سیاہ سڑک پر خون کی سرخی دھیرے دھیرے پھیلتی جا رہی تھی۔ ابھی اسی سڑک پر ایک شہر کے اجڑنے کا نوحہ لکھنا تھا۔ یہی سرخی سیاہ تار کول میں جذب ہو کر کراچی کو ایک آگ میں دھکیلنے والی تھی۔
اپریل 1985
یہ اپریل 1985 کی ایک صبح تھی۔ ابھی چند لمحوں پہلے ہی ناظم آباد کے سر سید کالج کی دو لڑکیوں کو X3 منی بس نے کچل ڈالا تھا۔
بیس سالہ بشری زیدی اور بڑی بہن نجمہ بری طرح زخمی تھیں۔
یہ واقعہ چالیس برس پرانا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف بشری کی فیملی ہی نہیں کراچی کے ہر فرد کے ذہنوں پر نقش ہے۔ اور اگر آپ کو کراچی کو جاننا ہے تو اس واقعے کو اچھی طرح سمجھنا بہت اہم ہے۔
منی بس کے خونی پہیوں نے ان دو لڑکیوں کے ساتھ شہر کے سکون کو بھی روند ڈالا تھا۔ بشری کے جسم سے بہتا لہو اور بس ڈرائیور کے چہرے سے ٹپکتا خوف پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لینے کو تیار تھا۔
جان تو سب ہی کی قیمتی ہوتی ہے، بشری کی جان بھی قیمتی تھی۔ جوان موت کو بھلانا ویسے بھی آسان نہیں ہوتا۔ مگر جو ہمدردی اور ری ایکشن اس حادثے پر آیا، شہر کے کسی اور انسڈنٹ پر دیکھنے میں نہیں آیا۔
بس چاہے یونیورسٹی کی ہو یا کسی روٹ کی، کالج کی لڑکیوں کے حادثے اکثر ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن ایسا کیا تھا کہ اس ایک واقعے نے پورے شہر کو نفرت اور تشدد کی آگ میں جھونک دیا؟ آج بھی وہی آسیب کیوں کراچی کی سڑکوں پر بھیانک سائے کی طرح منڈلاتا ہے؟
ہم بہت تفصیل سے اس پر بات کریں گے۔ کیونکہ اگر کراچی کے حالات اور سیاست کو سمجھنا ہے تو اس کے لیے ہمیں اس واقعے کی تہہ تک جانا ہوگا۔ اور کسی معاملے کی تہہ تک پہنچنا تو رفتار والوں کا ہی کام ہے۔
THE FATAL ACCIDENT
بشری اپنی فیملی کے ساتھ حیدری کے ایک اپارٹمنٹ کی تیسری منزل پر رہتی تھیں۔ والد شبّر زیدی عرب کنٹری میں جاب کرتے تھے۔
ہمیشہ کی طرح اُس صبح بھی بشری اور نجمہ کالج جانے کے لیے دوسری لڑکیوں کے ساتھ منی بس میں سوار تھیں۔ تیز ہارن اور انجن کے شور میں بس بری طرح جھٹکے کھا رہی تھی۔ بسوں میں ریسنگ جو چل رہی تھی۔ کالج کا اسٹاپ آیا تو بس ابھی پوری طرح رکی نہیں تھی کہ چل پڑی۔ بشری اور اس کی بہن کو جھٹکا لگا اور وہ اترتے ہوئے گر پڑیں۔ ابھی وہ اٹھ بھی نہ پائیں تھیں کہ پیچھے آتی بس کے پہیوں تلے آگئیں۔
بشریٰ سر پر چوٹ لگنے سے موقع پر ہی دم توڑ گئی جبکہ بہن نجمہ کی ٹانگیں پہیوں کے نیچے آ آ کر ٹوٹ گئیں۔
اُس دور میں پیلے رنگ کی منی بسں کو ’یلو ڈیول‘ یعنی پیلا شیطان کہا کرتے تھے۔ جسٹ لائیک اے بل ان آ چائنا ٹاون، جسے قابو کرنے والا اس شہر میں کوئی نہ تھا۔
دونوں بہنوں کو عباسی شہید اسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے بیس سالہ بشریٰ کی موت کی تصدیق کر دی۔
TRANSPORT TROUBLES
واقعہ ہوتے ہی ڈرائیور نو دو گیارہ ہو گیا۔ سوچتا ہوں کہ اگر حادثے کے بعد ڈرائیور نہ بھاگتا، اور پولیس اُسے گرفتار کر لیتی یا پھر ٹرانسپورٹ والے فوری طور پر بشریٰ کے خاندان سے ہمدردی کا اظہار کرتے تو شاید معاملہ کچھ سلجھ جاتا۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔
کراچی والے اُن دنوں منی بسوں سے پہلے ہی تنگ تھے۔ اس واقعے نے جلتی آگ پر تیل چھڑک دیا۔
شہر میں اِن دنوں زیادہ تر ڈرائیورز پشتون، کشمیری یا پنجابی برادری کے تھے۔ بس، ٹیکسی اور رکشا سمیت تقریباً نوّے فیصد پبلک ٹرانسپورٹ کی اونرشپ پشتون سیٹلرز کے پاس تھیں۔
صحافی اور مصنف سہیل دانش بتاتے ہیں:
