یہ دو ہزار سولہ کے شروع کی بات ہے۔ لوگ اے پی ایس اور صفورا گوٹھ کے سانحے بھولتے جا رہے تھے۔ ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی کامیابی نے راحیل شریف کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ کچھ لوگ تو انہیں ڈی فیکٹو پرائم منسٹر بھی کہنے لگے تھے۔ دہشت گردی میں مرنے والوں کی عیادت سے لے کر معاشی فیصلوں تک راحیل شریف ہر جگہ نظر آ رہے تھے۔ تھری ٹائم وزیر اعظم نواز شریف ایک فور اسٹار جرنیل راحیل شریف کے سائے میں کہیں گم ہوتے جا رہے تھے۔

کیا کراچی کیا لاہور کیا پشاور، اور تو اور سوشل میڈیا پر بھی ہر کسی کی زبان پر ’’شکریہ راحیل شریف‘‘ تھا۔ مگر پھر ایک ایسی غیر متوقع بریکنگ نیوز چلی کے سب حیران رہ گئے۔ ہر جگہ بحث چھڑ گئی۔ ابھی تو آرمی چیف ملازمت میں پورے گیارہ مہینے باقی تھے تو پھر ابھی سے یہ اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

سارے میڈیا پر شور تھا ابھی یہی پریشانی کم تھی کہ نواز شریف کی ذاتی زندگی میں بھی ایک مصیبت سر اٹھانے لگی۔ ان کا دل جواب دینے لگا۔ پہلے تو انہیں آرام کا مشورہ دیا گیا لیکن جب آرام سے بھی بات نہ بنی تو وہ ہارٹ سرجری کے لیے لندن چلے گئے۔

اب ملک میں صرف ایک شریف کا راج تھا۔ مگر نواز شریف بھی پرانے کھلاڑی تھے۔ جولائی دو ہزار سولہ میں جب صحتیاب ہو کر لاہور سے اسلام آباد کی فلائٹ پر بیٹھے تو جہاز سے ہی ایک ایسی تصویر ریلیز کی گئی جس نے سب کو کلئیر پیغام دے دیا۔ چشمہ لگائے دھوپ سینکتا نواز شریف جی ایچ کیو کی ایک فائل کھولے ملک کے نئے آرمی چیف کے ناموں پر غور کر رہا تھا اور انہی ناموں میں سے ایک نام تھا، جنرل قمر جاوید باجوہ کا۔

ویسے تو کہا جاتا ہے کہ جنرل راحیل کہ صرف آگے نہیں پیچھے بھی ایک باجوہ تھا مگر اس باجوہ کا ذکر پھر کبھی۔ آج بات ہوگی اس باجوہ کی جس نے اپنی ملازمت کے دوران، ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، چار نہیں بلکہ پورے پانچ وزیر اعظم بھگتا کر ایک ایسا ریکارڈ بنایا ہے جس پر مرحوم ایوب خان بھی رشک کرتے ہوں گے۔

وہ باجوہ جنہیں کبھی سب سے بڑا ڈیموکریٹ کہا گیا تو کبھی میر جعفر اور میر صادق کے القابات سے نوازا گیا۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے خالق ہائبرڈ نظام کے موجد! سچ یہ ہے کہ جنرل باجوہ کے اتنے روپ ہیں کہ ایک ڈاکومنٹری میں ان سب پر بات کرنا مشکل ہے مگر آسان کام ہم رفتار والوں کے نصیب میں کہاں؟ چلیے آپ کو سناتے ہیں اصلی جنرل باجوہ کی کہانی۔

باجوہ کون؟

نومبر 1960 کا زمانہ تھا۔ انقلابِ اکتوبر کو دو سال گزر چکے تھے۔ ایوب خان کی اقتدار پر گرفت تو مضبوط تھی لیکن وہ پھر بھی کسی قسم کا رسک لینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ ایک ایک کر کے تمام لوز اینڈز بند کیے جا رہے تھے۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی گجرات میں لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو گولیاں مارنے والے سب انسپکٹر محمد شاہ کو بھی نامعلوم افراد نے کلہاڑیاں مار مار کر قتل کر دیا تھا۔

