عید جمعے کو ہو تو کیا حکومت کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔  پاکستان میں کب کب عید جمعے کو ہوئی اور اس کے نتیجے میں کیا کیا ہوا؟ اور کب کب جمعے کی عید ٹالنے کے لیے جمعرات کو کردی گئی۔ آئیے تاریخ کھنگالتے ہیں۔

پاکستان کی سرکاری رویت ہلال کمیٹی نے جمعرات 20 اپریل 2023 کی رات اعلان کیا کہ ملک بھر میں کہیں سے چاند نظر آنے کی شہادت نہیں ملی اس لیے عید 22 اپریل بروز ہفتہ ہوتی۔ اگر چاند نظر آجاتا تو عید جمعے کو ہوتی۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شاید حکومت نے عید پر دو خطبوں سے بچنے کے لیے چاند نظر نہ آنے کا اعلان کرایا ہے۔

اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں یہ تصور کئی دہائیوں سے  چلا آرہا ہے کہ اگر عید جمعے کو ہو  اور دو خطبے ہوں یہ حکمران وقت کے لیے بھاری ثابت ہوتی ہے۔  مئی 2021 میں عید جمعے کو ہونی تھی۔ محکمہ موسمیات اور ماہرین فلکیات کے مطابق بدھ کو چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا مگر رویت ہلال کمیٹی والوں نے رات دیر گئے چاند ڈھونڈ نکالا تھا اور عید جمعرات کو منائی گئی۔ اعلان اتنی دیر سے ہوا کہ زیادہ تر مساجد میں تراویح ہوچکی تھی۔ بہت سے لوگ سوچکے  تھے۔ اس اچانک عید کو جبری عید بھی کہا گیا۔ 

اس  وقت  رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مولانا عبدالخبیر آزاد تھے جو اب بھی اس منصب پر ہیں۔ مفتی منیب الرحمان جو تقریباً 20 سال سے اس عہدے پر تھے ان کو پی ٹی آئی سرکار نے ہٹا دیا تھا۔ مفتی منیب نے رویت ہلا ل کمیٹی کے فیصلے سے  اختلاف کیا تھا اور لوگوں کو ایک روزہ قضا رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ عید تو  جمعرات کو ہوگئی مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی سرکار اگلی عید نہیں دیکھ سکی تھی اور اگلے سال رمضان میں ہی عمران خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا تھا۔

عید اور جمعے کے دو  خطبے بھاری ہونے کا تصور کہاں سے آیا؟ شاید اس کی  وجہ  یہ ہو کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور میں  6 جولائی 1951 کو جمعے کو عید ہوئی تھی اور اس کے چند مہینے بعد 16 اکتوبر 1951 کو  انھیں قتل کردیا گیا تھا۔

ایوب خان کے دور کی جبری عید

کہتے ہیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان بھی دو خطبوں سے گھبراتے تھے۔  ان کے آخری برسوں میں تو  جمعے کی عید کا حکومت پر بھاری ہونے کا خیال اتنا جڑ پکڑ چکا تھا کہ  12 جنوری 1967 کو جمعرات کو جبراً عید کرائی گئی تھی۔ رات دیر گئے ریڈیو اور مساجد سے اعلانات کرائے گئے، سائرن بجائے گئے۔  بدھ کو چاند نظر آنے کے کوئی شواہد نہ ملنے پر بیشتر علمائے کرام نے  جمعرات کو عید منانے سے انکار کیا اور عوام کو بھی روزہ رکھنے کی ہدایت کی ۔ اس پر مولانا مودودی، مولانا احتشام الحق تھانوی اور دیگر کئی علما کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔  اس کے باوجود عوام کی بڑی تعداد نے جمعے ہی کو عید منائی تھی۔ 

ایوب خان کے دور میں اس سے پہلے بھی  دو عیدیں منائی گئی تھیں۔ 17 مارچ 1961 کو 29 ویں روزے پر محکمہ موسمیات اور سرکاری اداروں نے چاند نظر آنے کا اعلان کیا تھا جبکہ رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مولانا احتشام الحق تھانوی نے اعلان کیا کہ انھیں کوئی شرعی شہادت موصول نہیں ہوئی۔ 18 مارچ 1961 کو سرکاری طور پر عید منائی گئی جبکہ اخبارات میں احتشام الحق تھانوی کا فتویٰ شائع ہوا کہ آج روزہ ہے، عید کل ہے، آج عید منانا حرام ہے۔ اس تنازع کے بعد ہی رویت ہلال کمیٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

Raftar Bharne Do

ایوب خان کی حکومت میں 8 مارچ 1962 کو بھی 29 روزوں کے بعد جمعرات کو عید منائی گئی تھی۔  جبکہ ان کے اقتدار سنبھالنے کے 6 ماہ  بعد 10 اپریل 1959 کو 30 روزے پورے ہونے کے بعد جمعے کو عید ہوئی تھی۔ 

ذوالفقار علی بھٹو جمعے کی عید سے بالکل نہیں گھبرائے

بعد کے اداوار کو دیکھیں تو  ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں  18 اکتوبر 1974 کوعید جمعے کو ہوئی تھی۔  روایت ہے کہ مذہبی امور کے وزیر مولانا کوثر نیازی نے انھیں ڈرایا بھی تھا کہ عید پر دو خطبے اقتدار کو گرہن لگاسکتے ہیں۔ حکم دیں تو ایوب خان کی طرح  عید جمعرات کو کرادی جائے مگر بھٹو صاحب  نے ان کی رائے پر عمل نہیں کیا۔ اس کے بعد بھی ان کی حکومت مزید تین سال چلی مگر سیاسی طور پر ان کے لیے مشکلات بڑھتی رہیں۔

پھر آرمی چیف ضیاءالحق نے 5 جولائی 1977 کو ان کا تختہ الٹا تو اس کے تین مہینے بعد ہی  16 ستمبر 1977 کو جمعے کے دن عید ہوئی۔ ضیاءالحق کے دور میں پھر 25 اگست 1979 کو تیس روزوں کے بعد ہفتے کو عید ہوئی۔ یعنی اگر روزے 29 ہوتے تو عید جمعے کو ہوسکتی تھی۔  اسی طرح  22 جولائی 1982  اور 20 جون 1985 کو  29  روزوں کے بعد جمعرات کو عید منائی گئی۔ ان دونوں مواقع پراگر 30 روزے ہوتے تو عید جمعے کو پڑتی۔ ضیاءالحق کے آخری برسوں میں 29 مئی 1987 کو جمعے کو عید ہوئی۔ اس کے اگلے سال ہی طیارہ حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا۔

Raftar Bharne Do

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں بھی جمعے کو عید ہوئی

بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں 27 اپریل 1990 کو بھی عید پر جمعے کا دن تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس کے چند مہینے بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کردی تھی۔

نواز شریف کے پہلے دور میں 24 مارچ 1993 کو 29 ویں روزے پر چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا اور عید 25 مارچ 1993 کو جمعرات کے دن منائی گئی۔  یعنی تیس روزے پورے ہوتے تو عید جمعے کو ہوتی۔ بہرحال  اس کے باوجود نوازشریف کی حکومت برقرار نہیں رہ سکی تھی اور چند مہینے بعد غلام اسحاق خان نے انھیں بھی گھر بھیج دیا تھا۔

اس کے بعد پھر بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں۔ بے نظیر بھی شاید اپنے والد کی طرح عید پر دو خطبوں سے بالکل خوف زدہ نہیں تھی۔ ان کے دوسرے دور میں 3 مارچ 1995 کو بھی عید جمعے کو ہوئی تھی تاہم ان کی حکومت مزید ڈیڑھ سال چلی تھی۔ اسی طرح نواز شریف کے دوسرے دور میں 30 جنوری 1998 کو عید جمعے کو ہوئی مگر اس کے بعد بھی نوازشریف 12 اکتوبر 1999 تک وزیر اعظم رہے۔

ایوب خان کے برعکس پرویز مشرف دو خطبوں سے خوفزدہ نہیں تھے۔ ان کے دور میں 6 دسمبر 2002  اور 4نومبر 2005  کو عیدیں جمعے کے دن ہوئیں مگر ان کا اقتدار 2008 تک چلتا رہا۔

نوازشریف 2013 میں تیسری بار وزیراعظم بنے تو ایک  مہینے بعد ہی رمضان تھا اور 9  اگست 2013 کو جمعے کو عید ہوئی۔ شاید چاند کی رویت کے شواہد اتنے واضح ہوں گے کہ عید ہفتے کو نہ کی جاسکتی ہو یا  نواز شریف  حکومت  دو خطبوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کر رہی تھی۔ بہر حال اس کے بعد نواز شریف نے تین سال تو اطمینان سے گزارے پھر پاناما کیس کی وجہ سے انھیں 2017 میں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔

Raftar Bharne Do

جون 2018 میں نگراں حکومت  تھی۔  اس رمضان 29 روزے ہوتے تو عید جمعے کو ہوتی لیکن چاند نظر نہیں آسکا اور عید 16 جون بروز ہفتہ منائی گئی تھی۔ اس کے بعد 2021 میں  29 ویں روزے پر رات گیارہ بجے  چاند  نظر آنے کا اعلان کیا گیا تھا اور جمعرات کو عید منائی گئی تھی جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔

اس بار بھی اگر 29 روزے ہوتے تو عید جمعے کو ہوسکتی تھی۔ مگر محکمہ موسمیات تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ 20 اپریل کو چاند نظر آنے کا امکان نہیں ہے اور عید الفطر 22 اپریل ہی کو ہوگی۔ وفاقی حکومت نے چھٹیاں بھی ہفتے کی عید کے اعتبار سے دی ہیں۔ بہر حال وہی ہوا جس کی بہت سے لوگوں کو توقع تھی۔

ویسے اصل سوال یہ ہے کہ جمعے کو عید کے معاملے پر شریعت کیا کہتی ہے؟ کیا اسلام میں ایسا کوئی تصور ہے کہ عید اور جمعے کے خطبے مل جائیں تو حکومت ہل جاتی ہے۔ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ قطعاً بے بنیاد  اور گمراہ کن خیال ہے۔  قرآن وحدیث اور کسی معتبر کتاب میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ جمعے کو عید ہونا تو انتہائی خوشی کی بات ہوتی ہے۔ کیونکہ جمعہ بھی مسلمانوں کے لیے عید کا دن ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بار عید جمعے کو ہوئی تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے تمھارے لیے دو عیدیں جمع کردی ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں