مارچ 1965، بہار کا موسم شروع ہو چکا ہے لیکن اِس علاقے میں بہار کا کیا کام؟ یہ تو دلّی، بمبئی، کراچی، ڈھاکا۔ ہر شہر سے کہیں دُور پرے کا علاقہ ہے، نام ہے: رن آف کَچھ!

‏23 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ایک بیابان۔ جہاں صحرا بھی ہیں اور دلدلی علاقے بھی۔ یہاں تو بارڈر کا بھی کچھ نہیں پتہ۔ ابھی تک یہاں دونوں ملکوں کے درمیان بارڈر سیٹ ہی نہیں ہوا تھا۔ شاید اسی لیے یہاں کچھ زیادہ ہی ’’رونق‘‘ ہے۔

بارڈر پٹرولنگ بہت بڑھ گئی ہے اور حالات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ اور پھر، جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ پہلے پولیس اور پیرا ملٹری میں اور آخر میں فوج بھی کود پڑی۔ بات بڑھتی چلی گئی اور یہاں تک پہنچ گئی کہ برطانیہ کے وزیر اعظم کو سیز فائر کا مطالبہ کرنا پڑا۔

گورا سرکار کا آرڈر تھا۔ دونوں ملکوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ ایسا لگا جیسے پاکستان نے انڈیا کو ہرا دیا، کیونکہ 800 اسکوائر کلومیٹرز سے زیادہ کا علاقہ پاکستان کو مل گیا۔ ایک پرسیپشن بن گیا۔ ایسا پرسیپشن جو بعد میں پاکستان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوا۔ یہ کہ وہ نہ صرف انڈیا کا مقابلہ کر سکتا ہے، بلکہ جنگ میں اسے ہرا بھی سکتا ہے۔

عوام تو خیر عوام تھے۔ ملک کے کرتا دھرتا بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے۔ وہ رن کچھ کی کامیابی کے بعد کشمیر فتح ہوتا دیکھ رہے تھے۔ اور پھر انہوں نے وہ قدم اٹھا لیا جس سے کشمیر تو فتح نہیں ہوا لیکن پاکستان کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا۔

یہ کہانی ہے بے جا ایڈونچرزم کی، یہ کہانی ہے بلند عزائم لیکن گھٹیا پلانںگ کی، یہ کہانی ہے خود سے کہیں بڑے دشمن سے لڑ جانے کی، یہ کہانی ہے 1965 کی جنگ کی۔

1965 کی جنگ: پس منظر

پاکستان میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی یہ جنگ 6 ستمبر 1965 کو شروع ہوئی لیکن اصل میں اس جنگ کی بنیاد کئی دہائیاں پہلے ہی پڑ چکی تھی۔ کیونکہ گورے ہندوستان تو چھوڑ گئے تھے، لیکن جاتے جاتے یہاں ایسی بارودی سرنگیں بچھا گئے تھے، جنہیں ختم کیے بنا اس علاقے میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔

جب ہندوستان تقسیم ہوا تو ملک میں 550 پرنسلی اسٹیٹس (Princely States) تھیں۔ جن پر حکومت تھی مقامی نوابوں کی۔ لیکن خارجہ پالیسی، دفاع اور کمیونی کیشنز کے معاملات برٹش دیکھتے تھے۔ ان میں سے کچھ ریاستیں بہت بڑی تھیں اور باقی چھوٹی۔

جب ہندوستان تقسیم ہوا تو ہر ریاست کو اختیار دیا گیا کہ وہ جسے چاہے منتخب کر لے: بھارت یا پاکستان۔ اُن کے لیے آزادی کا کوئی آپشن نہیں تھا، لیکن انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کی اتنی جلدی تھی کہ اگست 1947 تک کئی ریاستوں کا معاملہ حل ہی نہیں ہوا۔ ان میں سب سے بڑی اور اہم ریاست تھی کشمیر کی۔

سن 1947 ختم ہونے تک سبھی ریاستوں کا معاملہ حل ہو چکا تھا۔ سوائے دو ریاستوں کے: کشمیر اور حیدر آباد۔ یعنی دو سب سے بڑی ریاستیں اور دونوں کا معاملہ بھی بالکل الٹ تھا۔ حیدر آباد میں اکثریت ہندوؤں کی تھی لیکن حکمران مسلمان تھے جبکہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن راجا ہندو تھا۔

