اگر آپ کو، اپنے گھر سے نکل کر ایک ایسی جگہ رہنا پڑے، جو نہایت تنگ اور تاریک ہو، گندی ہو، وہاں کچھ گرینری تو ہو پر حال بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہو، گٹر بہہ رہے ہوں، اونچے نیچے رستوں پر چلنا عذاب ہو، اور تو اور نشئیوں اور آوارہ جانوروں کے بھی ڈیرے ہوں، جادو ٹونا ہورہا ہو، تو کیا آپ وہاں رہنا پسند کریں گے؟ یقیناً ریفیوز کر دیں گے، ہرگز نہیں جائیں گے۔
لیکن اب میں آپ سے کہوں کہ جانا تو آپ کو وہیں پڑے گا، اور نہ کا آپشن بھی نہ ہو گا۔ آپ جانا نہ بھی چاہیں، تو لوگ آپ کو وہاں لے جائیں گے، بلکہ چھوڑ آئیں گے۔ ہم بات کر رہے ہیں زندوں کی آبادی میں گھرے مردوں کے شہرِ خموشاں کی۔ کراچی کے قبر ستانوں کی جہاں بے ترتیبی ہے، گندگی اور تعفن ہے، مافیا کی من مانی قیمتیں ہیں، نہیں ہے تو بس ڈھائی گز زمین نہیں ہے! جب کوئی دنیا سے چلا جاتا ہے نا، تو ہم اسے قبر میں سکون کی دعا دیتے ہیں، دل سے تو ریسٹ ان پیس کہتے ہیں، مگر آنکھیں قبرستان کی حالت پر نوحہ کرتی ہیں۔
شہری ایک عام شہری کا اس بارے میں کہنا تھا:
قبریں مہنگی ہیں، پانی اور لائٹ کا انتظام نہیں ہے، کسی کو لے کر آتے ہیں تو راستے بہت تنگ ہیں، عوام کو بھی سوچنا چاہئے کہ اپنے پیاروں کو دفنا کر چلے جاتے ہیں تو واپس دیکھا کریں۔
اب تو گبھرا کر یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
یہ شعر کہنے والے ابراہیم ذوق کو تو دلی میں قبر مل ہی گئی تھی، مگر کراچی میں قبر کا ملنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ہاں اگر آپ کے پاس ڈھیر سارے پیسے ہیں تو شاید کسی پرانی قبر کا کوئی فرسٹ فلور مل جائے۔ دو کروڑ آبادی کے شہر میں زندوں سے زیادہ مردے زمین کے لیے پریشان ہیں یا ان کے لواحقین۔ یہاں ہر سال لگ بھگ 6 ہزار لوگ اللہ کو پیارے ہوتے ہیں اور پھر قبر کے لیے رسوا ہو جاتے ہیں۔
آپ نے میرا آرٹیکل ذلت ریپبلک آف پاکستان تو پڑھا ہوگا جس میں میں نے بتایا تھا کہ پاکستانی عزت سے جی نہیں سکتے، اس آرٹیکل میں میں بتاؤں گا کہ ہم عزت سے مر بھی نہیں سکتے، اسٹوری کا آغاز مجھے اسٹوڈیو سے باہر کرنا پڑا کیونکہ بات اس جگہ کی ہے جہاں ایک دن نہ ایک میں نے بھی آنا ہے۔ ہماری آخری آرام گاہ لیکن یہ آخری آرام گاہ بھی (ہنستے ہوئے) اتنے آرام سے نہیں ملتی، بلکہ کراچی میں اس کو حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے، وہ شاعر نے کہا ہے نا کہ:
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
کراچی سوا دو سو اسکوائر مائلز پر پھیلا شہر ہے۔ 1970 میں یہاں 38 قبرستان بنائے گئے تھے جب آبادی صرف تیس لاکھ تھی۔ ان قبرستانوں میں ساڑھے چھ لاکھ قبروں کی گنجائش تھی۔ اُن دنوں شہر کے معاشی حالات اچھے تھے۔ صنعتیں چل رہی تھیں، اربن پلاننگ ہو رہی تھی۔ ٹرینیں بھر بھر کر لوگ روزگار کے لیے کراچی آتے اور ان کے پیچھے خاندان کے خاندان چلے آتے۔ پھر افغان جنگ کے تحفے میں تیس لاکھ مہاجرین بھی یہیں آ کر آباد ہوئے۔ 2010 اور پھر 2022 میں جب سندھ میں فلڈ آیا تو اُس وقت بھی اربن مائیگریشن عروج پر رہی۔ شہر بھرتا گیا، اور چون سال پہلے بنائے گئے 38 قبرستانوں میں سے 18 مکمل بھر گئے۔ سوال یہ ہے کہ کراچی میں نئی سوسائیٹیز تو مسلسل بنتی رہیں، لیکن نئے قبرستان کیوں نہ بنے؟
