شمس خود کو کوس رہا تھا جب وہ اپنے دفتر پہنچا۔ اسے دیکھ کر سب حیران رہ گئے، یہ کراچی میں کیا کر رہا ہے، آج تو اسے اسلام آباد میں ہونا تھا۔ پھر جب سب کو پتہ چلا کہ شمس کی فلائٹ نکل چکی ہے تو سب افسوس کرنے لگے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھے کہ آفس میں لگی ٹی وی اسکرین پر بریکنگ نیوز چلنے لگی۔ شمس سر جھکائے اپنی ڈیسک پر بیٹھا تھا کہ کسی نے چلا کر اسے بلایا۔ وہ گھبرا کر اٹھا اور جب نظریں اسکرین پر پڑیں تو اس کی چیخ نکل گئی۔
فلائٹ 202
آپ دفتر میں بیٹھے کام کر رہے ہیں، اچانک سے ایک سینیئر آتا ہے اور بلا وجہ جھاڑ پلانے لگتا ہے، آپ چپ سادھے بیٹھے ہیں اور وہ سنائے چلا جا رہا ہے، اب آپ کام چھوڑ سکتے ہیں، اسے خراب کر سکتے ہیں یا دفتر میں کسی فیلو کے پاس جاکہ وینٹ آوٹ کر سکتے۔ لیکن جب آپ زمین سے 33 ہزار فٹ اوپر ہوں تو یہ آپشنز نہیں ہوتے۔ خاص طور پر جب آپ پائلٹ سیٹ پر بیٹھے ہوں۔ غصے میں کیا گیا فیصلہ یا ذرا سی غلطی سارے پیسنجرز کی زندگی داو پہ لگ سکتی ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ سن کر یقیناً کئی سوال آ رہے ہوں گے، بے فکر رہیں، آگے چل کر سارے جواب ملیں گے۔ کیونکہ ہم آج پاکستانی فلائنگ ہسٹری کے ایک خطرناک سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔
موسلا دھار بارشوں نے کراچی سمیت پورے ملک کو لپیٹ میں لیا ہوا تھا، ریلیف ادارے ہائی الرٹ پہ تھے۔ خدشہ تھا کہ ملک کسی بھی وقت سیلاب کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، اس صبح موسم بہت خراب تھا اور فلائٹ کنڈیشنز آئیڈیل نہیں تھیں، پھر بھی پائلٹ اور ایئر کنڑولرز نے یہ طے کیا کہ فلائٹ ڈلے کرنے کا کوئی تک نہیں بنتا، صبح سات بج کہ اکتالیس منٹ پہ ائیربلو کی ائیربس 321 نے کراچی ایئرپورٹ سے اسلام آباد کے لیے اڑان بھری، پلین میں بیٹھے ایک سو چھیالیس مسافروں کو لے جانے کی ذمہ داری آج اکسٹھ سالہ کیپٹن پرویز اقبال چوہدری اور چونتیس سالہ فرسٹ آفیسر مجتبی چغتائی کے سپرد تھی۔ کیپٹن پرویز تو پچھلے30 سال سے زمین پہ کم اور فضا میں زیادہ وقت گزار رہے تھے، ان کا 25000 فلائنگ آرز کا زبردست ٹریک ریکارڈ تھا جبکہ مجتبہ چغتائی نے بھی ہزار سے زائد گھنٹے فضا میں گزارے تھے، ٹیک آف کا مرحلہ مکمل ہوا اور جہاز کے فضا میں اسٹیبل ہوتے ہی ائیر ہوسٹس نے آکر دونوں پائلٹس کو کروسینٹ اور چائے سرو کی، "سر، میں نیوز دیکھ رہا تھا، سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے؟”۔ مجتبی نے کہا، "نان سینس، یہ سب بیکار باتیں ہیں، ہر سال بارش ہوتی ہے اور یہ ٹی وی پہ بیٹھ کر شوشے چھوڑنے لگتے ہیں"۔"لیکن سر، بارشیں واقعی بہت خطرناک ہیں"۔ "ارے یار، ایک تو تم ایک بات پر اڑے رہتے ہوبے فکر رہو کچھ نہیں ہوگا" یہ کہ کر وہ چائے پینے لگتے ہیں۔ پلین آٹو پائلٹ پر اسلام آباد اڑے چلا جا رہا ہے۔ کیپٹن تھوڑا بور ہونے لگے۔ سینیارٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے فرسٹ آفیسر کا امتحان لینا شروع کردیا۔ مجتبی پہلے ہی ان کمفرٹ ایبل تھا، کیپٹن نے اب باقاعدہ اس کی انسلٹ شروع کر دی۔ جہاز میں پسنجرز ٹھنڈ کی وجہ سے بلینکٹ لے رہے تھے اور کاک پٹ کا ماحول گرم ہوتا جا رہا تھا۔ دونوں پائلٹ کی سیٹوں کے درمیان صرف تین فٹ کا فاصلہ ہوتا ہے مگر اب ذہنی طور پر وہ بہت دور جا چکے تھے۔ ایک گھنٹے کی گرما گرم بحث کے بعد کاک پٹ میں خاموشی چھا گئی۔ اب یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھے گا کہ اس گفتگو کا پتہ کیسے چلا؟ جہاز کے کاک پٹ میں ایک وائس ریکارڈر ہوتا ہے جو ساری باتیں ریکارڈ کرتا ہے، اگر حادثے میں پلین تباہ ہوجائے تو بھی وائس ریکارڈر کو کچھ نہیں ہوتا۔ یہی گفتگو بعد میں انوسٹگیشن ٹیم کے لیے بڑی اہم ہوتی ہے۔
کریش افیکٹیز سے تعلق رکھنے والے جنید حامد کہتے ہیں:
سینیئر پائلٹ انتہائی سینیئر تھا اور جونئیر پائلٹ انتہائی جونیئر تھا۔ لہذا سینیئر پائلٹ دراصل نوجوان پائلٹ کو دھمکا رہا تھا۔ کاک پٹ کے اندر نفسیات انتہائی زہریلی تھی۔
موسم کی شدت اور لینڈنگ کا چیلنج
بادلوں کی زوردار گرج سے جہاز میں بیٹھے بچے رونے لگے اور بڑے بھی سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، بجلی چمک رہی تھی اور کھڑکی سے ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمانی مخلوق جنگ کررہی ہوں۔" بھئی ہم اتنے خراب موسم میں لینڈ کیسے کریں گے" ایک بزرگ پیسنجر نے ائیر ہوسٹس سے گھبرائے ہوئے انداز میں پوچھا۔ "سر، آپ بے فکر رہیں، پائلٹ بہت تجربہ کار ہیں ہم ایزلی لینڈ کر جائیں گے" ائیر ہوسٹس نے مخصوص انداز میں مسکرا کر پیسنجر کو تسلی دی۔ اسلام آباد کے نزدیک پہنچ کر فرسٹ آفیسر نے ائیر پورٹ انفورمیشن چیک کی تو کنفرم ہو گیا کہ خراب موسم کی وجہ سے وزبلٹی بہت کم ہے، یعنی اب لینڈنگ روٹ چینج کرنا ہوگا، اب رن وے تھری زیرو نہیں بلکہ رن وے ون ٹو پر لینڈ کرنا پڑے گا کیونکہ تیز بارش میں ہوا کا رخ ٹھیک نہیں تھا۔ عام طور پہ رن وے تھری زیرو ہی استعمال ہوتا ہے جہاں انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم کی مدد سے لینڈنگ آسانی سے ہوجاتی ہے، یہ ہوتا کیا ہے ابھی بتا دیتے ہیں، یہ دو طرح کے ریڈیو سگنلز استعمال کرتا ہے: ایک لوکلائزر، جو طیارے کو دائیں بائیں گائیڈ کرتے ہیں تاکہ وہ رن وے کی سیدھ میں رہے اور دوسرا گلائیڈ سلوپ، جو طیارے کو درست زاویے پر رن وے تک لے آتا ہے۔ یہ تمام معلومات کاک پٹ میں دکھائی جاتی ہیں تاکہ پائلٹ رن وے دیکھے بغیر بھی طیارے کو بحفاظت اتار سکیں۔ یہاں مسئلہ یہ تھا کہ رن وے ون ٹو پر لینڈنگ سسٹم نہیں تھا۔ قریب ہی مرگلا ہلز کا آغاز ہو جاتا ہے اور یہاں نارمل لینڈنگ کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ یہاں آنے کے لیے ایک سرکلنگ اپروچ استعمال کرنی پڑتی ہے۔ پہلے طیارہ رنوے تھری زیرو کی سیدھ میں آتا ہے۔ پھر ایک خاص اونچائی یا minimum descent altitude پہ جہاز اپنا رخ دائیں جانب موڑ لیتا۔ یہاں کچھ دیر رنوے کے پیرلل اڑ کر اور ایک خاص پوائنٹ کو ٹچ کر کہ وہ گھوم کر رنوے ون ٹو کی سیدھ میں آتا ہے اور پھر لینڈگ ممکن ہوتی ہے۔ اب کیپٹن پرویز کو ایک کرتب کا آئیڈیا آتا ہے۔ وہ دوسرے رن وے پر جانے کے لیے ایک نیا راستہ بناتے ہیں اور فرسٹ آفسر سے اسے فیڈ کروادیتے ہیں۔