ٹرانسپورٹ پھر کیپچر کرتے چلے گئے، پٹھان۔ ٹھیک ہے ان کی کمپیٹنسی تھی محنت تھی شعبہ تھا۔ بعض چیزیں مافیاز میں تبدیل ہوئیں۔ سیونٹیز کی بات ہے۔ پینسٹھ میں لسانی تھا۔ اچھا یہ عجیب اتفاق ہے۔ ہماری خواتین پٹھان کے رکشے میں زیادہ محفوظ تصور کرتی ہیں۔ پٹھان کا نیچر یا وہ آپ نہیں کر سکتے۔
ڈرائیور سے لے کر کنڈیکٹر تک ایک ہی قومیت کے لوگ ٹرانسپورٹ سیکٹر کے والی وارث تھے۔ جبکہ ان بسوں، ٹیکسیوں اور رکشوں میں سفر کرنے والے اردو اسپیکنگ تھے۔
اب اسے قانون کی کمزوری کہیے یا بد تہذیبی، پاور فل لابی کا نشہ کہیے یا کم وقت میں زیادہ مال بنانے کا جنون، یہ گاڑیاں بڑی ہی لا پرواہی سے چلائی جاتیں۔
ڈرائیورز بغیر لائیسنس اور تربیت کے گاڑیاں چلاتے جنہیں ٹریفک کی خلاف ورزی پر پکڑے جانے کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ اگر کوئی پکڑا بھی جاتا تو ٹرانسپورٹ لابی اس کی ضمانت کرا لیتی اور وہ پھر سے شہر میں دندناتا پھرتا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ پسنجرز اور ٹرانسپورٹرز کے درمیان ایک ان دیکھی خلیج بڑھتی جا رہی تھی۔ لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح کراچی کی پبلک اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں مجبور اور یرغمال تھی۔ ایسے میں بس ڈرائیور کو من مانی سے روکنے والا کوئی نہ تھا۔ کبھی بس کو تیز تو کبھی جھٹکے دے کر چلانا، جہاں مرضی روک کر کھڑے ہو جانا، مردوں کو لیڈیز کمپارٹمنٹ میں گھسانا، اور پھر خواتین سے بد تمیزی کرنا عام ہونے لگا تھا۔
یہی وہ باتیں تھی کہ جب بشریٰ کے ایکسیڈنٹ پر احتجاج ہوا تو اسٹوڈنٹس نے توپوں کا رخ پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف موڑ دیا۔
POLICE FAILURE
ایک طرف تو بشریٰ کو کچلنے والا ڈرائیور بھاگ چکا تھا تو دوسری جانب پولیس نے بھی روایتی ڈھیلے پن کا مظاہرہ کیا۔ اگر پولیس ذرا سی بھی سنجیدگی دکھاتی تو اتنی تباہی اور بربادی نہ ہوتی۔
اتفاق کی بات یہ تھی کہ اس منی بس کا ڈرائیور پشتون نہیں بلکہ پنجابی اسپیکنگ تھا۔ پولیس چاہتی تو اُسے گرفتار بھی کر سکتی تھی۔ لیکن معاملہ کچھ اور تھا۔ دراصل وہ منی بس تو خود ایک پولیس آفیسر کی ملکیت تھی اور سارے پولیس والے بھی یہ بات بہت اچھی طرح جانتے تھے۔
سابق مدیر جنگ محمود شام کہتے ہیں:
اس وقت بھی جس طرح بعض چیزیں چل رہی ہیں۔ مسائل سلگ رہے ہوتے ہیں چنگاریاں۔ ایک ہوا کا جھونکا ہوا دیتا ہے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔ ہر ذمہ دار حکومت کا فرض ہوتا ہے، کونسل یا تھانے کی سی آئی ڈی ہوتی ہے کہ شہر میں کیا چیزیں پک رہی ہیں۔ یہ بھی ایسا واقعہ تھا کہ ایس ڈی ایم کے لیول پر طے کر لیتے تو یہ آگے نہ بھڑکتا۔
سندھ بالخصوص کراچی میں ٹرانسپورٹ رولز یا تو بہت نرم ہیں یا پھر ان پر سرے سے عمل درآمد ہی نہیں ہوتا۔ کبھی چلتی ہائے وے پر گاڑی کا بونٹ نکل کر لوگوں سے بھری وین تباہ کر دیتا ہے تو کبھی دن دہاڑے ڈمپر رانگ سائڈ پر آ کر موٹر سائیکل کو روندتا ہوا گزر جاتا ہے۔ گاڑی کتنی ہی خستہ حال کیوں نہ ہو، لائیسنس ہو نہ ہو۔ یہاں پوچھنے والا کوئی نہیں۔
ان ڈرائیوروں کو بیچ سڑک پر روک کر، لوگوں کو اذیت دے کر، ٹریفک جیم کر کے چائے پانی تو برابر وصول کیا جاتا ہے مگر جرمانے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور سزا اور جزا کا نظام تو پہلے ہی مملکت خداداد میں ناکام ہے۔ انویسٹیکیشن آفیسر سے لے کر وکیل تک اور جج سے لے کر وزیر تک قاتل کو چھڑانے کا گُر انہیں خوب آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بشریٰ زیدی ہو یا لینڈ کروزر کے نیچے آنے والی آمنہ۔ یہاں انصاف کا دور دور تک کوئی گزر نہیں۔