ڈائریکٹر اربن پلاننگ اینڈ جی آئی ایس میپنگ سروس محمد توحید کہتے ہیں:
اصول تو یہی ہے کہ جو نئی ہاؤسنگ سوسائٹی بنتی ہے اس میں پارک، مساجد، گرین اپسیس اور قبرستان کی جگہ ہونی چاہئے، جب نئے لوگ آ کر آباد ہوں گے تو پھر ان کے ساتھ یہ تمام معاملات ہوں گے، لیکن اداروں نے اس سمت میں سوچا ہی نہیں، جس کی وجہ سے ہم یہاں کھڑے ہیں، کیونکہ ہم نے اس معاملے کو کبھی ترجیح ہی نہیں دی۔
کے ایم سی گریوارڈ ڈائیریکٹر علی حسن ساجد کہتے ہیں:
سوسائٹیز کے ایم سی نہیں کرتا ہے بلکہ وہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت بنائی جاتی ہیں جو حکومت سندھ کرتی ہے اور اس میں میرا خیال ہے کہ جگہ رکھی جاتی ہے لیکن بعد میں بلڈرز ہوتے ہیں جو سوسائٹی کی انتظامیہ ہوتی ہے وہ اس کو چھپا لیتی ہے یا بیچ دیتی ہے۔
کراچی کا کوئی بھی ایسا قبرستان دیکھ لیں جسے look after حکومت یا کے ایم سی کرتی ہو، ان کی حالت قابل ترس ہی ہے، دفنانے کی جگہ نہیں لیکن پھر بھی تدفین جاری ہے، نہ کوئی سیکورٹی نہ کوئی انتظام، پورا قبرستان صرف گورکن یا پھر کچھ موالیوں کے پاس ہے! پھر وہ جاہیں وہاں جادو ٹونے کریں یا نشہ! کوئی پوچھنے والا نہیں، ٹوٹی ہوئی قبریں، قبروں پر بیٹھے جانور بے ترتیب قبریں مشکل راستے بلکہ راستے تو ہیں ہی نہیں اگر اپنے پیارے کی قبر پر جانا ہو تو کسی نہ کسی قبر پر چڑھ کر جانا پڑے گا، جیسے کراچی میں جس نے جہاں چاہا گھر بنا دیا ویسے ہی ان قبرستانوں میں جس کا جہاں دل کیا اس نے اپنا مردہ دفنا دیا کیونکہ لوگ بھی مجبور ہیں کہاں جائیں؟
عام شہری کا اس بارے میں کہنا تھا:
عزت سے مر بھی نہیں سکتے والا۔
یہ شہر کا سب سے پرانا قبرستان ہے۔ گورا قبرستان، کرسچن کمیونٹی کے اس واحد آپریشنل گریویارڈ میں قبروں کی گنجائش صرف تین ہزار ہے، مگر تین لاکھ سے اوپر مردے رجسٹرڈ ہیں۔ یعنی ہر قبر میں کم از کم دس مردے تو ہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں سفید ماربل سے بنی قبریں بڑے صبر سے گرمی کا مقابلہ کرتی ہیں۔ کچھ قبریں ذرا اونچائی پر ہیں جو وی آئی پی ایریا کہلاتا ہے۔ کیونکہ جب بارش ہوتی ہے تو یہاں پانی جمع نہیں ہوتا۔ اور یہاں کے ریٹس بھی وی آئی پی ہیں۔
یہاں سے نزدیک ہی طارق روڈ پر پی ای سی ایچ ایس قبرستان شہر کے پرانے گریو یارڈز میں سے ایک ہے۔ عرصہ ہوا قبرستان بند ہے، مگر پیسے دیں تو کام ہو جاتا ہے۔ قبر وہی سلامت رہتی ہے جس پر ٹھیکے داروں کو خرچہ ملتا رہے اور جو تاج محل کی طرح ٹھوس ماربل کی بنی ہو۔ ورنہ غریب کے کچے مکان کی طرح کچی قبریں بھی کسی بھی وقت غائب ہو سکتی ہیں۔ پی ای سی ایچ ایس میں ایک قبر پونے دو لاکھ کی بکی۔
ڈائریکٹر اربن پلاننگ اینڈ جی آئی ایس میپنگ سروس محمد توحید کہتے ہیں:
کاظم سعید صاحب بہت مشہور رائٹر ہیں ان کی کتاب ہے دو پاکستان، تو بس ٹائٹل سے ہی سمجھ لیں کہ کراچی بھی پاکستان کا حصہ ہے، دو کراچی ہیں، ایک کراچی ان کے لئے جو کہتے ہیں کہ کراچی میں تو گرمی ہے ہی نہیں، کیونکہ وہ ہر وقت ائرکنڈینش میں ہوتے ہیں، کراچی میں کون سی سہولت ایسی ہے جو نہیں ملتی ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ، ایک شخص وہ ہے کہ جو چھوٹی سی اپنی بیسک نیڈ پوری کرنے کے لئے دربدر پھر رہا ہے خوار ہے، دو پاکستان، دو کراچی، دو قانون، یعنی ہر چیز میں آپ بس یہ دو کا لفظ لگاتے چلے جائیں آپ کے لینس میں وزیبلیٹی آ جائے گی کہ کس طرح سے چیزیں کام کر رہی ہیں۔
دودھ کی طرح سرکار قبر کا ریٹ بھی مقرر کرتی ہے لیکن مجال ہے کہ نو ہزار میں کوئی قبر مل جائے۔ جو جہاں پھنس جائے، گورکن ایک قبر کے 15 ہزار سے 2 لاکھ روپے تک لیتے ہیں۔
کے ڈی اے نے سڑسٹھ سال میں بہت کچھ بنایا پر قبرستان نہ بنائے۔ اب کہیں جا کر گڈاپ ٹاون میں سو ایکڑ زمین قبرستان کے لیے رکھی گئی ہے۔ بن قاسم میں تیس ایکڑ اور کیماڑی میں پچاس ایکڑ زمین قبروں کے لیے رکھی گئی ہے۔
رفتار ٹیم کے ذلفقار امروہی کہتے ہیں:
جو حالات ہیں، جس طرح اس شہر کی آبادی پھیل رہی ہے۔ ہمیں ہر سال تین لاکھ نئی قبروں کی ضرورت ہوگی۔ اگر ڈھائی میٹر کی ایک قبر لگائیں تو ہر سال 185 ایکڑ زمین صرف قبروں کے لیے چاہیے ہوگی۔ صرف قبروں کے لیے۔ درمیان میں اسپیسز، راستے، پلانٹیشن، لیںڈ اسکیپنگ وغیرہ اس کے علاوہ ہیں اور اگر آپ یہ نہیں کرسکتے تو پھر کیا مردے جلانے شروع کردیں گے؟ خدارا جاگیے ، بہت ہو چکی لا پرواہی۔
کے ایم سی گریوارڈ ڈائیریکٹر علی حسن ساجد کہتے ہیں:
میرے خیال سے تو ہمیں اچھے خاصے قبرستانوں کی ضرورت ہے اور کراچی کے 25 ٹاؤنز ہیں جن میں کم سے کم ایک قبرستان تو لازمی ہونا چاہئے، کے ایم سی تین نئے قبرستان بھی بنا رہی ہے، ایک سرجانی، ایک نادرن بائی پاس اور ایک پر۔
آپ کو 2015 کی ہیٹ ویو تو یاد ہوگی۔ 1300 افراد کی اچانک ہلاکت پر سرد خانے کم پڑے تو لاشوں کو شدید گرمی میں سڑک پر رکھنا پڑا۔ مشینوں سے خندقیں کھود کر تین سو لاشیں اکھٹی دفنائی گئیں۔ کیونکہ قبرستان میں تو قبر کے ریٹ پانچ گنا اوپر جا چکے تھے۔ وہاں تو عام حالات میں قبر نہیں ملتی پھر بھلا ہٹ ویو میں کیسے ملتی۔
ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک چیز بڑی دلچسپ ہے۔ جب بھی کوئی بحران یا قدرتی آفت آتی ہے تو بہت سے لوگوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ رمضان میں کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ کروونا میں دس روپے والا ماسک پچاس سو روپے میں بیچا جاتا ہے۔ اسی طرح جب قبرستان تنگ پڑنے لگے تو موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے قبرستان مافیا کی انٹری ہوئی۔ یہ گورکن اور ٹھیکیداروں پر مشتمل ہیں۔ جنہیں پولیس اور علاقے کے بڑوں کی بھی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔
یہ گدھ کی طرح قبرستان کی پرانی قبروں پر نظر رکھتے ہیں۔ جب کوئی ایک عرصے تک نہیں آتا وہ اسے غائب کر کے اگلے گاہک کو مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔
شہر اور صوبے کی کیا بات کریں یہاں تو پورے ملک میں ہی گورننس اور ریگولیٹری نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو تین درجن سرکاری قبرستان پچاس سال پہلے بنائے گئے۔ اگر اوسطاً تیس ہزار روپے کی قبر بھی لگائیں تو سال کی چھ ہزار اموات کے اعتبار سے اٹھارہ کروڑ روپے کا ٹرن اوور بنتا ہے جو کوئی معمولی رقم نہیں ہے۔ پھر انہیں پکا کرنا، ان کی دیکھ بھال، یو سی ڈیتھ سرٹیفیکٹ اور پھر نادارا ڈیتھ سرٹیفیکٹ کی مد میں لوگ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ سرد خانے سے میت گاڑی تک، نہلانے اور کفنانے سے لے کر کتبے تک ایسے لا تعداد مرحلے ہیں جہاں پیسوں کی انوالومنٹ ہے جو اسے باقاعدہ انڈسٹری کی شکل دیتے ہیں۔ ان قبرستانوں کی نگرانی کرنے والا واحد ادارہ کے ایم سی ہے جس کے پاس ان کے دیکھ بھال کے لیے بجٹ نہیں۔ کے ایم سی کے پاس صرف 45 قبرستان رجسٹرڈ ہیں اور باقی لگ بھگ دو سو قبرستان آرمی، نیوی اور دیگر کمیونیٹیز کے پاس ہیں جن میں پختون، میمن، آغا خانی، دھوراجی، پنجابی سوداگران، خاصخیلی، بوہری اور شیعہ کمیونیٹی شامل ہیں۔ یہاں بد انتظامی اور مافیا راج نہیں مگر کمیونٹی کے سوا کسی کو دفن ہونے کی اجازت بھی نہیں۔
کے ایم سی گریوارڈ ڈائیریکٹر علی حسن ساجد کہتے ہیں:
لوگوں کا اصرار ہوتا ہے کہ اگر ان کے والد یاسین آباد قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی ہے تو ان کی خواہش ہوتی ہے اگر ان کی والدہ کا انتقال ہو تو ان کی تدفین بھی ہر صورت یاسین آباد میں ہو، اسی طرح اگر دادا طارق روڈ پر دفن ہیں تو لواحقین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہر صورت میں قبر طارق روڈ قبرستان میں ہی ملے، اس میں کیا ہوتا ہے کہ وہ گورکن کو لالچ دیتے ہیں، اس کو پیسے دیتے ہیں اور جب وہ قبر مہیا کر دیتا ہے لالچ میں تو پھر الزام لگتا ہے کہ کے ایم سی کے لوگ رشوت لیتے ہیں۔ یہاں تک بھی ہوا ہے کہ طارق روڈ قبرستان میں ایک صاحب نے بلینک چیک دیا تھا گورکن کو کہ اس میں آپ جتنی چاہیں رقم بھر لیں لیکن قبر یہیں چاہئے۔
یہاں میں دو قبرستان کا موازنہ کروں گا، کسی ویل پلانڈ سوسائٹی جیسا یہ ہے وادی حسین قبرستان۔ موٹروے کے نزدیک یہاں ساری قبریں ایک جیسی ہیں۔ صاف ستھرا اور ویل آرگنائزڈ، یہ کراچی کا پہلا آن لائن گریویارڈ ہے، جہاں سولر لائٹس تک انسٹالڈ ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیفنس فیز 6 اور 7 کے قبرستان بھی انتظامی اعتبار سے کافی بہتر ہیں۔