یہ ہندو راجا اُس نسل سے تھا جس نے 1846 میں یہ علاقہ گوروں سے پانچ لاکھ پونڈز میں خریدا تھا۔ ان کا انگریزوں سے یارانہ تو آخر تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے وقت بھی گورداسپور کا ضلع انڈیا میں شامل کر دیا گیا۔ حالانکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ قانوناً اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن صرف اس لیے نہیں کیا گیا تاکہ کشمیر کے لیے بھارت کا راستہ کھلا رہے۔ ایسا راستہ جو سال بھر قابلِ استعمال ہو، یعنی مسئلے کی بنیاد تقسیم کے دوران ہی پڑ چکی تھی۔

پھر وقت بڑھتا گیا اور حالات سنگین ہوتے گئے۔ جب 1947 میں جموں سے مسلمانوں کو نکالا گیا تو پونچھ میں ایسی بغاوت ہوئی کہ سری نگر کو بھی ڈائریکٹ خطرہ لاحق ہو گیا۔ تب کشمیر کے راجا ہری سنگھ بھاگ کر جموں چلے گئے، جہاں انہوں نے ہندوستان سے مدد کی اپیل کر دی اور بھارتی فوجیں کشمیر میں داخل ہو گئیں!

یوں ‏1948 میں پاکستان اور بھارت کی پہلی جنگ ہو گئی اور وہ کہتے ہیں ناں کہ امن اصل میں دو جنگوں کا درمیانی وقفہ ہوتا ہے۔ تو اس جنگ کے بعد بس یہ طے ہونا باقی تھا کہ اگلی جنگ کب اور کہاں ہوگی؟ اور 1960 کی دہائی میں اگلی جنگ کے لیے میدان پوری طرح تیار ہو گیا۔ کیونکہ انڈیا چین سے ایک جنگ بری طرح ہار گیا تھا، پھر رن آف کچھ میں بھی وہ پاکستان کو ہرا نہیں پایا۔ یوں ایک امپریشن بن گیا کہ انڈیا فوجی لحاظ سے کمزور ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان واقعی ایک بڑی طاقت بن رہا تھا۔ فوج کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ بالکل وہی تعداد، جو ایوب خان اور اُن کے ساتھیوں کے خیال میں انڈیا کے لیے کافی ہوگی۔
پھر امریکی ہتھیار بھی پاکستان کے پاس تھے، جو اُن کے خیال میں انڈیا کے ہتھیاروں سے بہتر کوالٹی کے تھے۔ تو پاکستان کا اعتماد بڑھ رہا تھا۔ اور علاقے میں جنگی جنون میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن ایک منٹ!

صورتِ حال یہاں تک پہنچنے کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ وہ یہ کہ ایوب خان 1965 میں فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہرا چکے تھے۔ جس طرح ہرایا، جیسے ہرایا، وہ سب جانتے ہیں۔ انہیں خود اس بات کا پورا پورا اندازہ تھا، اسی لیے ایوب خان کو بڑی فکر تھی کہ کسی طرح عوام کی نظر میں اپنا امیج بہتر کریں اور ’’فاتحِ کشمیر‘‘ بن کر وہ اپنے دامن پر لگا ہر داغ دھو سکتے تھے۔

تو چین کے ہاتھوں انڈیا کی بھیانک شکست نے پاکستان میں ایک اعتماد پیدا کیا۔ فوجی قیادت، انٹیلی جنس اداروں اور وزارتِ خارجہ کے خفیہ اجلاس شروع ہو گئے۔ تب پاکستان کے وزیر خارجہ تھے ذوالفقار علی بھٹو اور سیکریٹری خارجہ تھے عزیز احمد۔ انہوں نے فوجی قیادت کو یقین دلایا کہ کشمیری انڈیا سے تنگ ہیں، حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ اگر پاک فوج ایک بار وادیِ کشمیر میں داخل ہو گئی تو وہ انڈیا کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔ اور ہاں! ایک اور بات: عزیز احمد نے کہا کہ چین کے خوف سے انڈیا پاکستان کے خلاف جنگ انٹرنیشنل بارڈرز تک نہیں لائے گا۔ یقیناً یہ بات انہوں نے چین سے پوچھے بغیر ہی کہی ہوگی۔ کیونکہ آگے جو کچھ ہوا، اس سے یہی بات ثابت ہوئی۔

تب ایک منصوبہ پیش کیا گیا، جسے دنیا آج جانتی ہے آپریشن جبرالٹر کے نام سے۔ ہمیشہ کی طرح ایک brilliant آئیڈیا۔ لیکن مسئلہ وہی رہا: یعنی execution۔

آپریشن جبرالٹر

پاک فوج کے کمانڈر اِن چیف جنرل موسیٰ خان اس آپریشن کے خلاف تھے۔ ایوب خان بھی بہت زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے یہ گرین سگنل دے دیا۔ ویسے اس منصوبے کا نام ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کیوں رکھا گیا؟ کیونکہ اس مشن پر جانے والوں کو واقعی اپنی تمام کشتیاں جلانا تھیں۔ بالکل! طارق بن زیاد کی طرح۔

اس آپریشن کا ملٹری پلان بنایا جنرل اختر حسین ملک نے اور کمان بھی انہی کو دی گئی۔ جنرل ایوب خان، جنرل موسیٰ خان، کچھ سینیئر فوجی افسر اور ذوالفقار علی بھٹو اور عزیز احمد۔ ان کے علاوہ کسی کو اس منصوبے کا پتہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان ایئر فورس اور پاکستان نیوی بھی نہیں جانتی تھیں۔ اور تو اور مقبوضہ کشمیر میں پرو پاکستانی لیڈرشپ کو بھی کچھ پتہ نہیں تھا۔

پاک فضائیہ کے ایئر مارشل نور خان کے مطابق انہوں نے جنرل موسیٰ خان سے پوچھا، تب انہوں نے پلان کے بارے میں بتایا اور کہا فکر نہ کرو، انڈیا جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔ انڈیا اس قابل رہے گا ہی نہیں کہ جوابی کارروائی کرے۔ نور خان کے مطابق صرف چند جرنیلوں اور کچھ لوگوں کو ہی آپریشن جبرالٹر کا پتہ تھا۔

خیر، جنرل اختر نے ایک اور منصوبہ بھی بنایا: آپریشن گرینڈ سلیم!

آپریشن جبرالٹر کے نتیجے میں کشمیر میں agitation پیدا ہوتی، جس کے بعد آپریشن گرینڈ سلیم شروع ہوتا۔ جس کے تحت اہم علاقے اکھنور پر قبضہ ہونا تھا۔ یہاں سے جموں اور وادیِ کشمیر کا راستہ کٹ جاتا اور انڈیا کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا۔ بہرحال، آپریشن جبرالٹر کے لیے پانچ گروپ تشکیل دیے گئے: طارق، غزنوی، صلاح الدّین، قاسم اور خالد۔

تو اگست 1965 کے ابتدائی دن تھے، جب آپریشن کا حصہ بننے والے تقریباً 5 ہزار افراد مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے۔ بھارت کہتا ہے یہ تعداد 30 ہزار تھی، لیکن حقیقتاً یہ تعداد پانچ ہزار سے اوپر نہیں تھی۔ وادی میں پہلا وار بہت ہی زبردست تھا۔ شروع میں کئی کامیابیاں بھی ملیں لیکن پلاننگ کی کمی کی وجہ سے جلد ہی مسئلے کھڑے ہونے لگے۔

مقامی کشمیریوں سے جتنی مدد ملنے کی امید تھی، وہ نہیں مل سکی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر انڈیا کے خلاف کوئی بغاوت تھی بھی نہیں۔ اور سب سے بڑی غلطی یہ کہ پاکستان کا ’’پلان بی‘‘ کچھ نہیں تھا۔ یعنی ناکامی کا آپشن تھا ہی نہیں۔ جی ہاں! تبھی تو اس آپریشن کا نام جبرالٹر تھا، یعنی کوئی ایگزٹ پلان نہیں۔ یا غازی یا شہید!

