مار خور پاکستان کا قومی جانور ہے، اس کا شکار ایک مہنگا شوق ہے۔ آخری بارگلگت بلتستان میں مار خور کے شکار کا لائسنس ایک لاکھ 65 ہزار ڈالر میں نیلام ہوا تھا۔ مار خور کے مجسموں اور سروں کی جھلک اکثر اشرافیہ کے گھروں اور دفتروں میں نظر آتی ہے۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے مونو گرام میں شامل ہونے کی وجہ سے اس کی ایک علامتی حیثیت بھی ہے۔
پچھلے دنوں ایک اعلیٰ شخصیت سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر جانے کا موقع ملا۔ ان کا دفتر لاہور اپر مال پر واقع ہے۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوئے۔ استقبالیہ ہال میں پہنچے تو سامنے دیوار پر نصب مار خور کے سر پر پڑی۔ استقبالیہ پر موجود اسٹاف کے ایک ممبر سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مار خور کا یہ سر بالکل اصلی ہے تاہم قیمت نہیں بتا سکتے۔
اتنے میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے والی وہ اعلیٰ شخصیت ایک اور بزرگ شخصیت کے ساتھ ہال میں نمودار ہوئے۔ وہ ان سے گفتگو کرتے کرتے پہلے بیسمنٹ میں گئے، کچھ دیر بعد اوپر آئے اور پھر اس کمرے میں چلے گئے جہاں وہ دفتری امور نمٹاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک بڑا سا کانفرنس روم بھی ہے۔ انٹرکام کی گھنٹی بجی۔ ریسیپشنسٹ نے فون اٹھایا۔ دوسری جانب سے کچھ کہا گیا جس پر انھوں نے جی بہتر سر کہہ کر فون رکھ دیا۔
ریسیپشنسٹ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’میاں محسن صاحب ،اندر صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘
میں ایک دوست کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا تو بڑے پرتپاک انداز میں انھوں نے اٹھ کر مصافحہ کیا اور کہا ’’آؤ برخودار بیٹھو۔ چائے، کافی یا قہوہ؟‘‘
مجھے ایک صحافی دوست کی بات یاد آگئی کہ جب کہیں خبر کی غرض سے جاؤ اور وہ چائے کافی وغیر کی پیش کش کریں تو دل نہ بھی چاہ رہا ہو تو انکار مت کرنا۔ اس سے آپ کو گپ شپ کے لیے کچھ مزید وقت مل جاتا ہے۔ میں نے ایسا ہی کیا اور چائے کا کہہ دیا۔
موجودہ ملکی حالات کے متعلق انھیں فکرمند پایا۔ میں نے ذکر کیا کہ اب تو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے پاس سے گزریں تو سناٹا ہی دکھائی دیتا ہے۔ آپ کے دور میں کافی رونق لگی رہتی تھی، کسی نہ کسی بے کس و لاچار اور ضرورت مند کی حاجت پوری ہوجاتی تھی۔ کچھ نہ کچھ شنوائی بھی ہوجاتی تھی۔ وہ بولے جو کیا اللہ کی رضا کے لیے کیا۔ اب ہمارا دور تو گزر چکا۔ لوگ فیصلوں سے جج کریں۔ میرے کیے ہوئے تمام فیصلے سب کے سامنے ہیں۔
یہ ’شخصیت‘ تھے سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار۔ عمران خان سے متعلق ہم نے سوال کیا کہ آپ نے ان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ دیا۔ اب آپ کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس سے عمران خان کے بار ے میں آدھا صادق اور امین ہونے کا تاثر ابھرا۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ وہ ایک خاص کیس کے متعلق ہی فیصلہ تھا۔ عمران خان کو بس اسی کیس میں صادق و امین قرار دینے کا فیصلہ ہوا۔
عمران خان اور نوازشریف عدلیہ کا کتنا احترام کرتے ہیں؟ اس سوال پر سابق چیف جسٹس مزید سنجیدہ ہوگئے۔ پہلے کہا کہ ماضی میں ملک مؤکلوں اور پیروں کے ذریعے چلایا جاتا رہا ہے۔ جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ میں نے پھر ضمنی سوال کردیا کہ آج کل اچھے جج اور برے جج، اچھے جنرل اور برے جنرل جیسے بیانات سیاسی قائدین کی طرف سے سننے کو ملتے ہیں۔ جس پر وہ بولے کہ جو بیانات دے رہے ہیں ان کو عدلیہ سے ریلیف ہی ملتا رہا اگر ایک کیس میں سزا ہوگئی تو عدلیہ کو نہیں اپنے عمل کو دیکھیں۔ جس کا دل کرتا ہے منہ اٹھا کر عدلیہ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کردیتا ہے۔ سیاسی گند کو عدلیہ کی لانڈری میں لاکر صاف کرنے کی کوشش ہوئی اور ہو رہی ہے جس سے عدلیہ خود متاثر ہوگئی۔
جنرل باجوہ سے متعلق انھوں نے بتایا کہ جب وہ ریٹائر ہوئے تو میری ان سے ملاقات ہوئی، میری فیملی کی انھوں نے دعوت کی۔ اب جب وہ ریٹائرہوئے تو میرے گھر میری دعوت وہ اور ان کی بیگم تشریف لائیں۔
میں نے سوال کیا کہ عمران خان آج کل جو جنرل باجوہ ہی کو ہر معاملے پر قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔آپ اس بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں۔ جس پر انھوں نے کہا انسان کو اپنا عمل دیکھنا چاہیے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب سے یہ میری دوسری ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات میں انھوں نے پاکستان کے مسائل کا حل یہ بتایا کہ حضرت عمرفاروق جیسے کردار کی حامل شخصیت ہی پاکستان کا قبلہ درست کرسکتی ہے۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو ان کو کئی مواقع پر سمجھایا گیا کہ اگر حقیقی تبدیلی لانی ہے تو اپنے کر دار کو حضرت عمر فاروق جیسا بنانے کی کوشش کریں۔ تقاریر اور باتوں سے نہیں اپنے کردار سے ثابت کرنا ہوگا۔ لیکن اس پر انھوں نے عمل نہیں کیا۔
میں نے ایک بار پھر یہی بات دہرائی تو سابق چیف جسٹس بولے کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ کوئی عمر فاروق ثانی پیدا ہو تو وہی پاکستان کے معاملات درست کرسکتا ہے فی الحال موجودہ سیاسی قیادت میں تو ایسا کوئی نہیں۔ ہاں اگر کوئی خود میں تبدیلی لے آئے اور نیک نیتی سے پاکستان کے مسائل حل کے لیے کام شروع کرے تو بہتری ممکن ہے۔
میں نے کہا آپ کیوں خود میدان عمل میں نہیں آجاتے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بابا رحمتے کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ جلد طلبہ اور وکلا کو لیکچر بھی دیں گے۔ اپنی اور اپنی فیملی کی جان پاکستان کی خاطر انھوں نے داو پر لگائی ہے، ان کے خون سے انقلاب آنا ہے تو اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے برخودار۔۔۔
مریم نواز اور ان کے حواری الزام تراشی کرتے ہیں کہ جنرل فیض فیصلے کرواتے رہے آپ سے؟ بالآخر میں نے چبھتا ہوا سوال کردیا۔ اس پر میاں ثاقب نثار طیش میں آگئے اور بولے ان کو نہ کوئی ڈرا سکتا ہے، نہ جھکا سکتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے فیصلے کرتے رہے ہیں۔ کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ ان سے فیصلہ کرواتا۔
پھر میں نے پوچھا کہ کیا عمران خان پروجیکٹ میں وہ بھی شامل تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ عمران خان پروجیکٹ کا ان کو علم نہیں، کامیاب ہوا یا ناکام یہ قوم دیکھ رہی ہے۔
میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ برخوردار میں ویڈیو انٹرویو نہیں دے سکتا۔ ٹی وی کے بہت سے نامور اینکروں نے بھی رابطہ کیا مگر ان کو انکار کردیا۔ جو باتیں تم سے کی ہیں اب اس سے تم کیا تاثر لیتے ہو یہ تم پر منحصر ہے۔ جو لکھنا اور بولنا ہے وہ تم کرسکتے ہو۔ یعنی سابق چیف جسٹس نے بال میری کوٹ میں ڈال دی۔
میں مصافحہ کرکے نکلا تو میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ استقبالیہ ہال کی دیوار پر مار خور کے بجائے عدلیہ کا لوگو کیوں نہیں؟ سابق چیف جسٹس کی باتوں سے میرے ذہن میں یہ تاثر قائم ہوا کہ عمران خان کے بطور وزیراعظم کچھ نہ کرپانے پر ان کو افسردگی ہے۔ مریم نواز جلسوں میں جس طرح ’’بدتمیزی‘‘ کرتی ہیں ان پر میاں نوازشریف کی تربیت کا کتنا اثر ہے اس پر وہ رنجیدہ نہ سہی لیکن آج کل کے بچوں کے لیے فکر مند ہیں جو ان کو سنتے ہیں۔ جنرل باجوہ کے حوالے سے عمران خان کے بیانات پر ان کو دکھ ہے کیونکہ سابق آرمی چیف اور وہ سوچتے ہیں کہ" کیا سوچا تھا کیا ہوا اور کیا نکلا؟"