گھکڑ منڈی کے لیٖفٹیننٹ کرنل محمد اقبال ان دنوں کراچی پوسٹڈ تھے جب ان کے گھر ایک اور بیٹے کی ولادت ہوئی۔ یہ بچہ کرنل اقبال کے آنگن کا پانچواں اور آخری بچہ تھا۔ کون جانتا تھا کہ ایوب کی ڈکٹیٹرشپ میں ایک لیفٹیننٹ کرنل کے گھر آنکھ کھولنے والا یہ بچہ ایک دن ایوب کے ریکارڈز بھی توڑ دے گا۔

بچے کا نام قمر جاوید رکھ دیا گیا۔ لیکن آگے جا کر ملک کے طاقتور ترین عہدے کی کرسی پر چھ سال تک بیٹھنے والے اس بچے کی زندگی کا آغاز آسان نہیں تھا۔

ابھی قمر صرف سات سال ہی کے تھے کہ کرنل اقبال اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی والدہ نے پانچ چھوٹے بھائی بہنوں کی اکیلے پرورش کی۔ 18 سال کی عمر میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں بھرتی ہوگئے۔ کیریئر کا آغاز 16 بلوچ رجمنٹ سے ہوا یہ وہی یونٹ تھی جس کی کمان ان کے مرحوم والد ساٹھ کی دہائی میں کر چکے تھے۔

1992 میں جنرل باجوہ نے جموں و کشمیر میں 5 ویں ناردرن لائٹ انفنٹری رجمنٹ میں بطور میجر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد انہوں نے ٹین کور میں پہلے کرنل اور پھر بریگیڈیر کے طور پر چیف آف اسٹاف کی حیثیت میں کام کیا۔ فارمیشن کمانڈر کے طور پر ناردرن ایریاز کی ایک ڈویژن کمانڈ کی اور پھر دو ہزار سات میں کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن کا بھی حصہ رہے۔ یہ وہی پوسٹنگ تھی جہاں ان کی کارکردگی انڈین آرمی چیف کو بھی بہت پسند آئی تھی۔

جنرل کیانی کا دور باجوہ کے لیے بہت مبارک ثابت ہوا۔ 2009 میں میجر جنرل بنےاور پھر جاتے جاتے کیانی انہیں اگست دو ہزار تیرہ میں تھری اسٹار جنرل بھی بنا گئے۔ لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد باجوہ کی پوسٹنگ ایک بار پھر ان کی فیوریٹ ٹین کورمیں ہو گئی۔ اگلے تین سالوں میں مختلف عہدوں پر گھومتے گھماتے جنرل باجوہ ستمبر 2015 میں بالآخر جی ایچ کیو پہنچ گئے اور پھر ریٹائر ہو کر ہی وہاں سے نکلے۔

ایک انٹرسٹنگ بات بتاؤں؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ آرمی چیف کس وزیر اعظم نے لگائے ہیں؟

پچھلے پچاس سالوں میں اسلم بیگ، جہانگیر کرامت اور اشفاق کیانی کو چھوڑ کر جتنے بھی آرمی چیفس آئے سب کے سب نواز شریف کی آشیرباد سے ہی آئے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کسی بھی آرمی چیف سے نواز شریف کی کبھی نہیں بنی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ راحیل شریف کی رخصتی سے ریلیف تو محسوس کر رہے تھے لیکن ساتھ ہی انہیں ان کا اپنا ٹریک ریکارڈ پریشان بھی کر رہا تھا۔

ان کے سامنے 4 افسران کے نام تھے۔ سب سے پہلا نام تھا، سب سے سینیئر لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود کا۔

جنرل زبیر کا تعلق آرٹلری سے تھا اور اس وقت وہ جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل اسٹاف کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ وہ اس سے پہلے جوہری اثاثوں کو ڈیل کرنے والے اسٹریٹجک پلانز ڈویژن میں بھی کام کر چکے تھے اور عام طور پر ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ کوئی جرنیل ایس پی ڈی میں پوسٹ ہونے کے بعد واپس آرمی میں بلا لیا جائے لیکن ایس پی ڈی سے صرف ڈیڑھ سال میں واپسی اور پھر سی جی ایس کی اہم پوسٹنگ کو راحیل شریف کی جانب سے ان کی بطور فور اسٹار جرنیل پروموشن کا ایک واضح اشارہ بھی سمجھا جا رہا تھا۔

اس کے بعد نمبر تھا مرحوم جنرل اشفاق ندیم کا۔ راحیل شریف کو تو سارا پاکستان جانتا ہے لیکن بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ راحیل شریف کے تمام آپریشنز کا اصل ماسٹر مائنڈ جنرل اشفاق ندیم تھے۔ انہیں ایک سیدھا سادھا بلنٹ اور ٹیکسٹ بک افسر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بحیثیت ڈی جی ملٹری آپریشنز وہ کئی بار پی ایم ہاؤس کی بریفنگز میں کچھ ایسی باتیں کہ گئے تھے کہ نواز شریف انہیں بہت زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔

تیسرا نمبر تھا جنرل رمدے کا۔ شہید بریگیڈیر انوار الحق رمدے کے بھائی جنرل رمدے کے خاندان کا تعلق ن لیگ سے بتایا جاتا تھا اور کئی لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کنکشن ان کی پروموشن کے چانسز کو کافی حد تک خراب کر سکتا ہے۔

چوتھا اور اخری نمبر تھا، جنرل قمر جاوید باجوہ کا۔ ان کے ملٹری کیریر کے بارے میں ہم اپ کو پہلے ہی بتاچکے ہیں۔

آئن سٹائن نے کہا تھا کہ بار بار ایک ہی کام کر کے مختلف نتائج کی امید لگانا پاگل پن ہوتا ہے۔ اوہ، آئی ایم سوری لیکن نواز شریف کا آئن سٹائن سے کیا تعلق۔

جونیر موسٹ جنرل مشرف کے ڈسے نواز شریف نے اٹھارہ سال بعد نومبر 2016 میں ایک بار پھر تین سینیئر جرنیلوں کو سپرسیڈ کر کے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنا دیا۔

مگر یہ تقرری اتنی آسان نہیں تھی۔ جنرل باجوہ کے آرمی چیف بننے سے کچھ دن پہلے ان کے خلاف ایک اقلیتی گروہ سے تعلقات کا الزام لگا کر ایک بھرپور مہم چلائی گئی۔ بالکل ویسی ہی مہم جو اکثر سیاستدانوں کے خلاف ایک مخصوص انداز میں ایک مخصوص حلقے کی جانب سے کئی دہائیوں سے چلائی جاتی رہی ہے۔ ن لیگ کے اتحادی پروفیسر ساجد میر نے تو ایک بیان بھی داغ دیا۔

باجوہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ ساجد میر کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جارہی ہیں اسی لیے بظاہر نرم مزاج اور بے ضرر نظر آنے والے باجوہ نے کمانڈ سنبھالتے ہی سخت فیصلے شروع کر دیے۔ دو ہفتوں کے اندر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اور پھر چند ماہ بعد جنرل رضوان اپنا ٹینور ختم ہونے سے کافی عرصہ پہلے ارلی ریٹائرمنٹ لے کر گھر چلے گئے۔

مگر صرف جنرل رضوان نہیں جنرل باجوہ اپنے سر سے جنرل راحیل کا سایہ بھی ہٹانا چاہتے تھے۔ اور اس کام کے لیے انہیں ضرورت تھی ایک اسپن ڈاکٹر کی۔ ایک ایسے میڈیا منیجر کی جو لوگوں کے ذہنوں سے راحیل شریف کا ذکر مٹا کر انہیں باجوہ کا دیوانہ بنا دے۔ اسی لیے صرف دو ہفتوں بعد ہی جنرل اصف غفور نے جنرل عاصم سلیم باجوہ کو ری پلیس کر دیا۔ مگر صرف میڈیا مینجر ہی کافی نہیں تھا۔ انہیں پرانی دہشت گردی کے خلاف ایک نئے آپریشن کی بھی ضرورت تھی۔

ردالفساد کے دوران سینتالیس بڑے اور ایک لاکھ سے زائد چھوٹے آپریشنز کیے گئے۔ پاک افغان بارڈر کے ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ حصے کی فینسنگ بھی کی گئی۔ ’’ردالفساد‘‘ کا شور نیوز چینلز پر تو بہت تھا لیکن شاید دہشت گرد نیوز چینلز نہیں دیکھتے اسی لیے باجوہ دور کو پاکستان میں دہشت گردوں کی واپسی کا دور بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

باجوہ کے چھ سالوں میں ڈیڑھ ہزار سے زائد دہشت گرد حملے ہوئے جن میں ڈھائی ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے۔ دو ہزار تئیس تو سیکیورٹی فورسز کے لیے پچھلے اٹھ سالوں کا بدترین سال تھا جہاں مختلف حملوں میں چار سو سے زائد جوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ردالفساد کا آغاز تو جنوری دو ہزار سترہ میں ہوا تھا لیکن اختتام کب ہوا یہ کسی کو نہیں معلوم شاید جنرل باجوہ دوسرے مسائل میں اتنے الجھ گئے کہ انہیں دہشت گردوں کی خبر لینا یاد ہی نہیں رہا۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ Bajwa had many things on his mind but terrorism was not one of them…..