تو زیادہ وقت نہیں لگا آپریشن میں حصہ لینے والے تمام افراد انڈیا کے رحم و کرم پر آ گئے۔ بہت سے جان سے گئے اور کچھ پکڑے بھی گئے۔ ان میں سے چار کے انٹرویو 8 اگست کو آل انڈیا ریڈیو پر نشر بھی کیے گئے۔ اب پلان کا راز کھل چکا تھا۔ اور انڈیا نے آپریشن کلین اپ شروع کر دیا۔ اب پاکستان کے پاس ایک ہی آپشن تھا: جلد از جلد ’’آپریشن گرینڈ سلیم‘‘ شروع کیا جائے اور وادیِ کشمیر کو باقی انڈیا سے کاٹ دیا جائے اور قدم اٹھ گئے!

آپریشن گرینڈ سلیم

آپریشن جبرالٹر کا پتہ لگ چکا تھا۔ انڈیا کا آپریشن جاری تھا اور اس کی فوجیں مظفر آباد کی طرف بڑھ رہی تھی۔ لیکن صدر ایوب خان دارالحکومت سے کہیں دُور سوات میں تھے۔ کیوں؟ یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی۔ وہ یا تو اوور کونفیڈنٹ تھے یا پھر حد سے زیادہ بھولے۔ اور جب آپ پورا ملک چلا رہے ہوں تو دونوں کا نتیجہ بہت خطرناک نکلتا ہے۔

بہرحال، صدر ایوب نے 31 اگست کو آپریشن گرینڈ سلیم لانچ کر دیا۔ یہ وہ آپریشن تھا جس نے واقعی دونوں ملکوں میں جنگ کا آغاز کر دیا۔ پاکستان نے انڈیا کی ڈیفنس لائن کو توڑ کر رکھ دیا۔ اکھنور پر قبضہ ہونے ہی والا تھا اور پھر ایک عجیب فیصلہ ہو گیا۔

جنرل اختر ملک کی جگہ آپریشن گرینڈ سلیم کی کمان جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دی گئی۔ جی ہاں! جنرل ایوب کے پسندیدہ جرنیل یحییٰ خان کے حوالے۔ اس ایک فیصلے، صرف ایک فیصلے نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اس عمل میں جو ایک دن ضائع ہوا، اس سے انڈین فوج کو دوبارہ منظم ہونے کا وقت مل گیا اور بالآخر آپریشن گرینڈ سلیم بھی ناکام ہو گیا۔

جنرل اختر ملک نے کبھی کوئی کتاب نہیں لکھی۔ بس ایک بار خط میں کہا کہ میں نے کئی بار کتاب لکھنے کا سوچا لیکن پھر فیصلہ کیا کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں لکھتا تو سچ لکھتا اور اس پر جو ردِّ عمل آتا وہ میری ego کے لیے تو اچھا ہوتا لیکن آرمی کا مورال تباہ ہو جاتا، لوگوں میں فوج کی ساکھ برباد ہو جاتی، مجھ پر پاکستان میں پابندی لگ جاتی اور انڈیا میں میری کتاب نصاب کا حصہ بن جاتی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں کبھی کتاب نہیں لکھوں گا۔

یوں آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ آخر اختر ملک کو ہٹا کر یحییٰ خان کو کیوں لایا گیا؟ لیکن لگتا یہی ہے کہ یحییٰ خان ایوب خان کے قریبی دوست تھے۔ شاید انہوں نے ہی ایوب خان کو کہا ہو مجھے تاریخ میں اپنا نام زندہ کرنے کا موقع دیں۔ شاید وہ جانتے نہیں تھے کہ صرف چند سال بعد ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جائے گا۔ خیر، جو بھی ہو۔ اس فیصلے نے جنگ کا رخ بدل دیا!

پھر بھی انڈیا پر اتنا پریشر بن چکا تھا کہ اسے ریلیز کرنے کے لیے اسے کچھ بڑا کرنا تھا اور پھر چھ ستمبر کی رات آ گئی! وہ جس نے بھی کہا تھا نا کہ انڈیا انٹرنیشنل بارڈر کراس نہیں کرے گا، اس کے لیے خبر آ گئی کہ صاحب، اٹھیے! انڈیا نے لاہور اور سیالکوٹ کا محاذ کھول دیا ہے!

