1990 کی ایک صبح کور ہیڈ کوارٹر کے سامنے درجنوں والدین جمع ہیں۔ کیا یہاں آئی ایس ایس بی کا ٹیسٹ ہو رہا ہے؟ نہیں۔ یہاں تو امتحان ہو رہا ہے والدین کے صبر کا۔ مائیں بری طرح رو رہی ہیں، ان کی دہائیوں نے کلیجا چیر کے رکھ دیا ہے۔ بات ہی کچھ ایسی ہے!

کراچی میں کالجز اور یونیورسٹی کے ایک، دو نہیں پورے پانچ سو اسٹوڈنٹس لا پتہ ہیں۔ جی ہاں، پانچ سو اسٹوڈنٹس۔

اتنی بڑی تعداد میں یہ لڑکے کون تھے، کہاں غائب ہوگئے؟

شور کور کمانڈر تک پہنچتا ہے۔ لیفٹینٹ جنرل آصف نواز کے پاس اب ہنگامی اجلاس بلانے کے سوا کوئی چارا نہیں۔ دو جماعتوں کے نمائندوں کو آمنے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے۔ پوری رات مذاکرات ہوتے ہیں اور پھر معاملات طے کرا دیے جاتے ہیں۔

صبح ہوتے ہی ہاکی اسٹیڈیم میں ایمبولینس کی قطاریں لگنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کئی راتوں سے جاگے ہوئے ماں باپ بھی وہیں موجود ہیں۔ ان کی بے قرار آنکھیں دور سے آتی ایمبولینس دیکھ کر حیران ہیں۔ ایمبولینس نزدیک آتے ہی ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ ان کے لخت جگر انتہائی زخمی حالت میں یہاں لائے گئے ہیں۔

ایک لڑکے کی پیٹھ پر ڈرل مشین سے پی ایس ایف لکھا گیا ہے تو دوسری ایمبولینس میں لڑکے کی کمر استریوں سے داغی ہوئی ہے، جیسے اس پر اے پی ایم ایس او لکھنے کی کوشش کی گئی ہو۔

یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ لیکن پہلے میں آپ کو کچھ یاد دلانا چاہتا ہوں ’’ایک تھی کےیو‘‘ یاد ہے نا؟؟؟ آخر میں، مَیں نے ایک بات کا ذکر کیا تھا۔

جی ہاں، کراچی کی درس گاہوں سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک خوف اور دہشت کی علامت کوئی اور نہیں، نجیب تھا۔ ایمبولینس والا واقعہ بھی اسی کے دور سے جڑا ہے جس کا آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا۔

نجیب کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور عجیب بھی۔ وہ کراچی کا ایک خوبرو نوجوان تھا۔ اس کا مزاج عاشقانہ تھا، وہ جگجیت کا دیوانہ تھا۔ وہ جو بھٹو کا جیالا تھا۔ پی ایس ایف چلانے والا تھا۔ آمریت کے خلاف تنہا ڈٹ جانے والا تھا۔ وہ کیوں اپنی پارٹی سے باغی ہوا، اور پھر جواں عمری میں ہی مارا گیا۔

میری اس کہانی پر تفصیلی ریسرچ آپ کو اسٹوری سے جوڑے رکھے گی اور کچھ exclusive sound bites اپ کو حیران اور پریشان کر دیں گے۔

اسٹوری کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات بتانا چاہوں گا کہ آج کی کہانی اپ کو (ایک تھی کے یو) کے کچھ فلیش بیکس دکھائے گی۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے مرتضی بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی تنظیم الذوالفقار اور (پی ایس ایف) کے عسکری ونگ کے رکن سلام اللہ ٹیپو کا ذکر کیا تھا۔ وہ کراچی سے پشاور جانے والی پی آئی اے کی پرواز PK326 کو ہائی جیک کر کے افغانستان کے شہر کابل لے گیا تھا۔ خیر یہ جنگ تو آمریت اور بھٹو کی پھانسی کے خلاف تھی مگر اس جنگ نے سیاسی عمل کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ جنرل ضیا نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پیپلز پارٹی پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔

بہادر آباد میں ایک اوپن ایف آئی آر کٹ گی جس میں الذوالفقار کا ٹیگ پیپلز پارٹی پر لگا دیا گیا۔ کراچی حیدر آباد سمیت سندھ کے کئی شہروں سے ڈکٹیٹر شپ کے مخالفین چن چن کر جیل میں بند کیے جا رہے تھے۔ کچھ ایسے ہی حالات تھے جن کا آج پی ٹی آئی کو سامنا ہے۔

یہاں انٹری ہوتی نجیب کی، نارتھ ناظم آباد کا ایک مہاجر لڑکا۔ وہ کیسے پی ایس ایف کا صدر بنا؟؟ وہ کیوں آمریت کے اتنا خلاف تھا؟ نجیب ہیرو تھا یا ولن؟ یہ فیصلہ آپ کو اسٹوری دیکھنے کے بعد کرنا ہے۔

نجیب کے بڑے بھائی نجمی عالم ہائی جیکر سلام اللہ ٹیپو کے دوست تھے اور پی ایس ایف کے رکن بھی۔ نجمی کہتے ہیں کہ اُس دور میں ان کا خاندان اجڑ کر رہ گیا۔ انہوں نے مزید بتایا:

ٹیپو اور میں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ میں آج بھی تسلیم کرتا ہوں کے ٹیپو میرا دوست تھا۔ لوگ چھپاتے ہیں مگر میں کہتا ہوں وہ میرا بہت اچھا دوست تھا۔ آج بھی میں اس کو یاد کرتا ہوں۔ ایک بہادر آباد تھانے میں ایف آئی آر کٹی ہوئی تھی اس میں پورے سندھ سے جس کو پکڑتے تھے اس کو الذوالفقار کیس میں ڈالا جاتا۔ خیرپور سے پرویز علی شاہ مرحوم کو اس ایف آئی آر میں ڈالا ہوا تھا۔ سکھر کراچی اور سندھ کے لوگوں کو اس ایف آئی آر میں ڈالا ہوا تھا۔ ہائی جیکنگ کی ایف آئی آر تو الگ تھی لیکن ایک ایف آئی آر اوپن رکھی گی تھی۔ جو پیپلز پارٹی والا پکڑا جاتا وہ اس پر الذوالفقار کا الزام لگا کر اندر کر دیا جاتا۔

نجیب بڑے بھائی کا کھانا لے کر جب بھی جیل جاتا تو اس کی ملاقات پی ایس ایف کے کارکنوں سے ہوتی۔ وہ آمریت کا جبر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ جیل میں پی ایس ایف کے رکن شاہ نواز عرف شانی سے ملا۔ شاہ نواز کالج کا اسٹوڈنٹ تھا۔ ایک بار اس نے اسلامی جمعیت طلبہ کو اسٹال لگانے سے روک دیا۔ بات بڑھ گئی اور اسے جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ لیکن شاہ نواز نے ایسا کیوں کیا؟

دراصل اس دور میں بائیں بازو کی جماعتوں کو دائیں بازو کی جمیعت ایک آنکھ نہ بھاتی۔ وہ تو آمر سے جڑی ہر چیز سے نفرت کرنے لگے تھے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے نجیب اور شاہ نواز کی دوستی کا آغاز ہوا۔ شاہ نواز عرف شانی بتاتے ہیں:

جب میں جیل پہنچا تو مارشل لا دور تھا تو وہاں میری ملاقات نجمی سے بھی ہوئی اور خالد شہنشاہ سے بھی وہیں جیل میں ملاقات ہوئی اور یہاں ہائی جیکنگ کیس کے لوگ بھی تھے جیسے ناصر بلوچ۔ ملک ایوب۔ سیف اللہ خالد تھے اور بس کیس کے لوگ تھے بھی تھے راشد ربانی وغیرہ۔ تو وہاں میری نجمی سے دوستی ہو گئی پھر وہاں کمیونسٹ لابی کے ڈاکٹر عبدالجبار تھے۔ اب تو وہ بڑے صحافی ہیں اور اخبار چلا رہے ہیں۔ کمیونسٹ ہونے کی وجہ سے ان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ وہاں طالب علموں کو کتابیں دیتے تھے پڑھنے کے لیے کہ ٹائم پاس ہو۔ تو اس طرح جب ہم ملاقات روم میں جاتے تھے تو میری وہاں نجیب سے ملاقات ہوئی۔ نجیب سے ملاقات بھی ہوئی اور دوستی بھی ہوئی۔

1981 میں اے پی ایم ایس او کو جمیعت سے بڑی شکایتیں رہیں۔ یونیورسٹی اور کالجز میں ایڈمیشنز کا معاملہ ہو یا اے پی ایم ایس او کے لڑکوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا، مہاجر لڑکے مسلسل ٹف ٹائم ملنے کا شکوہ کرتے رہے۔ خود الطاف حسین کئی بار جمعیت کے لڑکوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے۔

پی ایس ایف کے لڑکوں کو بھی اس دور میں جمیعت سے کچھ ایسی ہی شکایتیں رہیں۔ تو کیا یہ محض الزام تراشی اور خیالی باتیں تھیں؟ اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم سیف الدین ایڈوکیٹ نے اس کا تفصیلی جواب دیا جو آپ ویڈیو میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اب تک پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کے درمیان سب ٹھیک چل رہا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ پی ایس ایف نے اے پی ایم ایس او کو کھلے دل سے کبھی قبول نہیں کیا۔ شاید یہی ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں ’’لو ہیٹ ریلیشن شپ‘‘ کی ابتدا تھی جو آج بھی دکھائی دیتی ہے۔ تو ان دنوں جیالوں کے دلوں میں مہاجر کا نعرہ کانٹے کی طرح چبھنے لگا تھا۔

معروف صحافی مظہر عباس بتاتے ہیں:

APMSO تو ظاہر ہے مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائیزیشن تھی لیکن اس کا initial out look جو تھا وہ liberal out look تھا جس طرح لڑکے اور لڑکیاں گاڑیوں میں گھومتے تھے۔ تو لوگوں کو کراچی یونیورسٹی کی حد تک تو APMSO۔ میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب APMSO کی شروعات تھیں اس وقت تو ایسی کوئی ٹینشن بیلڈ نہیں ہوئی تھی کیونکہ نہ تو APMSOاتنی مضبوط نہیں تھی۔ کراچی یونیورسٹی میں اور نہ ہی PSF اتنی مضبوط تھی PSF حصہ تھی پروگریسو فرنٹ کا جس میں اور بھی بہت سی آرگنائیزیشن تھیں اور APMSOکو وہ آرگنائیزیشن اپنا حصہ نہیں بنانا چاہتی تھیں کیونکہ اس میں ظاہر ہے نیشنلسٹ بھی تھے سندھی نیشنلسٹ بھی تھے بلوچ نیشنلسٹ بھی تھے پروگریسیو فرنٹ میں۔ تو اس وقت ایک نظریاتی بحث چھڑ گی تھی کہ APMSO کو ہم اپنا حصہ نہیں بنا سکتے انہیں لفظ مہاجر پر اعتراض تھا مگر اس وقت پروگریسو فرنٹ کا APMSO کے ساتھ کوئی کلیش نہیں بنا تھا۔

لیکن پھر حالات کچھ ایسے بنے کہ الطاف حسین کو مایوسی نے آ گھیرا۔ ایک روز فیڈرل بی ایریا میں مہاجر لیڈر کارکنوں کے سامنے وہ پھٹ پڑے۔ کہا کہ ہمارے مخالفین ہم سے زیادہ طاقت ور ہیں، ان کے سر پر جنرل ضیا کا ہاتھ ہے، ہم تشدد کی سیاست نہیں کر سکتے، ایسا ہوا تو سارے کارکن اور رہنما مارے جائیں گے۔ ماحول اتنا جذباتی ہوا کہ الطاف حسین اور ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ان دنوں اے پی ایم ایس او کی یونیورسٹی میں داخلے پر بھی پابندی تھی۔ مگر اس دن ایک اور اہم فیصلہ بھی ہوا۔

اے پی ایم ایس او کو تعلیمی اداروں سے نکال کر گلی محلوں میں لے جانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ منصوبہ آگے جا کر نئی شکل اختیار کرنے والا تھا۔ پہلا یونٹ آفاق احمد نے لانڈھی میں بنایا۔ ایک کے بعد ایک۔ اے پی ایم ایس او کے یونٹس بنتے رہے لیکن مایوس الطاف حسین اب بھی امریکہ میں تھے۔ ادھر عظیم طارق تن تنہا سب کو جوڑے ہوئے تھے، وہ الطاف حسین کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔ اور پھر 18 مارچ 1984 کو APMSO نے مہاجر قومی موومنٹ کو جنم دے ڈالا۔ آپ حیران ہوں گے کہ جب ایم کیو ایم بن رہی تھی تب بھی الطاف حسین ملک میں نہیں تھے۔

پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کے درمیان اب تک کوئی کشیدگی نہیں تھی۔ پی ایس ایف کے دو گروہ تھے ایک کو اسحاق تو دوسرے کو جہانگیر لیڈ کر رہے تھے۔ گروپس میں بٹی PSF کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ اب اسے ایک مضبوط اور جرات مند لیڈرشپ کی ضرورت تھی۔ لیکن وہ تو ان دنوں کامرس پڑھ رہا تھا۔ جگجیت اور مہدی حسن کو سن کر رومانوی دنیا میں نام بنانے کا سوچ رہا تھا۔

عظیم پبلک اسکول سے میٹرک کرنے والا نجیب، اُن دنوں پریمیر کالج میں آ چکا تھا۔ وہ نارتھ ناظم آباد کا اردو بولنے والا شارپ اور انٹیلیجنٹ لڑکا تھا۔ کالج میں پی ایس ایف کو لیڈ کرنے کے لیے اس سے بہتر چوائس کوئی اور نہ تھی۔ اس کا یوں پی ایس ایف میں آنا سب کو حیران کرگیا۔

کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ڈی جے کالج میں تنظیم کا اجلاس ہوا۔ پی ایس ایف کے مرکزی صدر کے لیے کئی نام پیش کیے گئے۔ لیکن ایک نام پر آ کر سب رک گئے۔ یوں بہت کم وقت میں نجیب پی ایس ایف کا کرتا دھرتا بن گیا۔

نجیب کے دوست عمران کیفی بتاتے ہیں:

بہت ایکٹیو لڑکا ہم نے دیکھا۔ انرجیٹک، وائبرینٹ اور وائیبز اس کے آنکھیں بڑی انرجیٹیک تھیں۔ چمکتی اور مسکراتی آنکھیں تھیں۔ وہ مزاق کرتا ہوا مسکراتا ہوا لڑکا تھا۔ اردو سپیکنگ تھا، کراچی کے اندر اردو سپیکنگ کا پیپلز پارٹی کے کسی اسٹوڈنٹ وینگ میں ہونا اس وقت بہت بڑی بات تھی۔ یہ ہی چیز آگے جا کر بہت سے لوگوں کے لیے تھریٹ بن گی کیونکہ ایک پیرارل قیادت کا ایشو ا رہا تھا کراچی کے اندر۔ اس چیز کو دیکھ کر ڈسٹرکٹ سینٹرل جو کہ اردو سپینگ کا گڑھ تھا، وہاں کے لڑکے نجیب سے متاثر ہوئے اور انہوں نے پی ایس ایف کو جوائن کیا۔ صدر بننے کے بعد بھی اس کا یہ حال تھا کہ بعض اوقات وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ پریذیڈنٹ ہے، مطلب اس کا حال یہ تھا کہ وہ ورکرز کے ساتھ مل کر بینرز خود باندھنا چاہتا تھا۔ ہم اس کو کہتے تھے کہ بھائی اب نہیں اب تو آپ خود پریذیڈنٹ ہیں یہ آپ کا کام نہیں کہ آپ خود کھنبے پر چڑھ کر جھنڈا لگائیں۔ اس کا چھوٹوں کے ساتھ بہت دوستانہ رویہ تھا۔

نجیب کے دوست بتاتے ہیں کہ وہ درویش طبعیت کا مالک تھا۔ یار بادشاہ تھا جسے ہر وقت اپنے ساتھیوں کی فکر لگی رہتی۔ کبھی کبھی تو اس کو چھوٹی موٹی شراتیں بھی سوجتیں۔ راحیلہ ٹوانہ بتاتی ہیں:

اس دن نجیب نے مجھے بہت تنگ کیا اور مجھے اس پر بے انتہا غصہ آیا۔ اس نے ایک خاتون کے بارے میں کہا وہ بہت بڑی سیٹ پر تھیں۔ اس نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ خاتون آپ کو اتنا پیار سے کیوں دیکھ رہیں ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ دراصل ان کی ایک بیٹی تھیں وہ فوت ہوگی ہے تو ان کا ذہنی توازن کھو گیا ہے تو اس لیے یہ اپ کو دیکھے جا رہی ہیں تو ساتھی زیادہ ان کی طرف مت دیکھنا وگرنہ یہ اپ کو گلے سے بھی پکڑ سکتی ہیں کہ کہاں گی تھیں تم۔ میں سچ مچ ڈر گی اور اب وہ کہہ رہی ہیں کہ آ جاؤ میرے ساتھ تصویر بنوا لو۔ میں تو بھاگ گئی۔

عمران کیفی بھی اس کی شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں:

بہت بار ایسا ہوا کہ میں نے یہ چیز دیکھی کہ لڑکے کسی میٹنگ کے لیے کسی دور والے علاقے سے آئے ہیں تو اس نے واپسی کا کرایہ بھی خاموشی سے جیب میں رکھ دیا کہ پتہ نہیں کس طرح سے آئے ہوئے ہیں۔ ہماری تو اسٹوڈنٹ لائف تھی اور ہماری سیاسی وابستگیاں تھیں تو اس میں ہر قسم کا ادمی تھا اس میں بعض اوقات ایسے بھی لڑکے ہوتے تھے جو ناشتا کیے بغیر گھر سے نکلتے تھے۔ تو وہ اپنے ساتھیوں کی ضروریات کی بہت فکر کرتا تھا۔

اب اسے مہاجر خون کا جوش کہیے یا کچھ اور، شروع شروع میں نجیب نے اے پی ایم ایس او کا خوب ساتھ دیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ نجیب جانتا تھا کہ الطاف حسین کی جماعت بھی آمریت کی ڈسی ہوئی ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما امین الحق نے اس بارے میں بتایا:

اس زمانے میں غالباً نجیب کراچی کا جنرل سیکریٹری ہوا کرتا تھا، بعد میں وہ صدر بھی بنا۔ اکثر اس کے ساتھ جامعہ کراچی میں ملاقات رہتی تھی کیونکہ جمعیت کا کراچی یونیورسٹی میں مکمل کنڑول ہوتا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن، جب جمعیت کی مرضی ہوا کرتی تھی، کبھی وہ اے پی ایم ایس او کو جامع سے نکال دیتی تھی اور کبھی پی ایس ایف کو باہر نکال دیتی تھی اور کبھی پروگریسیو فرنٹ کو باہر نکال دیا کرتی تھی۔ تب چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری آپس میں بیٹھک ہوا کرتی تھی کیونکہ ایک بڑی دہشت ناک تنظیم تھی اسلامی جمعیت طلبا اس کی روک تھام کے لیے ہم اپس میں بیٹھا کرتے تھے کہ ہمیں کیسے آگے بڑھنا ہے جمہوری کلچر کو کیسے پروان چڑھانا ہے جامعہ کراچی میں تاکہ تمام طلبا تنظیمیں جامع کراچی میں کام کر سکیں۔

نجیب کے بھائی نجمی عالم بتاتے ہیں:

شروع میں جب اے پی ایم ایس او بنی تو جمعیت سے ان کی بہت لڑائیاں رہتی تھیں۔ جمعیت نے یہ پابندی لگا دی تھی کے چار سے زیادہ اے پی ایم ایس او والے کھڑے نہیں ہوں گے۔ نجیب نے اس بات پر اعتراض کیا اور کہا کے ہر پارٹی کو حق ہے بلکہ نجیب نے اے پی ایم ایس او کے لیے جمعیت سے مذاکرات کئے۔ اس وقت تک پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کے درمیان کشیدگی نہیں تھی نجیب نے جمعیت کو بلایا اور لڑائی جھگڑے ختم کرنے کے لیے کہا۔

نجیب دیکھنے میں دبلا پتلا سا تھا مگر اس کو خود پر بلا کا اعتماد تھا۔ ایک بار پی ایس ایف اور جمعیت کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی۔ دونوں طرف لڑکے بری طرح زخمی ہوئے۔ ان دنوں کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کا راج تھا جبکہ این ای ڈی میں پی ایس ایف کا ہولڈ تھا۔ معاملہ گرم تھا مگر نجیب نے اپنی حکمت عملی اور سمجھداری سے اسے ٹھنڈا کر دیا۔ نجمی عالم بتاتے ہیں:

ایک بار جمعیت کے ساتھ ان کی کافی لڑائی چل رہی تھی۔ نجیب نے اپنے ساتھیوں کو کہا کے سب ہٹ جاؤ۔ نجیب نے گاڑی اسٹارٹ کی اور جمعیت کے لڑکوں کے پاس خود پہنچ گیا بالکل اکیلا۔ کیا چاہتے ہو؟ پوری جنگ لڑنی ہے یا ختم کرو یہ لڑائی سب نے کہا کے اکیلے مت جاؤ نجیب نے کہا کہ جاؤں گا تو میں اکیلا۔ اس نے کہا کے اگر میں بیس لوگ لے کر جاؤں گا تو لگے گا کہ میں ڈرانے کے لیے آیا ہوں میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ کچھ نہیں کہیں گے وہ لوگ مجھے اس کو اپنی ذات پر بہت اعتماد تھا وہ اکیلا وہاں پہنچ گیا اس نے کہا کے لڑکے آپ کے بھی زخمی ہوئے ہیں اور ہمارے بھی اپ نے معاملہ ختم کرو اس طرح لڑائی ختم ہوگی۔

اب اسے نجیب کی شخصیت کا اثر کہیں یا کچھ اور مگر دشمن بھی پہلی ملاقات میں نجیب کا گرویدہ ہو جاتا۔ ساٹ رفعت سعید بتاتی ہیں:

نجیب کا ایک واقعہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ جمعیت کے ساتھ ایک جھگڑا اور کلیش تو تھا ہی۔ میری وابستگی اسلامی جمعیت طلبہ سے تھی۔ اس وقت کوئی جھگڑا ہوا تھا اس تو نجیب کو بلایا گیا تھا، پی ایس ایف کے خاصے لوگ یونیورسٹی میں آئے پھر انہوں نے کہا کے کہاں ہیں جمعیت والے اس طرح وہ تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ اس دن جمعیت کے لوگ سندھ میڈیکل کالج میں کسی پروگرام میں گئے ہوئے تھے۔ مَیں یونیورسٹی میں موجود تھا اور میں آرٹس لابی میں چلتا ہوا آیا۔ میری وہاں موٹر سائیکل کھڑی ہوئی تھی تو پی ایس ایف کے لڑکوں کا ایک گروپ آ رہا تھا۔ پولیٹیکل سائینس کی طرف سے اس میں شہلا رضا بھی تھیں جو کہ اب سیاست دان بھی ہیں اور کئی لوگ تھے۔ ایک لڑکا ہوتا تھا سہیل مجھے آج بھی اس کا نام یاد ہے، وہ ذرا جذباتی قسم کا کارکن تھا پی ایس ایف کا۔ اس نے کہا کہ یہ آ رہا ہے اس کو پکڑ لو تو وہ جب سب میری طرف بڑھنے لگے نا تو نجیب نے ایک ہاتھ آگے کر کے سب کو روک دیا۔ رک گئے سب میں نے موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور چلا گیا اچھا اس وقت میری پی ایس ایف کے لوگوں سے دوستی بھی تھی میں ملا کرتا تھا۔ نارتھ ناظم آباد میں restaurant ہوتا تھا وہاں یہ سب شام کو اکٹھے بیٹھا کرتے تھے۔ میں بھی نکلتا تھا شام کو میں اس طرف گیا اور وہاں مجھے نجیب ملا۔ میں نے نجیب سے کہا مجھے چھوڑ کیوں دیا تھا؟ اتنے سارے لوگ تھے اپ تو اس نے کہا کہ ہماری آنکھ میں دید مروت بھی ہے تم ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو یہ ہم نہیں کر سکتے۔

سیاسی کارکنوں کی پٹ پٹ کر بس ہو چکی تھی۔ اب ہوتا کچھ ہوں ہے کہ جمہوریت کو بحال کرنے کے لیے ایک موومنٹ شروع کی جاتی ہے، جس کا نام رکھا جاتا ہے ’’ایم آر ڈی‘‘۔ ویسے تو اس تحریک میں کئی سیاسی جماعتیں تھیں لیکن پیپلز پارٹی سب سے آگے تھی۔ اسی وجہ سے یہ جماعت فوجی حکمرانوں کے عتاب کا شکار رہی۔

1984 میں طلبا یونینز کے درمیان کئی خونی واقعات پیش آئے۔ ان واقعات کا ذکر میں اپنی ڈوکومنٹری ’’ایک تھی کے یو‘‘ میں کر چکا ہوں۔ تشدد کنٹرول کرنے کے لیے طلبا سیاست اور یونینز پر پابندی لگا دی گئی۔ مگر قتل و غارت تو الٹا بڑھ رہی تھی۔

1985 میں جماعت اسلامی جنرل ضیا کے ریفرنڈم میں پیش پیش رہی۔ کئی پولنگ اسٹیشنز پر جماعت اسلامی کے کارکن دکھائی دیے۔ وہ جنرل ضیا کے اقتدار کو طول دینے کی ترغیب دے رہے تھے۔

نجیب اور اس کے ساتھیوں نے جنرل ضیا کے خلاف خوب احتجاج کیا۔ شہر بھر میں پی ایس ایف کے جھنڈے لگائے گئے۔ اس دوران نجیب کئی بار گرفتار ہوا۔ دوسری جانب ڈکٹیٹر مہاجر نعرے کو سیاسی مقبولیت دینے کی چال چل رہا تھا۔ یہ کون سی چال تھی؟؟ اس کے لیے آپ کو ’’سانحہ علی گڑھ کی ان کہی تاریخ‘‘ پڑھنا ہوگی۔

مختصر یہ کہ پیپلز پارٹی کو کاونٹر کرنے کے لیے اب ایم کیو ایم کو مضبوط کیا جارہا تھا۔ الطاف حسین کی امریکا سے واپسی ہو چکی تھی۔ اردو بولنے والوں کو رہنما کی شکل میں منزل دکھائی دے رہی تھی۔

8 اگست 1986 کو کراچی کے نشتر پارک میں الطاف حسین نے پنجابی، پختون برادری کے خلاف زہر بھرا خطاب کیا۔ اس خطاب نے مہاجروں کو پوری طرح چارج کر دیا۔ جلسے میں اسلحہ کی بھی خوب نمائش ہوئی۔

دوسری طرف ایم آر ڈی آمر کے خلاف ڈٹی ہوئی تھی۔ 1986 میں MRD نے 14 اگست کو لاہور میں جلسہ کرنا تھا۔ اس وقت میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلی تھے۔ پنجاب حکومت نے جلسے کی اجازت نہ دی تو MRD کے مرکزی لیڈر نواب زادہ نصر اللہ خان نے کراچی میں جلسے کا اعلان کر دیا۔ پھر کیا تھا، کراچی بھر سے پی پی رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ یوں سمجھیں کچھ بارہ مئی جیسی صورتحال کری ایٹ ہو گئی۔ جلسہ اب ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے لیے یہ رات بہت بھاری تھی۔ وہ گرفتاری سے تو بچ گئیں لیکن یہ جلسہ انہیں ہر صورت کرنا تھا۔ مگر سوال تھا کیسے؟ ایسے حالات میں جب پوری سرکاری مشینی پیپلز پارٹی کے خلاف تھی۔ جلسہ گاہ تک کیسے پہنچا جائے گا؟ اس کام کے لیے ایک ہی نام موزوں تھا اور نجیب نے اس کا بیڑا اٹھا لیا۔

بے نظیر نے 70 کلفٹن سے جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ 14 اگست کی دوپہر تین بجے بے نظیر کی قیادت میں جلوس ککری گراؤنڈ روانہ ہوا۔ یہ وہی ککری گراؤنڈ ہے جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 میں تاریخی جلسہ کیا اور پھر کراچی میں پارٹی کے پہلے دفتر کی بنیاد رکھی۔

بے نظیر بھٹو صرف سیاست ہی نہیں، اپنی نئی زندگی کے سفر پر بھی اسی گراؤنڈ سے روانہ ہوئیں۔ ابھی تھوڑا آگے چل کر اس کا ذکر کرتے ہیں لیکن پہلے ہم اس جلوس کی بات کر رہے تھے جسے پولیس نے تین تلوار پر روک رکھا ہے۔ زبردست لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ ہو رہی ہے۔

نجمی عالم ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

پولیس نے کہا کہ نہیں جانیں دیں گے۔ نجیب نے کہا کے بی بی تو جائیں گی، اگر انہوں نے طے کیا ہے تو میں ان کو لیاری لے کر جاؤں گا۔ میرے خیال سے کوئی سو ڈیڑھ سو سے زیادہ ورکر تو ہمارا شیلنگ سے کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا تھا لیکن پی ایس ایف والے پولیس والوں سے لڑتے رہے لڑتے رہے۔ فیزیکل لڑے بی بی بھی گاڑی سے بار بار باہر آرہیں تھیں اور لوگ ان کو اندر کررہے تھے۔ چار ساڑھے چار گھنٹے ان کا پولیس سے مقابلہ ہوا فیزیکل وہ ٹئیر گیس چھوڑ رہے تھے، لاٹھی چارج کر رہے تھے۔ لڑکے بھی ہیلمنٹ اور ڈنڈوں کے ساتھ تھے اور یہ سب لڑئے اور انہوں نے بی بی کو لیاری پہنچایا۔ آج بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ پی ایس ایف کے لڑکے بی بی کو لیاری میں لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور نجیب نے کہ دیا تھا کہ مر جاؤ زندہ رہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن بی بی لیاری جائے گی تو جانا ہی ہوگا۔ بی بی کو وہ اس معاملے میں بڑا دلیر تھا کہ جب اس نے کوئی چیز طے کرلی تو اس نے کرنا ہے۔

