آج سے ٹھیک 17 سال پہلے، دسمبر کی 27 تاریخ کچھ ایسا ہوا کہ کراچی کا چہرہ ہی بدل گیا۔ آپ سب ہی جانتے ہیں 27 دسمبر کو بینظیر کو شہید کیا گیا تھا مگر یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ اسپیشلی کراچی میں۔ اس بارے میں لوگ کتنا جانتے ہیں یہ تو گوگل سرچ کے رزلٹ سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ میں نے گوگل پر 27 دسمبر لکھا تو زیادہ تر لوگوں نے ہالی ڈے سرچ کیا ہے۔
مجھے یہ بھی حیرانی ہوئی ہے کہ 27 دسمبر کے حوالے سے انٹرنیٹ پر بہت زیادہ آرٹیکلز یا فوٹیجز بھی موجود نہیں۔ تو میں نے سوچا کیوں نہ اِس پر آرٹیکل لیکھ ڈالوں۔ تاکہ جینزی یاد رکھیں کہ کراچی میں ایک ایسا دن بھی گزرا تھا۔ جب اُسے جلا کر راکھ کردیا گیا۔ اُس کا چہرہ بگاڑ دیا گیا۔ اس کی بہن بیٹی کی عزتیں محفوظ نہیں تھیں۔ آج بھی جو شہر پورا ملک چلاتا ہے۔ اُسے اُس روز سرعام لوٹا گیا تھا۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ کھانے پینے کو ترس رہے تھے۔ گھر والے بھی بے گھر ہوگئے تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کراچی کی سڑکوں پر بلائیں گھوم رہی تھیں اور شہریوں کو ان سے بچ کر اپنی منزل پر پہنچنا تھا۔ کچھ دو تین دن بعد پہنچے اور کچھ کی لاشیں پہنچیں۔
آپ میں سے جس جس نے 12 مئی کے حوالے سے مضمون پڑھا ہے وہ جانتے ہوں گے کہ کیا ہنگامہ ہوا تھا۔ لیکن اگر 12مئی کو 27 دسمبر سے کمپیئر کیا جائے تو یوں سمجھ لیجیۓ سانحہ بارہ مئی صرف ٹریلر تھا۔ اور 27 دسمبر 2007 پوری مووی۔
سانحۂ 27 دسمبر
سہیل اس روز بہت خوش تھا۔ شیشے میں خود کو دیکھتے ہوئے اپنی ٹائی کی نوٹ ٹھیک کرتے ہوئے بیوی سے کہنے لگا اب تمہاری ساری خواہشیں پوری کروں گا۔ ہاں کرنی بھی تھیں، کیونکہ سہیل کی بینک میں ہینڈسم سیلری پر جاب لگی تھی۔ اس نے جلدی سے چائے کا سپ لیا تو تیز قدموں سے یہ کہتا ہوا نکل گیا کہ شام کو ملاقات ہوگی۔ اُس کی بچی ہوئی گرم چائے سے اب بھی دھواں نکل رہا تھا اور اس کی بیوی کا دل گھبرائے جا رہا تھا۔ وہ سہیل کو باہر نکلتے ہوئے ایسے دیکھ رہی تھی، جیسے آخری بار دیکھ رہی ہو۔
سہیل شاہراہ فیصل پر بینک میں کام میں مصروف تھا۔ کہ اچانک صورتحال بدلنے لگی۔ کچھ لوگ جلدی جلدی باہر نکل رہے تھے اور بینک اسٹاف تیزی سے اپنا کام وائنڈ اپ کرنے لگا۔ سہیل نے گھبرا کر پوچھا کیا ماجرا ہے؟ کسی نے کہا۔ کام بند کرو اور جلدی نکلو۔ بینظیر کو قتل کر دیا گیا ہے۔ حالات خراب ہو رہے ہیں۔
اتنی ہی دیر میں دس سے پندرہ لوگ بینک کے اندر گھس آئے۔ حلیے سے اور شکلوں سے کراچی والے نہیں لگ رہی تھے۔ نہ ہی ڈاکو تھے مگر ہاں بینک لوٹنے آئے تھے۔ کچھ کے ہاتھ میں گنز تھیں۔ کچھ کے ہاتھ میں ڈنڈے اور بعض ڈنڈوں میں جھنڈے بھی تھے۔ خیر۔ ان لوگوں نے سہیل کے ساتھ کیا کیا۔ یہ بتانے سے پہلے ذرا بینک سے باہر نکلتے ہیں اور یونیورسٹی روڈ پر چلتے ہیں۔ جہاں ٹریفک جام ہے اور اسی میں اے آر وائی کے رپورٹر فیض اللہ خان بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
فیض اللہ خان بتاتے ہیں:
یونیورسٹی روڈ پر ہم لوگ ٹریفک جام میں پھنس گئے، ہمارے ساتھ کیمرا مین تھے کاشف نظامی، پتہ چل گیا تھا حملہ ہوگیا ہے، مختلف افواہیں تھیں، شہید ہوگئیں یا زخمی ہیں، ہم نے کور کرنا شروع کیا کیونکہ ہدایات تھی ہمیں، اس وقت تو یہی تھا کہ ٹریفک جام ہے، لوگ پریشان تھے خوف ہے، زیادہ تر لوگ یہی بتا رہے تھے کہ لوگ نکلے اور ٹریفک جام ہوگیا، لوگ خوف میں تھے کیونکہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ خواتین کے ساتھ ریپ ہوگئے ہیں، جرائم پیشہ لوگ نکل آئے موبائل فون وغیرہ چھیننے لگے۔
صحافی ذیشان شاہ بتاتے ہیں:
کیماڑی پر، وہاں ایک بینک کے شیشے توڑ دیئے گئے تھے، مشینیں کھینچ لی گئی تھیں، یہ شرارتی لوگ ہیں، اے ٹی ایم مشین لوگوں کا کانسیپٹ ہوتا ہے کہ کیا پتہ کھل جائے، گارڈن میں پٹرول پمپ، گاڑیاں نذر آتش کی گئی تھیں، نیپا تک لائن سے بسیں کھڑی تھیں، سب کو اگ لگائی، دکانوں پر توڑ پھوڑ، گاڑی جلانا تو کامن تھا۔
جنگل میں آگ بھی اتنی تیزی سے نہیں پھیلتی، جتنی تیزی سے بے نظیر کی شہادت کی خبر پھیلی۔ اب کراچی کی سڑکوں پر دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو خبر ملتے ہی دفاتر، مارکیٹس، کوچنگ سینٹرز یا کسی اور ادارے میں فورا چھٹی ہوتے ہی سڑک پر نکل آئے اور دوسرے وہ جو ان معصوم لوگوں کو نوچنے چلے آئے۔ خبریں یہ پھیلیں کہ فیکٹری سے نکلنے والی لڑکیوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔
ذیشان شاہ مزید بتاتے ہیں:
جس وقت فیکٹریز کی چھٹیاں ہوئی تھیں، فیملیز کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، مگر وکٹم کوئی سامنے نہیں آیا، میڈیکل پروف نہیں ہوسکتا تھا، مگر ایک پرسنل لیول پر دیکھا جائے تو یہ واقعات ہوئے ہیں۔
اُس روز سڑک پر موجود لوگوں کا ہولناک واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنا کسی ٹراما سے کم نہیں تھا۔ اُنہی میں ایک شہری ذیشان بھی شامل تھا۔ وہ بتاتے ہیں:
جب ہم گلشن چورنگی پہنچے ناں، تو ایک مومنٹ پر ایسا ہوگیا تھا کہ یا تو گھر جائیں گے یا اللہ کے پاس جائیں گے، سامنے سے اسٹریٹ فائر ہو رہے تھے، دوسری طرف سے لوگ بھاگتے ہوئے آ رہے تھے گاڑیوں کے شیشے توڑ رہے تھے، بچہ بوڑھا جوان کسی پر رحم نہیں کیا جا رہا تھا، لوگ ہماری طرف بڑھ رہے تھے ماموں نے بولا نیچے چھپ جاؤ، باقی میں دیکھ لیتا ہوں، ڈنڈے بار بار مارے جا رہے تھے گاڑیوں میں، بھئی آپ بچے اور آنکھوں کے سامنے فیملیز کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہو، بچوں کو مارتے ہوئے دیکھ رہے تو سمجھیں ذہن میں ایک چھاپ بن گئی ہے۔
صحافی ذیشان شاہ مزید بتاتے ہیں:
ہوائی فائرنگ لا تعداد ہوئی، لوگ انجرڈ اور ہلاک بھی ہوئے، اس کی کوئی اکاؤنٹلبلٹی نہیں ہوئی ہے، غلے نکال کر لے گئے تھے، 27 دسمبر کو جرائم پیشہ عناصر ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے باہر آ جاتے ہیں اور اپنا کام سیدھا کر جاتے ہیں، قانون کی رٹ اس کہیں نظر نہیں آئی تھی۔
ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا۔ مگر آسمان دھویں سے کالا ہونا شروع ہوگیا تھا۔ کیونکہ شاہراہ فیصل کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک۔ یونیورسٹی روڈ ہو، راشد منہاس روڈ یا شاہراہ پاکستان۔ کراچی کا کونہ کونہ جلایا جا رہا تھا اور یہ لوگ کوئی باہر سے نہیں آئے تھے۔ یہ کراچی کے کونوں میں ہی کہیں بیٹھے اسی شہر میں کما کر کھا رہے تھے اور اب موقع ملنے پر لوٹ کر کھا رہے تھے۔ حد یہ تھی کہ ٹرین کی پٹریاں تک اکھاڑ دی گئیں۔ ریلوے اسٹیشنز کو آگ لگا دی گئی۔
یوں تو پورا پاکستان ہی بد امنی کی لپیٹ میں آیا تھا۔ مگر کیا کہیے کراچی سے جانے کیوں ایسی دشمنی ہے کہ کمانا کھانا بھی اسی سے ہے اور مٹانا بھی اِسی کو ہے۔ چلیے آپ کو اسی شہر کے ایک نامور فوٹوگرافکر زاہد حسین صاحب کی کہانی سناتا ہوں۔ انہیں بی بی کی تدفین کور کرنے کے لیے گڑھی خدا بخش پہنچنا تھا اور وہ پنجاب میں تھے۔ مگر ادھر ادھر فون گھما رہے تھے کہ کہیں سے راستہ مل جائے۔
فوٹوگرافکر اور جرنلسٹ زاہد حسین کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
اس نے کہا زاہد بھائی بہت مشکل میں ہے، آپ نہیں پہنچ پائیں گے، دادو تو پورا بند کیا ہوا ہے، آپ کس طرف سے آئیں گے، رائٹر کے ڈرائیور سے میں نے کہا جانا ہے اس نے کہا میں تو نہیں جاتا، رائٹر ایکٹ کے تحت آپ انکار کر سکتے ہیں جان کا خطرہ ہے تو منع کر سکتا ہے، میں نے ڈرائیور پر زیادہ زور نہیں دیا، اس وقت خبریں آ رہی تھیں پٹرول نہیں مل رہا، بیٹا گیا دو پمپ پر، اس نے کہا حیدر آباد تک جا سکتے ہیں وہیں تک کا پٹرول ہے، حیدر آباد والے سے پوچھا کیا ہوا، اس نے کہا ادھر کا تو رخ نہیں کرنا کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ہنگامہ نہیں ہو رہا ہے۔
مگر اس دور کے صحافیوں میں کام کی لگن کا یہ عالم ہوتا تھا کہ جان خطرے میں ڈال کر نکل پڑتے تھے۔
فوٹوگرافکر اور جرنلسٹ زاہد حسین مزید بتاتے ہیں:
جامشورو پہنچے تو بیٹے نے کہا اب بیس تیس میل سے نہیں جا سکتا، پٹرول پمپ پر روکی بولے مالک سے بات کرو، مالک سے ملے اٹھ کر بیٹھ گیا، اس نے کہا بھئی صاحب آئے ہیں اس نے کہا میں نے بولا ہے اسسٹنٹ کمشنر آئے ہیں ساتھ میں، اندر گیا تو اس نے بولا صاحب آپ کو پتہ ہے پٹرول دوں گا تو لوگ آگ لگا دیں گے، امیں نے تیز لہجے میں بولا تو اس نے دس لیٹر ڈالو، میں نے بتایا ہم سسٹنٹ کمشنر نہیں ہیں اخبار والے ہیں، گالیاں دینے لگا، مگر پھر پیسے دیے کہ پھول لیکر بی بی کی قبر پر ڈال دینا۔
ایک طرف یہ محبت تھی اور دوسری طرف محبت کے نام پر لٹیرے اپنا کام دکھا رہے تھے۔ ادھر یونیورسٹی روڈ پر پھنسے فیض اللہ خان کو بہن کی کال آتی ہے۔ فیض اللہ خان کہتے ہیں:
ان لوگوں نے پیدل سفر کیا ایک گھنٹے تک کا، پھر دوستوں کے گھر جا کر انہوں نے پناہ لی، اسی طرح سے کئی لوگ تھے جنہوں نے راتیں کئی گزاریں کئی لوگوں کا پٹرول سڑکوں پر ختم ہوگیا، کئی گاڑیوں ٹرالرز، کو آگ لگائی گئی، شہر کو مکمل بند تھا، پنجاب سے آئے ہوئے دوست نے رابطہ کیا کھانے کی چیزیں ختم ہوگئی تھیں، میں نے ان سے کہا پریس کلب تک آ جائیں میں نے کہا ہمت کر کے آ جائیں کھانا وغیرہ کھلائیں گے۔ پھر وہ کسی طرح پہنچیں تو ان کی حالتیں خراب تھیں، مسلسل بندش کی وجہ سے پریس کلب میں بھی کھانا ختم ہوگیا تھا، تو ان کو بھی میں اسی میں اکوموڈیٹ کیا۔
اُدھر ذیشان جو کہ اپنے ماموں کے ساتھ گھر جانے کا راستہ ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ یونیورسٹی روڈ پر قیامت صغریٰ کا مںظر بیان کرتے ہیں جو آج بھی ان کے ذہن میں تازہ ہے:
گلشن چورنگی پر ہم پہنچے تو فٹ پاتھ تھا، ماموں نے ہائی ایس فٹ پر چڑھا دی، کہا خالہ کے گھر چل لیتے ہیں۔ سگنل نہیں لگ رہے تھے ہم بیچ میں پھنسے ہوئے تھے، آگے منی بس تھی، ایک دم کیا ہوتا ہے اس بس پر اسٹریٹ فائر ہوتا ہے بس ڈائریکٹ جا کر لگتی ہے فٹ پاتھ پر، پتہ چلتا ہے بس میں جتنے بھی لوگ تھے سب مر چکے ہیں، پانچ منٹ کے سفر میں پون گھنٹہ لگ گیا تھا، اپنے گھر تو پہنچ نہیں سکتے تھے خالہ کے گھر چلے گئے دو گھنٹے لگ گئے تھے، میری آنکھوں کے سامنے جلانا مارنا ہو رہا تھا۔
اُس روز پولیس تھانوں کے اندر اپنی حفاظت کر رہی تھی اور سیکیورٹی فورسز سرحدوں کی۔ حالانکہ سرحدوں کے اندر بدمعاشوں نے حدیں پار کر دی تھیں۔ تین دن تک سڑکوں پر لوٹ مار چلتی رہی، پنوں عاقل پر کھڑی ٹرین تک کو آگ لگا دی گئی۔
کراچی سے پنوں عاقل، دادو، کوٹری، لاڑکانہ سمیت کئی اسٹیشن اور ٹرین کے انجنز جلا دیے گئے۔ دیوالیہ ریلوے کو دس ارب روپے کا نقصان ہوا۔ آپ کو وہ شروع کا حصہ یاد ہے۔ میں نے سہیل کا ذکر کیا تھا۔ جس کی نوکری کاپہلا دن تھا۔ مگر افسوس کہ یہ اس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ بینک میں لوٹ مار کرنے والوں نے واپس بھاگتے ہوئے راڈ سہیل کے سر پر دے ماری۔ پورے شہر کی طرح وہاں بھی کوئی ریسکیو یا سیکیورٹی کے اہلکار نہیں پہنچ سکے۔
خون بہتا رہا اور نوجوان کی سانسیں بند ہوگئیں، تین دن اس کی بیوی راہ تکتی رہی، انسو بہاتی رہی۔ چوتھے دن لاش گھر پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ بیوہ ہوچکی ہے۔ جی ہاں! 27 دسمبر کو صرف بلاول کی ماں ہی دنیا سے نہیں گئیں۔ بلکہ فائرنگ کے واقعات میں پچاس سے ساٹھ ماؤں سے ان کے بچے چھین لیے گئے۔
لوٹ مار کے دوران تشدد کرکے مارے جانے والے اور زندہ جلائے جانے والوں کی تو گنتی ہی نہیں ہوئی۔ اس وقت کی سندھ حکومت نے بعد میں ڈیٹا مرتب کیا جس کے مطابق 27 دسمبر 2007 کو 968 گاڑیاں جلائی گئیں۔ 300 بینکس نذر آتش کر دیے گئے۔ 807 سرکاری دفاتر جلا دیے گئے اور توڑ پھوڑ ہوئی۔ 10 ٹرینیں ، 45 ریلوے اسٹیشنز توڑ پھوڑ کر کے جلا دیے گئے۔ 1700 دکانیں ایسی تھیں جو لوٹی گئیں اور پھر جلا دیں۔ 75 پٹرول اور سی این جی پمپس میں توڑ پھوڑ ہوئی۔ 50 کے قریب فیکٹریوں، کارخانوں اور 15 سرکاری گودام کو نذر آتش کیا گیا۔ 71 پولیس تھانوں، چوکیوں، دفاتر، 9 حراستی مراکز اور 100 سے زائد سکولوں کو نذر آتش کیا گیا۔ 65 گھروں پر حملے کیےگئے جن میں جیکب آباد اور لاڑکانہ کے ڈی سی اوز کے گھر بھی شامل ہیں۔
اس دن ملک میں نہ کوئی حکومت تھی نہ انہیں روکنے کے لیے کوئی سیکیورٹی فورس۔ البتہ بعد میں سیاست شروع ہوئی تو پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے۔ تھرپارکر، کشمور, خیرپور، جیکب آباد، نوابشاہ نوشہروفیروز اور دیگر اضلاع میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے گئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شور مچایا کہ لیڈر بھی ہماری شہید ہوئیں اور کارکن بھی ہمارے گرفتار کیے جا رہے ہیں جس کے بعد سندھ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اگر کوئی سیاسی کارکن جلاؤ گھیراؤ میں ملوث نہ ہوا تو ایف آئی آر سے نام خارج کر دیا جائے گا۔
کچھ عرصے تک یہی سیاست چلتی رہی۔ پھر وقت گزرتا گیا۔ دور بدلنا شروع ہوگیا۔ یادوں پر دھندلا ہٹ چھا گئی۔ یہ سب کس نے کیا۔ یہ معلوم ہونا تو چھوڑیئے۔ ایسا کچھ ہوا بھی تھا۔ لوگوں کے ذہنوں سے یہ بھی مٹنے لگا۔ مگر یقین کیجیے 27 دسمبر کو جو سڑک پر تھا۔ جس نے لوگوں کو مرتے اور موت کو اپنے سامنے دیکھا ہے وہ یہ منظر کبھی نہیں بھول پائے گا۔