انوار الحق کاکڑ کو نگراں وزیراعظم بنے ڈیڑھ مہینہ بھی پورا نہیں ہوا مگر موصوف نے اتنی چھوٹی مدت میں بھی کئی بڑے بڑے بلنڈر کر دیے ہیں اور ان کی لسٹ بڑھتی جارہی ہے۔ نگراں وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے کچھ ہی دن بعد ان سے ایک تقریب میں سوال ہوا کہ نوجوان ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اس پر کاکڑ صاحب کا کہنا تھا کہ تو کیا ہوگیا اگر لوگ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔

ان کے اس بیان پر خاصی لے دے ہوئی۔ لوگوں نے تنقید کی کہ کوئی اپنا وطن خوشی سے چھوڑ کر نہیں جاتا۔ پاکستان میں ایسے مواقع کیوں پیدا نہیں کیے جاتے کہ لوگوں کو اپنا دیس نہ چھوڑنا پڑے۔ بہرحال کاکڑ صاحب اپنے فارمولے پر ڈٹے رہے تھے اور کہا کہ اچھے مواقع کی تلاش میں بیرون ملک جانا کوئی بری بات نہیں، لوگ جائیں گے تو وہاں سے پیسا بھیجیں گے۔ بھارت سے بھی تو لوگ جاتے ہیں۔ خیر کاکڑ صاحب اس کے بعد خود بھی بیرون ملک چلے گئے۔ مستقل نہ سہی عارضی طور پر سہی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے۔ اس پر بھی انگلیاں اٹھیں کہ جب چین، روس اور برطانیہ جیسے طاقت ور ملکوں کے سربراہان شرکت نہیں کررہے تو نگراں صاحب وزیراعظم صاحب کس خوشی میں وہاں پہنچے ہیں۔ نگراں وزیراعظم کا کام صرف الیکشن کرانا ہوتا ہے وہ نہ کوئی طویل مدتی معاہدے کرسکتا ہے نہ اس کی باتوں کو عالمی لیڈر کوئی وزن دیتے ہیں۔ یہ الزام بھی لگا کہ نیویارک جاتے ہوئے انھوں نے اپنا طیارہ فرانس میں ٹھہرایا اور پیرس میں اپنی فیملی کے ساتھ کھانا کھایا جس کا بل سرکاری خزانے سے ادا کیا گیا۔
چلیں خیر کاکڑ صاحب نے امریکی دورے کا شوق پورا کرلیا، کوئی بات نہیں لیکن وہاں بھی موصوف بنا سوچے بیان بازی سے باز نہ رہے۔ ایک انٹریو میں پاکستان کو چین کا اسرائیل قرار دیا۔ اس بیان پر ابھی ان کی کلاس لی ہی جارہی تھی کہ انھوں نے ایک اور متنازع بیان دے دیا۔ امریکی خبر ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے گل افشانی کی کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کارکنوں کی رہائی کے بغیر بھی شفاف الیکشن ہوسکتے ہیں۔ ان کے اس واہیات بیان پر صرف لفافہ صحافیوں نے واہ واہ کی۔ باقی صحافیوں نے تو ان کی خوب خبر لی ہے۔ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے غیرجمہوری قرار دیا۔ ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو خبر ہونی چاہیے کہ یہ ان کا یا ان کی حکومت کا یک طرفہ فیصلہ نہیں ہوگا کہ شفاف انتخابات کیسے ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کی تابڑ توڑ گرفتاریوں اور آزادی اظہار پر پابندی سے انھیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی ہے۔ کاکڑ صاحب نے اس کے بعد بھی اپنا بیان واپس نہیں لیا بلکہ امریکا سے واپسی پر لندن چلے گئے اور نواز شریف کے گھر کے قریب ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اب وہ لندن کیوں گئے سرکاری طور پر اس کا جواب بھی نہیں دیا جاسکا۔ کیا وہ نواز شریف کو اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنے اور شاباش لینے کے لیے گئے ہیں؟ کیا باپ پارٹی کے ن لیگ سے اتحاد کی جو باتیں ہورہی ہیں، اس کو حتمی شکل دی جاری ہے۔ پھر کاکڑ صاحب کی ایک اور تصویر بھی وائرل ہوئی جس میں وہ لندن کے ایک مہنگے ترین اٹالین برانڈ کے اسٹور سے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بُرونیلو کوچی نیلی کا ایک سوٹ 4 ہزار پاؤنڈ یعنی تقریبا 14 لاکھ پاکستانی روپے کا ہوتا ہے۔ سوئٹر 7 لاکھ اور بیلٹ پرس وغیرہ بھی تین چار لاکھ کا ہوتا ہے۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا ایک غریب ملک کے نگراں وزیراعظم کو ایسے اسٹور میں شاپنگ کرنا زیب دیتا ہے؟ ایسا ملک کو ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر ہے اور دوست ملکوں سے قرضوں کی بھیک مانگتا رہتا ہے۔ یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ نگراں وزیراعظم 5 دن سے لندن میں کیوں اور کس کے خرچے پر رہ رہے ہیں؟ میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ وہ یہاں سیاسی ملاقاتوں کے لیے نہیں بلکہ ریاستی کام انجام دینے آئے ہیں مگر اب تک ان کی کسی برطانوی آفیشل سے ملاقات کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آسکی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ پانچ مہینے کے لیے نگراں وزیراعظم بنے ہیں۔ الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے، حلقہ بندیاں کی جارہی ہیں۔ ایسے میں وہ دس دن سے زیادہ تو بیرون ملک میں ہیں۔ بیرون ملک ریاستی امور انجام دینے سے زیادہ اہم ہے کہ ملک میں آکر ریاستی امور انجام دیں۔

شیئر

1 تبصرہ

جواب لکھیں