نجیب نے جو کہا کر دکھایا۔ وہ آئرن مین بن کر پولیس کی تمام رکاوٹیں توڑتا ہوا بے نظیر کو جلسہ گاہ لے ہی آیا۔ بے نظیر کا جوش بھی عروج پر تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اسپیکر سے بے نظیر نہیں، بھٹو کی آواز گونج رہی ہے۔

قائد کو منزل تک پہنچانے پر نجیب بہت خوش تھا۔ جیسے ہی مائیک کا سوئچ آف ہوا، بے نظیر کو گرفتار کر کے لانڈھی جیل میں نظر بند کر دیا گیا۔ اگلے ہی روز احتجاج اور ہنگامے شروع ہو گئے لیکن یہ سب لیاری، ملیر اور ابراہیم حیدری کے علاقوں تک ہی محدود تھے۔ جن علاقوں میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی وہاں سکون تھا، خاموشی تھی۔

ایم کیو ایم کے جلسے کے بعد شہر میں ایک بڑی تبدیلی آ چکی تھی۔ اُدھر نجیب اپنی جماعت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا تھا۔ پیپلز پارٹی میں اس کا قد دن بدن بڑھ رہا تھا۔ بے نظیر رہا ہوئیں تو انہوں نے سیاسی سرگرمیاں پھر سے شروع کر دیں۔ مگر اب ان کی زندگی کا سب سے اہم دن قریب آ رہا تھا۔

18 دسمبر 1987 کو لیاری کے اُسی تاریخی ککری گراؤنڈ میں بے نظیر بھٹو کی اصف علی زرداری سے شادی ہو گئی۔ نجمی عالم بتاتے ہیں:

جب بی بی کی شادی ہوئی تو نجیب نے ساری سیکیورٹی سنبھالی ہوئی تھی اور جب بی بی کراچی میں موو کرتی تھیں تو نجیب اور یہ پی ایس ایف کے لڑکے ساتھ ہوتے تھے۔ سیکیورٹی پرپز کے لیے ہر جگہ بی بی کے ساتھ نجیب ہی ہوتا تھا جب بی بی پرائم منسٹر بنیں تو ظاہری بات ہے تب آفیشل سیکیورٹی آ جاتی ہے تو تب آفر ہوئی کہ نجیب تم بی بی کے ساتھ رہو اسلام آباد میں۔ نجیب نے کہا نہیں میں کراچی میں ہی رہوں گا وگرنہ لوگ تو بھاگتے کہ ہم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہیں گے مگر نجیب نے کہا نہیں میں نہیں رہوں گا۔

23 جنوری 1987، الطاف حسین نے ایک پریس کانفرنس میں 20 مطالبات پیش کیے۔ دوسرے دن کراچی کی گلیوں میں پمفلیٹس تقسیم ہونے لگے۔ ان پر لکھا تھا، مہاجر! وی سی آر، ٹی وی بیچو اور کلاشنکوف خریدو۔ اور پھر جولائی آگیا۔ اب لسانی فسادات کی آگ پور طرح بھڑک اٹھی تھی۔ وہ جماعت جس کی liberal out look تھی اس کے نوجوان اسلحے سے کھیل رہے تھے۔ جرائم بڑھنے لگے بھتا لینا عام ہو گیا۔ جنرل ضیا کی ترجیحات بدل رہی تھیں۔ آمریت کی حامی سمجھی جانے والی جمیعت دل سے اتر چکی تھی اور اب اے پی ایم ایس او کے راج کا وقت آ چکا تھا۔

اسی سال نجیب نے طلبا یونیز بحال کرنے کی ٹھانی۔ سب کو اکٹھا کر کے ایم اے جناح روڈ پر امن مارچ کیا۔ مارچ کامیاب رہا، ایم اے جناح روڈ طلبا تنظیموں کے جھنڈوں سے بھر گیا۔ ساری جماعتیں شریک تھیں، سوائے ایک کے۔ کون سی؟ راحیلہ ٹوانہ نے اس کا جواب یوں دیا:

تمام طلبا تنظیموں نے ہمارے جھنڈے کے نیچے، جماعت اسلامی بھی آئی، سب آئے سوائے اے پی ایم ایس او کے۔ اے پی ایم ایس او نہیں آئی ہمارے ساتھ۔ ابھی مارچ ہمارا بہت اچھا ہوا ہم بہت خوش تھے کہ کوئی حد نہیں رات ہمارے لیے قیامت کی گزری کیونکہ سب ہماری جو کمانڈ تھی وہ گرفتار ہو چکی تھی۔ نجیب بھی گیا ان میں اور پھر جو ٹارچر کیا گیا اس کو نجیب کو اور اس کے لڑکوں کو اتنا کیا گیا کہ یہ کم سے کم ایک ماہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ پاوں کے نیچے سے گوشت پھاڑ دیا گیا تھا۔ لڑکوں کے لنگز پھاڑ دے گے تھے ان کے گردے اور پھپڑے کام ہی نہیں کرتے تھے۔

امن مارچ کے بعد نجیب پھر لائم لائٹ میں آگیا۔ اسے قائد طلبا کے نام سے پکارا جانے لگا۔ مگر اب پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کے درمیان ٹینشن بڑھ رہی تھی۔

نومبر 1987 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ پہلی بار ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد میں میدان مار لیا۔ اب دونوں شہروں کی بلدیاتی حکومتیں ایم کیو ایم کے پاس تھیں۔ مظہر عباس اس مسابقت کو یوں بیان کرتے ہیں:

جب اے پی ایم ایس او مضبوط ہونا شروع ہوئی اور ایم کیو ایم نے لوکل باڈی جبکہ لوکل باڈی الیکشن بھی جب ہو رہے تھے 87 میں اس وقت تک پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کے درمیان باقاعدہ مذاکرات بھی ہوئے تھے۔ ہمارے ہی ایک دوست کے گھر پر کہ باقاعدہ مل کر ہم کریں۔ الطاف حسین 86 میں جیل میں تھے تو مسرور احسن کو بے نظیر نے باقاعدہ پیغام بھجا تھا کہ یہ جو اے پی ایم ایس او کے لڑکے ہیں الطاف حسین کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ پھر الطاف حسین جب باہر آئیں ہیں جیل سے تو انہوں نے باقاعدہ بے نظیر کا شکریہ ادا کیا۔ وہ ملنا بھی چاہتے تھے لیکن اس وقت کراچی کے جو لڑکے تھے یا پیپلز پارٹی کے جو اردو بولنے والے تھے ان کو یہ لگ رہا تھا کہ اگر الطاف حسین اور بے نظیر بھٹو ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو ان کی ویلیو ختم ہو جائے گی، ظاہری بات ہے ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کی جماعت بن کر ابھری تھی۔ تو وہ میٹنگ نہیں ہو پائی تھی۔ اس دوران پھر یہ ٹینشن بننا ہونی شروع ہوگی کہ ایم کیو ایم تقریباً کراچی میں ہولڈ بن گیا تھا 87 کے بعد تو اس دوران پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کے درمیان ٹینشن بڑھ گئی۔ وہ کراچی یونیورسٹی سے نہیں شروع ہوئی تھی وہ ویسے ہی ٹینشن بلڈ آپ ہونا شروع ہوگی پھر یہ ETHNIC VIOLANCE ہوا تو پھر یہ رنگ بھی آ گیا۔ پہلے سندھی مہاجر CONFLICT نہیں تھا۔ پھر بعد میں 86 کے بعد اردو سپیکنگ اور سندھی اسپیکنگ CONFLICT بن گیا۔ اسی دوران پھر ظاہر ہے پی ایس ایف اور ان کے درمیان بھی ایک ٹینشن بن گئی اور وہ ٹینشن بہت زیادہ خراب صورتحال اختیار کر گئی اور جمعیت تو بہت پیچھے چلی گی تھی۔