سینیئر جرنلسٹ طارق ابولحسن ساٹ کہتے ہیں:
ڈیورنگ پوری فلائٹ ایک بت بنے بیٹھے رہے اور سارے ڈیسیژنز کمانڈنگ پائلٹ نے خود کیے۔
یہاں میں آپ کو بتاؤں کہ جہاز میں ایک پروسیجر یا پروگرام انسٹال ہوتا ہے، اسے سیٹ کرنے کے بعد جہاز خود بہ خود روٹ کو فالو کرکے رنوے کی طرف بڑھتا ہے۔ لیکن اُس دن یہ نہ ہوا۔ کمپنی پریسکرائبڈ پروسیجر کے تحت دائیں جاکر لینڈنگ کے لیے لیفٹ ٹرن لیا جانا تھا۔ لیکن کیپٹن نے جو روٹ پروگرام کیا اس کے مطابق جہاز بالکل اپوزٹ یعنی بائیں جانب سے ہو کہ رنوے پہ لینڈ کرتا۔ یہ انتہائی احمقانہ فیصلہ تھا کیونکہ اس روٹ میں پلین کو ایک ریسٹرکٹد ایریا سے گزرنا پڑتا اور یہ رولبک کے بھی خلاف تھا۔ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ جب پلین لیفٹ ٹرن لیتا تو کیپٹن کو رن وے دکھائی نہ دیتا اور یہ بھی وائلیشن شمار ہوتی، پھر اس روٹ کو فالو کرتے ہوئے جہاز انتہائی کم ایلٹیٹود پہ شہری حدود میں داخل ہوجاتا۔ ایسا کرتے ہوئے جہاز ائیرپورٹ کے پروٹیکٹو لینڈنگ زون کی حد سے باہر نکل جاتا۔ یہ زون اس لیے ہوتا ہے کہ یہاں طیارے کو کسی بھی فضائی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنے پڑے۔ کیپٹن پرویز تو اس کرتب کے نتائج سے بے پرواہ تھے مگر فرسٹ آفسر یہ غلطی بھانپ چکا تھا مگر وہ خاموش رہا۔
کریش افیکٹیز سے تعلق رکھنے والے جنید حامد مذید کہتے ہیں:
جو کو پائلٹ ہوتا ہے اگر وہ یہ نوٹ کرتا ہے، یہ ان کے اپنے رولز میں لکھا ہوا ہے، ان کی اپنی ٹریننگ میں ہوتا ہے کہ اگر کو پائلٹ کو کسی بھی لیول پہ لگے کہ جو مین پائلٹ ہے وہ مسٹیک کررہا ہے تو کو پائلٹ کین ایزیلی ٹیک اوور۔
اب جب ائیر ٹریفک کنٹرولر سے رابطہ ہوا تو فرسٹ آفسر نے کہا: سر کیا ہم یہ اپروچ فالو کرسکتے ہیں، ائیر کنٹرولر نے سختی سے منع کردیا اور جہاز کو دائیں طرف سے آنے کا کہا۔ کیپٹن پرویز راضی تو ہوگئے لیکن یہاں بھی انہیں اپنی چلانے کی سوجھی۔ انہوں نے فرسٹ آفسر سے جو روٹ فیڈ کروایا وہ سے ہٹ کر تھا، کیونکہ یہ رستہ انہیں رن وے پر نہیں بلکہ سیدھا مرگلا ہلز کی گہرایوں میں لے جانے والا تھا۔
سینیئر جرنلسٹ طارق ابولحسن ساٹ کہتے ہیں:
تمام تر جو فیصلے تھے وہ کیپٹن نے خود کیے اور وہ اتنے اوور کانفیڈنٹ تھے کہ انہوں نے روٹ بھی اپنی مرضی سے طے کرنے کی کوشش کی اور اس میں ائیر کنٹرولر کی بھی باتوں کو نہیں مانا۔
جلد ہی جہاز کو اترنے کی اجازت مل گئی۔ کیپٹن نے اونچائی اسٹینڈرڈ کے مطابق 2500 فٹ پہ سیٹ کی ہوئی تھی لیکن اچانک 2000 فٹ کردی، اب پہلی بار فرسٹ آفسر نے مداخلت کی اور اونچائی کو دوبارہ 2500 فٹ کر دیا۔ اسی لمحے کنٹرول ٹاور سے بتایا گیا کہ ابھی ابھی ایک فلائٹ نے لینڈ کیا ہے، آپ بھی لینڈ کر جائیں گے کوئی مسئلے کی بات نہیں ہے، لیکن یہ بتانا بھول گئے تھے کہ تین چکر لگانے کے بعد وہ جہاز لینڈ کرنے کے قابل ہوا تھا۔ ادھوری بات سن کہ کیپٹن نے جہاز لینڈ کرنے کو ایک چیلنج سمجھ لیا، جب دوسرا پائلٹ کرسکتا ہے تو وائی ناٹ می؟
