پاکستان کی معیشت کو درپیش ایک اہم مسئلہ ’’گرے‘‘ اور ’’بلیک‘‘ اکانومی ہے۔ اس نے ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت، سیاستدان، اور دیگر ادارے اس مسئلے کے سدباب میں ناکام نظر آتے ہیں۔ یہ مسئلہ آخر کیوں اتنا پیچیدہ ہے؟ اور کیا اس کے سدھار کے لیے کوئی عملی اقدامات ممکن ہیں؟ اس پر بات کرنے کے لیے ہم نے شبر زیدی صاحب کو دعوت دی۔

شبر زیدی ایک معروف ماہرِ معاشیات اور ایف بی آر کے سابق سربراہ ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی گرے اور بلیک اکانومی پر تفصیل سے گفتگو کی اور کئی دلچسپ پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مسئلے کی جڑ سمجھانے کی بھی کوشش کی۔

شبر زیدی نے گفتگو کی شروعات پاکستانی معیشت کے اعداد و شمار سے کی۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کی معیشت کا تخمینہ تقریباً 500 بلین ڈالر ہے، لیکن اس میں سے 250 بلین ڈالر کی معیشت دستاویزی شکل میں نہیں ہے۔ انہوں نے گرے اکانومی اور بلیک اکانومی میں فرق کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ گرے اکانومی میں جائز کاروبار بغیر ٹیکس ادا کیے چلایا جاتا ہے، جبکہ بلیک اکانومی میں غیر قانونی سرگرمیاں جیسے ہیروئن کی تجارت اور جوا شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ گرے اکانومی کا بڑا حصہ رشوت، ٹیکس چوری، اور سمگلنگ پر مشتمل ہے، جس کی وجہ سے ملکی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔ شبر زیدی نے سیاستدانوں اور حکومتی اداروں کی ناکامی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ ان کے لیے سوٹ کرتا ہے اور وہ اس پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہیں۔

پوڈ کاسٹ میں شبر زیدی نے معیشت کی بہتری کے لیے مختلف تجاویز بھی پیش کیں، جیسے کہ کرنسی نوٹوں کی تبدیلی، دستاویزی معیشت کو فروغ دینا، اور ایف بی آر کے نظام کو خودمختار بنانا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک عوام اور حکومت دونوں ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے، معیشت میں بہتری ممکن نہیں۔

اگر آپ معیشت کے ان پیچیدہ مسائل کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں اور شبر زیدی کی مکمل گفتگو سننا چاہتے ہیں تو یہ پوڈ کاسٹ ضرور دیکھیں۔ اس میں موجود معلومات آپ کی سوچ کو وسعت دینے میں مددگار ثابت ہوں گی۔

شیئر

جواب لکھیں