یعنی اب اےپی ایم ایس او اور پی ایس ایف کھل کر آمنے سامنے تھے۔ ان دنوں پی ایس ایف کو عسکری ونگ بنانے کی سوجھی۔ عسکری ونگ چلانے کے لیے لوگ باہر سے لائے جاتے تھے۔ شاہ نواز جب جیل میں تھا تو ان کی ملاقات بے نظیر بھٹو کے گارڈ خالد شہنشاہ سے ہوئی، جو پارٹی بدل چکا تھا۔ شاہ نواز شانی بتاتے ہیں:

اس زمانے میں نجمی بھی جیل میں تھے اور ہائی جیکنگ کے لوگ بھی جیل میں تھے جامع کلاتھ بس کیس کے لوگ بھی جیل میں تھے۔ بقول خالد وہ اب اس دنیا میں تو نہیں ہے لیکن وہ کہتا تھا کہ میں جمعیت کے لیے کام کرتا ہوں یعنی کہیں جمعیت کو میری جب ضرورت ہوتی تو یعنی علاقائی حوالے سے عزیز آباد کا ایک نام تھا اور وہاں کے بڑے ایکٹیو لوگ تھے۔ تو اس طرح جماعت اس سے کام لیتی جبکہ وہ اسٹوڈنٹ نہیں رہا کبھی بھی۔ اس کے بعد جیل میں آنے کے بعد پھر یہاں اس کے پیپلز پارٹی کے لوگوں سے تعلقات بنے۔ خاص طور پر میں نے اپ کو بتایا میری نجیب سے دوستی ہوئی اور نجمی کی بھی دوستی ہوئی پھر اس طرح اس نے جماعت کے لیے کام کرنا چھوڑ دیا اور پیپلز پارٹی کے لیے کام شروع کر دیا۔

خالد شہنشاہ کے پاس ہر طرح کا اسلحہ ہوتا۔ بسا اوقات وہ اسٹین گن لے کر گھومتا پایا گیا۔ اس کی ایک عادت تھی، وہ کبھی اسلحہ جماعت کو واپس نہیں کرتا تھا۔ جب پی ایس ایف کا عسکری ونگ بننے لگا تو خالد شہنشاہ نجیب کے خاصے قریب ہو گیا۔ اب یہاں ایک اور بڑے کردار کی انڑی ہوتی ہے، اس کردار کا نام ہے ’’ابراہیم بھولو‘‘۔ وہ ابراہیم جو ایک زمانے میں انڈرورلڈ کا بے تاج بادشاہ بنا، اس کا نیٹ ورک افریقہ اور مڈل ایسٹ تک پھیلا ہوا تھا۔ بلدیہ ٹاون کے قصابوں کا یہ لڑکا مار دھاڑ کا چیمپیئن تھا۔ ابراہیم ایم کیو ایم کے خطرناک کارکن فاروق دادا کا کزن بھی تھا مگر ایم کیو ایم کا تو جیسے وہ جانی دشمن تھا۔ شاہ نواز شانی اس کے بارے میں بتاتے ہیں:

اصل میں جب وہ کالج میں آیا پھر جب اس دیکھا تو وہ لڑکوں میں مل جل گیا اور ان کے ساتھ ہی رہا۔ جہاں پروگرام ہوتے جلسہ ہوتا یا مظاہرہ مارشل لا دور تھا مظاہرہ جلسہ جلوس جہاں ہوتا، بھولو بھی ساتھ چلتا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنا مقام بنا لیا اور لڑکوں کے ساتھ اس کی بڑی اچھی دوستی ہوگی ۔ پی ایس ایف کا اپ سمجھیں تو وہ ایک کارکن تھا۔

17 اگست 1988 کو جنرل ضیا سی 130 طیارہ گرنے سے اپنے ساتھوں سمیت ہلاک ہوگئے۔ اسی سال ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے سندھ اور وفاق میں مل کر حکومتیں بنانے کا ارادہ کیا۔ نجیب اس یوٹرن سے بالکل خوش نہیں تھا۔ سیاست ایک بڑا بے رحم کھیل ہے۔ یہاں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بانہوں میں بانہیں ڈالے دکھائی دیتے ہیں۔ نجیب اب تک جس سے لڑتا آیا تھا، اب اسی سے ہاتھ کیسے ملاتا۔ تین تلوار پر تو اس کی بس ہو گئی۔

آپ کبھی کلفٹن گئے ہیں۔ وہاں دو تلوار اور تین تلوار کے راؤنڈ اباؤٹس نے کئی سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھ رکھے ہیں۔

1986 میں جب بے نظیر طویل جلاوطنی کے بعد کراچی آئیں تو انہیں یہیں سے ہو کر گزرنا تھا۔ مئی کا مہینہ تھا۔ پولیس اور پیرا ملٹری فورس نے آنسو گیس سے استقبال کیا اور راستہ بدلنا پڑا۔ ٹھیک ایک ماہ بعد الطاف حسین اسی مقام پر آئے۔ کھلی کار میں مائیک تھامے راک اسٹار کی طرح خطاب کیا۔ آمر کو للکارا اور سلیس اردو میں سیاسی نظریات پیش کر کے چلے گئے۔

دو سال بعد پیپلز پارٹی کو جیت کا جشن منانا تھا۔ پی ایس ایف کی ریلی آئی تو اے پی ایم ایس کی ریلی بھی وہاں پہنچ گئی۔ نجیب تو پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا، اس نے پی پی اور ایم کیو ایم اتحاد نامنظور کے نعرے لگوا دیے۔ پھر کیا تھا، شدید جھڑپ ہوئی لیکن پیپلز پارٹی کو اب مفاہمت زیادہ عزیز تھی۔

اگلے مہینے بے نظیر عزیز آباد پہنچیں۔ الطاف حسین کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور دونوں جماعتوں کے درمیان کراچی معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ ایم کیو ایم کو سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شپ اور تین صوبائی وزارتیں دی گئیں۔ مگر ایم کیو ایم کی نظریں تو مرکز کی تین بڑی وزارتوں پر تھیں: خزانہ، تعلیم اور پیداوار۔ پیپلز پارٹی ٹال مٹول کرنے لگی، کراچی معاہدہ ٹوٹتا دکھائی دینے لگا۔ یوں کراچی پر ایک بار پھر تصادم کے بادل منڈلانے لگے۔ امین الحق بتاتے ہیں:

میرا خیال ہے کہ 88 کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت آتی ہے تب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جو ’’کراچی ڈیکلریشن‘‘ کے نام سے تھا۔ اس میں 51 پوائنٹس تھے بدقسمتی سے جب وہ معاہدہ اپنی تکمیل کی طرف نہیں گیا۔ تب پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان پولیٹیکل ڈیفرینس بڑھ گیا۔ اس کی خلش نیچے کی طرف بھی محسوس ہوئی پھر مختلف جو کالجز تھے انٹر سٹی میں وہاں سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا کہیں ہاتھا پائی ہوئی اور کہیں اس سے بڑھ کر بھی معاملات ہوئے۔

