مختلف ملکوں کے سربراہان کے ایک دوسرے کو تحائف دینے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ زیادہ تر چھوٹے ملکوں کے بادشاہ بڑے ملکوں کے بادشاہوں کو تحفے بھیجا کرتے تھے تاکہ ان کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کے تحائف

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ملک سبا کے لوگ سورج اور ستاروں کی پرستش کیا کرتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہونے والے ہدہد نے اس کی خبر انھیں دی تو انھوں نے ملکہ سبا کو خط ارسال کر کے اسلام قبول کرنے کا حکم دیا۔ ملکہ سبا نے یہ خط اپنے امرا اور درباریوں کو سنا کر ان سے مشورہ چاہا۔  

مشیروں نے جنگ کا مشورہ دیا تو ملکہ بلقیس نے کہا کہ پہلے ہم انھیں قیمتی تحفے بھیج کر ان کا امتحان لیتے ہیں کہ وہ واقعی میں اللہ کے نبی ہیں یا صرف ایک دنیاوی بادشاہ۔ اگر وہ نبی ہیں تو ان تحائف کو قبول نہیں کریں گے بلکہ اپنے دین کی پیروی کا حکم دیں گے اور اگر وہ صرف بادشاہ ہوں گے تو یہ قیمتی تحفے خراج کے طور پر قبول کرلیں گے یا مزید خراج کی فرمائش کریں گے۔ چنانچہ ملکہ بلقیس نے بہترین ملبوسات اور زیورات سے آراستہ پانچ سو غلام، پانچ سو لونڈیاں، پانچ سو سونے کی اینٹیں، بہت سے ہیرے جواہرات حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں بھیجے۔

قرآن کریم کی سورہ نمل میں بیان کیا گیا ہے کہ جب قاصد یہ تحائف لے کر حضرت سلیمان کے پاس پہنچا تو انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ میرے اللہ نے جو مجھے عطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے، یہ تحفے واپس لے جاؤ۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ اگر ملک سبا کے لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا تو وہ ان پر لشکر کشی کریں گے۔ اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں کو ملکہ سبا کا تخت لانے کا حکم دیا۔ جنوں میں سے ایک طاقت ور جن نے کہا کہ وہ مجلس برخاست ہونے سے پہلے تخت لے آئے گا۔ ایک درباری جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے وہ تخت پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کردیا۔ ملکہ سبا حضرت سلیمان کے محل پہنچیں تو اپنا تخت وہاں دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ محل کی شان و شوکت نے بھی ان کے دل میں حضرت سلیمان کی عظمت کا یقین پیدا کردیا اور وہ ان پر ایمان لے آئیں۔

اس واقعے سے سربراہان مملکت کے ایک دوسرے کو تحفے بھیجنے کے تاریخی شواہد ملتے ہیں۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی مختلف ملکوں کے سفیر تحائف لے کر آتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چیزیں ضرروت مندوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ سرکاری افسروں کو ملنے والے تحائف کے متعلق بخاری اور مسلم میں ایک حدیث بھی ہے جس سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ ایسے تحفوں کے متعلق اسلامی احکامات کیا ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحفہ رکھنے والے عامل کے بارے میں کیا کہا؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص ابن التيبہ کو زکات وصول کرنے کے لیے عامل بنایا، جب وہ (زکات وصول کر کے) آئے تو انھوں نے کہا یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ان عاملوں کا کیا حال ہے کہ میں ان کو (زکات وصول کرنے) بھیجتا ہوں اور یہ آ کر کہتے ہیں یہ تمھارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ (تحفہ) کیا گیا ہے۔ یہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا ہوتا پھر ہم دیکھتے کہ اس کو کوئی چیز ہدیہ کی جاتی ہے یا نہیں..! قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! تم میں سے جو شخص بھی ان اموال میں سے کوئی چیز لے گا قیامت کے دن وہ مال اس کی گردن پر سوار ہو گا (کسی شخص کی گردن پر) اونٹ بڑبڑا رہا ہو گا، یا گائے ڈکرا  رہی ہو گی یا بکری منمنا رہی ہو گی۔

  • بخاري، الصحيح، كتاب الأحكام، باب هدايا العمال، 6: 2624، رقم: 6753، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  • مسلم، الصحيح، كتاب الإمارة، باب تحريم هدايا العمال، 3: 1463، رقم: 1832، بيروت: دار إحياء التراث العربي

اس حدیث مبارکہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہدے پر فائض ہونے کی وجہ سے ملنے والے تحفوں کو مملکت کا حق قرار دیا ہے۔

حضرت عمر فاروق نے اہلیہ کو تحفے میں ملنے والے جواہرات کا کیا کیا؟

اسی طرح حضرت عمر فاروق کے دور  کا ایک واقعہ بھی بہت معروف ہے۔ حضرت مالک بن اوس بن حدثان رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس روم کے بادشاہ کا ایک قاصد آیا۔ حضرت عمر بن خطاب کی بیوی نے ایک دینار ادھار لے کر عطر خریدا اور شیشیوں میں ڈال کر وہ شیشیاں اس قاصد کے ہاتھ روم کے بادشاہ کی بیوی کو تحفے کے طور پر بھیج دیں۔ جب قاصد روم پہنچا تو اس نے عطر کی وہ شیشی شاہ روم کی بیوی کو پیش کی کہ مسلمانوں کے خلیفہ کی اہلیہ نے آپ کے لیے یہ تحفہ بھیجا ہے ۔ شاہ روم کی بیوی کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی کی اہلیہ کا یہ تحفہ پسند آیا۔ شاہ روم کی بیوی نے ان شیشیوں کو عطر سے خالی کرکے جواہرات سے بھر دیا اور حضرت عمر کی اہلیہ کو تحفتاً بھیج دیں۔ حضرت عمر کی اہلیہ کو جب یہ شیشیاں موصول ہوئیں تو وہ ان جواہرات کو بچھونے پر نکال کر دیکھنے لگیں۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔ انھوں نے جواہرات کے متعلق پوچھا تو اہلیہ نے سارا قصہ بیان کردیا۔ حضرت عمر نے تمام جواہرات جمع کیے اور بازار میں لے جا کر فروخت کردیے۔ حاصل ہونے والی رقم میں سے صرف ایک دینار اپنی اہلیہ کو دیا باقی بیت المال میں جمع کرادی۔

مغربی ممالک میں توشہ خانہ سے متعلق قواعد

یہ ہیں اسلام کی وہ درخشندہ روایات جن پر مسلم ممالک کے بجائے مغربی ممالک میں زیادہ عمل کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں وزیراعظم یا کوئی وزیر صرف 140 پاؤنڈ سے کم قیمت کے تحائف بغیر قیمت ادا کیے رکھ سکتا ہے۔ اس سے زیادہ مالیت کے تحفے رکھنے کے لیے انھیں پوری رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔

امریکا میں بھی 1966 میں ایک قانون منظور کیا گیا جس کی رو سے امریکی صدر صرف 375 ڈالر کا تحفہ مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس سے زیادہ قیمت کے تحفے رکھنے کے لیے مکمل ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ امریکا میں اس قانون سازی کی ضرورت اس وقت پیش آئی تھی جب تیل کی دولت سے مالامال ممالک عرب ممالک تحفوں میں بہت فیاضی دکھانے لگے تھے اور امریکی صدور کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قیمتی گاڑیاں دینے لگے تھے۔

 دوسری جانب ہم پاکستان کے توشہ خانہ کا پبلک کیا گیا ریکارڈ دیکھتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ایک لوٹ سیل لگی ہوئی تھی۔ پندرہ بیس فیصد رقم جمع کراکے کروڑوں روپے کے تحفے گھر لے جائے گئے۔ یہ تحفے نہ صرف حکمرانوں نے وصول کیے بلکہ ان کی بیوی بچوں نے بھی جی بھر کے ارمان نکالے۔ اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے۔  

شیئر

جواب لکھیں