سینیئر جرنلسٹ طارق ابولحسن ساٹ کہتے ہیں:
نا مکمل معلومات پائلٹ کو دی گئی، یہ بات کہ ایک جہاز پہلے ہی لینڈ کر گیا ہے تم بھی لینڈ کر جاؤ، یہ اس پہ پریشر ڈالنے والی بات ہے اور اس کی قابلیت کو چیلنج کرنے والی بات ہے، جو پرائوٹ ائیرلائنز ہیں، ان کے پائلٹز جو ہیں ایک طرح کے پریشر میں فلائی کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر وہ لینڈ نہیں کرتے اور انہیں ڈائورٹ ہونا ہوتا ہے کسی اور ائیرپورٹ پہ تو پائلٹز کو بڑی جسٹیفیکیشنز دینی پڑتی ہیں، کیونکہ فیول زیادہ خرچ ہورہا ہے اخراجات زیادہ ہورہے ہیں، اگر کوئی پائلٹ زیادہ مرتبہ یہ کرے، فلائٹ سیفٹی کو مقبولیت دیتے ہوئی یہ فیصلہ کرے تو اس سے بڑی سختی سے پوچھا جائے گا کہ اس اس ٹائم پہ فلاں جہاز تو لینڈ کرگیا تھا تم نے کیوں نہیں کیا؟
جیسے ہی فلائٹ رومیو نومبر بیکن کو کراس کرتی ہے ویسے ہی جہاز 2500 فٹ پر آجاتا ہے۔ پروٹوکول بھی یہی ہے کہ اس بیکن کو کراس کرنے سے پہلے ہر حال میں اونچائی 2500 فٹ ہو۔ یعنی آسان الفاظ میں کہیں تو رنوے دکھنا چاہیے۔ بیکن کراس کرتے ہی کیپٹن جہاز کو دائیں جانب موڑ لیتے ہیں، کنٹرولر کا پیغام آتا ہے کہ رنوے سے نزدیک فلائی کریں دور نہ جائیں کیونکہ وزبلٹی خراب ہے اور رنوے نظروں سے اوجھل ہونے کا خدشہ ہے، لیکن پائلٹ کے کچھ اور ہی ارادے تھے، وہ فرسٹ آفسر کو مخاطب کر کے کہتے ہیں۔ اسے کہنے دو جو کہہ رہا ہے، پلین رنوے سے مسلسل دور ہو رہا تھا اور کیپٹن نے ایک آخری ایڈجسٹمنٹ کرکے پلین کو نیو موڈ پہ شفٹ کردیا، یہ ایک آٹو پائلٹ فیچر ہوتا ہے جو طیارے کو پہلے سے طے شدہ راستے پر خودکار طریقے سے اڑاتا ہے۔ اب پلین سیدھا روٹ کو فالو کرتا ہوا ویپوائنٹ ایلون کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ویپوائنٹ ایلون کی طرف بڑھتے ہوئے کیپٹن نے اس بات کا بھی خیال نہ کیا کہ وہ ائیرپورٹ کے پروٹیکٹو لینڈنگ زون سے باہر آ چکے ہیں اور اب جہاز رن وے کے بجائے سیدھا مرگلا ہلز کا رخ کر رہا ہے، فرسٹ آفسر کی سمجھ سے باہر تھا کہ یہ کرنا کیا چاہ رہے ہیں، مرتا کیا نہ کرتا اس نے پوچھ ہی لیا، سر کیا آپ کو رن وے دکھ رہا ہے؟ کیپٹن نے بڑے آرام سے ہاں میں سر ہلا دیا۔ لیکن ایک منٹ، کیپٹن صاحب کو جو روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں، کیا وہ واقعی رن وے تھا؟
کریش افیکٹیز سے تعلق رکھنے والے جنید حامد کہتے ہیں:
رپورٹ کے اندر یہ بھی مینشن ہے کہ پراببلی ہی تھاٹ کہ سیوینتھ ایوینیو ائیرپورٹ ہے، جو سیوینتھ ایوینیو جو کہ ہیڈنگ ٹوورڈس دی مرگلہ ہلز ہے ہی تھاٹ کے آئی ایم سرکلنگ دی ائیرپورٹ، جبکہ ہی ہیڈ ڈیویائیٹد اوے فرام دی ائیرپورٹ ٹوورڈس دی مرگلا ہلز۔
یہاں سوال یہ ہے کہ ائیر کنٹرولر اس دوران کہاں تھا؟ اس کا تو کام ہی یہی ہے کہ پائلٹ کو گائڈ کرے اور پلین ادھر ادھر ہونے لگے تو فورن الرٹ کرے۔