بھارت کا لاہور پر حملہ

اب لڑائی سیز فائر لائن پر نہیں، انٹرنیشنل بارڈر پر ہو رہی تھی۔ ایوب خان کے سیکریٹری الطاف گوہر لکھتے ہیں:

جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو جسے سب سے زیادہ حیرت ہوئی، وہ ایوب خان تھے۔

انہوں نے لکھا کہ چار ستمبر کو دلّی میں پاکستانی ہائی کمشنر ارشد حسین نے ایک سائفر بھیجا تھا کہ انڈیا چھ ستمبر کو حملہ کرے گا، لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور سیکریٹری خارجہ عزیز نے فیصلہ کیا کہ اس پیغام کو دبا لیا جائے، کیونکہ ان کے خیال میں ارشد حسین بہت جلدی گھبرا جاتے ہیں اور نروس ہو جاتے ہیں۔ لیکن بھٹو اور عزیز کا یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا۔ جنگ اب دروازے پر پہنچ چکی تھی!

انڈیا نے اس مہم کا نام رکھا ’’آپریشن ریڈل (Riddle)‘‘۔ اس کا ہدف تھا پاکستان کی حملہ کرنے کی صلاحیت ختم کرنا۔ اور ہاں! لاہور پر قبضہ کرنا، وہ بھی صرف ایک دن میں۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ بھارت کی پیش قدمی پہلے ہی دن سست ہو گئی، اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ انہیں اتنی زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی انڈیا کا بھی حال پاکستان والا ہی تھا۔ تبھی کہتے ہیں آئیڈیا الگ چیز ہوتی ہے، execution الگ۔ تو انڈیا کا آئیڈیا بھی پہلے ہی دن فیل ہو گیا!

ابتدا میں پاکستان کو کامیابیاں ملیں تو فوجی قیادت اوور کونفیڈنٹ ہو گئی، خاص طور پر کھیم کرن پر قبضے اور پاک فضائیہ کی زبردست کارروائیوں کے بعد جس نے پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس کے دس جہاز اس طرح تباہ کیے کہ کوئی ایک اُڑ بھی نہیں پایا۔ ان میں دو جدید ترین مگ 21 طیارے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ آدم پور اور ہلواڑہ کی ایئر بیسز پر بھی بڑے حملے کیے گئے۔ سب کچھ اچھا جا رہا تھا کہ امریکا آ گیا!

امریکا نے 8 ستمبر کو پاکستان اور بھارت دونوں کو اسلحے کی فراہمی روک دی۔ بھارت تو امریکا سے اسلحہ لیتا ہی نہیں تھا، اس لیے پابندی کا نقصان پہنچا صرف اور صرف پاکستان کو۔ اب پاکستان کو اسپیئر پارٹس، ایمونیشن اور تیل کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ یہاں چین نے پاکستان کا ساتھ دیا، وہ بھی چھپ کر۔ انڈونیشیا کے ذریعے پاکستان کو بھرپور فوجی مدد دی گئی۔ چین کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈٹا رہے، اگر انڈیا ایک دو شہروں پر قبضہ کر بھی لے تو بھی ہمت نہ ہارے۔ طویل گوریلا جنگ ہوئی تو چین پاکستان کی حمایت کرے گا۔ لیکن ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو طویل گوریلا جنگ نہیں چاہتے تھے، وہ تو رزلٹ چاہتے تھے اور فوراً چاہتے تھے۔

بہرحال، چین کے علاوہ ایران، ترکی اور انڈونیشیا نے پاکستان کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ ان کی حمایت اتنی واضح تھی کہ انڈیا بھی بول پڑا۔

‏11 ستمبر کو کھیم کرن سے آگے پاکستان کی پیش قدمی رک گئی۔ اور پھر ایک نیا محاذ کھل گیا۔ وہ بھی پاکستان کی سرزمین پر۔ ‏14 ستمبر سے سیالکوٹ کے قریب چونڈہ کے مقام پر ٹینکوں کی زبردست لڑائی شروع ہوئی۔ یہ جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی۔ یہاں پاکستان کے تقریباً 132 ٹینکوں کا مقابلہ انڈیا کے 260 ٹینکوں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ کی پیدل فوج سے ہوا۔ پاکستان کہتا ہے کہ اس جنگ میں اس کے 44 ٹینک تباہ ہوئے جبکہ اس نے انڈیا کے 120 ٹینک تباہ کیے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد 60 کے مقابلے میں 100 تھی۔