آپ کو 2015 میں ڈرائیونگ لائیسنس آفسز کے باہر ڈرائیوروں کا رش یاد ہے؟ واقعہ یہ تھا کہ ڈی آئی جی ٹریفک امیر احمد شیخ نے رشوت اور بد معاشی کا دھندا بند کرنے کی ٹھان لی تھی۔ صاف کہہ دیا کہ جو بغیر لائیسنس ڈرائیو کرتا نظر آئے گا سیدھا جیل جائے گا۔ لیکن مُردوں کے شہر میں زندہ آدمی کا بھلا کیا کام۔ جہاں سرکاری سرپرستی میں بگاڑ انتہا کو چھو رہا ہو وہاں صحیح کام بھی اکثر غلط بن جایا کرتا ہے، رانگ سائیڈ آنے والا بھی صحیح چلنے والے کو آنکھیں دکھانے لگتا ہے۔ اُس وقت سندھ کے ہوم منسٹر سہیل انور سیال اور آئی جی پولیس غلام حیدر جمالی تھے۔ ڈرائیوروں کی پریشانی ان سے دیکھی نہ گئی۔ امیر الدین شیخ کو شاباشی دینے کے بجائے الٹا ان کی کھنچائی کر دی۔ فوری مداخلت کر کے آرڈر واپس کرایا ایک درست ہوتا کام رکوایا اور پھر سب ہنسی خوشی اسٹیٹس کو پر چلنے لگے۔ ویسے ہو سکتا ہے کہ وزیر داخلہ اور آئی جی صاحب کی بھی اپنی بسیں چل رہی ہوں۔
STUDENTS IN ACTION
لالو کھیت کے نزدیک سر سید کالج کے آس پاس مزید چھ کالجز اور کئی اسکولز ہیں۔ یہ موبائل فون اور واٹس ایپ کا دور نہیں تھا۔ نہ ہی آج کی طرح سوشل میڈیا، نیوز چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز کی بھر مار تھی۔ پھر بھی حادثے کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں اسٹوڈنٹس نے سڑکیں بھر دیں۔
زیادہ تر اسٹوڈنٹس ناظم آباد، رضویہ، پاپوش نگر، نارتھ ناظم آباد اور حیدری سے یہاں پہنچے تھے۔ مگر اسٹوڈنٹس ہی نہیں پریشان حال والدین بھی پھنس جانے والے بچوں کو لینے کالج کے دروازے پر کھڑے تھے۔ اتنے بڑے مجمع کو کنٹرول کرنا آسان نہ تھا۔ لوگ سڑک پر دھرنا دے کر بیٹھ چکے تھے۔
صحافی فہیم صدیقی کہتے ہیں:
اس واقعے کے بعد جو سرسید کالج کی طالبات ہیں بیسکلی ری ایکشن تو وہاں سے آیا، اگر ہم آغاز کی بات کرتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ سر سید کالج کی طالبات سب سے پہلے نکلتی ہیں اور پھر وومین کالج کی طالبات نکلتی ہیں، اس کو پلانٹڈ اور پلانڈ کہنا میں سمجھتا ہوں حقیقت سے دور بات ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا:
تو یہ دونوں کالج کی طالبات ملتی ہیں مل کر جو گورمنٹ کالج فار مین ہے وہاں پہنچ کر چوڑیاں اتار کر وہاں پھینکتی ہیں، تو جو بوائز کالج کے اسٹوڈنٹ ہیں وہ بھی باہر آ جاتے ہیں، پھر جو ری ایکشن ہے، دیکھیں یہ سب کچھ تو رک سکتے ہیں کہ یہ طلبا کا احتجاج تھا نوجوانوں کا تھا لیکن اس کے بعد جو آگ لگی وہ پورے شہر میں لگی۔
کراچی میں اس طرح کا اشتعال اور ہنگامہ آرائی اب تک دکھائی نہ دی تھی۔ رستے بند تھے اور نعروں سے پورا علاقہ گونج رہا تھا۔
کالج کی مینجمنٹ بھی اس واقعے پر پریشان تھی۔ پرنسپل نے پڑھائی بند کر کے بچیوں کو اس شور اور افراتفری کے ماحول میں باہر جانے سے روک دیا۔
ہجوم بے انتہا جذباتی ہو چکا تھا۔ کالج کے اندر بچیاں خوف سے لرز رہی تھیں۔ باہر ہجوم کی چیخ و پکار تھی اور اندر گھبرائی ہوئی لڑکیوں کے چہروں پر خوف کے بادل چھائے تھے۔
اب احتجاج کرنے والوں نے گزرتی گاڑیوں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ یہ پتھر ویگن، رکشوں اور ٹیکسیوں پر برسائے جا رہے تھے۔ دکانداروں نے ایسے میں کاروبار بند کر کے رفو چکر ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔
احتجاج جاری تھا کہ اسی دوران کسی نے منی بس کو آگ لگا دی۔ پھر کیا تھا، جب ایک گاڑی کو آگ لگی تو پھر نہ تو کوئی گزرتی بس محفوظ رہی اور نہ ہی کوئی دکان۔ گلبہار تھانہ یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ پولیس نے آتے ہی ہجوم پر دھاوا بول دیا۔ ٹیئر گیس کے بے شمار شیلز سے زمین بھر گئی۔ پورا ماحول آنسو گیس کی لپیٹ میں آگیا، بس سمجھیں 2014 کے اسلام آباد دھرنے میں ڈی چوک پر میدان جنگ جیسا منظر تھا۔
یوں لگتا تھا جیسے اندھیرا چھا گیا ہو۔ لاٹھی چارج ہوا تو بات یہیں تک محدود نہ رہی۔
پولیس احتجاج کرنے والوں کے پیچھے گلی محلوں میں گھس گئی۔ جھڑپوں میں کئی اسٹوڈنٹس زخمی ہوئے اور درجنوں گرفتار کر لیے گئے۔ پولیس نے لڑکیوں کا بھی رتی برابر لحاظ نہ کیا اور ان کے ساتھ نہایت بد تمیزی کا مظاہرہ کیا۔
PROTEST TURNS ETHNIC UNREST
اچانک شروع ہونے والا احتجاج، طاقت کے استعمال سے ایک منظّم لسانی فساد میں بدل گیا۔
گولیمار سے اورنگی ٹاؤن تک حالات خراب ہو گئے۔ جب لوگ پبلک ٹرانسپورٹ پر دل کی بھڑاس نکالنے لگے تو ٹرانسپورٹرز بھی میدان میں اتر آئے۔ وہ اپنی گاڑیوں اور ڈرائیورز کو بچانے کے لیے جوابی حملے کرنے لگے۔
یوں مقامی اور غیر مقامی افراد کے درمیان جنگ کا سا ماحول بن گیا۔
تشدّد کے چھوٹے انسڈنٹس، آرگنائزڈ اٹیکس میں بدل گئے۔ سنی سنائی باتوں اور افواہوں کا بازار ایسا گرم ہوا کہ بات حملوں سے ہلاکتوں تک جا پہنچی۔
گُرو مندر سے لسبیلہ، پٹیل پاڑہ سے پاک کالونی بس یوں سمجھیں ہر طرف بارہ مئی جیسا منظر تھا۔ بائی دے وے، 12 مئی سے متعلق ہماری پوسٹ ضرور دیکھیے گا۔
نعروں اور ڈنڈوں کے بعد ذرا ہی دیر میں شہر آتشی اسلحے سے گونجنے لگا۔ گولیوں کی ایسی تڑتڑاہٹ اس سے پہلے کراچی میں کبھی نہیں سنی گئی تھی۔
جب تک riots اور casualties کی اطلاع صوبائی انتظامیہ تک پہنچی، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ وزیر اعظم جونیجو اور وزیر اعلی غوث علی شاہ حالات کی نزاکت کو نہ سمجھ سکے۔
MILITARY INTERVENTION
ایک کالج اسٹوڈنٹ کی ہلاکت پر شروع ہونے والا احتجاج ethnic violence میں بدل چکا تھا۔ کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی تھیں۔
مگر حالات تھے کہ بگڑتے ہی چلے جا رہے تھے۔ ایسے میں فوج کو بلانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
گلی گلی میں خوف کی فضائیں تھی۔ صدر سے سہراب گوٹھ تک انتہائی کشیدہ علاقوں میں فوج نے کرفیو لگا دیا۔ لیکن حالات پھر بھی نہ سنبھلے۔
اسکولز کالجز اور یونیورسٹیاں تو پہلے ہی بند کر دی گئی تھیں۔ پورٹ سٹی میں ٹریڈ، انڈسٹری اور بزنس بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ سپلائی چین ٹوٹ گئی اور basic ضرورت کی چیزیں short ہو گئیں اور قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
TUBE LIGHT BOMB & KALASHNIKOV
یہ کوئی ایک دو روز کی کہانی نہیں تھی۔ حالات کئی ہفتوں تک ٹھیک نہ ہو سکے۔ کیونکہ اب تو باقاعدہ آبادیوں پر حملے شروع ہو چکے تھے۔ افغان وار کی بدولت ہر لیٹسٹ آٹومیٹک ویپن کھلے عام استعمال ہورہا تھا۔ اس دوران اورنگی ٹاؤن میں پہلی بار ’ٹیوب لائٹ بم‘ استعمال ہوا۔ ٹیوب لائٹ میں بارود، چھرّے یا نٹ بولٹ بھر کر اسے تیر کے طور پر استعمال کیا جاتا اور ایک اسپیشل کمان کے ذریعے میزائل کی طرح سامنے والے پر داغ دیا جاتا۔ یہ ٹیوب لائٹ جہاں گرتی آگ بھڑک اٹھتی۔
گورنمنٹ کا خیال تھا کہ بم بنانے والے ٹرینڈ لوگ تھے جو مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کا مقابلہ کر چکے تھے اور اب اورنگی جیسے علاقے میں آباد تھے۔
دوسری جانب کراچی والوں نے سہراب گوٹھ میں وہ کلاشنکوف بھی پہلی بار چلتے دیکھی جو افغانستان کی جنگ کا ’تحفہ‘ بن کر پاکستان پہنچی تھی۔
سابق مدیر جنگ محمود شام کہتے ہیں:
جب بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کی موومنٹ چل رہی تھی میں معیار رسالہ نکالتا تھا۔ ہم نے اس میں لکھ دیا کہ جو ایسٹ پاکستان سے لوگ آئے ہیں ان کو مکتی باہنی سے لڑنے کا ہے تجربہ درخت کاٹ کر ڈال دیے۔ یہی چیز جب ہوئی ہے تو یہی کہا گیا کہ یہی لوگ ایسٹ پاکستان میں جس طرح مکتی باہنی سے لڑے اور ان کو وہاں کی ٹریننگ ہے تو یہی پھر یہاں بھی شروع ہو رہی ہے۔ اے پی ایم ایس او میں اس طرح کے کافی لوگ تھے۔
اخبارات میں بشریٰ زیدی حادثے کے بعد کئی ہفتوں جاری رہنے والے واقعات میں ہلاکتیں دو سو تک پہنچ گئیں۔ اصل تعداد تو شاید اس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔
اس زمانے میں مردہ خانہ صرف سول اسپتال میں ہوا کرتا تھا۔ یہاں روزانہ پچیس پچیس لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے لائی جاتی تھیں۔ ان دنوں شہر کے کسی اور اسپتال میں یہ شعبہ موجود نہیں تھا۔
صحافی فہیم صدیقی بتاتے ہیں:
کھلے عام فائرنگ کی گئی لوگوں کو زندہ اگ میں پھینکا گیا ان واقعات پر کوئی بات نہیں ہوتی جس طرح بارہ مئی کی بات کرتے ہیں۔ ہم سانحہ علی گڑھ قصبہ، سانحہ سہراب گوٹھ، سانحہ پکہ قلعہ حیدر آباد کی بات نہیں کرتے۔ سیاست الگ کر کے ہمیں ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس شہر میں کب کب خون کی ہولی کھیلی گئی، اور وہ ہولی کھیلنے والوں کے ساتھ کیا ہوا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ یہ حادثہ ہی کیوں فسادات کی وجہ بنا؟ ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ جیسے سب کو اسی واقعے کا انتظار ہو۔
وہ کون سی قوتیں تھیں، کیا محرکات تھے جو حالات کو اس نہج پر لے گئے؟
اس کے لیے ہمیں اُس وقت کے سیاسی ماحول کا جائزہ لینا ہوگا۔
CHANGING FACE OF KARACHI
ستر کی دہائی ختم ہوتے ہوتے کراچی خاصا بدل چکا تھا۔ ملک بھر کی قومیتوں، فرقوں اور نسلی گروہوں کے لوگ روز گار کی تلاش میں آ کر یہاں سیٹل ہو چکے تھے۔ شہر میں ان کی نئی نسل پروان چڑھ رہی تھی۔
کراچی اب ایک ملٹی ایتھنک سٹی بنتا جا رہا تھا۔ اس کے باوجود اب تک شہر کا ماحول انتہائی پرامن تھا۔ مہاجر آبادیوں میں پٹھان ٹیکسی ڈرائیور کی فیملی بڑے آرام سے رہتی، بچے مل جل کر کھیلا کرتے۔ گھر ہو یا محلہ، شہر ہو یا مضافات، دور دور تک فرقہ واریت، عدم برداشت یا تشدد کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔
گلی محلوں میں مذہبی رسومات سے لے کر شادی بیاہ کے فنکشنز اور میوزیکل کانسرٹس، گلیوں میں شامیانے لگا کر کیے جاتے اور ان میں سب شریک ہوتے۔ کوئی خوف یا ڈر نہ ہوتا۔ یہاں کا رہائشی پٹھان، مہاجر، سندھی، پنجابی، شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی نہیں بلکہ کراچی والا کہلاتا۔
یہ اسی دور کا ذکر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کراچی میں کوٹا سسٹم نافذ کرنے کی سوجھی۔ اب کراچی والوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے یا جاب، میرٹ یا قابلیت کے بجائے کوٹے پر ملنے لگی۔
محمود شام اس بارے میں بتاتے ہیں:
یہ قصہ شروع ہوا تھا 1972 میں سندھ میں جب سندھی کو سرکاری زبان ڈکلیئر کیا گیا۔ اس وقت پورے کراچی میں سندھ میں ہنگامے ہوئے تھے اور مہاجر اور سندھ میں کشمکش چل رہی تھی پھر مہاجر اور پٹھان کی کشمکش ہوئی۔ وجوہات دوسری بھی ہیں کہ مہاجروں کو کوٹے میں حصہ نہیں مل رہا تھا ملازمتوں میں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پوچھا جاتا تھا کہ آپ کہاں پیدا ہوئے، پھر باپ کہاں پیدا ہوا، جب دادا کا پوچھا تو ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔
سرکاری نوکری ہو یا ایڈمیشنز یہ پوچھا جانے لگا کہ آپ آئے کہاں سے ہیں۔ کوٹا سسٹم کی وجہ یہ بتائی گئی کہ سندھ کے شہری علاقوں میں پڑھے لکھے لوگ زیادہ ہیں۔ اس لیے تمام داخلے اور ملازمتیں کراچی والوں میں بٹ جاتی ہیں اور باقی کم پڑھے لکھے لوگ محروم رہ جاتے ہیں۔