سینیئر جرنلسٹ طارق ابولحسن ساٹ بتارتے ہیں:
اس وقت جو ائیر ٹریفک کنٹرولر تھے وہ روم میں بیٹھ کہ ناشتہ کر رہے تھے اور انہوں نے اس ہی حالت میں بے خیالی سے اپنے کولیگس سے کہا کہ دیکھ تو سہی جہاز کہاں جا رہا ہے۔
آخر ائیر کنٹرولر کو ہوش آ جاتا ہے، وہ فورن پلین کے ساتھ کنیکٹ کرتا ہے اور بائیں مڑنے کا کہتا ہے، اس کے صرف چند سیکنڈ بعد پلین کے سسٹمز پہ ٹیرین احیڈ کی وارننگ بجنے لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر رخ فوری نہ موڑا گیا تو اگلے ساٹھ سیکنڈ میں جہاز کسی پہاڑ یعنے ٹیرین سے ٹکرا جائے گا، ایکسپرٹس کہتے ہیں ایسے میں یا تو فوراً جہاز کو بلندی پہ لے جانا چاہیے یا پھر اس کا رخ موڑ لینا چاہیے، وارننگ دیکھ کر فرسٹ آفسر کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، وہ کہتا ہے سر! آگے ٹیرین ہے، جہاز کو فوراً بائیں جانب موڑیں، لگتا ہے کہ اس وقت تک کیپٹن پرویز کے اوسان خطا ہوچکے تھے۔ پسینے چھوٹ رہے تھے اور چہرے پر گھبراہٹ کے آثار تھے، یہاں آپ کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ کیپٹن پرویز ڈائیبیٹیز اور ہائپرٹینشن کے مریض تھے، وہ ایسی لائف اینڈ ڈیتھ سچویشن کو ہینڈل کرنے کہ کسی بھی طرح اہل نہیں تھے اور ویسے بھی فلائنگ کا ایک بڑا سمپل رول ہے جس میں کسی ڈائیبیٹک کو جہاز اڑانے کی اجازت نہیں ہے۔
کریش افیکٹیز سے تعلق رکھنے والے جنید حامد کہتے ہیں:
دیکھیں ان چیزوں کو سی اے اے نے چیک کرنا ہوتا ہے، ان کی میڈیکل رپورٹس سی اے اے کے پاس سبمٹ ہوتی ہیں، سی اے اے ہیس دی اتھارٹی ٹو الاو اور ناٹ ٹو الاو، ائیربلو ایٹ دیٹ ٹائم اینڈ ایون ناو واز اونڈ بائی سٹنگ ایم ان اے۔ دس اس دی فیٹ آف دی پاکستانی نیشن، کے جو پاورفل ہوگا ہی ول گیٹ اوے ود ایوریتھنگ۔
کیپٹن مجسمے کی طرح سیٹ پر بیٹھے تھے اور 152 لوگوں سے بھرا طیارہ پوری رفتار سے موت کے منہ میں جا رہا تھا، ایک بار پھر کنٹرولر پوچھتا ہے، کیپٹن، کیا آپ کو رنوے دکھائی دے رہا ہے؟ پہلے تو دونوں چپ رہتے ہیں لیکن پھر ایک ساتھ کہتے ہیں، وی آر وژول ود ٹیرین۔ کیپٹن جہاز کا رخ موڑنے کے لیے ہیڈنگ سیلیکٹر کو بائیں طرف گھمانے لگتے ہیں، یہ وہ وقت تھا جب وہ ایک سنگین غلطی کر جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے نا کہ پلین کیپٹن کے لگائے روٹ کو فالو کرتے ہوئے مارگلہ ہلز کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اب ہیڈنگ بگ گھمانے سے بھی طیارے کی ڈائریکشن چینج نہیں ہوتی۔ دراصل اس پریشانی میں وہ بھول چکے تھے کہ پلین نیو موڈ میں ہے، جسے ہٹا کر ہی وہ مینول ٹرن لے سکیں گے۔ اِدھر سیلیکٹر گھما کر وہ اسے چھیاسی ڈیگریز تک لے آئے تھے۔ یہاں انہیں ہوش آیا اور پلین کو نیو موڈ سے تو نکال لیا مگر پلین کی ڈائریکشن چھیاسی ڈیگریز پر ہی سیٹ رہی۔ یوں طیارہ اسی زاویے پر دائیں جانب جانے لگا۔ اسی لمحے کاک پٹ میں ٹیرین احیڈ کے ساتھ ساتھ پل اپ کی وارننگز بھی بجنے لگیں۔ اب طیارے کو بچانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ سب چھوڑ کر جہاز کو اونچائی پر لے جایا جائے، فرسٹ آفسر چیختا رہا کہ سر، پل اپ، پلیز، پل اپ، لیکن کچھ جگہوں پہ چلانے کے بجائے حرکت میں آنا پڑتا ہے۔