پاکستان نے اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس گھمسان کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کا حال خراب ہو گیا تھا۔ لڑائی شروع تو ہو گئی تھی، لیکن اب انہیں روکنا ان دونوں کے بس میں نہیں تھا کیونکہ جو بھی بزدلانہ فیصلہ کرتا، اسے سیاسی نتائج بھگتنا پڑتے۔

اس دوران 15 ستمبر کا دن بھی آیا، جس پر ایوب خان نے قومی اور بین الاقوامی میڈیا سے بات کی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا لہجہ کافی مختلف تھا۔ انہوں نے امریکی حکومت سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا۔ اب واضح ہو گیا تھا کہ حالات اخباری بیانات سے مختلف ہیں۔

1965 کی جنگ: اختتام

‏13 ستمبر کو امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے کچھ سفیروں کو ایک ٹیلی گرام بھیجا۔ اس میں لکھا تھا کہ انڈین فوج مزید 30 دن تک لڑ سکتا ہے جبکہ اس کی فضائیہ 70 دن تک مقابلہ کر سکتی ہے۔ لیکن پاکستان اگر اپنی 70 فیصد آپریشنل صلاحیت بھی استعمال کرے تو 60 دن سے زیادہ نہیں لڑ پائے گا اور پاک فضائیہ کے لیے تو اور زیادہ مشکل تھی۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے وہ 30 دن سے زیادہ نہیں لڑ سکتی تھی۔

بہرحال، عالمی طاقتوں نے مداخلت کی اور اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ اسے انڈیا نے 22 ستمبر کو منظور کر لیا اور اگلے دن پاکستان نے بھی یہی فیصلہ کیا۔ ایوب خان ٹیلی وژن پر آئے اور اپنی تقریر میں ایک لفظ استعمال کیا: فائر بندی!

جی ہاں! انہوں نے جنگ بندی کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ یعنی یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ فائرنگ روکی گئی ہے، جنگ نہیں۔ اُدھر بھٹو کا انداز بھی مختلف نہیں تھا۔ وہ اقوام متحدہ میں کہہ کر آ گئے: کشمیریوں کے لیے ایک ہزار سال بھی لڑنا پڑے، تو لڑیں گے۔ کیا کہنے بھٹو صاحب کے!

خیر، جنگ ختم ہوئی۔ دونوں طرف سے بلند و بالا دعوے سامنے آنے لگے۔ لیکن آزاد ذرائع بتاتے ہیں کہ جنگ میں انڈیا کے 3 ہزار اور پاکستان کے 3 ہزار 800 لوگ جان سے گئے۔ ٹینک دونوں کے تقریباً ایک جتنے ہی تباہ ہوئے، لیکن فضا میں پاکستان کا راج رہا۔ پاکستان ایئر فورس نے تین گُنا بڑے دشمن کو بہت نقصان پہنچایا۔ جنگ میں بھارت کے تقریباً 75 جہاز تباہ ہوئے جبکہ پاکستان ایئر فورس کو 20 طیاروں کا نقصان پہنچا۔ پاک فضائیہ نے جو کر دکھایا، خود سے تین گنا بڑے دشمن کے خلاف وہ پاکستان کی ملٹری ہسٹری کا ایک گولڈن چیپٹر ہے۔

علاء الدّین احمد، سرفراز احمد رفیقی، سجاد حیدر، Mervyn Middlecoat، Cecil Chaudhry اور ایم ایم عالم اور بہت سے نام سامنے آئے۔ اور ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئے! اگر صرف ایئر فورسز کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فضائی جنگ پاکستان نے جیتی۔

ہاں! جہاں تک بات ہے دشمن کے علاقے پر قبضے کی تو پاکستان نے تقریباً 540 مربع کلومیٹر علاقہ قبضے میں لیا جبکہ انڈیا نے پاکستان کے تقریباً 1840 کلومیٹرز علاقے پر قبضہ کیا۔ ایک بار کابینہ اجلاس میں ایوب خان نے کہا کہ میں دوبارہ کبھی 50 لاکھ کشمیریوں کے لیے 10 کروڑ پاکستانیوں کی جان خطرے میں نہیں ڈالوں گا۔ بہرحال، میدان کی جنگ ختم ہوئی۔ نہ پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ جنگ کو جاری رکھ سکتا اور نہ ہی انڈیا۔ اور پھر اصل اور بڑی لڑائی کا آغاز ہوا، مذاکرات کی میز پر جو سجائی گئی سوویت یونین کے شہر تاشقند میں!

