علاقے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ آدھی رات کو مسجد کا لاوڈ اسپیکر گونج اٹھا۔ بھئی یہ کونسی نماز کا وقت ہے؟ بستر میں سوئے لوگ چونک کر گھڑی دیکھنے لگے۔ مگر لاؤڈ اسپیکر سے اذان نہیں، ایک حکم نامہ نشر ہو رہا تھا۔ سب کو گھروں سے نکل کر ایک گراؤنڈ میں جمع ہونے کا کہا جا رہا تھا۔ وہاں آ کر جب ان زبردستی کے تماشایوں نے نظریں اٹھائیں تو ان کی نیند بھاپ بن کہ اڑ گئی، خون جیسے رگوں میں جمنے لگا۔ ویسے تو یہ لوگ ایک سے بڑھ کر ایک خوفناک منظر دیکھنے کے عادی تھے۔ لیکن یہ سین دیکھ کر وہ زندگی بھر کے لیے ٹراماٹائز ہوگئے۔ گراؤنڈ میں کچھ لوگ فٹ بال کھیل رہے تھے۔ مگر ٹہریے، وہ فٹ بال نہیں تھی۔

ایک دہائی تک شہر میں دہشت پھیلانے والا ارشد پپو تو انجام کو پہنچ چکا تھا۔ لیکن اس کی موت نے کئی سوالوں کو جنم دیا۔ پپو کو کس نے اغوا کر کے عزیر بلوچ کے حوالے کیا؟ کیا اس قتل کا کوئی سیاسی پہلو بھی تھا؟ کیا پولیس بھی اس گندے کھیل میں شامل تھی؟ عزیر کے خلاف گواہی کے موقع پر پپو کی بیوی اور بیٹے کو کس نے غائب کیا؟ اور پھر اس کیس میں بری افسران کو نامعلوم افراد نے کس کے کہنے پہ قتل کیا؟ سوال بہت ہیں مگر وقت کم۔ اسی لیے ریڈی ہوجائیں، جواب کی تلاش میں ہمیں لیاری جانا ہوگا۔

1980 چیل چوک

آپ نے برٹش سیریز پیکی بلائنڈرز دیکھی ہے۔ کیسے مختلف گینگز کا علاقوں پہ قبضہ ہوتا ہے اور وہاں جرائم کا بازار گرم ہوتا ہے۔ ایسا کچھ 80s میں شہر کے سب سے پرانے علاقے لیاری میں ہو رہا تھا۔ دس لاکھ آبادی کا یہ غریب علاقہ فٹبال، باکسنگ، ڈانس اور مارشل آرٹ ہی نہیں، اسلحہ، منشیات، اغوا اور اسمگلنگ کے لیے بھی مشہور رہا ہے۔ ایک دور میں تو یہ جنگ زدہ علاقہ معلوم ہوتا تھا بالکل وزیرستان جیسا۔

اچھا مزید آگے بڑھنے سے پہلے آپ جان لیں کے اس ایکشن تھرلر میں کیرکٹرز بہت سارے ہیں اور بھائی ہمیں پتہ ہے اتنے نام یاد رکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ آسان کیے دیتا ہوں۔

یہ نیلے رنگ میں لیاری کا علاقہ بغدادی ہے۔ یہاں اُن دنوں دادل کا راج تھا۔ بھتے سے لیکر منشیات تک، ہر دھندا خوب چمک رہا تھا۔ ایسے میں دو اور کرداروں نے لیاری میں پیر جمائے۔ میں بات کر رہا ہوں حاجی لالو اور بابو ڈکیت کی۔ حاجی لالو اور اس کے سات بیٹوں کی شیرشاہ قبرستان پر دھاک جمی تھی اور بابو ڈکیت کلری کے آس پاس سرگرم تھا۔ لیکن پھر اسی حد بندی کی وجہ سے کئی حدیں پار ہوگئیں۔ بابو ڈکیت نے دادل کو قتل کر دیا۔ دادل کا بیٹا بدلے کی آگ میں جلنے لگا۔ اندازہ لگائیں کہ محض اس شک پر کہ اس کی ماں کے بابو ڈکیت سے تعلقات ہیں، اس نے اپنی پیدا کرنے والی کو بھی نہ بخشا اور کچھ ہی عرصے بعد بابو ڈکیت کو بھی مار کر باپ کے قتل کا بدلہ لے لیا۔ میں بات کر رہا ہوں عبدالرحمن بلوچ، عرف رحمان ڈکیت کی۔ لالو نے رحمان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ بہت جلد لالو کا بیٹا ارشد پپو اور رحمان بلوچ جرائم کی دنیا پر راج کرنے لگے۔

لیاری میں اختتام

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

اس کے بعد رحمان اور یہ سب مل کے اس کاروبار کو دیکھ رہے تھے۔ رحمان یاسر عرفات اور پپو۔ وہاں سوچ یہ تھی کہ ہم جوائنٹ وینچر میں اس کو ایک قوت بن کر چلائیں تاکہ باقی گروپس کے ساتھ ہم لڑ سکیں۔

کچھ عرصے تو یہ پارٹنرشپ چلی مگر پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس کے بعد دونوں نے ہمیشہ کے لیے راہیں جدا کرلیں۔

جرنلسٹ فیصل شکیل کہتے ہیں:

حاجی لالو کے پاس رحمان کے پیسے جمع ہوئے جو ایک کروڑ تھے۔ تو رحمان نے پیسوں کا مطالبہ کیا تو حاجی لالو نے اسے گرفتار کرا دیا۔ گرفتار ہوا تو پھر اس کے بعد رحمان کو پیشی پہ لے جایا گیا اور رحمان سٹی کورٹ سے فرار ہوگیا۔ پھر اس نے جرم کی دنیا میں دوبارا قدم رکھا اور تیزی سے مقبولیت حاصل کی اور اپنا گینگ اسٹیبلش کیا۔

پپو بمقابلہ رحمان

کل کے دوست دشمن بن چکے تھے۔ پپو گینگ۔ اب رحمان گینگ کے مقابل کھڑا تھا۔ ساتھ مرنے کی قسمیں کھانے والے، اب ایک دوسرے کی لاش دیکھنا چاہتے تھے۔ پیسے اور طاقت کا خوفناک کھیل شروع ہوچکا تھا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ، اٹیک از دا بیسٹ ڈیفنس۔ پپو نے رحمان کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

تو پپو کا گروپ جو تھا، اس نے سب سے پہلا حملہ رحمان پہ کیا اور یہ جو اٹیک تھا، یہ کلاکوٹ کے علاقے میں کیا گیا۔ یہ اس قدر شدید تھا کہ رحمان اس میں بچ تو گیا لیکن رحمان کو لیاری چھوڑنا پڑا اور رحمان ڈکیت رحمان بلوچ کو لیاری چھوڑ کر بلوچستان جانا پڑا۔ جب رحمان بھاگ گیا تو اس کے گروپ کے کچھ اور لوگ جو تھے یہاں رہتے تھے اور لڑائی ہوتی رہتی تھی لیکن، ان کے رشتے دار ایک دوسرے کا بہت آسان ٹارگٹ بننے لگے۔ تو پھر جب بدلے کے لیے رحمان کے لوگوں نے اٹیک کیا تو پھر جو تھے پپو کے ساتھی انور بھائی جان، وہ اپنی جان سے گئے۔

جرنلسٹ فیصل شکیل کہتے ہیں:

کراچی کی ایک نامور ہستی تھی کراچی کی انور بھائی جان۔ وہ ارشد پپو کی بیوی کا ماموں تھا۔ رحمان نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ایک تو وہ ارشد پپو کو ٹھیس پہنچانا چاہتا تھا دوسرا انور بھائی جان سرگرم تھے۔ تو اس نے اس وقت انور بھائی جان کو مارا جب وہ کسی جنازے سے آ رہے تھے۔

سابق ایس ایس پی فیاض خان کہتے ہیں:

رحمان ڈکیت اور ارشد پپو کی گینگ وار اب لیاری تک محدود نہیں تھی۔ یہ لیاری سے نکل کر کراچی کے مختلف مضافاتی علاقوں، خصوصاً جو بلوچ اور سندھی آبادی تھی، ان میں منشیات فروش تھے، گینگسٹر تھے، وہ بھی ایکٹو تھے، وہ دو حصوں میں بٹتے جا رہے تھے۔ کچھ لوگ جو تھے وہ رحمان ڈکیت کے ساتھ تھے، کچھ ارشد پپو کے ساتھ تھے اور اب یہ اس نوعیت تک پہنچ چکی تھی کہ پپو کو انفورمیشن ملتی تھی کہ یہ رحمان کے لیے کام کر رہا ہے تو وہ اس کو اٹیک کرتا اور رحمان کو انفورمیشن ملتی کے کوئی پپو کے لیے کام کر رہا ہے تو وہ اس کو اٹیک کرتا۔

کئی جانیں گنوانے کے بعد پپو کا غصہ اب آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ خون کی قیمت خون سے چکائی جائے گی۔ وہ رحمان کے ایک قریبی ساتھی کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگا اور اس کو رستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنا لیا۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

پھر ارشد پپو حب میں سعیدآباد کے مقام پہ پہنچا اور وہاں پہ جاکہ رحمان ڈکیت کا جو چچا تھا، اس کو اس نے فون کیا اور وہاں پر اسے رکارڈنگ سنائی کہ میں تیرے چچا کو قتل کررہا ہوں۔

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

ان پہ پہلے تشدد کیا گیا اور پھر رحمان کو کال کی گئی اور بتایا گیا کہ تمہارا چچا ہمارے پاس ہے اس سے بات کرو، اس سے بات کرائی اور پھر اس پہ تشدد کیا اور وہ آوازیں اسے سنائی گئیں۔ پھر اس کو گولی ماری تو اس کی آواز بھی رحمان کو سنائی گئی۔

سابق ایس ایس پی فیاض خان مزید کہتے ہیں:

تو اس نے رحمان کو کال کی اور اسے کہا کہ میں اس کے بعد بھی یہاں ایک گھنٹے تک موجود ہوں، اگر تم آ رہے ہو تو میں موجود ہوں، اگر ہمت ہے تو آ جاؤ۔ پھر لائو اس نے سنایا جو اس کے چاچا کے ساتھ کیا اور واقعی ایک گھنٹے تک بیٹھا رہا وہاں پہ۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

پھر رحمان یہاں سے فرار ہوگیا۔ اس نے کہا کہ یہ ارشد پپو والا انتہائی ایکٹو گروپ ہے۔

پپو کا ایک اور حملہ

یہ ہماری کہانی کا اہم حصہ ہے۔ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو شاید آنے والے برسوں میں گینگ وار ہی نہ ہوتی۔ پپو نے اب ایسی دشمنی پال لی تھی جو آگے چل کر اسی کے گلے پڑنے والی تھی۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

فیضو ماما جو تھا وہ ٹرانسپورٹرز سے بھتے کی کلیکشن کرتا تھا گینگ وار کے لیے۔ اچھا وہ پہلے ارشد پپو کے لیے کام کرتا تھا، حاجی لالو والوں کے لیے۔ لیکن یہ جو پیسہ تھا اس کی کلیکشن کا چارج رحمان ڈکیت نے لیا تھا۔ اس نے کہا جب لیاری میں ٹرانسپورٹر آتے ہیں تو ہم ان سے کیوں نہ کمائیں۔ جب ان کی لڑائی ہوگئی تو پپو نے کہا بھتا مجھے دو، رحمان نے کہا مجھے دو، تو اس کے درمیان پپو نے اسے اغوا کیا اور اسے قتل کردیا۔

آپ نے اوپر دیکھا کہ بدلے کی خواہش کس طرح رحمان کو جرم کی دنیا تک کھینچ لائی تھی۔ مقتول فیضو ماما کا بھی ایک بیٹا تھا۔ بڑا ہونہار، جرائم سے کوسوں دور۔ وہ تو لیاری جنرل ہسپتال میں وارڈ بوائے کا کام کر رہا تھا۔ لیکن تاریخ نے پھر خود کو دہرایا۔ باپ کے انتقام کی آگ نے اس لڑکے کو بھی گینگ وار میں گھسیٹ لیا۔ انٹری اس کی ایک معمولی درباری کی حیثیت سے ہوئی مگر پھر وہ اس ایمپائر کا بادشاہ بن گیا، جی ہاں، میں بات کر رہا ہوں عزیر بلوچ کی۔ جس طرح لالو نے رحمان کی ٹریننگ کی تھی نا، اب ویسے ہی رحمان عزیر کا استاد بن گیا۔

یہاں یہ چل رہا تھا تو دوسری طرف ارشد پپو لیاری کا بے تاج بادشاہ بن چکا تھا۔ رحمان اس کے سامنے نہ ٹک سکا اور فرار ہوگیا۔ مگر پپو کا گینگ مستقل اس کے نیٹورک کو نشانہ بنا رہا تھا۔ شہر میں روز خون کی ہولی کھیلی جاتی۔ آخر اداروں کو ہوش آیا اورFebruary 2006 میں پپو کو لگام ڈالنے کا فیصلہ ہوگیا۔

پپو جیل میں

سابق ایس ایس پی فیاض خان کہتے ہیں:

میں نے جب 2006 میں ارشد پپو کو گرفتار کیا، تو اس آپریشن سے پہلے میٹنگز میں بہت تفتیش ہوتی تھی کہ کراچی میں جو گینگ وار ہے صورتحال قابو سے باہر ہوگئی ہے اور اس کا خاتمہ کیا جائے۔ مجھے ارشد پپو پہ کہا گی کہ آپ اس پہ کام کریں۔ تو مجھے ایڈوانٹیج یہ تھا کہ میری پوسٹنگ زیادہ لیاری میں رہی تھی۔ میرا ایک بڑا زبردست نیٹورک تھا لیاری کا۔ پپو تک پہنچنے سے پہلے میں نے اس کے گینگ کے بہت سارے لوگ پکڑے۔ تو نوبت یہ آئی کہ ارشد پپو کو کراچی چھوڑ کہ بلوچستان جانا پڑا۔ تو میں نے اس کے پیچھے بہت سی جگہوں پہ ریڈ کیے۔ تو ہم نے جب خوضدار میں ریڈ کیا تو وہاں اس کے میزبان ایک علیحدگی پسند گروپ کے لوگ تھے۔ تو وہاں جب ہم نے ریڈ کیا تو انکاونٹر ہوگیا اور یہ بھاگ کہ نکل گیا اور کراچی آگیا۔ میرے پاس جو انفو تھی وہ زبردست تھی، مجھے پتا چل چکا تھا کہ یہ لیاری میں کہاں ہے، نیا باد میں ہم نے ایک جگہ ریڈ کیا تو یہ وہاں ے مل گیا اور ایک مختصر سا انکاونٹر ہوا جس کے بعد ہم نے اسے گرفتار کرلیا۔

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

پپو اس لیے نہیں بچ سکتا تھا کیونکہ پپو کا جو سب سے قریب آدمی تھا وہ رابطے میں تھا اداروں کے ساتھ اور انہیں پپو کے سونے کا جاگنے کا، کس فلور پہ موجود ہے اس کا اور کہاں پہ ہے اور کس طرح کے کپڑے پہنے ہیں یہ تک معلوم ہوتا تھا۔

سابق ایس ایس پی فیاض خان کہتے ہیں:

ارشد پپو نے دوران انٹیروگیشن یہ بھی انکشاف کیا کہ کراچی میں بہت سی تنظیمیں تھیں جو اسے اپنے ساتھ شامل کرنے پہ زور دے رہی تھیں۔ کراچی کا انڈرورلڈ کا ڈان تھا شعیب خان، وہ اس سے اکثر فون پہ بات کرتا تھا اور اسے آفر کی کہ تم میرے ساتھ مل کہ کام کرو، پیسے بھی کماو گے، نام بھی اور میں تمہیں شیلٹر بھی دوں گا۔ لیکن وہ اس پہ بھی ٹرسٹ نہیں کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ شعیب خان ایجنسیز کے لیے کام کرتا ہے اور اسے پکڑوا دے گا۔

رحمان ڈکیت کی واپسی

پپو کی پکڑائی سے رحمان کو فریش لیز آف لائف مل گئی۔ وہ ایک بار پھر کراچی لوٹا اور لیاری میں اپنا سکہ بٹھانے کی کوششیں تیز کردیں۔ ویسے تو پپو کا نیٹورک توڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا، لیکن جہاں سیاسی سرپرستی ہو وہاں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا اور یہ کام پیپلز پارٹی نے کر دکھایا۔

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

پالٹکل سرپرستی میں آپ یہ دیکھیں نا کہ ایک ٹائم تھا جب رحمان کو پولیس ڈھونڈ رہی ہوتی تھی، یہی پولیس یہی سی ٹی ڈی رحمان کے پیچھے تھے اور پھر جب معاملات سہی ہوئے، تو پھر وہ ہی رحمان جب بینظیر پہ حملہ ہوا، تو پرائم منسٹر کو بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچانے کی زمہ داری اسی رحمان کے پاس تھی۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

جب ارشد پپو گرفتار ہوا تو اس کے پیچھے کوئی سربراہ نہیں تھا لیاری کا۔ پھر رحمان ڈکیت کو وہاں اتارا گیا۔ رحمان ڈکیت کے پاس جو طاقت آئی ہے وہ ارشد پپو کی گرفتاری کے بعد آئی ہے۔ وہ لیاری میں ان ہوا ہے، تو ارشد پپو کے بعد ہوا ہے۔ جو ارشد پپو کے لڑکے تھے وہ رحمان کے بھی دوست تھے، ارشد پپو مضبوط تھا، وہ لڑکے ارشد پپو کی طرف چلے گئے، جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارا کمانڈر یا لیڈر گرفتار ہوگیا ہے تو ہم اسے کیسے آپریٹ کریں گے۔ جب رحمان آیا اس نے میٹنگ کی لڑکوں سے، انہیں بتایا کہ اب سب میرے پاس ہے، تو وہ لڑکے اس کی طرف آگئے۔

