عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی نائن الیون کے بعد شروع ہوئی جب امریکا نے حملے کا الزام القاعدہ پر لگا کر افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ پھر امریکی اور اتحادی افواج سے افغان طالبان کی طویل لڑائی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ کالعدم تحریک طالبان پاکستان بھی وجود میں آئی جس نے افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں۔

Raftar Bharne Do

یہ بات حقیقت ہے کہ افغانستان پر امریکا کے حملے اور ٹی ٹی پی قائم ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ خاص طور پر مسجدوں، مزاروں، امام بارگاہوں، بازاروں میں خود کش دھماکے اتنے تواتر سے پیش آنے لگے کہ پورے ملک میں خوف و دہشت کی فضا قائم ہوگئی۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی تاریخ کم از کم ساٹھ سال پرانی ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا بڑا واقعہ

ملک میں دہشت گردی کا پہلا بڑا واقعہ 3 جون 1963 کو سندھ کے شہر خیرپور کے قریب ٹھیڑی میں پیش آیا تھا۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے اس واقعے میں شرپسندوں نے 10 محرم کو نکلنے والے جلوس کے شرکا پر فائرنگ کی تھی اور ان پر مویشی چھوڑ دیے تھے۔ اس واقعے میں 118 افراد جان سے گئے تھے۔ یہ ایوب خان کا دور تھا۔

ملک کی تاریخ کا پہلا بڑا بم دھماکا

‏1979ء میں روس نے افغانستان پر حملہ کرکے وہاں قبضہ کرلیا تھا۔ امریکا روسی قبضے کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کی مدد کرتا تھا اور اس کام میں پاکستان اس کے ساتھ تھا۔ ادھر روسی سرپرستی میں قائم ہونے والی افغان حکومت پاکستان کو اپنا دشمن تصور کرتی تھی اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی خاد، روس کی کے جی بی کے ساتھ ملک کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرنے لگی تھی۔

Raftar Bharne Do
Russian Tanks In Afghan Capital Kabul

80 کی دہائی کے وسط میں ضیاءالحق کے دور میں پاکستان کے کئی شہروں میں دھماکوں کے واقعات پیش آنے لگے تھے تاہم پہلا بڑا واقعہ 1987 میں پیش آیا۔ 14 جولائی 1987 کو کراچی کے علاقے بوہری بازار میں دو کار بم دھماکے ہوئے۔ ان خوفناک دھماکوں میں 75 افراد جاں بحق اور 300 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

Raftar Bharne Do
Karachi Main Bomb Blasts Ki Khabar Ka Aks

پاکستانی حکام نے ان دھماکوں کا الزام افغانستان اور روس کی خفیہ ایجنسیوں پر عائد کیا۔ 1987 میں پاکستان میں دہشت گردی کے 127 واقعات پیش آئے جن میں 234 افراد شہید اور 1200 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ان واقعات کے تانے بانے افغانستان سے ملتے تھے۔ اس کے بعد بھی 1989ء میں روس کے افغانستان سے نکلنے تک پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے جن کا الزام افغان خفیہ ایجنسی پر لگایا جاتا رہا۔

بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی

90 کی دہائی میں بھی پاکستان میں بم دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر اب ان کی تاریں افغانستان کے بجائے بھارت سے ہلائی جارہی تھیں۔ 90 کی دہائی میں پیش آنے والے بڑے واقعات یہ رہے۔

‏7 مئی 1990 کو لاہور کے قریب ٹرین میں بم دھماکے سے 21 افراد شہید اور 30 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس کے کچھ دن بعد 18 مئی کو لاہور ہی میں ایک سنیما کے قریب دھماکے سے 10 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔

‏16 جولائی کو حیدرآباد میں 7 بم دھماکوں میں 43 افراد کی موت ہوئی۔ پولیس حکام کے مطابق ان دھماکوں میں سندھی قوم پرست ملوث تھے جن کو بھارت کی مدد حاصل تھی۔
‏15 اپریل 1996 کو شوکت خانم اسپتال میں دھماکے سے 6 افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ دھماکا عمران خان کی جانب سے نئی سیاسی جماعت پی ٹی آئی قائم کرنے کے اعلان کے ایک دن بعد ہوا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ دھماکا ان کو خوفزدہ کرنے کے لیے ہے لیکن وہ رکیں گے نہیں۔

Raftar Bharne Do
Shaukat Khanum Hospital Main Blast Ke Baad Ka Manzar

28 اپریل کو ضلع قصور میں بھائی پھیرو کے قریب بم دھماکے میں 50 سے زیادہ افراد جان سے گئے۔ زیادہ تر مسافر عید الاضحیٰ منانے اپنے گھروں کو جارہے تھے۔

22 جولائی 1996 کو لاہور ایئرپورٹ پر بریف کیس بم دھماکے میں 9 افراد زندگی سے محروم ہوئے۔ یہ اس سال کا 13 واں بم دھماکا تھا۔ اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھارت پر ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

3 دسمبر 1996 کو چینی صدر Jiang Zemin کے دورے کے موقع پر لاہور میں بم دھماکا ہوا جس سے بارہ سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ چینی صدر اس وقت لاہور ہی میں تھے۔ اسی دن کراچی کے ریڈ زون میں پی آئی ڈی سی پر نیشنل بینک کے باہر بم دھماکا ہوا جس میں 17 افراد زخمی ہوئے۔

اس کے بعد بھی لاہور، پشاور، کراچی، کوئٹہ اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں بم دھماکوں کے واقعات پیش آتے رہے۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا خود کش حملہ

19 نومبر 1995 کو اسلام آباد میں مصر کے سفارت خانے پر خود کش حملہ کیا گیا۔ حملہ آور نے بارود سے بھرا ٹرک سفارت خانے کے احاطے میں اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق اور نوے زخمی ہوئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا خودکش حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم حملہ آور کوئی پاکستانی نہیں بلکہ مصری تھے۔ مصر کی تین تنظیموں نے اس دھماکے کی ذمے داری قبول کی جن میں ایمن الظواہری کی تنظیم بھی شامل تھی۔

Raftar Bharne Do
مصری سفارت خانے پر حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی: تصویر: AP

6 نومبر 2000 کو کراچی میں معروف اخبار نوائے وقت کے دفتر میں ایک خاتون نے خود کو دھماکے سے اڑالیا تھا۔ اس حملے کی وجوہات کا حتمی طور پر تعین نہیں ہوسکا تاہم امکان ظاہر کیا گیا کہ یہ شہر کا امن و امان خراب کرنے لیے کیا گیا۔ یہ واقعہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ پاکستان میں ایسا پہلا خود کش حملہ تھا جو کسی پاکستانی کی جانب سے کیا گیا۔

نائن الیون کے بعد 7 اکتوبر 2001 کو امریکا نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کردیا۔ وہاں طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو القاعدہ اور دوسری تنظیموں کے ملی ٹینٹس نے پاکستان اور دوسرے پڑوسی ملکوں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد سے پاکستان میں آگ اور خون کا ایک ایسا کھیل شروع ہوا جس کے اثرات اب تک باقی ہے۔ ان 20 سال میں سیکڑوں بم دھماکوں میں ہزاروں پاکستانی شہید ہوچکے ہیں مگر دہشت گردی کا یہ ناسور اب تک ختم نہیں ہوسکا۔

شیئر

جواب لکھیں