اردو بولنے والوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ کوٹا سسٹم جیسی نا انصافیاں اس لئے ہو رہی ہیں کہ ان کی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔
وہی محرومی جس نے پچھلے دنوں بنگلہ دیش میں کوٹا سسٹم کے خلاف ایک ایسے انقلاب کو جنم دیا جس کے آگے حکومت ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔
ادھر ضیا، بھٹو کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کر چکے تھے۔ مگر انہیں اقتدار میں رہنے کے لیے عوامی حمایت کی ضرورت تھی۔ ضیا کو ایسے سیاسی دوستوں کی تلاش تھی جو آمریت کا علم بلند رکھنے میں ان کے مدد گار ہوں۔ اسی دوران بشری زیدی کا حادثہ رونما ہوا۔
بھٹو کے بعد جنرل ضیا کی مجلس شوری میں دو ممبران پروفیسر غفور اور محمود اعظم فاروقی کراچی سے تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل ان دنوں ضیا کے ماموں کہلاتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ شوری کے دونوں اراکین نے کوٹا سسٹم کی مخالفت نہ کی۔
کراچی میں مسجد اور مدارس کی قیادت زیادہ تر غیر مقامی افراد پر مشتمل تھی۔ یہ سب افغان جہاد سے خاصے اٹیچڈ تھے۔
دوسری طرف کراچی کی شیعہ آبادی کی اکثریت اردو اور گجراتی بولنے والے افراد پر مشتمل تھی۔ ان کی وابستگی ایران سے تھی جہاں ان دنوں انقلاب آیا ہوا تھا۔ یہ فکری اور مالی سطح پر مضبوط تھے۔ میڈیا، شوبز، بینکس اور دنیائے فن و ادب میں ان کی بھر مار تھی۔ اسی تناظر میں وہ کراچی کی آبادی کو جوڑ کر رکھنے کے لیے ایک سیاسی قوت سامنے لانا چاہتے تھے جو ان کے تحفظ میں سیکولر آؤٹ لک رکھتی ہو۔ ایسے میں اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے دانشوروں نے کراچی کے نوجوانوں کو اپنی سیاسی تنظیم بنانے کا آئیڈیا دیا۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ فارمیسی میں پڑھنے والے الطاف حسین نے 1978 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن یعنی اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھ دی۔
کراچی کی مایوسیوں اور محرومیوں کو پُرکشش نعروں میں سمو کر یہ تنظیم شہر کے سارے تعلیمی اداروں میں پھیل گئی۔ اور بہت جلد یہ ان اداروں سے نکل کر عملی سیاست میں آنے کے لیے پر تولنے لگی۔ 1984 میں اے پی ایم ایس او نے مہاجر قومی موومنٹ کو جنم دے ڈالا۔
فہیم صدیقی کہتے ہیں:
اس واقعے نے سب کچھ چینج کر دیا۔ اور اگر اہم یہ کہیں کہ کراچی کی سیاست پوری تھری سکسٹی ٹرن لیا بشری زیدی کے بعد تو یہ غلط نہ ہوگا۔
وہ مزید بتاتے ہیں:
اتنی بڑی تعداد میں لوگ ہمیں جوائن کر لیں گے، اور اتنی بڑی تعداد میں ہمیں ووٹ مل جائیں گے، تو اس کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم میں جو لوگ شامل ہوئے وہ شامل ہونے کے بعد دنوں ہفتوں مہینوں میں اہم عہدوں پر پہنچے اور جو نائنٹیز میں نظر آیا وہ سب اسی وجہ سے ہوا کہ ایم کیو ایم کا قیام بشری زیدی واقعے کی وجہ سے پھر جو الیکشن میں فتوحات ہوئیں اور لوگوں نے جوائن کیا تو وہ اس کو فلٹر نہیں کر سکے اور فلٹر نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے ایسے لوگ بھی جن کا بعد میں تنظیم کو نقصان بھی ہوا وہ عہدوں پر پہنچ گئے۔
ZIA’S SCHEME
ضیا سندھ میں اور خاص طور پر شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے بشری زیدی کا حادثہ کافی helpful ثابت ہو سکتا تھا۔
انہوں نے لسانی سیاست کے نام پر تقسیم کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ نہ صرف شہروں میں پیپلز پارٹی سے نمٹا جائے بلکہ اپنے اقتدار کو بھی بڑھاوا دیا جا سکے۔ ویسے تو کراچی میں لسانی فسادات فال آف ڈھاکا کے اگلے سال بھی ہوئے تھے لیکن اس بار سچویشن بہت ڈفرنٹ تھی۔
ضیا افغان جنگ کا فائدہ اٹھانے کے لیے مسلسل اقتدار میں رہنا چاہتے تھے۔ مگر اس کام کے لیے پیپلز پارٹی جیسی مخالف سیاسی قوتوں کا صفایا ضروری تھا۔
اربن سندھ میں پیپلز پارٹی کے کوٹا سسٹم پر اردو اسپیکنگ کمیونٹی ناراض تھی۔ ضیا نے اس مخالفت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر مزے کی بات یہ ہی کہ کوٹا سسٹم ختم نہ کیا۔
محمود شام بتاتے ہیں:
اصل یہ ہے کہ ڈومیسائل کا مسئلہ ہے۔ کراچی اور انٹیریر سندھ کا ڈومیسائل۔ کراچی کے ڈومیسائل کو محدود کر دیا ہے۔ جو کراچی کے نوجوان ہیں پبلک سروس کمیشن یا مقابلے کے امتحان میں اچھی جاب نہیں ملتی ہے۔ کراچی میں انٹیریر سندھ کا مقابلہ اور پھر دوسرے صوبوں سے اس سے کراچی کا کوٹا کم ہوتا چلا جاتا ہے۔
نسل، فرقے اور مسلک کئ بنیاد پر سندھ میں اختلاف کا بیج بو دیا گیا۔ مقصد یہی تھا کہ پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں ہی نہ رہے کہ وہ عوامی حمایت سے فوجی آمریت کا مقابلہ کر سکے۔
جب ایم کیو ایم نے شہری علاقوں کے احساس محرومی پر آواز اٹھائی تو جنرل ضیا کو کراچی میں زبان کی بنیاد پر تقسیم کا موقع ہاتھ آگیا۔
لیکن صرف ایم کیو ایم ہی نہیں مخالفین کو بھی مضبوط کرنا ضروری تھا تاکہ انتشار خوب جم کے پھیلے۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ ضیا نے قوم پرست پارٹیوں کو پیپلز پارٹی کے خلاف ابھارنا شروع کر دیا۔
ایک وقت یہ بھی آیا کہ ضیا نے پیپلز پارٹی کو توڑنے کے ایم کیو ایم اور جیے سندھ کا معاہدہ بھی کروا دیا۔ اور بھی اس طرح کے بڑے تماشے ہوئے۔ یوں شہر میں مخالفتیں پروان چڑھتی گئیں اور جو ضیا چاہتے تھے وہ ہو گیا۔
اہل کراچی میں ’شعور‘ کے نام پر شناخت کو ہوا دی گئی، اپنی پہچان بنانے پر زور دیا گیا۔ اور یہ سب کام ایم کیو ایم نے کر دکھایا۔
ضیا دور میں جمہوریت صرف بلدیاتی انتخابات تک محدود تھی۔ پبلک نے ایم کیو ایم سے امیدیں باندھ لیں۔ کراچی والوں کو منزل تو کبھی نہ ملی پر اُن دنوں الطاف حسین کی شکل میں ایک رہنما ضرور مل گیا۔
ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم کیو ایم نے چھیاسی میں نشتر پارک میں ایک بڑا جلسہ کر ڈالا۔ یہی وہ جلسہ تھا جس کی کامیابی نے الطاف حسین کے لئے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کی وہ راہ ہموار کی جس کا اندازہ خود انہیں بھی نہ تھا۔ ڈر اور خوف کی فضا میں ایم کیو ایم مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔
ایم کیو ایم نے کلین سویپ کیا اور ڈاکٹر فاروق ستار پارٹی کے پہلے میئر بنے۔ آگے چل کر جنرل الیکشنز میں ایم کیو ایم نہ صرف کراچی اور حیدر آباد کی ساری سیٹیں جیت گئی بلکہ اس نے سندھ کے کئی شہری علاقوں میں بھی میدان مار لیا۔
صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس بتاتے ہیں:
86 میں جب نشتر پارک میں جلسہ ہوا پہلی بار ایم کیو ایم کا تو اس نے پورے سندھ کی سیاست میں نئے مزاج کو متعارف کرایا اور پہلی بار الیکٹورل سپورٹ نظر آئی مہاجر نام پر۔اور ستاسی میں وہ بہت پیچھے چھوڑ جماعت اسلامی کو جو اس وقت تک کم سے کم کراچی اور حیدر آباد کی میجر پولیٹیکل پارٹی تھی اور جے یو پی دونوں کو۔
محمود شام اس بارے میں بتاتے ہیں:
مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں بلدیاتی یا جنرل ان کو ووٹ جو لوگ دیتے ہیں ان کو آپ کے ایم سی اور اسمبلی میں آنے دیں وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔ یہاں جو اداروں کی طرف سے مداخلت ہوتی ہے وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے مداخلت ہوتی ہے وہ پرابلم ہے۔ یہاں جو لوکل لوگ ان کو پولیس میں لانا، محکمہ تعلیم میں لانا، وہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں یہاں کے حالات۔ یہاں جو باہر سے پہلے پنجاب سے پولیس والے آتے رہے اب انٹیریر سے آتے ہیں ان کو یہاں کے کلچر کا تہذیب کا نہیں پتہ ہوتا ہے اس لیے وہ معاملات کو بہتر نہیں کر سکتے۔
ضیا نے اربن سندھ میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لئے بشری زیدی کی ہلاکت کو پوری طرح استعمال کیا۔
پوسٹر لگانے کے ’جرم‘ میں گرفتار ہونے والے اگر پی ایس ایف کے کارکن نہ ہوتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ورنہ ان کی رہائی ممکن نہ ہوتی۔
سندھ کے وزیر اعلی غوث علی شاہ نے جب ایک بار سہراب گوٹھ میں آپریشن کرانا چاہا تھا تو انہیں اسلام آباد سے فون کر کے منع کر دیا گیا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ گیم تو اب آن ہوا ہے۔
سہراب گوٹھ ہمیشہ سے پشتون علاقہ رہا ہے۔ تھوڑے ہی دنوں بعد سہراب گوٹھ میں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی۔ اور اس کے فوراً بعد مہاجر اکثریتی آبادیوں علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں پراسرار فائرنگ سے درجنوں افراد مارے گئے۔ ایسا تاثر ملا جیسے یہ سہراب گوٹھ آپریشن کا رد عمل ہو۔
اس کے بعد پشتون اور مہاجر آبادیوں میں ایتھنک وار شروع ہو گئی۔ اب اس کے پیچھے کون تھا، یہ آج تک ایک راز ہے۔
رپورٹر اور پروڈیوسر نصرت امین کہتے ہیں:
کچھ سینیئر لوگوں نے بتایا کہ جو فائرنگ کرنے والے تھے ایم کیو ایم کی بسوں پر وہ پختون نہیں افغان تھی۔ نسلاً ہو سکتے ہیں لیکن وہ پاکستان نہیں تھے۔ غالباً کچھ رپورٹرز نے ایک آدھ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان سے کہا گیا تھا کہ یہاں سے کچھ ملک دشمن لوگ گزریں گے ان کے خلاف آپ نے کارروائی کرنی ہے۔
شہر میں تین دہائیوں کا سوشیو اکنامک غبار تھا۔ کراچی معاشی عدم توازن کا شکار ہو چکا تھا۔ آبادی بڑھ رہی تھی اور معاشی وسائل سکڑتے جا رہے تھے۔ ویسے کچھ ایسے ہی معاملات ان دنوں بھی شہر میں دکھائی دیتے ہیں۔
محمود شام کہتے ہیں:
اس وقت جب 86 میں یہ واقعہ ہوا ہے اس وقت تک اے پی ایم ایس او، جے یو آئی، جے آئی اور سب سے بڑا فیکٹر جنرل ضیا الحق اور ان کا مارشل لا۔ اس کی وجہ سے اس وقت ایسے حالات پیدا ہو چکے تھے۔ جتنی پاکستان میں تحریکیں چلی ہیں آج تک ان کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی اسٹیبلشمنٹ رہی ہے اور وہ تحریک اپنے مقاصد بھی حاصل کرتی رہی اس سے ملک کو فائدہ ہوا یا نہیں۔ اس وقت کراچی بہت زیادہ بٹا ہوا ہے نہیں کہہ سکتے کہ کراچی کا صحیح لیڈر کون ہے۔ ایم کیو ایم میں وہ پہلی والی طاقت نہیں ہے نہ رہنمائی ہے، جے یو آئی، جے آئی بھی نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہاں کوئی کراچی کے لوگوں کی کوئی مرکزی قیادت ہے جو اس کو لیڈ کر سکے۔
کراچی بشری کے خون کا تاوان پچھلے چالیس برس سے ادا کرتا آ رہا ہے۔ ہزاروں جانیں گنوا کر یہ شہر آج بھی محفوظ نہیں۔ کسی بھی کالی سڑک پر کہیں بھی، کبھی بھی سرخ خون کا نوحہ لکھ دیا جاتا ہے۔
آج بھی اس شہر کے رہنے والے کبھی نسلی تو کبھی مسلکی اختلاف میں پھنس کر ہم آہنگی اور بے فکری کی نیند سے دور ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے بشری کے خون سے پھوٹنے والا آتش فشاں آج بھی اندر ہی اندر دہک رہا ہے۔