تاشقند اعلامیہ

روس نے پاکستان اور بھارت دونوں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ انڈیا نے تو فوراً قبول کر لی کیونکہ وہ اسے اپنے لیے ایڈوانٹیج سمجھتا تھا۔ لیکن پاکستان، امریکا اور دیگر طاقتوں کو راضی نہیں کر پایا اور اسے بالآخر دل پر پتھر رکھ کر روسی دعوت قبول کرنا پڑی۔

‏4 جنوری 1966 کو تاشقند میں مذاکرات کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں عوام یہی سمجھ رہے تھے کہ میدان میں تو جنگ جیت چکے ہیں، بس اب مذاکرات کی میز پر جیتنا باقی ہے۔ لیکن یہاں جیتنا آسان نہیں تھا۔ بات بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ 10 جنوری 1966 کو بالآخر معاہدے پر سائن کر دیے گئے۔

دونوں ملکوں نے کہا کہ وہ اپنی فوجیں پانچ اگست 1965 سے پہلے والی پوزیشن پر لے جائیں گے۔ یعنی جتنے علاقوں پر قبضہ کیا گیا ہے، سب 26 فروری 1966 سے پہلے واپس کر دیے جائیں گے۔ یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ سفارتی اور تجارتی تعلقات معمول پر لائے جائیں گے۔ یعنی سب کچھ ہوا، لیکن وہ جو اصل بات تھی، جس پر یہ ساری جنگ لڑی گئی، ہزاروں جانیں گئیں، اس پر معاہدے پر میں صرف ایک جملہ درج تھا، یہ کہ:

جموں و کشمیر پر بات کی گئی اور دونوں فریقوں نے اپنا مؤقف بیان کیا۔

جی ہاں! صرف یہ ایک جملہ۔ ‏10 جنوری 1966 کو اس معاہدے پر دستخط ہوئے، یہ بھارت کی کامیابی اور پاکستان کی ناکامی کا معاہدہ تھا۔

انڈیا کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی زندگی پر کتاب لکھنے والے سی پی شری واستو بتاتے ہیں کہ مذاکرات کے بعد عشائیہ دیا گیا، جہاں رات پونے دس بجے ایوب اور شاستری کی آخری ملاقات ہوئی۔ شری واستو کے الفاظ میں ایوب خان نے کہا: خدا حافظ! جس پر شاستری نے بھی خدا حافظ کہا اور ساتھ ہی بولے، ’’اچھا ہی ہو گیا!‘‘ ایوب خان نے جواب دیا: خدا اچھا ہی کرے گا۔ اور تین گھنٹے بعد وہ ہو گیا، جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ شاستری اپنے بستر پر مردہ پائے گئے!

اس جنگ نے جہاں بہت سی controversies کو جنم دیا۔ وہیں اس کا خاتمہ بھی ایک بڑی controversy کے ساتھ ہوا۔ شاستری کی موت ایک افسوس ناک واقعہ تھی۔ ایوب خان کو اس معاہدے پر بڑا دکھ ہوا۔ وہ وطن واپس آئے اور کوئی بیان تک جاری نہیں کیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔

لاہور میں تو ویسے ہی پیٹریاٹزم کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے۔ معاہدے کے بعد شہر میں بڑے ہنگامے ہوئے۔ اہم سیاست دانوں نے بھی تاشقند معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس صورت حال کا فائدہ بھٹو نے اٹھایا۔ پہلا پتہ تو انہوں نے یہ کھیلا کہ وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفا دے دیا۔ یوں ایوب خان کے لیے حالات مشکل ہوتے چلے گئے۔

تاشقند معاہدے پر دستخط ایوب خان کی سیاسی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔ جس کا نتیجہ بالآخر انہیں بھگتنا پڑا۔ لیکن ایک سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ آخر 65 کی جنگ جیتا کون؟