مینی تھنگز سے یاد آیا، باجوہ ڈاکٹرائن کا ذکر تو آپ نے نیوز چینلز پر سنا ہی ہوگا۔

مشرف کی Enlightened moderation ڈاکٹرائن تو آپ سب کو یاد ہی ہوگی۔ مگر شاید یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ایک نان مارشل لا آرمی چیف ملک کے لیے ایک نیشنل پالیسی بنا رہا تھا۔ بظاہر تو اس ڈاکٹرائن کا مقصد سیکیورٹی ریلیٹڈ بتایا جا رہا تھا مگر مرزا غالب کا وہ شعر ہے نا کہ

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

بس ایسا ہی کچھ حال یہاں بھی تھا۔

جنرل باجوہ کے لیے آرمی چیف کا عہدہ تھوڑا چھوٹا تھا کیوں کہ ان کے عزائم بہت بڑے تھے۔ جنرل باجوہ ملکی تاریخ پر ایسے ان مٹ نقوش چھوڑنا چاہتے تھے جو دہائیوں بعد بھی مٹائے نہ جا سکیں۔ وہ سیاست، سفارت، تجارت، معیشت، سب کچھ بدلنا چاہتے تھے۔ یہ سب کرنے کے لیے صرف ملٹری نہیں پولیٹیکل اسپیس کی بھی ضرورت تھی۔ اور نواز شریف کے ہوتے ہوئے یہ اسپیس ملنا ناممکن تھا۔

عدالتوں سے پے در پے فیصلے نواز شریف کے خلاف آنے لگے۔ نواز شریف نااہل ہو گئے۔ کہتے ہیں ناکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ جنرل باجوہ نے بھی اپنی امیدیں عمران خان سے وابستہ کرلیں۔ سینیٹ انتخابات میں اکثریت ن لیگ کی تھی مگر چئیرمین سینیٹ اپوزیشن کا بن گیا۔

الیکشنز قریب آتے ہی پاکستانی سیاست کے راجا گدھ جنہیں عام زبان میں الیکٹیبلز بھی کہا جاتا ہے وفاداریاں بدل بدل کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے لگے۔ اور پھر الیکشنز سے کچھ مہینوں پہلے باجوہ ڈاکٹرائن کا با ضابطہ اعلان ہو گیا۔

یہاں ایک دلچسپ بات بتاؤں۔ میڈیا اسٹریٹجی اور پبلسٹی میں راحیل شریف کا کوئی مقابل نہیں لیکن عجیب بات ہے کہ جنرل راحیل خود براہ راست شاذ و نادر ہی میڈیا سے ڈائریکٹلی انٹریکٹ کرتے نظر آتے تھے۔ جنرل باجوہ نے یہ پالیسی بھی بدل دی۔ براہ راست بے حجاب ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جنوری دو ہزار اٹھارہ کی ایسی ہی ایک ملاقات میں جنرل باجوہ نے چند صحافیوں کے سامنے اپنا ڈاکڑائن پیش کر دیا۔

اس ڈاکٹرائن میں بھارت کے ساتھ تعلقات کی نارملازیشن، اٹھارہویں ترمیم کی واپسی، معیشت کی بحالی، انتہا پسندی کے خاتمے اور ففتھ جنریشن وار فئیر جیسے موضوعات پر بات کی گئی۔ میٹنگ میں بیٹھے بعض صحافی حیران اور پریشان تھے کہ یہ سب ایک آرمی چیف بغیر مارشل لا لگائے کیسے کر سکتا ہے؟ مگر باجوہ کے پاس صرف وژن نہیں اس وژن پر عمل کروانے کا پورا پلان بھی موجود تھا اور اس پلان کا نام تھا ’’ہائبرڈ نظام‘‘۔

ایک ایسا نظام جہاں ایک آرمی چیف تمام ملکی معاملات میں سویلین وزیر اعظم کا برابر کا پارٹنر ہوگا۔ اب باجوہ کو گئے زمانہ ہوگیا لیکن پاکستان میں اس وقت بھی وہی ہائبرڈ نظام قائم ہے جس کی بنیاد جنرل باجوہ نے رکھی۔ بس جنرل باجوہ سے ایک غلطی ہو گئی انہوں نے اس ہائبرڈ نظام کے لیے پہلے پارٹنر کا انتخاب ٹھیک نہیں کیا۔

دا سیم پیج

آزادی کا مہینہ تھا اور تبدیلی آ نہیں رہی تھی تبدیلی آ چکی تھی۔ حلف اٹھانے کے اگلے چند ہفتوں میں ہم نے ’’سول ملٹری پارٹنر شپ‘‘ کا ایسا مظاہرہ دیکھا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ عمران خان سے باجوہ کی پہلی ملاقات 27 اگست کو ہوئی۔ جب آرمی چیف ’’نیولی الیکٹڈ پی ایم‘‘ کو مبارک باد دینے وزیر اعظم ہاؤس آئے۔

چند ہی دنوں بعد 30 اگست کو عمران خان جی ایچ کیو پہنچ گئے۔ وہاں انہیں گارڈ آف ہونر بھی دیا گیا اور فرداً فرداً آرمی کی ٹاپ براس سے ملاقات بھی کروائی گئی۔ اس ہی دن عمران خان کو جی ایچ کیو میں سات گھنٹوں کی ایک بریفنگ بھی دی گئی۔
3 ستمبر کو جنرل باجوہ ایک بار پھر پی ایم ہاؤس میں عمران خان کے ساتھ بیٹھے نظر آئے۔ اور پھر وہ ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

تقریب تھی یوم دفاع پاکستان کی، مقام تھا جی ایچ کیو اور چیف گیسٹ تھے وزیر اعظم پاکستان عمران خان۔

لوگ حیران تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جی ایچ کیو کا فنکشن اور سویلین پی ایم مہمانِ خصوصی؟ ان کی حیرانی درست بھی تھی کیوں کہ آج سے پہلے ایسا کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔ اس تقریب کا چیف گیسٹ اور مین اسپیکر ہمیشہ آرمی چیف ہی ہوتا تھا۔ اور پھر جو مناظر سامنے آئے انہوں نے دیکھنے والوں کو اور حیران کر دیا۔ ایک ہاتھ میں چھڑی پکڑے باجوہ دوسرے ہاتھ سے عمران خان کو مین اسٹیج کا راستہ دکھاتے نظر آ رہے تھے۔ فوجیوں کے جھرمٹ میں گھرے عمران خان۔ اپنے کسی سیاسی جلسے کی طرح لوگوں کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے، ہاتھ ہلا رہے تھے۔ آج پہلی بار جی ایچ کیو کی کسی تقریب میں مرکز نگاہ سینٹر آف اسٹیج، مین آف دا مومنٹ ایک فور اسٹار جنرل نہیں بلکہ ایک سپر اسٹار سیاستدان تھا۔

ابھی لوگوں کے ذہنوں میں ڈیفنس ڈے کی خبر تازہ ہی تھی کہ عمران خان چند دنوں بعد آبپارہ پہنچ گئے۔ جہاں ایک بار پھر ان کو ویلکم کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی ای ایس آئی نوید مختار نے۔ سول ملٹری تعلقات کی نئی تاریخ رقم ہورہی تھی اور تاریخ کے اس چیپٹر کا نام تھا، ’’دا سیم پیج‘‘۔

باجوہ کی نظروں میں عمران کے لیے محبت ہی محبت تھی اور عمران کی تقریروں میں باجوہ کے لیے تعریفیں ہی تعریفیں۔

یہ تقریر تو اکتوبر دو ہزار بیس کی ہے مگر سچ یہ ہے کہ ’’عمران باجوہ لو اسٹوری‘‘ میں چند مہینوں بعد ہی دراڑ پڑنا شروع ہو چکی تھی اور اس دراڑ کی وجہ تھی ایک عجیب و غریب ڈیویلپمنٹ۔ 16 جون 2019 کو خبر آئی کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر کا تبادلہ ہو گیا ہے اور جنرل فیض پاکستان کے نئے اسپائی ماسٹر ہوں گے۔

