لو، ہو گیا ایک اور ٹرین حادثہ۔ ہزارہ ایکسپریس کراچی سے حویلیاں جا رہی تھی کہ نواب شاہ کے قریب الٹ گئی۔ کم از کم 35 لوگوں جان سے گئے، 100 سے زیادہ زخمی ہیں۔ حادثہ ہو گیا اور اب باتیں وہی پرانی : مذمت، تشویش، الزامات، تحقیقات ۔ہو سکتا ہے ہر مرنے والے کے خاندان کو چند لاکھ روپے کا گھسا پٹا اعلان بھی ہو جائے۔

لیکن یہ سب کب تک چلتا رہے گا؟

اور اس سے بھی اہم سوال، آخر ٹرین حادثے زیادہ تر سندھ ہی میں کیوں ہوتے ہیں؟  

آپ پاکستان ریلویز کے حادثات کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو آدھے بلکہ اس سے کہیں زیادہ حادثات سندھ میں ملیں گے۔ ‏1953 میں جھمپیر سے شروع کریں اور آج 70 سال بعد سرہاری تک آئیں، ہر بڑا حادثہ سندھ کے کسی علاقے میں ہی ہوگا۔

‏1953 میں جھمپیر میں بڑا ٹرین حادثہ ہوا تھا، 200 لوگ جاں بحق ہوئے۔

اگلے ہی سال 1954 میں جنگ شاہی میں بھی accident ہوا، 60 لوگ جان سے گئے۔

اس کے بعد تو ٹرین accidents سندھ میں معمول بن گئے۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ بھی یہیں ہوا۔ یہ جنوری 1990 تھا۔ بہا الدین زکریا ایکسپریس ملتان سے کراچی جا رہی تھی، جب ضلع گھوٹکی میں سانگی کے مقام پر ایک بڑا حادثہ پیش آیا۔ پوائنٹ سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ٹرین غلط پٹڑی پر چلی گئی اور کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں تقریباً 350 لوگ اپنی جان سے گئے۔

یہیں، اسی گھوٹکی میں، 1992 میں بھی ایک حادثہ پیش آیا، 54 لوگ جاں بحق ہوئے ۔

جولائی 2005 میں بھی گھوٹکی میں ایک بڑا ٹرین حادثہ ہوا، جب سرحد ریلوے اسٹیشن پر تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں۔  کراچی ایکسپریس نے سگنل مس کیا تھا، اور کھڑی ہوئی کوئٹہ ایکسپریس سے ٹکرا گئی  اور کچھ ہی دیر میں تیز گام بھی آ گئی اور ایک اور ٹکر ہو گئی۔  ‏130 لوگ لمحہ بھر میں چلے گئے۔

پھر 2007 کا محراب پور حادثہ ہو یا 2009 اور 2016 میں کراچی میں پیش آنے والے حادثے۔  پاکستان ریلوے کے سندھ میں موجود عملے کی اہلیت پر سوالیہ نشان اٹھتا رہا، لیکن نتیجہ وہ۔

گھوٹکی میں تو ابھی 2021 میں بھی ایک بڑا حادثہ ہوا ہے۔ ملت ایکسپریس اور سر سید ایکسپریس کی ٹکر میں 62 لوگوں کی جان چلی گئی۔

اور ہاں! ان میں وہ واقعات شامل نہیں جن میں ٹرین کسی پھاٹک پر بس، ویگن یا ٹریکٹر سے ٹکرائی۔ ہم تو خالص ٹرین حادثات کی بات کر رہے ہیں، وہ بھی مسافر ٹرینوں کے۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیادہ تر ٹرین حادثات سندھ میں ہی کیوں پیش آتے ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کرپٹ اور نا اہل عملہ، جو اپنا کام نہیں کرتا اور کرتا ہے تو غلط کرتا ہے ۔ انھی کی غفلت کی وجہ سے کبھی سگنل ڈاؤن ہو جاتا ہے، تو کبھی ٹرین غلط پٹڑی پر چلی جاتی ہے۔ انھی کی غفلت کی وجہ سے پٹڑیوں کی دیکھ بھال بھی نہیں ہوتی ، تبھی زیادہ تر واقعات گاڑیوں کے پٹڑی سے اترنے کے ہیں۔

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ ہمارے پڑوس میں، تقریباً ہر ملک میں ہائی اسپیڈ ٹرینیں چل رہی ہیں۔ چین لے لیں، انڈیا، ایران، وہاں کی ریلوے کی شان ہی کچھ اور ہے اور ہم سے آج، 2023 میں بھی، 60-65 کلومیٹرز والی ریل گاڑیاں نہیں چلائی جا رہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات اور خراب ہوتے جا رہے ہیں۔

پچھلے 20 سالوں میں تو ریل گاڑیوں کے حادثات میں بہت تیزی آ گئی ہے  پاکستان ریلوے کی تاریخ کے تمام بڑے حادثات دیکھیں تو زیادہ تر پچھلے 20 سالوں میں ہوئے ہیں۔ ماڈرن دور میں تو ریلوے میں جدت آنی چاہیے تھی، لیکن ہمارا سفر الٹی طرف چل رہا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں