے لمٹ سے زیادہ کھایا ہے۔ ایک ہوتی ہے لمٹ۔ لیکن میں نے کبھی دانت گندے نہیں چھوڑے۔ دانت صاف کر کے سوتا تھا۔ کلی کر کے سوتا تھا۔ میں کبھی گندا نہیں رہا۔ یہ قدرت کی طرف سے ہوا ہے۔
بھائی پلیز! اپنی لاجکس گڑھنا چھوڑ دیں۔ جی! ہم تو گھر پر صفائی سے بناتے ہیں۔ ہم تو گٹکا ماوا نہیں کھاتے بلکہ تمباکو والی خشک چھالیا کھاتے ہیں۔ ہم تو دانت صاف کر کے سوتے ہیں۔
بھائی! میں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں! بس ایک چکر۔ ایک چکر سرکاری اسپتالوں کے کینسر وارڈ کا لگا لیں۔ آپ کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ گٹکا یا ماوا کھانا ہے یا نہیں؟ بگڑی ہوئی شکل کے ساتھ یہ تکلیف دہ علاج کروانا ہے یا اور پھر اسی حال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ہے یا احتیاط کرنی ہے؟
فیصلہ آپ کا ہے!