لوگ حیران تھے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری تو تین سال کی ہوتی ہے تو پھر صرف دس مہینوں میں ایسا کیا ہوا کہ ڈی جی کو بدل دیا گیا؟ بات آئی گئی ہو گئی لیکن اگر آج دیکھا جائے تو شاید یہ عمران کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ لیکن شاید عمران کو بھی اس غلطی اور اپنی حکومت کے لیے باجوہ کی سپورٹ کی ضرورت کا احساس ہو چکا تھا اسی لیے آرمی چیف کی ٹرم مکمل ہونے سے چار مہینے پہلے ہی وزیر اعظم ہاؤس سے انیس اگست کو آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا۔

لیکن نواز شریف کو گھر بھیجنے والے جنرل باجوہ عمران خان کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ وہ جان چکے تھے کہ عمران خان کو مینج کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ وہ جان چکے تھے کہ سارے انڈے عمران کی باسکٹ میں ڈالنے سے بہت نقصان ہو سکتا ہے۔

بیک اپ پلان پر کام شروع ہو گیا۔ ادھر جیل میں بیٹھے بیٹھے نواز شریف بھی تنگ اچکے تھے۔ پیاسا کنویں کے پاس آ گیا۔ اب یہاں پیاسا کون تھا اور کنواں کون یہ فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔ رابطے بحال ہوگئے، بات بننے لگی اور طبیعت بگڑنے لگی اور پھر 19 نومبر کو نواز شریف لندن روانہ ہوگئے۔

عمران خان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کا دشمن نمبر ایک نواز شریف ان ہی کی حکومت میں تمام قوانین کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوا جہاز پر بیٹھا اور اڑ گیا۔ عمران خان کو بھی اندازہ ہو چکا تھا کہ پس پردہ وہ کردار کون ہے جس نے نواز شریف کو نکالا۔ اور پھر اس سول ملٹری گیم آف تھرونز میں ایک تیسرا فریق کود پڑا۔

26 نومبر کو جنرل باجوہ دوسرے ٹرم کا آغاز ہونے سے چند دن پہلے اسلام آباد میں ایک ایسی ڈیوپلپمنٹ ہوئی جس سے پنڈی میں زلزلہ آ گیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا۔ تین دنوں میں دو بار وزیر اعظم ہاؤس سے نوٹی فکیشن سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی غلطی ہو جاتی یا کر دی جاتی۔

باجوہ کوئی بھی کا رسک لینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ راتوں رات اسلام آباد میں پنڈی کے سفیر فروغ نسیم کو وفاقی کابینہ سے نکال کر اپنا وکیل بنایا اور سپریم کورٹ میں پیش کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بالآخر باجوہ کو خود پی ایم ہاؤس میں بیٹھ کر اپنے سامنے نوٹی فکیشن لکھوانا پڑا، جب جا کر بات بنی۔ تین دن کیس چلا اور پھر سپریم کورٹ نے جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی عارضی توسیع دیتے ہوئے حکومت کو نئی قانون سازی کا حکم دے دیا۔

پھر نواز شریف کو لندن بھیج کر جو انڈے باجوہ نے ن لیگ کی باسکٹ میں رکھے تھے ان کے ہیچ ہونے کا وقت آ گیا۔ جب قانون سازی ہوئی تو سب کے سب چُو چُو کرتے ہوئے جنرل باجوہ کی گود میں جا بیٹھے۔

عمران خان کے ہاتھ سے نواز شریف تو نکل ہی چکے تھے اور اب باجوہ بھی سلپ ہوتے جا رہے تھے۔ عمران خان پبلکلی اب بھی باجوہ کو مکمل سپورٹ دیتے نظر آ رہے تھے مگر پھر سینیٹ انتخابات کا وقت آ گیا اور خفیہ رائے شماری میں حفیظ شیخ کی شکست کے بعد عمران باجوہ ’’کولڈ وار‘‘ ہاٹ ہو گئی۔

ادھر کابل میں جنرل فیض سب کو بتا رہے تھے کہ ڈونٹ وری ایوری تھنگ ول بی او کےBut everything was NOT ok between Pindi and Islamabad۔

