پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (PIA) ایک زمانے میں قومی فخر کا باعث تھی لیکن اب مسلسل مالی خسارے اور انتظامی مسائل کی زد میں ہے۔ یہ ادارہ سالانہ اربوں روپے کے نقصان میں چل رہا ہے، جس سے نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ پڑ رہا ہے بلکہ اس کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ایسے میں حکومت نے اس کی نجکاری کا عمل شروع کر دیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پی آئی اے کو خریدنا کسی کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے؟

اس موضوع پر رفتار پوڈ کاسٹ میں پی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مارکٹنگ اینڈ کارپوریٹ پلاننگ ارشاد غنی اور سابق ترجمان مشہود تاجور نے گفتگو کی۔ انہوں نے پی آئی اے کی موجودہ صورتحال اور نجکاری کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

ارشاد غنی نے بتایا کہ پی آئی اے کو نجکاری کے لیے دو کمپنیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی تمام اثاثوں اور قرضوں کا انتظام سنبھالے گی، جبکہ پی آئی اے اے سی ایل صرف آپریشنز پر توجہ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس تقسیم کا مقصد ممکنہ خریداروں کے لیے پی آئی اے کو زیادہ پرکشش بنانا ہے۔ تاہم، انہوں نے تسلیم کیا کہ نجکاری کے باوجود اس کمپنی پر بھاری مالی بوجھ رہے گا، اور خریداروں کو ابتدائی سرمایہ کاری کے ساتھ مسلسل اخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مشہود تاجور نے وضاحت کی کہ نجکاری کے عمل میں کئی کمپنیاں دلچسپی لے رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ معروف قومی گروپ اور بین الاقوامی شراکت دار بھی شامل ہیں۔ لیکن انہوں نے نشاندہی کی کہ بین الاقوامی سرمایہ کار پی آئی اے کے غیر منافع بخش ہونے اور پاکستانی ایوی ایشن مارکیٹ کی محدود مواقع کی وجہ سے زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔

دونوں مہمانوں نے اس بات پر زور دیا کہ پی آئی اے کو مالی طور پر دوبارہ فعال بنانے کے لیے ایک مستند اور شفاف بزنس ماڈل کی ضرورت ہوگی۔ نجکاری کا عمل اگرچہ ایک اہم قدم ہے، لیکن اس کے لیے خریدار کو ایک طویل مدتی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی تاکہ ادارے کو منافع بخش بنایا جا سکے۔

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل کیسے آگے بڑھ رہا ہے؟ اور اس کے پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری پر کیا اثرات ہوں گے؟ تو پوڈکاسٹ ضرور دیکھیں۔ آپ کو اس میں بہت سی دلچسپ اور اہم معلومات ملیں گی۔

شیئر

جواب لکھیں