چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو بالآخر گرفتار کرلیا گیا۔ عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈائری برانچ سے گرفتار کیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی رجسٹرار آفس میں اپنا بائیو میٹرک کرا رہے تھے کہ رینجرز کی بھاری نفری نے دھاوا بولا۔
رجسٹرار آفس اور دوسرے دفاتر کے شیشے توڑے گئے، جاری کی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان اندر پرسکون بیٹھے یہ سب مناظر دیکھ رہے تھے۔
رینجرز کے اہلکار عمران خان کو گردن سے پکڑ کر گھسیٹتے اور دھکے دیتے ہوئے پیدل چلا کر باہر لائے اور انھیں کالی ویگو میں بٹھا کر لے گئے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت عمران خان پر شدید تشدد کیا گیا۔ ان کے سر پر مارا گیا۔ لات ماری اور کرسی سے اُٹھا کر گھسیٹ کر لے گئے۔ میرے سر پر ڈنڈا مارا۔ آنکھوں میں پیپر اسپرے کیا گیا۔ میں بے ہوش ہوگیا اور بعد میں مجھے ہائیکورٹ کے اسٹاف نے اُٹھا کر جگایا۔
عمران خان کو 3 نومبر 2022 کو قاتلانہ حملے میں پیر پر تین گولیاں لگی تھیں۔ عمران خان اس کے بعد سے ویل چیئر پر آتے جاتے ہیں تاہم گرفتاری کے وقت انھیں ویل چیئر پر نہیں لے جایا گیا۔
پی ٹی آئی کی کوآرڈینیٹر اور ترجمان مسرت جمشید چیمہ نے گرفتاری کے دوران فوری ویڈیو پیغام جاری کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ پتا نہیں ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔
عمران خان کی گرفتاری کے دوران ان کے محافظوں اور وکلا کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی۔ عمران خان کے ایک وکیل اور کئی محافظ زخمی ہوگئے۔
عمران خان کو گرفتاری کے بعد نیب راولپنڈی منتقل کیا گیا۔ نیب نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری کی ہدایت چیئرمین نیب نے دی تھی۔ جس کے بعد یکم مئی کو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔ وارنٹ گرفتاری آئی جی پنجاب، آئی جی اسلام آباد، نیب راولپنڈی اور نیب لاہور کو بھیجے گئے تھے۔ اعلامیے کے مطابق سابق وزیراعظم پر القادر ٹرسٹ کیس میں مبینہ کرپشن کا الزام ہے۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری کا نوٹس لیا۔ انھوں نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو پندرہ منٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی جانب سے 15 منٹ کا وقت آدھے گھنٹے تک بڑھانے کی استدعا کی گئی جو عدالت نے مسترد کردی۔ بعد میں آئی جی اسلام آباد اور ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکلا نے دلائل دیے کہ ضمانت کی سماعت کے موقع پر گرفتاری نہیں ہوسکتی۔ تقریباً تین گھنٹے کی سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ کئی گھنٹوں بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ عمران خان کی گرفتاری قانونی ہوئی۔