1965 کی جنگ: فاتح کون؟

پاکستان کہتا ہے 65 کی جنگ اُس نے جیتی۔ جب جنگ انٹرنیشنل بارڈر پر آئی تو اس نے ایک دفاعی جنگ لڑی اور ہر محاذ پر بھرپور دفاع کرنے میں کامیاب ہوا۔ اسی لیے ہر سال چھ ستمبر کو یوم دفاع پاکستان بھی منایا جاتا ہے۔ لیکن انڈیا کا دعویٰ ہے کہ 1965 کی جنگ اس نے جیتی تھی۔

خیر، دعویٰ تو کوئی کچھ بھی کر سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ برابری پر ختم ہوئی تھی۔ سمجھیں یہ ڈرا ہونے والا ٹیسٹ میچ تھا۔ جس پر کوئی جیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن پاکستان میں کیونکہ سیاسی حالات نازک تھے، اس لیے اتنے بڑے ایڈونچر کے بعد لانگ ٹرم میں پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچا اور کشمیر کاز کو بھی۔ ملک کی اکانمی پر جنگ کے اخراجات کا بھاری بوجھ پڑا۔

جنگ سے پہلے کی پاکستانی تاریخ سیاسی طور پر تو بڑی ہنگامہ خیز رہی، لیکن معاشی اور معاشرتی طور پر وہ ایک پُر سکون دور تھا۔ لیکن اِس جنگ کے بعد حالات بڑی تیزی سے بدلے۔ اور پاکستان پھر کبھی پہلے والا پاکستان نہیں رہا۔

مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ عوامی لیگ کے کارکن اور بنگالی قوم پرست کھلے عام پاکستان مخالفت کرنے لگے۔ معاہدے کے فوراً بعد مجیب نے خود مختاری کا مطالبہ کیا اور اپنے مشہور چھ نکات پیش کیے۔

جلد ہی بھٹو نے بھی پیپلز پارٹی بنا لی۔ یوں جنگ کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ ایوب خان کی گرپ کمزور ہوتی چلی گئی۔ مظاہرے بڑھتے گئے، دبانے کی کوششیں ناکام ہوتی رہیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ حالات قابو سے باہر ہو گئے۔ ایوب خان کو اعلان کرنا پڑا کہ 1970 کے الیکشن میں وہ امیدوار نہیں ہوں گے۔ سمجھیں سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ لیکن اپوزیشن پھر بھی نہیں مانی، اور ایوب خان کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔ لیکن جاتے جاتے وہ اگلے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو اقتدار دے گئے۔

وہی یحییٰ خان جو اکھنور کے محاذ پر پاکستان کی ناکامی کی وجہ بنے، اب ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ اُن کا ڈھائی سالہ دور پاکستان کی تاریخ کا بھیانک ترین دور تھا اور وہی تھے جنہوں نے 1965 میں بوئی گئی فصل 1971 میں کاٹی۔ اور جنگ کے صرف پانچ سال بعد پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔

ایئر مارشل نور خان لکھتے ہیں کہ 1965 کی جنگ بالکل غلط تھی۔ فوجی لیڈر شپ نے قوم سے جھوٹ بولا، اسے گمراہ کیا کہ جنگ پاکستان نے نہیں بلکہ انڈیا نے چھیڑی، ہم تو اُن کی جارحیت کا نشانہ بنے۔ اس حرکت پر جنرل ایوب کو خود بھی استعفا دینا چاہیے تھا اور سینیئر جرنیلوں کا احتساب بھی کرنا چاہیے تھا۔ ایسا کرتے تو آنے والے ایڈونچرز کو روکا جا سکتا تھا۔ لیکن اس جنگ کو ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا، کہانیاں بنائی گئیں اور انہی کہانیوں کو آگے استعمال بھی کیا گیا۔ یوں آنے والوں نے ایوب کو رول ماڈل سمجھا اور غیر ضروری جنگیں کرتے رہے: 1971 کی جنگ سے 1999 کی ناکام کارگل مہم تک، ہر جنگ میں وہی غلطی دہرائی گئی جو 1965 میں کی گئی تھی۔

شیئر

جواب لکھیں