کیا آپ جانتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی آصف زرداری سے شادی ایک شہد کی مکھی کی وجہ سے ہوئی؟ بتاتا ہوں، لیکن شاید آپ پہلے یہ جاننا چاہیں گے کہ بے نظیر بھٹو نے آصف علی زرداری سے شادی کی ہی کیوں؟ وہ تو آکسفورڈ اور ہارورڈ میں پڑھی تھیں۔ پھر بے نظیر کو ایک جاگیردار کے بیٹے میں ایسا کیا نظر آیا کہ ہاں کر دی؟ یہ شادی کس نے کرائی؟ اور وہ کون تھا جس نے دونوں خاندانوں کو ملوایا؟ کیا یہ ایک سمپل میرج تھی یا اس میں کچھ مشکلات بھی تھیں؟

ہم آپ کو آج اپنے اس آرٹیکل میں بہت کچھ بتانے والے ہیں اور یقیناً یہ وہ سوالات ہیں جو آج بھی آپ کے دلوں میں مچلتے ہیں۔ تو چلیے وقت کا پہیہ الٹا گھما کر پچاس برس پیچھے چلتے ہیں۔

Raftar Bharne Do

انہیں پہچانتے ہیں۔ یہ ہیں حاکم علی زرداری۔ نہیں جانتے؟ بھئی آصف زرداری کے والد۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ والد کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں بلکہ نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ بلکہ انہوں نے تو انیس سو ستتر میں پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن بھی لڑا تھا۔ نواب شاہ کے ایک طاقت ور جاگیر دار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کراچی کے بمبینو سینما کے اونر بھی تھے۔ اسی لیے ان کا تعلق فلمی دنیا سے بھی تھا۔

یہی وہ کنکشن تھا جس کی بنا پر ننھے آصف زرداری کو فلم سالگرہ میں ہیرو کے بچپن کا رول مل گیا اور ہیرو بھی کوئی ایسا ویسا نہیں۔ وحید مراد۔ جن کے بچپن کا کردار آصف زرداری نے خوب نبھایا۔

اس فلم میں وحید مراد کی ہیروئین تو شمیم آرا تھیں مگر اُس چائلڈ ایکٹر یعنی آصف زرداری نے بڑے ہو کر مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم سے شادی کی۔

ویسے وحید مراد کی ایک اور مشہور فلم "ارمان" بھٹو خاندان نے ساتھ مل کر دیکھی تھی۔

جب ذوالفقار علی بھٹو نے جون انیس سو چھیاسٹھ میں ایوب خان کی کابینہ سے استعفاء دیا اور ریل گاڑی میں بیٹھ کر کراچی آئے تو راستے میں عوام اس فلم کا یہ گانا بھی گاتے تھے۔

بے نظیر بھٹو سے شادی کا خیال سب سے پہلے آصف علی زرداری کے دل میں پیدا ہوا۔ محبت کا یہ چراغ کب جلا؟ اس بارے میں بے نظیر بھٹو کی دوست وکٹوریہ شوفیلڈ نے اپنی کتاب دی فریگرینس آف ٹیئرز میں لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ آصف زرداری نے بے نظیر بھٹو کو پہلی بار بمبینو سنیما میں دیکھا جب وہ ایک فلم کے پری ویو کے لیے آئی تھیں۔

Date on visual (1968)

دونوں اس وقت پندرہ سال کے تھے۔ یہ فلم تھی ’’میئرلنگ Mayerling‘‘۔ جس میں ایجپشین ایکٹر عمر شریف اور فرانس کی حسین اداکارہ کیتھرین ڈی نوو نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔

آصف زرداری نے اس شعلے کو کبھی بجھنے نہیں دیا اور پھر ایک دن اپنے اہل خانہ سے دل کی بات کہہ ڈالی۔ کہ وہ بے نظیر سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ تب آصف زرداری اقتصادیات کی تعلیم حاصل کرنے لندن اسکول آف اکنامکس پہنچ چکے تھے۔

July 1985

بے نظیر اپنی فیملی کے ساتھ فرانسیسی شہر کان میں تھیں۔ سب بہت خوش تھے کہ اسی مہینے ایک افسوسناک واقعہ ہوا۔ یہ بے نظیر کے جواں سال بھائی شاہ نواز کی پراسرار موت تھی۔ آصف زرداری نے کچھ عرصہ پہلے ہی بے نظیر بھٹو سے شادی کے لیے پیغام بھجوایا تھا اور یہ واقعہ ہوگیا۔ ظاہر ہے ایسے میں شادی پر کیا خاک بات ہوتی۔ آصف زرداری کے ارمانوں پر تو جیسے اوس پڑ گئی، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔

آصف زرداری کا رشتہ ان کی سوتیلی والدہ بیگم زریں لے کر گئی تھیں۔ وہ کوئی معمولی خاتون نہیں تھیں۔ کیمبرج یونی ورسٹی سے تعلیم یافتہ تھیں اور ٹیمی کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ بیگم زریں مشہور براڈ کاسٹر سید ذوالفقار علی بخاری کی صاحب زادی تھیں۔

ویسے آصف زرداری کی اپنی والدہ بلقیس سلطانہ بھی کچھ کم دبنگ خاتون نہ تھیں۔ وہ حسن علی آفندی کی پوتی تھیں۔ مشہور ماہر تعلیم جنہوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی جس میں قائداعظم محمد علی جناح نے تعلیم حاصل کی۔

لیکن یہاں آپ کے ذہن میں سوال آئے گا کہ اس سیچوئیشن میں زرداری اور بھٹو فیملیز کو نزیک لانے والا کون تھا؟ تو جان لیجئے کہ دونوں خاندانوں کو جوڑنے کا کردار ایک مشترکہ دوست نے ادا کیا جنہیں بے نظیر آنٹی مَنا کہتی تھیں۔ یہ ان کی پھوپھو منور اسلام تھیں۔

انہوں نے بے نظیر کو بتایا کہ آصف جاگیردار سہی لیکن لنڈن اسکول آف اکنامکس سے پڑھا ہے۔ پولو کا شوقین ہے۔ ہاں پولو سے ایک بات یاد آئی جو بے نظیر نے اپنی کتاب دختر مشرق میں لکھی تھی۔ وہ لکھتی ہیں، کسی نے مجھے بتایا کہ پولو کھیلتے ہوئے آصف گھوڑے سے گر پڑا تھا اور اب باقی زندگی لنگڑا کر چلے گا۔ ویسے اُن دنوں آصف زرداری کی چال میں فرق دکھائی دیتا تھا، ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہی واقعہ ہو۔

تو آںٹی منا نے بے نظیر کو بتایا کہ آصف زرداری یاروں کے یار اور دشمنوں کے دشمن ہیں۔ وہ دوستوں کو مالی مشکلات میں پھنسا دیکھ کر بے دریغ مدد کرتے ہیں۔ بے نظیر کو یہ باتیں بھا گئیں۔ ادھر شاہ نواز کی موت کے بعد خاندان میں شادی کی بات ٹل چکی تھی۔ دو سال بیت گئے لیکن آصف زرداری نے اپنی کوششیں نہ چھوڑیں۔ جب خاندان کی ضد برقرار رہی تو بے نظیر نے وعدہ کیا کہ وہ جون انیس سو ستاسی میں لندن آئیں گی اور آصف زرداری سے خود ملاقات کر کے کچھ طے کریں گی۔ لیکن اس دوران پاکستان میں ایک اور ڈویلپمنٹ ہوئی۔

وزیراعظم محمد خان جونیجو نے ملک کی تمام جماعتوں کی ایک گول میز کانفرنس بلائی جس میں بے نظیر بھٹو کو بھی دعوت دی گئی۔ یہ کانفرنس جون میں ہوئی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ چوں کہ بی بی حکومت کو غیر قانونی سمجھتی ہیں اس لیے وہ کانفرنس میں نہیں جائیں گی، مگر وہ گئیں۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے کو یہ پیغام گیا کہ بے نظیر بھٹو کوئی ضدی اور انا پرست شخصیت نہیں اور ان کے ساتھ کام کیا جا سکتا ہے۔

July 1987

بے نظیر وعدے کے ایک ماہ بعد لندن پہنچیں۔ طے ہوا کہ بائیس جولائی کو ان کے کزن طارق کے گھر پر آصف آئیں گے اور وہیں پہلی ملاقات ہوگی۔ آصف بیگم زریں کے ساتھ طارق کی رہائش گاہ پہنچے۔ بے نظیر یہ سارا منظر یوں لکھتی ہیں۔ ڈرائنگ روم کی آرام دہ کرسی پر بیٹھے میں نے بے پرواہ نظر آنے کی کوشش کی لیکن آصف کے قدم نزدیک آتے ہی میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اُس ملاقات میں سب غیر ذاتی معاملات پر گفتگو کرتے رہے اور کسی نے شادی کا ذکر تک نہ چھیڑا۔

مگر اگلے ہی روز۔ آصف زرداری نے تحفہ پالیسی آزمانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بے نظیر کے لیے ایک درجن گلاب کے پھول، ان کی پسندیدہ مٹھائی اور آموں کا کریٹ بھجوا دیا۔ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ تباہ کرنے کے لیے بھی کوئی بم آموں کے کریٹ میں ہی رکھا گیا تھا۔ اس پر ہمارا آرٹیکل ضرور پڑھیئے گا۔

مگر آصف کے اس پیار بھرے تحفے کا اب تک بے نظیر نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اپنی کتاب میں انہوں نے لکھا کہ ’میں اپنی منگنی توڑنے یا شادی کے بعد طلاق کی بدنامی کا خطرہ مول نہیں لے سکتی تھی‘۔

ملاقات کے چوتھے روز بے نظیر اپنی بھتیجی فاتی کو لے کر ونڈسر پارک گئیں جب کہ آصف زرداری اسی روز لندن میں ایک پولو میچ دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ ونڈسر پارک میں ایک شہد کی مکھی نے بے نظیر کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ صبح تک ان کا ہاتھ سوج گیا۔ اس روز آصف زرداری بے نظیر کی بہن صنم بھٹو کے فلیٹ پر آئے ہوئے تھے۔ بے نظیر کا سوجا ہوا ہاتھ دیکھا تو منع کرنے کے باوجود انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ واپسی پر دونوں نے والدہ اور بہن کے ساتھ ڈنر کا فیصلہ کیا۔ مگر ہائے قسمت کے رستہ بھول گئے۔ یہاں بے نظیر مسلسل آصف کو نوٹ کر رہی تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ اس بات سے چڑچڑے نہیں ہوئے، بلکہ اس وقت بھی سب کو ہنساتے رہے۔ بے نظیر کو آصف زرداری کا سینس آف ہیومر بڑا پسند آیا۔

اگلی صبح جب بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر سے پوچھا تو انہوں نے ہاں کر دی۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی میں بے نظیر کی سہیلی وکٹوریہ شوفیلڈ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں۔ جولائی انیس سو ستاسی کی آخری تاریخوں میں ہم آکسفرڈ کے دوستوں نے کنسنگٹن کے میگی جونز ریسٹورنٹ میں ڈنر کیا جس کے بعد میں اپنی گاڑی میں بے نظیر کو ان کی بہن صنم کے فلیٹ تک چھوڑنے گئی۔ راستے میں بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا کہ وہ شادی پر راضی ہو چکی ہیں اور یہ ایک ارینجڈ میرج ہو گی۔

اکتیس جولائی انیس سو ستاسی کو دونوں کا رشتہ طے پانے کی خبر میڈیا کو دے دی گئی۔ نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار ہاوول رینز نے یہ خبر دیتے ہوئے لکھا کہ بے نظیر بھٹو کے خیال میں ان کے مغربی دوست حیران ہوں گے کہ انہوں نے لو میرج کے بجائے ارینجڈ میرج کا فیصلہ کیا۔ بے نظیر کا کہنا تھا کہ اگر انہیں ہر قدم پر سیاسی نتائج کا خیال نہ رکھنا ہوتا تو وہ ارینجڈ میرج کا فیصلہ نہ کرتیں۔ انہوں نے بتایا کہ خاندان میں صرف وہی ہیں جو ارینجڈ میرج کر رہی ہیں ورنہ ان کے دونوں بھائیوں اور بہن نے لو میرج ہی کی۔

ٹائمز کے نامہ نگار کے مطابق اس موقعے پر آصف زرداری نے کہا کہ انہیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق بیگم نصرت بھٹو بے نظیر کی شادی فوری طور پر کرنا چاہتی تھیں، لیکن اسی ماہ کراچی کے بوہری بازار میں بم دھماکے کا واقعہ ہوا جس میں درجنوں افراد شہید ہوئے۔ شہداء کے احترام میں بے نظیر بھٹو نے فیصلہ کیا کہ وہ اسی سال موسم سرما میں شادی کریں گی۔ اگست انیس سو ستاسی میں ان کی منگنی ہو گئی۔

انیس سو اڑسٹھ میں بے نظیر بھٹو کو پہلی بار دیکھنے کی یاد آصف زرداری کے دل میں تازہ تھی اور وہ فلم بھی جس کے پری ویو پر انہوں نے بے نظیر کو پہلی بار دیکھا تھا۔ اس فلم میں ایکٹر عمر شریف اپنی ہیروئن کیتھرین ڈینئوو کو شادی کی انگوٹھی پہناتے ہیں جس کے اندر لکھا ہوتا ہے "Until death do us part"۔ آصف زرداری نے بے نظیر بھٹو کو منگنی کی جو انگوٹھی پہنائی اس پر بھی یہی فقرہ درج کیا۔ آصف زرداری کے گھر والوں نے لندن کے علاقے وکٹوریہ کے بومبے تاج ریسٹورنٹ میں ایک پارٹی دی جس میں بے نظیر بھٹو نے اپنے آکسفورڈ کے دوستوں سے آصف زرداری کو ملوایا۔ منگنی کے بعد دونوں پاکستان آ گئے۔

ایک فوجی آمر کی مخالفت میں سیاست کرنے والی بے نظیر بھٹو کے لیے زندگی آسان نہیں تھی۔ لیکن اب آصف زرداری کو بھی اندازہ ہو چلا تھا کہ بے نظیر سے تعلق ان کے لیے بھی مشکلات پیدا کرنے والا ہے۔ بینکوں نے جو ان دنوں ریاست کی ملکیت میں تھے، حاکم علی زرداری کو قرض دینے سے انکار کر دیا۔ مگر یہ ان مشکلات کی ابتدا تھی جو بعد میں آصف زرداری کو پیش آنے والی تھیں۔

پاکستان آ کر وہ دونوں آسانی سے ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے تھے۔ دونوں کے درمیان فون پر ہی بات ہوتی اور آصف زرداری انہیں ہر روز گلاب کے پھول بھیجتے۔ طے پایا کہ شادی اسی سال دسمبر میں ہوگی۔

شادی سے ایک ہفتہ پہلے ستر کلفٹن کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع ہونا شروع ہو گئے۔ دس سال کے دکھوں کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکن اور حامی اب اس خوشی کو بھرپور طریقے سے منانا چاہتے تھے۔ ملک بھر سے بے نظیر کے لیے تحائف آنے شروع ہو گئے۔ سندھ سے ہاتھ سے بنی ہوئی شلوار قمیصیں، پنجاب سے کشیدہ کاری کیے ہوئے دوپٹے، مٹھائیاں، پھل اور بے نظیر اور آصف زرداری کی شکل والی گڑیائیں اور گڈے۔

بے نظیر بھٹو نے اس شادی پر کچھ روایتوں سے بغاوت کی اور کچھ نئی روایتیں ڈالیں۔ انہوں نے جہیز کا سامان تیار کرنے سے اپنی والدہ کو منع کر دیا۔ تحفے دینے میں آصف زرداری کا ہاتھ بہت کھلا تھا۔ مگر بے نظیر بھٹو نے ان سے کہا کہ وہ شادی کے روز زیورات سے لدا پھندا ہونا پسند نہیں کریں گی۔ انہوں نے زیورات کے صرف دو سیٹ قبول کیے، ایک شادی کے لیے اور ایک ولیمے کے لیے۔ سندھ کے جاگیردار گھرانوں میں دلہن کے بازوؤں میں کہنیوں تک سونے کی چوڑیاں پہنانے کا رواج تھا۔ بے نظیر بھٹو نے طے کیا کہ ان کے بازووں میں کچھ سونے کی چوڑیاں اور باقی سب کانچ کی چوڑیاں ہوں گی تا کہ لوگ کہہ سکیں کہ اگر بے نظیر اپنی شادی کے روز کانچ کی چوڑیاں پہن سکتی ہے تو میری بیٹی کیوں نہیں۔ بے نظیر نے آصف زرداری سے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اپنا خاندانی نام برقرار رکھیں گی۔

بے نظیر بھٹو نے برطانیہ میں موجود اپنے دوستوں کو بھی شادی پر بلایا۔ ان میں وکٹوریہ شوفیلڈ بھی تھیں۔ ان کے ویزے کی دو درخواستیں لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن مسترد کر چکا تھا۔ پاکستانی اخبارات میں خبر چھپنے کے بعد آخری لمحات میں انہیں ویزہ دیا گیا اور وہ بہ مشکل رسم حنا سے پہلے پاکستان پہنچ سکیں۔ ہارورڈ کی سہیلیوں میں این فیڈی مین کو خاص طور پر بلوایا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے یہ سارے دوست یونیورسٹی کے بعد پہلی بار اکٹھے ہوئے تھے۔ ان غیر ملکی مہمانوں کو کراچی کے شیریٹن ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔

سترہ دسمبر کو مہندی کی رسم ہوئی۔ مہندی کی رسم میں آصف زرداری کے گھر سے ایک بڑے سے تھال میں مہندی لائی گئی تھی جس پر مور بنا تھا اور اس کے پر اصلی مور کے تھے۔ غیر ملکی مہمانوں نے بھی خوب مہندی لگوائی۔ بے نظیر بھٹو کو اس روز گایا ہوا ایک گیت یاد تھا جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب میں کیا۔

اٹھارہ دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی شادی کی تقریبات دو مقامات پر ہوئیں۔ خاص مہمانوں کے لیے تقریب کلفٹن گارڈنز میں رکھی گئی۔ لیکن عوامی لیڈر نے اپنی شادی کو عوامی بنانے کے لیے لیاری کے ککری گراؤنڈ میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ شادی والی رات ستر کلفٹن پر کارکن شادی کے شرکاء کے لیے مٹھائی کے ڈبے تیار کر رہے تھے۔ اس موقعے پر بے نظیر بھٹو نے برقع پہنا اور ککری گراؤنڈ میں شادی کے انتظامات کا جائزہ خود جا کر لیا۔

کلفٹن گارڈنز میں سٹیج پر ایک طرف بے نظیر بیٹھی تھیں تو دوسری جانب لاڑکانہ میں بھٹو خاندان کی مقامی مسجد کے مولوی صاحب نکاح پڑھا رہے تھے۔ کچھ دیر بعد بے نظیر بھٹو سے ان کے کزن شاد نے سندھی میں پوچھا؟ قبول آھے؟ بے نظیر نے کہا قبول آھے۔ جب شاد نے دو مرتبہ اور پوچھا تو بے نظیر کو لگا کہ وہ مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن پھر انہیں معلوم ہوا کہ تین بار ہاں بول کر اب وہ شادی کے بندھن میں بندھ چکی ہیں۔ اس کے بعد وہ سب ککری گراؤنڈ روانہ ہوئے۔

بے نظیر بھٹو نے اس روز سبز رنگ کا لباس پہنا تھا جس پر سنہری اور گلابی رنگ کی کشیدہ کاری کی گئی تھی۔ یہ لباس ان کے لیے ان کی والدہ نصرت بھٹو نے پسند کیا تھا۔ اس لباس کی ڈیزائنر کا کہنا ہے کہ نصرت بھٹو ان کے ہاں سے وہ لباس گھر لے گئی تھیں۔ بے نظیر کو اس لباس میں فٹنگ کے کچھ مسائل نظر آئے تھے۔ اسے آلٹر کرنے کے لیے ڈیزائنر اپنے درزی کے ساتھ ستر کلفٹن گئیں۔

واپسی پر بے نظیر بھٹو کو ایک بار پھر ستر کلفٹن لایا گیا اور وہاں سے ان کی باقاعدہ رخصتی ہوئی۔ بیس ستمبر کو آصف زرداری کی جانب سے ولیمے کا اہتمام کیا گیا۔

سولہ نومبر انیس سو اٹھاسی کو بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ ان کے مخالفین نے الزامات کا مرکز ان کے شوہر آصف زرداری کو بنایا۔ حکومت ہٹنے کے بعد آصف زرداری کو نظر بند کر دیا گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آصف زرداری دباؤ کے آگے بے بس ہو کر بے نظیر بھٹو کو چھوڑ دیں گے۔ مگر نواز شریف اور پرویز مشرف کے ادوار میں کئی برس کی قید بھی دونوں کے تعلق میں خلل نہ ڈال سکی۔

نواز شریف سن انیس سو ستانوے میں دوسری بار اقتدار میں آئے تو بے نظیر بھٹو ملک سے باہر چلی گئیں اور پھر دس سال بعد وطن واپس آئیں۔ اس عرصے میں انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر زیادہ توجہ دی اور اپنا وقت زیادہ تر دبئی اور لندن میں گزارا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جب انہیں وقت ملا تو وہ اپنے بچوں کے لیے بہترین ماں ثابت ہوئیں۔ وکٹوریہ شوفیلڈ نے لکھا ہے کہ لندن میں اپنے آخری دنوں میں وہ بلاول کو آکسفورڈ میں سیٹل کرنے کی پلاننگ کر رہی تھیں۔

آصف زرداری آخری بار انیس سو چھیانوے سے دو ہزار چار تک مسلسل آٹھ سال قید رہے۔ رہائی ملتے ہی وہ اپنے بیوی بچوں سے ملنے دبئی گئے۔ اس موقعے پر بے نظیر بھٹو نے ایک اور فیملی فرینڈ بشیر ریاض کو بھی دبئی بلوا لیا۔ بشیر لکھتے ہیں کہ جس روز آصف دبئی آ رہے تھے اس روز بی بی کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ اس شام وہ ایک سیاسی لیڈر نہیں بلکہ ایک عورت، ایک بیوی اور ماں تھیں۔

اس بارے میں بے نظیر بھٹو کہتی ہیں:

ہر شادی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ دو الگ الگ شخصیتوں کا کسی نہ کسی چیز پر جھگڑا بھی ہو جاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ بنا لڑے چلتے رہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ شادی ایک طرح کی سیکیورٹی فراہم کرتی ہے، یہ ایک طرح کا ایموشنل شیلٹر ہے جس سے بہت زیادہ خوشی ملتی ہے۔ بچے بھی خوشی کا باعث بنتے ہیں اور میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے لیے خوشی کا سبب بنتے ہیں۔

جب بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو آصف زرداری نے بھی ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مگر بے نظیر چاہتی تھیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بچوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔

ستائیس دسمبر دو ہزار ستائیس کو پاکستانی عوام نے اپنی لیڈر کو کھو دیا۔ ان کے بچے ایک ماں سے اور آصف زرداری اپنی جیون ساتھی سے محروم ہو گئے۔ اپنی خوشیاں اور غم عوام کے ساتھ منانے والی بے نظیر بھٹو، اپنے کارکنوں اور عوام کے درمیان ہی شہید کر دی گئیں۔

شیئر

جواب لکھیں