گرمیاں آ چکی ہیں، سورج آگ برسا رہا ہے، زمین تپ رہی ہے، ایسے میں آنے والے چند ہفتوں میں اگر راحت کا کچھ سامان دکھائی دے رہا ہے تو وہ ہے آم کا پھل، جو منڈیوں سے بازاروں میں دھڑا دھڑ آرہا ہے اور گھروں میں تھیلے بھر بھر کے لے جایا جا رہا ہے۔

پھل فروٹ کی دکانوں پر آم کے آنے کے بعد باقی تمام پھل خود ہی بیک فٹ پر چلے جاتے ہیں، کم ہی لوگ ہوں گے جو آم کی موجودگی میں مجبوری کے علاوہ کسی دوسرے پھل کو لفٹ کرائیں۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں آموں کی پندرہ سو سے زائد اقسام ہیں جن میں ایک ہزار قسمیں جنوبی ایشیا میں ہوتی ہیں۔ آم غالباً ان چند پھلوں میں شمار ہوتا ہے جن سے کچی اور پکی دونوں حالتوں میں درجنوں ڈشز اور مشروبات تیار کیے جا سکتے ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں پاکستان میں یہ چٹنی، اچار، مربے، مینگو شیک، آئس کریم، مٹھائی، آم کے پاپڑ یہاں تک کہ سالن کے طور پر بھی روٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ سالن سے آپ یقیناً چونکے ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے آم کا گودہ نکالیں، اس میں ہلکا سا نمک، پیاز اور لال مرچ شامل کریں اور لیجیے آم کا سالن تیار ہے۔

Raftar Bharne Do

ستم ظریفی ہے کہ پاکستان اور پوری دنیا میں پھلوں کے بادشاہ کے نام سے معروف اس پھل آم کا دیسی زبان میں مطلب ہی عام ہوتا ہے۔ سنسکرت ادب میں یہ آمر کے نام سے مذکور ہے اور چار ہزار سال سے موجود ہے۔ بعض جگہوں پر لکھا ہے کہ انگریزی میں لفظ مینگو دراصل تمل کے لفظ منگائی سے اخذ کیا گیا۔ پرتگالیوں نے تمل سے لے کر اس لفظ کو منگا کر دیا جہاں سے انگریزی کا لفظ مینگو بنا۔

صوفی شاعر اور موسیقار امیر خسرو نے فارسی شاعری میں آم کی خوب تعریف کی ہے اور اسے فخر گلشن کہا ہے۔ آم تقریباً سارے ہی مغل بادشاہوں کا پسندیدہ پھل رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس پھل کی فصل کو فروغ دینے میں ان کی خاص کوششیں شامل رہی ہیں۔ بھارت کی زیادہ تر تیار قلمی قسموں کا سہرا بھی مغلوں کے سر پہ جاتا ہے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں دہلی کے لال قلعے کے احاطے میں آم کا ایک بڑا باغ تھا جس کا نام  حیات بخش باغ رکھا گیا تھا۔

Raftar Bharne Do
دلّی کا حیات بخش باغ

عظیم اردو شاعر غالب کی آم سے رغبت سے کون واقف نہیں۔ آم کے بارے میں مرزا غالب اور ان کے ایک دوست کا واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک بار غالب کے ایک واقف کار نے دیکھا کہ ایک گدھا آموں کے ڈھیر تک گیا اور کھائے بغیر صرف سونگھ کر واپس آ گیا۔ اس شخص نے شرارت سے کہا کہ دیکھا! گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔ تو مرزا صاحب کا برجستہ جواب تھا، میاں گدھے ہیں جو آم نہیں کھاتے۔

اسی طرح  مرزا نوشا نے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا کہ آم کی شان یہ ہے کہ وہ موسم کے آغاز میں ہی ہوں اور بہت ہوں۔ غالب کے طرح علامہ محمد اقبال کو بھی اس پھل سے خاص رغبت تھی۔ ایک بار طبیعت ناساز ہوئی تو حکیم نے انہیں ہدایت کی کہ آموں سے سختی سے پرہیز کیا جائے۔ اقبال نے کہا حکیم صاحب آم نہ کھا کر مرنے سے آم کھا کر مر جانا بہتر ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر حکیم صاحب بولے علامہ آپ ایک دن میں ایک آم کھا سکتے ہیں۔ اس پر  علامہ اقبال نے ملازم کو ہدایت کی کہ بازار میں گھومو اور دیکھو جو آم سائز میں سب سے بڑا نظر آئے، روزانہ وہی خرید کر لے آیا کرو۔

