پاکستان میں ایک طویل عرصے سے ٹیکس کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ ایک طرف حکومت یہ شکایت کرتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے، جبکہ دوسری طرف عوام اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ جو بھی خریداری کرتے ہیں، سیلز ٹیکس اور دیگر بالواسطہ ٹیکسز ادا کرتے ہیں، پھر بھی انہیں ٹیکس سے متعلق فوائد نظر نہیں آتے۔ اس بحث میں خاص طور پر سرکاری ملازمین اور سیلری کلاس کا ذکر ہوتا ہے، جو اپنی آمدنی پر ٹیکس دیتے ہیں، مگر پھر بھی ٹیکس کے فوائد سے محروم ہیں۔

اس موضوع پر بات کرنے کے لیے ہم نے شہریار راشد کو پوڈ کاسٹ میں بلایا جو ایک ٹیکس کنسلٹنٹ ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ پاکستانی عوام ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ تو انہوں نے بتایا کہ دراصل لوگ ’’انکم ٹیکس‘‘ نہیں دیتے، لیکن وہ سیلز ٹیکس جیسے بالواسطہ ٹیکسز پر اپنے روزمرہ اخراجات میں حصہ ڈالتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیلز ٹیکس ہر خریداری پر دینا پڑتا ہے، لیکن انکم ٹیکس پر ادائیگی کا عمل بہت پیچیدہ اور تکلیف دہ ہے۔

شہریار کے مطابق، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی انڈاریک اور ڈائریکٹ ٹیکسز کے الگ الگ نظام ہوتے ہیں، مگر وہاں لوگوں کو ٹیکس دینے کے بدلے میں کسی نہ کسی صورت میں فوائد ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر حکومتیں صحت، تعلیم اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے ٹیکس کی رقم کو صحیح طریقے سے خرچ کرتی ہیں، جس کی بدولت عوام کا اعتماد حکومت پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں عوام کو یہ احساس ہوتا کہ ان کے ٹیکس کی رقم کہیں خرچ نہیں ہو رہی، جس کی وجہ سے ٹیکس دینے کی رغبت کم ہو جاتی ہے۔

اسی حوالے سے مزید گفتگو کرتے ہوئے شہریار صاحب نے بتایا کہ پاکستان میں ٹیکس دینے کے خوف کی ایک بڑی وجہ ایف بی آر کا رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے افسران ٹیکس دہندگان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں ’’چور‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف، ٹیکس دہندگان بھی ایف بی آر کو کرپٹ ادارہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں طرف اعتماد میں کمی واضح ہے۔

جب سوال کیا گیا کہ ٹیکس فائلر بننا کتنا ضروری ہے؟ تو شہریار صاحب نے وضاحت کی کہ اگرچہ سیلری سے ٹیکس خودبخود کٹ جاتا ہے، پھر بھی فائلر بننا ضروری ہے کیونکہ فائلر ہونے کے کئی فائدے ہیں جیسے کہ بینکنگ ٹرانزیکشنز اور پراپرٹی خریداری میں آسانی، اور ٹیکس کی کم شرحیں۔ نان فائلر ہونے کی صورت میں ان فوائد سے محروم رہنا پڑتا ہے۔

آخر میں شہریار صاحب نے بتایا کہ حکومت کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے اور اس کے لیے ایف بی آر کا رویہ نرم اور سہولت فراہم کرنے والا ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق، نان فائلر کے بجائے صرف فائلر کی کٹیگری ہونی چاہیے تاکہ عوام کی ٹیکس ادائیگی کو شفاف اور آسان بنایا جا سکے۔

اس اہم اور مفصل گفتگو کو مزید جاننے کے لیے آپ ہماری مکمل پوڈ کاسٹ دیکھ سکتے ہیں، جہاں شہریار صاحب نے پاکستان کے ٹیکس نظام اور کرپشن کے بارے میں بھی مزید تفصیل سے بات کی۔

شیئر

جواب لکھیں