یہ سہولت ریاست بھی ایک عام آدمی کو دے سکتی ہے اگر ترجیحات تھوڑی سی بدل جائیں۔
لیکن ایک عام آدمی کے لئے تو یہ نظام اتنا بے بس ہے کہ وہ ساری زندگی ہی نہیں دفن ہونے سے پہلے بھی رشوت دیتا ہے! اور یہ دیکھئے۔ یہ ہے ایک بزرگ کے نام سے منصوب سخی حسن قبرستان۔ اگر وہ بزرگ یہاں کی حالت دیکھ پاتے تو بلبلا اٹھتے۔ یہاں کون سی قبر کس کی ہے؟ اس کا بھید تو قیامت میں ہی کھلے گا۔ کیونکہ یہاں نہ قبروں کی کوئی ترتیب ہے نہ ہی رستہ۔ دیواریں ٹوٹی ہوئی ہیں جہاں سے کتے کھلے عام اندر آ کر قبروں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ اکثر اوقات یہاں انسانی ہڈیاں بکھری دکھائی دیتی ہیں۔ کئی قبریں تو بالکل ہی دھنس چکی ہیں اور ان کے اوپر کئی قبریں بن چکی ہیں۔ یہاں لائٹ کا بھی کوئی انتظام نہیں ایسے میں رات میں کسی مردے کو دفنانا انتہائی خطرناک ہے۔
زمین پر قبضے اور کچی آبادیوں نے مُردوں پر زمین تنگ کر دی ہے۔ ذرا ِاس کا احوال بھی سن لیں۔ 2014 میں سندھ بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر فضل الرحمان نے ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر تو میری آنکھیں حیرت کے مارے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ سرکاری ادارے شہر کی 35 فی صد زمین پر قابض ہیں۔ یہی نہیں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی 15 فی صد، شہر میں جعلی گوٹھ 14 فیصد، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی 13 فی صد، ڈی ایچ اے 8 فی صد، پورٹ قاسم اتھارٹی 5 فی صد، ملیر کینٹ ڈھائی فیصد اور کراچی پورٹ ٹرسٹ نے شہر کی ایک فی صد زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
حیرت ہے کہ یہ بات خود سندھ حکومت کے نمائندے کہہ رہے ہیں۔ کیا حکومت اتنی معصوم ہے کہ یہ قبضہ آسانی سے ہونے دے۔ یہاں تو سندھ رواداری مارچ میں نہتی خواتین لائن کراس کر لیں تو انہیں زمین پر گھسیٹا جاتا ہے۔ قبضہ مافیا کے لائن کراس کرنے پر آنکھیں بند رکھنے کی کوئی تو وجہ ہوگی باس۔
ڈائریکٹر اربن پلاننگ اینڈ جی آئی ایس میپنگ سروس محمد توحید کہتے ہیں:
جب ادارے اپنی کم سے کم ریگولرٹی اور مانینٹرنگ اتھارٹی چھوڑ دیں تو پھر عوامی رویہ اور رجحان تو یہی ہوتا ہے جو ماب کا ہوتا ہے، ہم نے اس شہر کو بتدریج تباہ کیا ہے، اب ذمہ داری؟ میں جتنا ذمہ دار ہوں میں ماننے کو تیار ہوں، لیکن ادارے بھی تو یہ تسلیم کریں کہ ان کی کیا ذمہ داری تھی اس میں، کوئی ذمہ داری ہو نا ہو ریگولیشن اور مانٹینرنگ تو سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے نا؟
کراچی میں جیسے جیسے زمین پر قبضہ ہوتا گیا، قبرستان کے لئے جگہ کم پڑتی گئی، غیر قانونی عمارتیں اور سوسائٹیز بننا شروع ہو گئیں اور پھر رہی سہی کثر چائنا کٹنگ نے پوری کر دی۔ بائیس گوٹھوں کے تاریخی پپری قبرستان کی دیوار گرا کر وہاں گھروں کی تعمیر شروع کر دی گئی، اور یہ لینڈ مافیا اتنا طاقتور ہوتا چلا گیا کہ پولیس، ایڈمنسٹریٹر یا ڈپٹی کمشنر سب اس کے سامنے بے بس ہو گئے۔ اسی طرح لانڈھی میں 47 ایکڑ کے قبرستان حیدر شہید پر بھی لینڈ گریبرز نے باؤنڈری وال کھڑی کر دی۔
چیئرمین آباد آصف سم سم کہتے ہیں:
قبرستانوں کی زمینوں پر پلاٹ کٹے ہوئے ہیں۔
ڈی ایچ اے 47 اسکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہے اور اس میں پانچ قبرستان ہیں۔ یہ ڈی ایچ اے کے رقبے میں ایک فیصد کا دسواں حصہ بھی نہیں۔ اس کا بہت سادہ سا ریزن ہے، ڈیچ ایچ اے میں ایک سو بیس گز زمین اگر ڈیڑھ کروڑ کی بھی لگائیں تو ایک قبر تین سے چار لاکھ کی پڑے گی۔ ظاہر ہے جب زندوں کے لیے جگہ اتنی مہنگی ہے تو مردوں کے لیے کون سوچے۔ مسئلہ صرف قبرستان بنانے کا نہیں ہے بلکہ ان کو مینج کرنے کا بھی ہے، کیونکہ قبرستان تو بن جائیں گے، لیکن اگر انہیں مینج کرنے کے لئے سسٹم نہ بنا، تو کچھ سالوں بعد پھر یہی مسئلہ کھڑا ہو گا۔
ڈائریکٹر اربن پلاننگ اینڈ جی آئی ایس میپنگ سروس محمد توحید کہتے ہیں:
امریکا کے پارکس میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ شکایات کی صورت میں اس نمبر پر دیں، مشورہ اس نمبر پر دیں، یہ پارک اس کی جورڈیشکشن میں آتا ہے، اور فلاں اس کا ذمہ دار ہے، ہم کیا اتنی بھی اہلیت نہیں رکھتے کہ ہر قبرستان میں ایک بورڈ نہیں لگا سکتے کے شکایت کی صورت میں اس نمبر رابطہ کریں آپ کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا؟
شہروں میں آبادیاں بڑھنے سے دنیا بھر میں قبرستان تنگ پڑتے جا رہے ہیں۔ لندن سے لے کر سڈنی تک اور برازیل سے لے کر ممبئی تک قبروں کو ری سائیکل کرنے یا مزید جگہ بنانے کے لیے دماغ لڑایا جا رہا ہے۔ برازیل میں بتیس منزلہ ہائی رائز قبرستان بنائے جا رہے ہیں۔ اسرائیل میں زیر زمین سرنگیں بنائی جا رہی ہیں۔ کینیڈا اور امریکا میں ہائی ٹیک اسکرینز کے ساتھ ورچوئل گریویارڈز اور ڈجیٹل ٹامب اسٹون کی باتیں ہو رہی ہیں۔
کئی شہروں میں پرانی قبر سے باقیات نکال کر انہیں کم جگہ پر دفنایا جا رہا ہے تاکہ قبر کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکے۔ سعودی عرب سمیت دیگر عرب ملکوں میں یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ایسا ہونا مشکل ہے۔ کیا اس میں کوئی مذہبی یا مسلکی رکاوٹ حائل ہے۔
اس ڈوبتے سورج کے ساتھ نجانے کتنے افراد کی زندگیوں کا سورج بھی غروب ہو رہا ہو گا،
اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے جتنی مشکلات زندگی میں اٹھائی ہوں گی مرنے کے بعد بھی وہ ذلت کے ساتھ دفنائے جائیں گے، نہ زندگی میں گھر بنا سکے نہ مرنے کے بعد دو گز زمین آسانی سے ملے گی، یہ لوگ جو دنیا سے جا رہے ہیں، آج کے بعد نہ کوئی شکایت کر سکیں گے، نہ احتجاج، لیکن!
میں اس وقت تک ان ٹاپکس پر بات کرتا رہوں گا جب تک اپنے ہی ملک میں ایک عام پاکستانی کو عزت نہیں دی جاتی، تو انتظار کیجئے گا ذلت ریپبلک آف پاکستان کی اگلی اپی سوڈ کا!