ایک دوست کے نام اپنے خط میں علامہ اقبال ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آموں کی کشش، کششِ علم سے کم نہیں، کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے بہت محبت ہے۔ اکبر الہ آبادی نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا میں نے پارسل کی رسید اس طرح سے لکھی:

اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبر

الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا

لنگڑا آم صرف اپنے نام ہی میں نقص رکھتا ہے، ورنہ ساغر خیامی نے اس کے بارے میں کہا ہے:

آم تیری یہ خوش نصیبی ہے

ورنہ لنگڑوں پہ کون مرتا ہے

خود اکبر الہ آبادی کو بھی آموں سے بڑا عشق تھا۔ اپنے بے تکلف دوست منشی نثار حسین کو لکھتے ہیں:

نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجیے

اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے

کہا جاتا ہے کہ حیدر آباد دکن میں ایک مالی کی ہونہار بیٹی نے آم کے پودے میں گلاب کی قلم لگا دی تھی، اس سے آم میں گلاب کی مہک آنے لگی تھی۔ آم کے ساتھ اس طرح کے اور بھی کئی تجربات ہوئے جو زیادہ تر کامیاب ثابت ہوئے۔ معروف نقاد اور ادیب انتظار حسین ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آم بھی عجب پھل ہے، پھلوں کے حساب سے کوئی ایسا نامور پھل بھی نہیں ہے مگر جب بازار میں اس کی نمود ہوتی ہے تو باقی سب پھل پھیکے پڑ جاتے ہیں، پھر بس یار آموں ہی کا کلمہ پڑھتے اور ہونٹ چاٹتے نظر آتے ہیں۔

ادب سے باہر نکلیں تو سیاست کے میدان میں بھی آموں کا بڑا ذکر ملتا ہے۔ ہمارے یہاں تو آموں کا سیاست سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ پاکستان ہی دنیا بھر میں 'مینگو ڈپلومیسی' کا بانی اور موجد تصور کیا جاتا ہے۔ سیاست میں آم بطور تحفہ دینے کی روایت مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خان کی شروع کی ہوئی ہے۔ آپ اپنے جاننے والے صحافیوں کو ہر سال گرمیوں میں آم کی پیٹی بطور تحفہ بھجوایا کرتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ جب ایک بار جاپان نے پاکستانی آم کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی تو صدر آصف علی زرداری نے جاپانی وزیر اعظم اور جاپان کے شہنشاہ کو بھی آموں کا تحفہ بھیجا جس کے بعد جاپان نے پاکستانی آم پر سے پابندی ہٹا لی تھی۔ جولائی سن 2010 میں امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو یہاں بھی انہیں آم پیش کیے گئے جس کے بعد وہ بھی پاکستان کے خوش ذائقہ آموں کی معترف ہو گئیں۔ اپنے ایجنڈے سے ہٹ کر انہوں نے پاکستانی آموں کی امریکی منڈیوں تک رسائی کے لیے ذاتی کاوشیں پیش کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی اور اس حوالے سے عملی کام بھی کیا جس کے بعد پاکستانی پھلوں کی امریکا اور یورپ برآمد میں بہت آسانی ہوئی۔

بھارتی ریاست بہار کے بعض علاقوں میں کئی دہائیوں سے ایک دلچسپ روایت چلی آ رہی ہے، جس کے مطابق لڑکی پیدا ہونے پر اہل خانہ کو دس آم کے درخت لگانے ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ اس سے بچی کی حفاظت اور اس کے مستقبل کے خدشات کم ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب آم کی ڈالی میں نئے پتے آنے لگتے ہیں تب لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ پڑوسیوں کو ولادت کی اطلاع دینے کے لیے دروازوں کو آم کے پتوں سے سجایا جاتا ہے۔

تو جناب آم کھائیے اور خوب کھائیے۔ دنیا کے کئی ملکوں کے لوگ تازہ میٹھے آموں کی حسرت ہی لیے رہ جاتے ہیں لیکن یہاں پاکستان کے مختلف حصوں میں یہ ڈرموں اور بڑے بڑے برتنوں میں برف کے ڈلوں کے ساتھ بھگویا اور پیٹ کے بجائے گھڑی دیکھ کر کھایا جاتا ہے۔ آم کھاتے ہوئے یہ بھی ہرگز نہ سوچیے کہ اس کے گودے سے آپ کا حلیہ خراب ہو سکتا ہے۔ بقول مشتاق احمد یوسفی آم کھانے کے لیے دو چیزیں ہونی چاہیے، آم اور غسل خانہ۔

شیئر

جواب لکھیں