سابق وزیراعظم عمران خان کو 9 مئی کی دوپہر اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈائری برانچ سے گرفتار کیا گیا۔
رینجرز کے اہلکاروں نے شیشے توڑے۔ مرچوں کا اسپرے کیا۔ وکیل اور گارڈ زخمی ہوئے۔ رینجرز والے عمران خان دھکے دیتے ہوئے کالی ویگو میں لے گئے۔ ان کے وکلا نے الزام لگایا کہ گرفتاری کے دوران عمران خان پر تشدد بھی کیا گیا۔ عمران خان ویل چیئر پر عدالت آئے تھے مگر رینجرز اہلکار انھیں چلا کر لے گئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے گرفتاری کا نوٹس لیا مگر کئی گھنٹے سماعت کے بعد گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا۔ عمران خان کی گرفتاری کی خبر پھیلتے ہیں ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے، پی ٹی آئی کارکن اور عمران خان کو چاہنے والے سڑکوں پر نکل آئے۔ توڑ پھوڑ جلاؤ، گھیراؤ ہوا۔ گاڑیوں، دکانوں کو آگ لگائی گئی۔ مختلف شہروں میں پولیس نے مظاہرین پر شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا۔
لاہور میں مشتعل مظاہرین نے کینٹ ایریا پر دھاوا بول دیا۔ کورکمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کے بعد آگ لگادی گئی۔ مظاہرین راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے اندر بھی داخل ہوئے۔ پرتشدد مظاہروں کے بعد ملک بھر میں موبائل انٹرنیٹ کی سروس بند کردی گئی۔ ٹوئیٹر، یوٹیوب، فیس بک سمیت سوشل میڈیا بھی بلاک کردیا گیا۔
10 مئی کی صبح عمران خان کو پولیس لائنز میں خصوصی طور پر لگائی گئی احتساب عدالت میں لایا گیا جہاں انھیں 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا گیا۔
عمران خان نے پیشی کے موقع پر خدشہ ظاہر کیا کہ نیب حراست میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔
انھوں نے اپنے حامیوں کو پیغام دیا کہ ملک میں مارشل لا لگے یا عاصم لا، عوام رول آف لا کے لیے ڈٹے رہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا ریمانڈ دیے جانے پر ملک بھر میں ہنگامہ آرائی اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔
10 مئی کو آئی ایس پی آر نے مذمتی پریس ریلیز جاری کی اور کہا کہ فوجی و سرکاری تنصیبات پر حملہ سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ جو کام ملک کے ابدی دشمن 75 سال میں نہ کرسکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر دکھایا ہے۔ اعلامیے میں تنبیہ کی گئی کہ اب کسی فوجی یا ریاستی املاک پر حملہ کیا گیا تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت کی گرفتاریاں شروع کردی گئیں۔ اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، شیریں مزاری، جمشید چیمہ، مسرت جمشید چیمہ سمیت دس سے زائد رہنماؤں کو پکڑ کر جیل بھیج دیا گیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس کی سماعت 11 مئی کی دوپہر شروع ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے عمران خان کو ساڑھے چار بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ ایک گھنٹے تاخیر سے انھیں ساڑھے پانچ بجے سپریم کورٹ لایا گیا۔ عمران خان کو گرفتاری کے وقت کالی ویگو میں لے جایا گیا تھا مگر عدالت عظمیٰ پیشی کے لیے کالی مرسڈیز میں لایا گیا۔
عمران خان کمرہ عدالت میں آئے تو چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیا اور انھیں نیب کی حراست سے فوری رہا کرنے کا حکام دیا۔ سپریم کورٹ نے انھیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے اور عدالت عالیہ کا فیصلہ ماننے کی ہدایت کی۔
عمران خان رہائی کے بعد گھر جانا چاہتے تھے تاہم ان کی یہ درخواست رد کردی گئی اور انھیں پولیس لائن کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرنے کی ہدایت کی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں آپ کی سیکیورٹی عزیز ہے۔
پیشی کے موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں بالکل نہیں معلوم ان کی گرفتاری کے بعد ملک میں کیا ہوا۔ میرا موبائل بھی مجھ سے لے لیا گیا تھا میں پرتشدد مظاہروں کا ذمے دار کیسے ہوگیا۔ عمران خان نے اپنے حامیوں کے لیے پیغام دیا کہ وہ پرامن رہیں اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ملک بھر میں جہاں جہاں مظاہرے ہورہے تھے وہ جشن میں بدل گئے۔ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے رات پولیس لائنز کے گیسٹ ہاؤس میں گزاری۔ جہاں صدر مملکت عارف علوی اور دیگر افراد نے ان سے ملاقات کی۔
عمران خان کو صبح اسلام آباد ہائی کورٹ پیش کیا گیا جہاں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ پارٹی کارکنوں اور عوام کو ہائی کورٹ کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔
اسلام آباد عدالت نے سماعت کے بعد القادر ٹرسٹ کیس میں ان کی دوہفتے کے لیے ضمانت منظور کرلی۔ دیگر مقدمات میں بھی ان کی ضمانت منظور کرلی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا 17 مئی تک انھیں کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے اور ریاست عمران خان کی حفاظت یقینی بنائے۔
ان تین دنوں میں 8 سے زیادہ قیمتی جانوں کے زیاں کے ساتھ ساتھ ملک کا اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ پرتشدد مظاہروں، سیاسی گرفتاریوں اور انٹرنیٹ کی بندش سے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص مجروح ہوا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکا سمیت کئی ملکوں نے کشیدگی کم کرنے اور پابندیاں ہٹانے کا مشورہ دیا۔
عمران خان کو دیگر کئی مقدمات میں بھی ضمانت تو مل گئی ہے مگر پی ڈی ایم حکومت تلملارہی اور جوابی وار کا موقع ڈھونڈ رہی ہے۔ ایسے میں یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ ہمارے ارباب اقتدار کو ذاتی اور سیاسی مفاد کے بجائے ملک کے مفاد میں سوچنے کی ہدایت دے۔