اسی مہینے جنرل باجوہ نے ایک انتہائی بولڈ مُوو کی۔ عمران خان سے قریب سمجھے جانے والے جنرل فیض سے ڈی جی آئی کا چارج واپس لے لیا۔ آئی ایس آئی کا ایک اور ڈی جی اپنی تین سالہ ٹرم مکمل کرنے سے پہلے تبدیل کر دیا گیا تھا۔

بظاہر اس مُوو کا مقصد تو جنرل فیض کے آرمی چیف بننے کی ریکوائرمنٹس پورا کرنا تھا۔ لیکن عمران خان بغیر مشاورت آبپارہ میں اس اہم ترین تبدیلی کا اصل مقصد اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ انہوں نے مزاحمت بھی کی اور تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی کینڈیڈیٹس کے انٹرویوز بھی کیے گئے لیکن اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر کھڑی پی ٹی آئی حکومت کے پاس باجوہ کے نامزد ڈی جی کو نومینیٹ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

اس تبدیلی کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کے غبارے میں پھر ہوا بھرنے لگی۔ جنوری دو ہزار بائیس میں لانگ مارچ کا اعلان ہوا۔

عمران خان نے خطرناک ہونے کی دھمکی بھی لگائی مگر فیصلہ ہو چکا تھا کہ عمران کو تو جانا ہوگا۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن سے پینگیں بڑھاتے باجوہ عمران خان کو اب بھی اپنی حمایت کا یقین دلا رہے تھے۔ لیکن جب عمران خان نے توپوں کا رخ امریکا کی طرف موڑا تو باجوہ کھل کر امریکا کی حمایت میں سامنے آ گئے۔

اب گلوز اتر چکے تھے۔ پہلے الیکٹبلز اور پھر ایک ایک کر کے اتحادی بھی عمران کا ساتھ چھوڑ گئے اور پھر ایک تاریخی انداز میں شروع ہونے والی پارٹنر شپ ایک تاریخی انداز میں ختم ہو گئی۔ پاکستان میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا۔

عمران گھر تو چلے گئے لیکن پھر آغاز ہوا عمران باجوہ دشمنی کے ایک ایسے دور کا جس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ سیم پیج کی ہانڈی چوراہے پر پھوڑی جا رہی تھی۔ اب اسے عمران خان کا بھول پن کہیں نا تجربہ کاری یا مفاد پرستی، وہ شاید جنرل باجوہ پر ضرورت سے زیادہ تکیہ بھی کرنے لگے تھے۔ سب اپنے اپنے اندازے لگا رہے تھے کہ یہ پیج پھٹا کیسے؟ لیکن شاید اس بات کا جواب جنرل باجوہ نے صحافیوں کو بہت سال پہلے ہی دے دیا تھا۔

ایمبیسڈر باجوہ

وزارت خارجہ پر ہمیشہ سے پاک فوج کا بڑا انفلیونس رہا ہے اسی لیے دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفیروں کی بڑی تعداد بھی ریٹائرڈ فوجی افسران پر مشتمل ہے۔ لیکن پھر بھی جنرل باجوہ سفارتی محاذ پر جتنے بزی نظر آئے اس کی مثال کسی مارشل لا میں بھی نہیں ملتی۔ چلیں نظر ڈالتے ہیں امبیسڈر جنرل باجوہ کی سفارتی ڈائری پر۔

اپنے چھ سالوں میں جنرل باجوہ نے تینتالیس بیرونی دورے کیے۔ وہ چھ سالوں میں چھ بار سعودی عرب، پانچ بار افغانستان، چار بار چین اور دو بار امریکا بھی گئے۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ بطور آرمی چیف انہوں نے اخری سلام بھی امریکا کو ہی پیش کیا۔

لیکن باجوہ صرف گھومتے ہی نہیں رہے۔ راولپنڈٰی میں بیٹھے بیٹھے بھی انہوں نے فارن ڈپلومیٹس سے تین سو کے قریب ملاقاتیں کیں۔ جانتے ہیں ان تین سو میں سب سے زیادہ میٹنگزکس ملک کے نمائندوں سے تھیں؟ اندازہ لگائیں؟ ایک اشارہ دیتا ہوں۔ وہ پڑوسی ملک نہیں ہے۔ جی ہاں ان کی تین سو میٹنگز میں سے پچاس کے قریب ملاقاتیں امریکی ڈپلومیٹس کے ساتھ تھیں۔

اب امریکیوں سے اتنی ساری ملاقاتوں کا کوئی اثر تو انا تھا چلیں اب آپ کو ایک اور چارٹ دکھاتا ہوں۔ یہ ڈوبتا گراف پاکستانی معیشت کا نہیں بلکہ گوگل پر سی پیک سرچز کا ہسٹورک ٹرینڈ ہے۔ وہ جو پہاڑ نظر آ رہا ہے وہ نومبر 2016 ہے۔ راحیل شریف کا بطور آرمی چیف اخری مہینہ اور اس کے بعد سے سی پیک کا گراف صرف نیچے ہی کی طرف جاتا رہا۔

سی پیک رول بیک تو نہیں ہوا لیکن رول فارورڈ بھی نہیں ہو سکا۔ کیریر کا بڑا حصہ کشمیر سے جڑی ٹین کور میں گزارنے کی وجہ سے جنرل باجوہ کو کشمیر افیئر پر ایک اتھارٹی سمجھا جاتا تھا لیکن عجیب اتفاق ہے کہ جنرل باجوہ ہی کے دور میں کشمیر ہمیشہ کے لیے پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا۔

جنرل ایوب سے لے کر جنرل باجوہ تک تمام آرمی چیفس کا امریکا بہادر سے بڑا قریبی تعلق رہا ہے۔ اور شاید باجوہ عمران بریک اپ کی بڑی وجہ بھی عمران کی امریکا کے خلاف مسلسل بیان بازی تھی۔ اور پھر روس یوکرین جنگ میں نیوٹرل مؤقف نے تو امریکا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہی کر دیا۔

باجوہ کی جگہ کوئی بھی آرمی چیف ہوتا تو وہ بھی وہی کرتا جو باجوہ نے کیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ باجوہ کے مڈل ایسٹرن لیڈرز کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور ان تعلقات کی وجہ سے ہی یو اے ای اور سعودیہ کے لیڈران نہ صرف پاکستان آئے بھی بلکہ انتہائی مشکل وقت میں فنانشل ایڈ پیکج دے کر پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بھی بچایا۔ اس قریبی تعلق کا اعتراف ایم بی ایس اور شیخ نہیان نے دو ہزار بائیس میں جنرل باجوہ کو اپنے ممالک کے سب سے بڑے میڈلز دے کر بھی کیا۔

لوگ سوچ رہے تھے کہ چھ لاکھ فوج کی چھ سال تک کمان کرنے کے بعد جنرل باجوہ شاید تھک چکے ہوں گے لیکن نہیں۔ انہوں نے تو جاتے جاتے ایک اور محاذ کھول دیا۔

اب اسے باجوہ کی سادگی کہیے یا نیک نیتی، انہوں نے جی ایچ کیو میں سب کے سامنے کھڑے ہو کر اختیارات سے تجاوز اور سیاست میں مداخلت کا اعتراف کر لیا۔ اور شاید سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے کہ ہر آرمی چیف یہی سوچ کر اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے کہ قومی مفاد کو اس سے بڑھ کر کوئی نہیں سمجھتا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ستتر سالوں میں براہ راست یا انڈائریکٹلی پاکستان کے تمام معاملات میں سب سے بڑا کردار آرمی چیفس کا ہی رہا ہے۔ اور آج ملک کے حالات دیکھ بس میر کا وہی شعر یاد اتا ہے،

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

ہو سکتا ہے جنرل باجوہ کا یہ شکوہ بھی درست ہو کہ پاکستان کے آرمی چیفس تو اچھے تھے، بس انہیں قوم ٹھیک نہیں ملی۔ خیر، فوج کے ہر افسر کی طرح جنرل باجوہ نے بھی ایک حلف اٹھایا تھا۔ وہ حلف جس میں انہوں وعدہ کیا تھا کہ کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے لیکن شاید جنرل کے لیول تک پہنچتے پہنچتے اتنا وقت گزر چکا ہوتا ہے کہ یہ حلف ٹھیک سے یاد نہیں رہتا۔

رخصت ہوتے ہوئے جنرل باجوہ نے گمنامی میں جانے کی خواہش کا اظہار تو کیا، لیکن کاش! انہوں نے اپنا چھ سالہ دور بھی ایسے ہی گزارا ہوتا، کاش! انہیں بھلانا اتنا آسان ہوتا، کاش! انہیں جیب میں قرآن رکھ کر نہ گھومنا پڑتا۔

شیئر

جواب لکھیں