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

دیکھیں یہ جو گینگز ہوتے ہیں نا یہ ڈے ٹو ڈے بیسز پہ کام کرتے ہیں۔ کہ آج انہوں نے دیکھ لیا کہ رحمان طاقت میں ہے تو اس کی طرف کچھ لوگ ہوگئے، کل دیکھا پپو طاقت میں ہے تو اس طرف ڈائورٹ ہوگئے، پرسوں دیکھا کہ عزیر کا بول بالا ہے، تو اس طرف ہوگئے۔

وہ کہتے ہیں نا وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ جو پپو کراچی پر راج کرتا تھا وہ اب سلاخوں کے پیچھے تھا اور اس کا تخت دشمنوں کے پاس۔ پھر ۲۰۰۸ میں الیکشن ہوتے ہیں اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار سنبھال لیتی ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی اسمبلی میں تو ساتھ ہوتے مگر کراچی کی سڑکوں پر یہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دکھائی دیتے۔ یہاں پیپلز امن کمیٹی بنتی ہے جس کا چیرمین رحمان کو بنادیا جاتا ہے۔ یہ لیاری میں پی پی پی کا عسکری بازو تھا جس کے ذریعے وہ ایم کیو ایم کو ٹف ٹائم دینا چاہتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب کرمنلز میں اسلحے کے لائسنس بانٹے گئے اور جیسا کہ ذوالفقار مرزا نے کہا، کوئی ہوائی فائرنگ کرنے کے لیے تھوڑی بانٹے تھے۔

لیاری کے غریب نوجوانوں کے لیے یہ بڑا پرکشش سودا تھا۔ رحمان کی طرف سے انہیں تنخواہ، بندوق اور بائیک ملتی۔ یہی نہیں انہیں چھ جیبوں والی کارگو پینٹس اور چیک والی شرٹ کا یونی فارم بھی دیا جاتا۔ یوں وہ ایک ایک کر کے گینگ مافیا کا حصہ بنتے چلے گئے۔

رحمان کی گرفت لیاری پر ایسی مضبوط ہوئی کہ پیپلز پارٹی بھی بوکھلا گئی۔ کونسلر سے لے کر ضلعی ناظم تک، جو آتا رحمان کی مرضی سے آتا اور وہ وقت بھی آیا کہ بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے تمام امیدوار یہاں بری طرح ہارے اور ساری سیٹیں رحمان کی جھولی میں آ گریں۔ جرم اور سیاست کی بساط پر رحمان اور عزیر کا ہولڈ بڑھتا چلا گیا مگر اب اسے کنٹرول کرنا ضروری ہوچکا تھا۔

ریاست نے سیاست کی بساط پر نئی چال چلی۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک فیصلہ ہوا اور جنوری ۲۰۰۹ میں خبر آئی کہ رحمان ڈکیت چوہدری اسلم کے ہاتھوں ایک انتہائی متنازع پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ وہ انکاونٹر کتنا اصلی تھا یہ فیصلہ آپ خود کر لیں۔ ویسے ایک خوفناک فیک انکاونٹر کی کہانی ہم آپ کو اگلے آرٹیکل میں سنانے والے ہیں۔ پڑھنا مت بھولیے گا۔

تو جناب اب امن کمیٹی نے عزیر بلوچ کو اپنا چیرمین چن لیا۔ عزیر پیپلز پارٹی کو ہر طرح کی کرمنل سپورٹ فراہم کرتا رہا۔ پارٹی کا خیال تھا کہ عزیر ان کا بغل بچہ بنا رہے گا، مگر بہت جلد یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب کھلے عام بازاروں میں بھتے کی پرچیاں بانٹی جاتیں اور مسافروں کو بس سے اتار کر زبان کی بنیاد پر تشدد کر کے مار دیا جاتا۔ اسی دوران شیر شاہ مارکیٹ سانحہ ہوا جب دکانداروں کا قتل عام کیا گیا۔ پھر تو شہر میں روز بیس پچیس لاشیں ملبا معمول بن گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ لواحقین نے تھانے میں رپورٹ کرنا بند کر دی۔

اس ساری سیوچوئیشن میں پیپلز پارٹی نے امن کمٹی اور عزیر بلوچ کو ڈناونس کیا اور گینگ وار میں ہزار افراد کے قتل کے بعد لیاری میں پولیس آپریشن لانچ کردیا۔ ایک ہفتے بعد کچھ حاصل کیے بغیر یہ آپریشن ختم کردیا گیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ارشد پپو کہاں تھا؟ اور ایسا کیا ہوا کہ اسے اگلے ہی سال ضمانت پہ رہا بھی کردیا گیا؟ وہ بھی ایک ایسے وقت جب لا اینڈ آرڈر کی سچویشن خطرناک حد تک بگڑ چکی تھی۔

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں، جو قانون نافز کرنے والے اداروں سے تعلق رکھتے ہیں کہ رحمان کے مقابلے میں ایک فورس ضروری تھی جو اسے ریزسٹنس دیتی، یہ ہمیشہ سے اصول رہا ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ رحمان تو مر گیا تھا مگر اپنے بعد ایک پورا گروپ چھوڑ گیا جو عزیر بلوچ رن کرتا تھا۔

ابراہیم: تو باقاعدہ اسے لانچ کیا کہ رزسٹنس دے سکے؟

ایسا ہی ہے، کچھ افراد کا فیصلہ کہ سکتے ہیں اور وہ ہی پھر ان چیزوں کو ڈسائڈ کر رہے ہوتے ہیں۔

سابق ایس ایس پی فیاض خان کہتے ہیں:

۲۰۱۲ میں جب وہ جیل سے نکلتا ہے تو اس پہ اس وقت بھی بہت سے کیسز تھے جن میں اسکی ضمانتیں ہوئیں، کچھ کیسز میں وہ بری ہوا، کچھ ایسے کیسز تھے جس میں اسے سزائیں ہوئیں لیکن اعلیٰ عدالتوں سے وہ بری ہوچکا تھا۔ پھر وہ پیشیوں پہ جاتا تھا لیکن پھر اس نے کورٹ بھی جانا چھوڑ دیا۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

ارشد پپو آپ یہ سمجھیں کہ گواہان نہیں آتے عدالتوں میں، یا سمجھیں کہ کیس مضبوط نہیں بنایا جاتا۔ تو یہ جو کرمنل جسٹس سسٹم ہے وہ اگر مضبوط ہو نا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو کرمنل ہیں نا یہ کرائم ہی نہ کریں۔ ان کو پتا ہے کہ ہمیں فیسلٹیز مل جاتی ہیں، ہم با آسانی باہر بھی آ جاتے ہیں، تو اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ با آسانی ضمانت ملتی ہے اور با آسانی جو لوگ ہیں یا جو آئینی شاہدین ہیں وہ آتے ہی نہیں ہیں عدالتوں میں تو ان کو ریلیف مل جاتا ہے وہاں سے۔

پپو کا زوال

رہائی کے بعد ارشد پپو اپنی بکھرے ہوئے گینگ کو سمیٹنے نکل پڑا۔ اس نے اپنا نیٹورک کئی بار منظم کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ وہ شخص جو ایک وقت میں لیاری پہ راج کرتا تھا، اب اس کی علاقے میں انٹری پر پابندی تھی۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

جب ارشد پپو واپس آیا اور اس نے لیاری میں انٹری مارنے کی کوشش کی۔ تو دو تین علاقوں میں فائرنگ ہوتی تھی، یہ انٹری مارنے کی کوشش کرتا تھا، دوسرا گروپ فائرنگ کرتا تھا، دو سے تین دفع اس نے ٹرائی کی نا تو اسے آئیڈیا ہوگیا کہ میں اب لیاری میں ان ہو ہی نہیں سکتا۔ پی اے سی کی جو پگڑی پنائی گئی تھی رحمان ڈکیت کے مارے جانے کے بعد وہ عزیر بلوچ کو پہنائی تھی۔ جو رحمان ڈکیت کا پورا گروپ تھا وہ عزیر کی طرف چلا گیا۔ اس کو پتا تھا لڑکوں کو کیا سامان چاہیے ہے کیا چیزیں چاہیے ہیں اور لڑکوں نے بھی دیکھا، کہ ابھی یہ جیل سے آیا ہے، ہم اس کے ساتھ جڑ جائیں گے، ہمارا نقصان نہ ہوجائے، تو لوگوں کو خوف یہ تھا کہ ہم تو مارے جائیں گے اگر ارشد پپو کے ساتھ ہو گئے۔

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی نے پپو کے رائولز کو اپنی سرپرستی میں لیا ہوا تھا۔ ایم کیو ایم لیاری میں اسپیس کھوتی جا رہی تھی اسی لیے فیصلہ ہوا کہ اب پپو کو سپورٹ کیا جائے گا۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

جب ارشد پپو لیاری میں انٹری نہیں مارسکتا تھا تو اس کو ایم کیو ایم نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ بیان آنے لگے کہ وہ وہاں کا بچہ ہے، اسے وہاں جانے نہیں دیا جارہا۔

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

تو ایم کیو ایم، جو عزیر بلوچ یا رحمان ڈکیت کے اس کنٹنویشن کے خلاف کھڑی ہوگئی تھی یا ووکل ہوگئی تھی یا بات کررہی تھی یا پپو کو سپورٹ کررہی تھی تو اس کے پیچھے یہ حب علی نہیں تھا۔ بغض معاویہ تھا۔ اردو بولنے والے جو لڑکے تھے انہیں نشانہ بنایا جانے لگا اور آپ اس زمانے کا ریکارڈ اٹھا کہ دیکھلیں، کتنی لاشیں لیاری ندی سے ملی ہیں، کتنی لاشیں لیاقت آباد سے ملی ہیں، یہ وہ بچے تھے، جن کو شناخت کر کے مارا گیا، ان کے ایڈرسز چیک کرکے مارا گیا۔

انگلش میں ایک کہاوت ہے: In wars of others, the innocent fall

16 دن ہوگئے لاپتا ہیں، گھر سے کھانا کھانے کے لیے نکلے تھے اور پھر پہنچے ہی نہیں۔ ایک مہینے سے جس ماں کے بچے نہیں ہیں، وہ ایک مہینہ کیسے گزارا ہوگا اس نے؟ میرا بیٹا ٹرک پہ نکلا اور اسے اٹھا لیا۔ ہماری پولیس۔ یہ کچھ نہیں کرتی۔


کہاں سے لاؤں اپنے بچے کو کوئی بتاؤ تو ثہی۔ کہاں جائیں ہم لوگ اور کس کو بتائیں۔ خاتون رونے لگتی ہیں۔

چند لوگوں کی جنگ نے پورے شہر کو آگ میں دھکیل دیا تھا۔ معصوم لوگ اغوا ہورہے تھے، مارے جارہے تھے اور ادارے بظاہر بے بس دکھائی دے رہے تھے۔ اسی دوران وہ لمحہ آگیا جس کا عزیر بلوچ کو شدت سے انتظار تھا۔

March 17, 2013

یہ وہ دور تھا کہ ہر کوئی مغرب سے پہلے گھر پہنچنے کی کوشش کرتا۔ اس روز بھی پورا شہر سنسان تھا، لیکن ڈی ایچ اے میں ایک فلیٹ کے اندر روشنی ریڈ لائٹ ایریا کا منظر پیش کررہی تھی۔ زوردار میوزک نے پڑوسیوں کو پریشان کیا ہوا تھا لیکن کسی کی ہمت نہیں تھی کہ کچھ بولے۔ پارٹی میں ہر کوئی مدہوش تھا کہ اچانک ایک زوردار آواز کے ساتھ چہرا ڈھانپے کئی افراد اندر فلیٹ کے اندر گھس جاتے ہیں۔

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

عزیر کی پرچی جاتی تھی، عزیر کی پرچی پہ بندا اپائنٹ ہوتا تھا۔ کچھ لوگوں نے لیاری میں پوسٹنگ اس شرط پہ لی کہ یار آپ میرے علاقے میں بندا مار کہ نہیں پھینکیں گے۔ تو پھر انہی پولیس افسران کی مدد سے اس نے ارشد پپو کو اٹھوایا، ایک ڈانس پارٹی تھی، وہ وہاں پہ آیا ہوا تھا۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

پورا فلمی سین تھا۔ کچھ پولیس افسران تھے جو لیاری گینگ وار والے پوسٹنگ کراتے تھے لیاری میں۔ ایک مخبر نے بتایا کہ ڈفنس میں ایک ڈانس پارٹی چل رہی ہے اور وہاں پہ ارشد پپو، اس کا بھائی اور شیرا پٹھان موجود ہیں۔ پولیس کے پاس مخبری آئی انہوں نے عزیر بلوچ سے رابطہ کیا۔ تو پولیس بڑی کشمکش میں تھی کہ ہمیں گرفتار کرنا چاہیے ہے یا ہمیں مقابلے میں مار دینا چاہیے ہے۔ پیسے کی ریل پیل شروع ہوگئی۔ انہوں نے کہا جتنے پیسے لگتے ہیں مخبر کو دو اور ہمیں لوکیشن دکھاؤ۔ بعد میں گینگ وار اور پولیس دونوں مل کے گئے ڈفنس کے ایک بنگلے میں اور ارشد پپو کو لے کہ لیاری میں آگئیں۔ یہ جب لیاری میں آگئے تو عزیر نے کہا اب بتا تو میرا کیا کرے گا۔ اس نے کہا میں تجھے ابھی بھی نہیں چھوڑوں گا۔ مطلب اس پیک کی ان دونوں کی لڑائی تھی۔ اس نے کہا میں یہاں سے تجھے جانے نہیں دوں گا تو اس نے کہا باہر تو میں جا کہ دکھاؤں گا۔ اس کو یہ خوش فہمی تھی کہ پولیس مجھے گرفتار کر کے لائی ہے ایف آئی آر کٹے گی اور میں جیل جاؤں گا۔ اس کے بعد ضمانت ہو جائے گی اور میں پھر باہر آجاؤں گا۔ سب سے پہلے جو ایک شیرا پٹھان تھا انہوں نے اس کو نشانہ بنایا، پھر یہ یاسر عرفات پہ آگئے۔ مطلب یہ سب چیزیں پپو کے سامنے چل رہی تھیں۔ پھر لوگوں نے اس کے بعد ارشد پپو کا وہ حال کیا نہ کے جب وڈیوز سامنے آئیں تو تباہی اور تہلکہ مچ گیا۔

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

پپو کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، گلیوں میں گھسیٹا گیا، اس کی ٭٭٭٭، اس کا ٭٭٭ گیا، ٭٭٭ فٹبال کھیلی گئی اور پھر ٭٭٭ دیا گیا اور اس راکھ کو نالی میں بہا دیا گیا۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

گینگ وار نے آپس کی لڑائی میں ٭٭٭ شروع کردیا، لوگوں کے ٭٭٭ فٹبال کھیلنے لگ گئے، تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ لیاری کا اس قتل کے بعد زوال شروع ہوا۔

تحقیقات کا آغاز

۲۲ مارچ ۲۰۱۳ کو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پپو قتل کیس کا سئو موٹو نوٹس لیا۔ سوال کیا کہ سندھ پولیس اور رینجرز کراچی میں کیا کر رہی ہیں؟ دو سال بعد بھری عدالت میں کانسٹیبلز نے پولیس افسران کے خلاف گواہی دینا تھی۔ جب وہ کٹہرے میں آئے تو اپنے بیان سے صاف مکر گئے۔ ججز بھی حیران رہ گئے۔ پھر ایک اور پیشی ہوئی۔ امید تھی کہ اب تو فیصلہ ہو ہی جائے گا۔ ارشد پپو کی بیوی اور بیٹے کا انتظار ہوتا رہا، مگر نہ جانے انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ وہ پھر کبھی دکھائی نہ دیے۔ سوال یہ ہے کہ عزیر اور اس کے ساتھی سلاخوں کے پیچھے تھے تو یہ سب کام کون کررہا تھا؟

جرنلسٹ عارف محمود کہتے ہیں:

ایک بندا اگر چلا بھی گیا ہے اندر تو اس کے پیچھے مینج کرنے کے لیے بندے موجود ہیں۔ ان کے لیے کسی کو مینج کرنا، روکنا، پولیس کہاں تک پروٹیکشن دے گی؟

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

آپ یہ نہیں سمجھیں کہ عزیر بلوچ نے انہیں اغوا کرا لیا تھا ان کو عدالت جانے سے روک دیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی فیملی نے فیصلہ کیا کہ ہم عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔

اب جو جو اس کیس سے جڑا تھا وہ ایک ایک کر کے گولی کا نشانہ بنتا گیا۔ ایس ایچ او لیاری چاند خان نیازی نے پپو کو عزیر کے حوالے کیا تھا نا!! وہ گرفتار ہوا اور دو سال بعد جیسے ہی ضمانت پر چھوٹا نامعلوم افراد کے ہاتھوں مارا گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایس ایچ او جاوید بلوچ کو فائرنگ کر کے اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ اس کیس میں سلطانی گواہ بننے جا رہا تھا۔

عزیر بلوچ پر دبئی سے گرفتاری کے بعد ایک جے آئی ٹی بھی بنی، جس میں اس نے 198 قتل کا اعتراف کیا۔ دبئی سے لے کر کراچی تک بھاری بینک بیلنس، جائیداد اور گاڑیوں کا انکشاف ہوا۔ لیکن ان رپورٹس سے نہ آج تک کسی کا کچھ بگڑا ہے نہ آئندہ کبھی بگڑے گا، نہ سزا ہوئی ہے نہ کبھی ہونے کا امکان ہے۔

لیکن ایک سوال اپنی جگہ رہے گا، ایک ایسا علاقہ جس نے عبدالستار ایدھی اور گولڈ میڈلسٹ حسین شاہ جیسے لوگ پیدا کیے۔ وہاں دادل، لالو، پپو، رحمان، لاڈلا اور عزیر جیسے موت کے سوداگر کیسے پیدا ہونے لگے؟ کوئی تو ہے جو یہ کھیل جاری رکھے ہوئے ہے اور شاید۔ پھر کسی موقع کی تلاش میں ہے۔

جرنلسٹ طہٰ عبیدی کہتے ہیں:

یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ یہ لڑائی ابھی چلے گی۔

شیئر

جواب لکھیں