کریش افیکٹیز سے تعلق رکھنے والے جنید حامد کہتے ہیں:
ایک سوچ ہوتا ہے، اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ اسے دبائیں تو ایمرجینسے بٹن کی طرح، تو ایک دم سے جہاز ایمیجیٹلی گوز اپ، اس ٹائم پہ کو پائلٹ شڈ ھیو ٹیکن دی انیشییٹو، اینڈ پریسڈ دیٹ بٹن، وہ جہاز پہاڑ کو مس کرجاتا، لیکن کیپٹن کی ڈانٹ کی وجہ سے اس کی بلینگ کی وجہ سے۔ ہی لاسٹ ھس ایبلٹی ٹو تھنک۔
اب لگ رہا تھا کہ طیارے کا کنٹرول کسی تجربہ کار پائلٹ کے پاس نہیں بلکہ گیم کھیلنے والے بچے کے ہاتھ میں ہے۔ کبھی وہ پلین کا تھرسٹ بڑھاتے تو کبھی کم کرتے، کبھی اسے دائیں تو کبھی بائیں لے جانے لگے۔ لیکن ساری تدبیریں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔ طیارہ مسلسل ہچکولے کھا رہا تھا۔ کیبن میں چیخ و پکار مچی تھی۔ نیچے کھڑے اسلام آباد کے شہری حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، ایک آوٹ آف کنٹرول پلین ان کے سروں پہ سے گزر رہا تھا۔ پائلٹ خاموش تھے اور جہاز میں صرف مسافروں اور ایمرجنسی وارننگز کا شور سنائی دے رہا تھا۔ فرسٹ آفسر کی آواز آئی، سر، وی آر گوئنگ ڈاون، سر وی آر …اور پھر جہاز ایک زوردار آواز کے ساتھ مارگلہ ہلز سے ٹکرا گیا۔
کریش افیکٹیز سے تعلق رکھنے والے جنید حامد کہتے ہیں:
مائی وائف واز اون دیٹ پلین، تو میں ان سے کہ رہا تھا کہ آپ بچوں کو بھی ساتھ لےجائیں، لیکن انہوں نے کہا کہ 4 دن کی تو بات ہے آپ سنبھال لیں، تو بس وہ چار دن کیا چودہ سال گزر گئے آج بھی اکیلا تینوں کو سنبھال رہا ہوں۔
کریش کے فورن بعد ایمرجینسی نافذ کردی گئی، ریسکیو ٹیمز، پولیس، آرمی اور سائرن بجاتی ایمبولینسیں ایک ایک کر کے جائے حادثہ پر پہنچنے لگیں۔
حادثہ کا شکار ہونے والے کے ایک رشتہ دار کہتے ہیں:
انہوں نے وہ جگہ پوری کارڈن آف کردیا تھا اور کسی کو وہاں مدد کرنے نہیں جانے دے رہے تھے اور پھر ایک بہت ہی سینیئر جرنلسٹ نے بیان دیا تھا کہ جو لوگ اوپر بیٹھے ہیں وہ سگرٹ پی رہے ہیں اور آدھے گھنٹے بعد ہیلیکاپٹر آتا ہے جو ڈیڈ باڈی کا ایک پیس لے کہ چلا جاتا ہے، جو لوگ وہاں پہنچے ان میں سے میرے رشتے دار بھی تھے تو انہوں نے کہا کے قصائی کی دکان میں گوشت اس سے زیادہ آرگنائزد رکھا ہوتا ہے جیسے وہ ڈیڈ باڈیز رکھی گئی تھیں۔
اب انویسٹیگیشن کا مرحلہ شروع ہوا، پاکستان کی تاریخ میں اُس وقت تک کسی بھی فضائی حادثے کی رپورٹ منظر عام پہ نہیں لائی گئی تھی۔ لیکن اس بار معاملہ مختلف تھا۔ الیکٹرونک میڈیا نے اس حادثے پر خوب شور مچایا، وکٹمز کی فیملیز انصاف کے لیے ڈٹ گئیں اور انہوں نے ائیر بلیو کریش ایفیکٹیز ایسوسی ایشن بنا لی۔
کریش افیکٹیز سے تعلق رکھنے والے جنید حامد کہتے ہیں:
انیشیل رپورٹ تین سے چار مہینے میں آجانی چاہیے ہے، وہ نہیں آئی، پھر ہم معاملہ کورٹ میں لے کہ گئے۔ پھر کورٹ کے آرڈر پہ انہوں نے ایک 38 پیجز کی رپورٹ دی، وچ واز ایبسولیوٹ آئی واش، دین ہم نے اس رپورٹ کو کورٹ میں چیلنج کیا، پھر اس کی کورٹ دوبارہ نکلی، ہم اس کو ایکاو میں لے کہ گئے وہاں سے ایکسپرٹس کو بلایا۔ تو ان سب نے یہی کہا کہ ایک جو رپورٹ بنتی ہے وہ تقریباً ڈھائی تین ہزار پیجز کی بنتی ہے، ان کے سیمپل کی رپورٹس میں نے منگوائیں کہ یہ ہوتی ہیں رپورٹس، 38 پیجز کی نہیں ہوتیں، 38 پیجز میں تم نے صرف اس کے مینول سے کاپیاں ڈالی ہوئی ہیں اس مین ہے کچھ نہیں۔
پاکستان میں فضائی حادثوں میں ایک پیٹرن دیکھا جاتا ہے کہ مرنے والے پائلٹ پہ ساری زمے داری تھونپ دو، مرنے والا تو مر گیا، وہ کیا اپنے آپ کو ڈیفینڈ کرے گا، آن گراونڈ جتنے لوگ ہوتے ہیں ان کی تمام غلطیوں پہ پرہ ڈال دیا جاتا ہے۔
سینیئر جرنلسٹ طارق ابولحسن ساٹ کہتے ہیں:
حادثے کہ تین سال بعد سول ایویایشن اتھارٹی نے یک رپورٹ پیش کی تھی پیشاور ہائی کورٹ میں اور اس رپورٹ میں اس وقت کا سب سے بڑا سچ بولا گیا تھا، پہلی دفع اس رپورٹ میں تسلیم کیا کہ ائیر کنٹرولرز کی بھی غلطی تھی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد ائیرپورٹ پے ائیرفورس کہ غیو سند یافتہ افسر یعنی کہ وہ افسر جن کے پاس لائسنس نہیں تھا سیویلین ائیرکرافٹس کو ڈیل کرنے کا، ائیر ٹریفک کنٹرلورز اس کام کے اہل نہیں تھے اور وہ موسمی حالات کو بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، کنٹرول ٹاور میں موجود سینیئر افسر نے جونیرز کی مدد نہیں کی، جس کنٹرولر نے ائیر بلو کی فلائٹ کو ڈیل کیا تھا، اس نے ہی بھوجا کو بھی ڈیل کیا اور جنید جمشید کی فلائٹ کو بھی۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اداروں کے نزدیک انسانی جان کی کیا اہمیت ہے۔ ائیر کنٹرولر کوئی عام ذمہ داری نہیں، پھر کسی نااہل شخص کو یہ کام کیسے سونپ دیا گیا۔ اکاونٹیبلٹی کہاں گئی۔ ایک اور حادثے کے بعد ائیر کنٹرولر کو تو ہٹا دیا گیا پر سزا آج تک نہیں دی گئی اور پھر جب انویسٹیگیشن ایسے لوگوں سے کرائی جائے جو نا اہل ہونے کے ساتھ کام کا تجربہ بھی نہ رکھتے ہوں۔ تو حادثات تو ہوں گے۔
کریش افیکٹیز سے تعلق رکھنے والے جنید حامد کہتے ہیں:
دیکھیں سیول ایویایشن اینڈ پی آئی اے ھیس بیکم اے ڈمپنگ گراونڈ فار ائیرفورس آفیسرز۔ کیونکہ پی آئی اے کا چیرمین ایک ریٹائرڈ آفسر ہے۔ تو وہ ساروں کو بھر لیتا ہے، فرسٹ آف آل آپ کے پاس کوئی کوالیفائڈ انویسٹیگیٹر نہیں ہے، ناٹ اے سنگل ون، آپ ائیر فورس آفیسر کو بولیں وہ انویسٹیگیٹر ہے، نہیں، آئی ڈونٹ بیلیو دیٹ، انویسٹیگیٹر از اے پروفیشن، یو کین ناٹ ڈو دیٹ ان یور ڈیپوٹیشن، اٹ از ا کیریر۔
سینیئر جرنلسٹ طارق ابولحسن ساٹ کہتے ہیں:
وہ لوگ جو اثرو رسوخ رکھتے ہیں وہ ادارے بھی اور وہ لوگ بھی وہ دباو ڈال کہ سیویلین اداروں مین آتے ہیں اور وہ کام سنبھالتے ہیں جس کے لیے ان کی تیاری نہیں تھی، نہ پڑھا نہ پہلے کبھی کام کیا، زیادہ خطرناک تب ہوتا ہے جب وہ ریگیولیٹری باڈیز کے اندر آکہ بیٹھتے ہیں اور ان کو ریگیولیٹ کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا، بعض اوقات ائیرلائنز کچھ پیششکشوں کے ذریعے ان ریگولیٹرز کو قابو کرلیتی ہیں، غیر قانونی کام کرتے، وہ مفت ٹکٹس کی صورت میں، بین الاقوامی دوروں کی صورت میں ان کے ذریعے فائدے حاصل کرتے ہیں اور پھر کامپرومائز کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں جو بھی انویسٹیگیٹو ادارہ ہوتا ہے وہ انڈیپینڈنٹلی کام کرتا ہے، اس کے اوپر کسی کا پریشر نہیں ہوتا۔ نہ وہ کسی ادارے کے انڈر کام کرتا ہے۔ اسی صورت وہ ایکیوریٹ رپورٹس شائع کر پاتا ہے۔ اس کی مثال یوں لیں کہ اگر ایک کمپنی اپنے ایمپلائی سے آڈٹ کراتی ہے۔ تو کوئی سینیئر اس آڈٹ کو اپنی غلطیاں چھپانے کے لیے کافی حد تک انفلوینس کرسکتا ہے، غلطیاں تو چھپ جاتی ہیں مگر نقصان کمپنی کو بھگتنا پڑتا ہے۔
سینیئر جرنلسٹ طارق ابولحسن ساٹ کہتے ہیں:
پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی انویسٹیگیشن بورڈ بنے ہیں تو ان کا ہیڈ 3 سال کی ڈیپوتیشن پہ آیا ہوا ائیر فورس آفسر ہوتا ہے اور اس سے پہلے انہیں کوئی تجربہ نہیں ہوتا سول ائیرکرافٹس کی انویسٹیفیشن کا، تو وہ پہلی دفع آ کر سیکھتے ہیں کہ کس طرح ہوتی ہے انویسٹیگیشن۔
شہدا کے لواحقین کو کمپینسیشن کی رقم کئی چیزوں کو مد نظر رکھنے کے بعد ڈیسائڈ ہوتی ہے، قسمت کی ستم ظریفی کہیں یا ہمارے اداروں کی نا اہلی، لیکن لواحقین کو یہ رقم لینے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے، حالانکہ یہ کوئی خیرات نہیں تھی۔ یہ رقم انشورنس کے طور پر ہر ائیرلائن ٹکٹ سے کاٹی جاتی ہے۔
کریش افیکٹیز سے تعلق رکھنے والے جنید حامد ساٹ:
2010 سے 2012 کے درمیان مجھے پتا چلا کہ ہمارے پاس کیرج بائی ائیر ایکٹ ہی نہیں ہے، یا اگر ہے تو اتنا پرانا ہے کہ ایفیکٹو ہی نہیں ہے۔ اس کے مطابق جو کمپینسیشن ویلیو دی گئی تھی وہ 38000 تھی۔ کین یو میجن دیٹ، پھر ہم کورٹ میں گئے، اس کو چیلنج کیا، لیکن بہرحال اتنا کچھ کرنے کے بعد ہمارا وہ ایکٹ اپروو ہوا، اس کے مطابق وہاں پچاس لاکھ روپے پھر دیا گیا۔ یہ جو پچاس لاکھ روپے ہے نا یہ ایک فرسٹ ٹئیر لائبلٹی ہے یعنی ائیرلائن نے بغیر سوال جواب کیے دینا ہے، کمپینشیشن گلوبلی icao کے رولس کے مطابق آپ کی عمر، جینڈر، سوشل بیکگراونڈ، آپ کے نمبر آف ڈیپینڈنتس پہ ڈیپینڈ کرتی ہے، اس سب کو مانیٹری ٹرمز میں کنورٹ کیا جاتا ہے۔
کانکلوژن
اس پرواز میں کئی ایسے نوجوان سوار تھے جو اس بو سیدہ نظام سے جنگ کرنا چاہتے تھے، اپنے لیے اور اپنے لوگوں کے لیے آواز بلند کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس کام کے لیے سیاسی روٹ کا انتخاب کیا تھا، وہ اسلام آباد میں یوتھ پارلیمنٹ کی میٹنگ اٹینڈ کرنے جار ہے تھے، ان کا خیال تھا کہ وہ اسٹیٹس کو کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ ملک بدل دیں گے۔ لیکن افسوس، جس فرسودہ نظام سے انہوں نے جنگ کرنی تھی، وہ اسی کی نا اہلی کی بھینٹ چڑھ گئے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