ایک روز عجیب واقعہ ہوا۔ جہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی، نجیب نے وہاں جانے کی ٹھان لی۔ اب اسے شرارت سمجھیں یا دلیری، نجیب نائن زیرو پہنچ گیا۔ شاہ نواز شانی بتاتے ہیں:

نجیب ایک شرارت کرتے تھے۔ شرارت یہ تھا کہ دوست بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ اچانک موڈ میں آجاتے تھے یا دوست کہتے تھے کہ چلو ’’نائن زیرو‘‘ کو سلام کرکے آتے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس زیادہ گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ ایک گاڑی ہوتی تھی۔ تو نجیب اچانک جو بیریر لگے ہوتے تھے نائن زیرو کے پاس تو وہاں آ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس وقت الطاف حسین کے جتنے گارڈ ہوتے تھے، وہ سب بھاگ جاتے تھے اور نجیب یوں سلیوٹ کر کے گھر واپس آ جاتا تھا۔ یہ عمل ایک بار نہیں بار بار کیا گیا۔

اسی سال بےنظیر بھٹو نے طلبا یونینز پر لگی پابندیاں ہٹا دیں۔ پھر کیا تھا، تعصب کے بھینسے سیاسی میدان میں کھلا دوڑنے لگے۔ یہاں پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کے درمیان اسلحے کی سیاست شروع ہوئی۔

یہ یونیورسٹی میں مورچہ بند فائرنگ کا دور تھا۔ دو بڑے کھلاڑی آمنے سامنے تھے۔ ایک طرف پی ایس ایف کا نجیب تھا تو دوسری طرف اے پی ایم ایس او کا خالد بن ولید۔ دونوں طرف لاشوں کے انبار لگنے لگے۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے اپنی اسٹوری ’’ایک تھی کے یو‘‘ میں کراچی یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے ہولناک واقعہ بتایا تھا۔

7 جولائی 1989 کو ہونے والے اس خوفناک واقع سے متعلق میں کچھ اہم معلومات دینا چاہتا ہوں۔ میری تحقیق کے مطابق جس ادمی نے پی ایس ایف کے لڑکوں کو مارا اس کا نام غلام مرتضی درانی تھا اور وہ گلشن اقبال بلاک 3 کا رہائشی تھا۔

سلسلہ یہاں نہیں رکتا اب تو اے پی ایم ایس او اور پی ایس ایف کی جنگ گلی محلوں اور گھر تک پہنچ جاتی ہے۔

اپ کو یاد ہوگا کہ میں نے شروع میں کچھ والدین کا ذکر کیا تھا جو کور ہیڈ کوارٹر کراچی کے سامنے فریاد کر رہے تھے۔ پی ایس ایف کے لڑکے اغوا ہو رہے تھے۔ نجیب نے بھی اے پی ایم ایس او کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ شاہ نواز شانی بتاتے ہیں:

ایک چیز یہ ہے کہ جب ظلم ہو جائے تو ظاہر ہے اگلے کو بھی ظالم بننا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہمیں اطلاعات آ رہے تھے کہ کالجوں میں ہمارے لڑکوں کو مارا جا رہا ہے۔ کسی کو اغوا کیا جا رہا ہے۔ پھر بعد میں بوریوں میں ہمارے کتنے پی ایس ایف کے لڑکوں کی لاشیں یہاں آئیں۔ جن جن علاقوں میں وہ رہتے تھے، وہاں سے ان کے گھر جلا دئے گے بلکہ گھر برباد کر دیے گئے۔ تو یہ جو مظلوم طبقہ ہے یہ سب اس طرف بھاگ رہا تھا کہ ہمیں کون بچائے گا کیونکہ اس وقت کوئی ذمہ داری لے ہی نہیں رہا تھا چاہے پیپلز پارٹی ہو چاہے کوئی اور پارٹی ہو۔ اس طرح اگر کہیں ضرورت ہوتی تو کسی کالج میں جو لڑکوں کو سپورٹ کرنے کے لیے۔ پھر بھولو کو اور لڑکوں کو بھیجا جاتا تھا کہ تو ظاہری بات ہے وہاں جو فائرنگ ہوتی تھی اس میں کوئی بچ جاتا تھا، کوئی مر جاتا تھا۔ ایم کیو ایم کے جو ٹیرر تھے وہ بھولو کے نام سے گھبراتے تھے۔ فاروق دادا کو بھی پتہ چلتا تھا کہ بھولو اس علاقے میں آیا ہے یا آ رہا ہے تو وہ بھی وہاں سے بھاگ جاتا تھا، وہ بھی بھولو کے سامنے رکتا نہیں تھا۔

بے نظیر کا اقتدار لرز رہا تھا۔ وڈیرے اور جاگیردار اسمبلی میں تھے اور جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والے کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ رفتہ رفتہ پارٹی سے نجیب کی راہیں جدا ہونے لگیں۔ نجیب کی بے نظیر سے دوریاں بڑھنے لگیں۔ وہ وزیر اعظم کی اہم میٹنگز میں پروٹوکول کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بے دھڑک چلا جاتا۔ کھل کر اختلاف کرتا۔ اس کا باغیانہ انداز جو کبھی پارٹی میں بہت مقبول تھا، اب تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ ایک بار تو بھری محفل میں نجیب نے وزیر اعلی کو تھپڑ جڑ دیا۔ یہ واقعہ کئی اخباروں نے رپورٹ کیا۔ شاہ نواز شانی اس بارے میں بتاتے ہیں:

قائم علی شاہ صاحب سی ایم تھے۔ سی ایم کے پاس ہمیں بھجا گیا۔ نجیب نے کہا کہ چلو بات کرتے ہیں۔ ہم نے ان کو بتایا کہ ہم یہاں سے وہاں سے بھیک مانگ کر اور لوگوں سے مانگ کر یہ تھوڑا بہت اسلحہ لاتے ہیں، اس کو بھی پولیس والے لے لیتے ہیں اور ہمارے لوگوں کو وہ گرفتار کرتے ہیں، آپ ہمیں ایس طریقہ بتا دیں کہ جیسے ہی ہمارے لوگ گرفتار ہو جائیں ان کو کیسے چھڑوانا ہے یا پھر اسلحہ کیسے واپس لینا ہے۔ تو قائم علی شاہ صاحب نے انکار ہی کر دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے یہ اوپر کی بات ہے میں یہ نہیں کر سکتا۔ سی ایم دیکھ رہا ہے کہ نجیب بیٹھا ہوا ہے میرے سامنے تو نجیب نے کہا کے قائم علی شاہ صاحب اپ کسی کے کام سے کبھی انکار نہیں کرتے، سی ایم اپنی تعریف سن کر چوڑا ہو گیا اور سینا اوپر کر لیا۔ ساتھ ہی نجیب نے کہا کہ سی ایم صاحب اپ کوئی کام کرتے بھی نہیں ہو۔

نجیب کو اسلحے کی ضرورت تھی، مگر پیپلز پارٹی نے تو اسے تنہا چھوڑ چکی تھی۔ اس کے انڈر میں پورا کراچی تھا لیکن اب جیسے وہ ایک بند گلی میں آگیا تھا۔

شاہ نواز شانی بتاتے ہیں:

بدنصیبی یہ تھی کہ پی ایس ایف کو اپنے لیے خود اسلحہ لینا پڑتا تھا۔ مثال کے طور پر ہمارے لیاری میں کوئی بندہ جو روزنامچی ہے ہم اس کے پاس چلے جاتے اس کو ہم نے کہا کہ ہمیں سپورٹ کریں۔ یا کراچی میں کسی اور کے پاس گے یعنی کہ کوئی باقاعدہ انتظام نہیں ہوتا تھا۔ پیپلز پارٹی نے تو ہمیں کبھی بھی اسلحہ نہیں دیا یعنی کے ہم خود اسلحہ حاصل کرتے تھے دوستوں سے یا کوئی جاننے والے سے درخواست کرتے تھے کہ بھائی ہمیں اسلحہ کی ضرورت ہے گولیوں کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے اوپر حملہ ہو رہے ہیں کالجوں میں ہمارے لوگوں کو مارا جارہا ہے۔ یہ بھی میں نجیب کے ساتھ لڑکے ہوتے تھے اسلحہ بھی ہوتا تھا اور لڑکے اس کے ساتھ گھومتے تھے پھر ایک بار نجیب اردو کالج آئے۔ شام کا وقت تھا، وہ میرے پاس آ کر بیٹھے اور مجھے کہا کہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے تو میں نے نجیب سے پوچھا کے کیا بات ہے تو اس نے کہا کہ مجھے اپنے حفاظت کے لیے کچھ لڑکوں کی ضرورت ہے، مجھے ایسے لڑکے دو جو اعتماد کے ہوں پھر میں نے بھولو ایوب عتیق اور رؤف ناگوری اور ایک امین بلوچ ان تینوں کو میں نے بلایا اور کہا کہ نجیب کا ایسے ہی ساتھ دینا ہے جیسے میرا دیتے ہو کیونکہ نجیب کی زندگی کو خطرہ ہے۔

اپنے ساتھیوں کو مرتا دیکھ کر نجیب نے پی ایس ایف ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ بے نظیر نجیب سے تنگ تھیں۔ انہوں نے نجیب کو ملک سے باہر جانے کی پیش کش کی جو اس نے ٹھکرا دی۔ انہی دنوں نجیب نے بے نظیر کے انتہائی قریبی اور رازدار سمجھے جانے والے منور سہروردی کی خوب پٹائی کر دی۔ پھر نجیب کچھ عرصے کے لیے بلوچستان چلا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں اسے مرتضی بھٹو کے عسکری ونگ الذولفقار نے ٹریننگ دی۔

6 اپریل 1990، نجیب بھانجے بھتیجوں کو گاڑی میں بٹھا کر اپنے نارتھ ناظم آباد آئی بلاک والے گھر سے روانہ ہوا۔ ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ کچھ سوچ کر گاڑی ریورس کی۔ بچوں کو اتارا اور چلا گیا۔ نجیب کو گولڈن کلر کی بلٹ پروف گاڑی عربی شہزادوں نے شکار کھلانے پر گفٹ کی تھی۔ نجیب نے تھوڑی دور جا کر پی ایس ایف کے ساتھیوں کو پک کیا۔ وہ خود ڈرائیو کر رہا تھا اور اس کے ساتھ نوید زبیری بیٹھا تھا۔ پچھلی سیٹ پر خالد ڈالمیا اور احمد روفی موجود تھے۔ جیسے ہی نجیب کی گاڑی ایک چوک تک پہنچی تو اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی۔

نجمی عالم اس واقعے کو یاد کر کے بتاتے ہیں:

جیسے ہی نجیب وہاں سے ہو کر آیا ہے، آئی بلاک میں پٹرول پمپ سے شاید اس نے پٹرول ڈلوایا ہے۔ فاروق اعظم مسجد کے ساتھ سے گاڑی میں ڈیزل ڈلوایا اور پھر گھر ہی آ رہا تھا تو بیچ میں ایک چوک اتا ہے بس جیسے ہی وہ چوک تک پہنچا ہے تو ایک دم اچانک لائٹیں بند ہوگی اندھیرا ہو چکا تھا سارے علاقے کی لائٹیں بند تھی، اسی وقت چاروں اطراف سے فائرنگ شروع ہوگی نجیب کو ایک گولی انگلی پر لگی۔ اس کے ساتھ خالد ڈالمیا تھا اس کو گولی لگ گی۔ نوید زبیری کو بھی لگی کسی طرح سے یہ لڑکے وہاں سے نکلے اور ایک موٹر سائیکل انہوں نے کسی طرح سے حاصل کی اور یہ وہاں رے میڈیل اسپتال تھا یہ وہاں پہنچ گے اور ایم کیو ایم کے لڑکے وہاں پیچھے پہنچے مگر وہ اسپتال میں گھس نہیں سکے اور اس طرح پولیس بھی وہاں اگی لڑکے نجیب کو آغا خان اسپتال میں لے گئی۔

اس دور میں یہ افواہ پھیلی کہ نجیب نے نائن زیرو پر فائرنگ کی تھی جس کے بدلے میں ایم کیو ایم نے نجیب پر حملہ کرایا۔ پی ایس ایف کے سابق کارکن اور ایف بی آئی ایجنٹ کامران فریدی بتاتے ہیں:

عجیب عجیب کہانیاں چل رہی ہیں۔ میں نے خود سنا تو حیرت ہو رہی ہے کہ یہ لوگ بغیر تحقیق کیے کہہ رہے ہیں کہ نجیب بھائی نے نائن زیرو پر فائرنگ کر دی۔ ایسا بالکل بھی کوئی واقع نہیں تھا۔ میں ساتھ تھا، نجیب بھائی کے حیدری میں ایک عید بازار لگا ہوا تھا رمضان میں عید بازار لگتے تھے۔ تب ہمارے پی ایس ایف ناظم آباد کے جو لڑکے ہیں وہ وہاں بھتا لینے گے تھے، تو وہاں ایم کیو ایم والوں نے وہاں بھتا نہیں دیا۔ ان کا بھی علاقہ تھا، ان کے بھی وہاں اسٹال لگے ہوئے تھے۔ وہاں توڑ پھوڑ ہوئی تو نجیب بھائی بھی وہاں موجود تھے، ایک روفی تھا اور ایک میں تھا۔ جو خالد بن ولید چشتی تھا اس نے نجیب بھائی پر فائرنگ کی، وہ اس کے لڑکے تھے خالد بن ولید چشتی کے وہ ایک وجہ بنی تھی۔ انٹرنیٹ پر دس ہزار قصے بنے ہوئے ہیں نجیب بھائی کے کہ نجیب بھائی کے نائن زیرو پر فائرنگ کی تھی جبکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔

سوال یہ تھا کہ گاڑی بلٹ پروف تھی تو گولی کیسے لگی۔ یہ گولی نہایت قریب سے چلائی گئی تھی تو ٹریگر دبانے والا کون تھا؟ خالد ڈالمیا اور احمد روفی نے یہ راز اپنے کچھ قریبی دوستوں کو بتایا تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس واقعے کے چند روز بعد یہ دونوں بھی بے دردی سے مارے گئے۔

نجیب آئی سی یو میں دم توڑ گیا۔ پی ایس ایف کے ہزاروں کارکن نجیب کی موت پر اکٹھے ہوئے۔ نجیب کی موت کا الزام فہیم کمانڈو اور خالد بن ولید پر لگا۔ ایم کیو ایم نے اسے جھوٹ قرار دیا۔ قائد طلبا کی موت پر پی ایس ایف کے لڑکے الطاف حسین کو کھا جانے کے لیے تڑپ رہے تھے۔ شدید ری ایکشن کے ڈر سے الطاف حسین نے بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ مگر نجیب کی والدہ نے یہ کہہ کر سب کو خاموش کر دیا کہ کوئی بھی کارکن انتہائی قدم نہیں اٹھائے گا۔

نہ کراچی معاہدہ بچا نہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی مفاہمت۔ نجیب کا رومان جو جگجیت سے شروع ہو کر بندوق تک پہنچا تھا، ایک گولی پر تمام ہوا۔ اس کی کہانی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی قیادت کس طرح مڈل کلاس لڑکوں کو اشتعال دلا کر، انہیں استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا کرتی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں