ویسے تو آپ لوگ رفتار پر میرے سارے آرٹیکلز آخر تک پرھتے ہیں۔ تھینک یو۔ لیکن آج کی اس کہانی کو آپ چاہ کر بھی ادھورا نہیں چھوڑ سکتے۔ کیونکہ آج میں آپ کو کسی اور کی نہیں۔ بلکہ آپ کی کہانی سنانے جا رہا ہوں۔ کسی اور کے نہیں۔ آپ کے گھر میں داخل ہونے جا رہا ہوں۔

شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات شاید۔ آپ میں سے کسی کا گھر بچ جائے۔ بچوں کا مستقبل سنور جائے۔ آپ کے خیالات بدل جائیں۔ ویسے بھی Raftar is a movement of Social Change  اور ہمیں تو ایک ہی کام آتا ہے بھیا۔  کہانیاں سُنانا۔ بس کہانی سنا کر ہی معاشرہ بدلنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے دل بدلنا ہوں گے۔ اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔ اپنے ملک کو اچھا کرنا ہے تو پہلے اپنے گھر اچھے کرنا ہوں گے۔ میں اچھے مکانوں کی بات نہیں کر رہا۔ اچھے بڑے بڑے خوبصورت پکے مکانوں میں بسنے والے کچے رشتوں کی بات کر رہا ہوں۔ ہمیں انہیں مضبوط کرنا ہو گا۔ جیسے رفتار سے آپ کا رشتہ مضبوط ہے۔ چلیے آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔

یہ سیم ہے۔ ہاں کلاس میں سب اسے سیم ہی بلاتے ہیں۔ اصل نام تو سَمیر ہے۔ 16سال کا ہے۔ مگر بڑا ہی ہونہار ہے۔ او لیول کر رہا ہے۔ سیم کے پاپا بڑے بزنس مین ہیں۔ ہر ماہ پچاس ہزار اپنے بیٹے کی فیس دے کر فخر کرتے ہیں۔ کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتے وہ سیم کو۔ مگر روزانہ سورج ڈھلنے کے ساتھ سیم کی سانس گھٹنے لگتی ہے۔ اُس وقت وہ اپنے پاپا کے ساتھ نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنی عمر کے دوستوں میں شام ڈھلے پارٹی کرتا ہے۔ یہ پارٹی ہم مڈل کلاس والوں کی جیسی نہیں ہوتی۔ اِس میں تو پاپا کی پَریاں اور سیم جیسے پاپا کے پَرے جمع ہوتے ہیں۔ وہ ہے ناں، مجھے پینے کا شوق نہیں، پیتا ہوں غم بھلانے کو۔ یہاں سستا نشہ نہیں ہوتا۔ اور کوئی اُداس بھی نہیں رہتا۔  سیم کو اُداس ہی تو دیکھا تھا اس کے دوست نے۔ پھر اُسے یہاں لے آیا اور یہاں اُس کی رگوں میں دوڑتے خون میں آئس شامل کردی گئی۔ کیوں؟ کیونکہ سیم کی رگوں میں جن کا خون دوڑ رہا تھا۔ وہ سب کچھ دے رہے تھے سوائے محبت کے۔

صحافی عبداللہ جمال کہتے ہیں:

بچے کو دلا تو سب کچھ رہے ہیں لیکن نہیں دے رہے تو ٹائم نہیں دے رہے، بچہ جب روتا ہے تو خاموش کرانے والا چاہیے، جب ہنستا ہے تو ہنسنے والا چاہیے۔ جب دس مرتبہ بولے پاپا تو گیارہ مرتبہ جی کہنے والا چاہیے ۔ یہ نہیں کیا پاپا۔ کیا پاپا۔

اِسے سمجھنے کے لیے اینیمل مووی کا سین بہترین Example ہے۔ بچپن سے جوانی تک اپنے پاپا کی اٹینشن نہ ملنے پر رنبیر کا ذہن کوپنگ مکینزم بناتا ہے اور باپ کا توجہ نہ دینا یا لاتعلقی کی وجہ سے بننے والے کوپنگ مکینزم کی وجہ سے وہ وائلنٹ ہو جاتا ہے۔ اور ہر چھوٹی بڑی بات پر مار دھاڑ شروع کر دیتا ہے۔ یہی حال ہماری کہانی کے سیم کا بھی ہونے والا ہے۔ اُس کے ذہن نے جو کوپنگ مکینزم بنایا اسے پورا کرنے کے لیے سیم نے آئس کا سہارا لیا۔ لیکن یہ کوپنگ مکینزم کیوں بنا؟ اس کی وجہ ہے اس کے گھر کا ماحول۔ سیم جب بھی اسکول سے لوٹتا تو اکثر اپنی ماما کو فون پر پاپا سے لڑتے ہوئے دیکھتا۔ وہ سو کر اُٹھتا تو تب بھی وہی سین اس کے سامنے ہوتا لیکن اب فون پر نہیں۔ بلکہ اس کے ماما پاپا روم میں چیخ رہے ہیں۔کیونکہ جن کے نہ دل ملتے ہیں نہ دماغ ملتے ہیں لیکن جسم ملتے رہتے ہیں اور بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔  تو پھر اُن بچوں کی کہانی سیم جیسی ہی ہوتی ہے ایسا نہیں ہے کہ ان کی لڑائی کی وجہ سے بچے کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی اسے کھانا پینا کھیلنا اسکول پیسہ سب مل رہا ہے۔ مگر کیا سیم کو یہ سب چاہیے، نہیں! اس کی ضرورت پوری ہو رہی ہے، محبت نہیں۔

ایسے لاکھوں سیم ہیں۔ جن کے ماں باپ کی لڑائیوں کی وجہ سے ان کی زندگی تباہ ہو رہی ہے۔ اگر وہ نشے کی عادی نہیں ہو رہے تو اینزائٹی ڈپریشن کی وجہ سے کسی اور مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اُن کے گھروں کے باہر بڑی لگژری گاڑیاں تو کھڑی ہیں لیکن گھر کے اندر سکون نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں سیم کے ماما پاپا کی زندگی کو جاننا ہو گا۔ اُن دونوں کی لَو میرج ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں ناں لَو ایٹ فرسٹ سائٹ۔ کالج میں مہوش کا پہلا دن تھا۔  دانش کی نظر مہوش پر پڑی تو اُس دن وہ پھر کچھ نہ کرپایا کچھ ہی عرصے میں۔  نظریں ملیں، دھڑکن بڑھی، محبت کے دیپ جلے اور دونوں کی پیار کی کہانی شروع ہوگئی ایک دوسرے کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھالیں۔ افیئر چلتا رہا۔ دانش نے اپنے پاپا سے شادی کی ضد شروع کردی۔  لڑکی کی فیملی نے کہا دانش امچیور ہے۔ والد کا پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ ارلی ایج میں شادی سہی نہیں رہے گی۔  مگر پھر شادی ہوگئی۔ مہوش ابھی اولاد نہیں چاہتی تھی۔ مگر دانش اُس کی سوچ سے متفق نہیں تھا اور پھر ایک سال بعد ہی سمیر۔ اوہ سوری جینزی کا سیم پیدا ہوا۔ اب مہوش اور دانش کی زندگی ویسی نہیں تھی۔ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے والے۔ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کو کاٹنے کو دوڑتے۔

ارم بنت سفیہ بتاتی ہیں:

دا ہسبینڈ سیس۔ میں نے اتنی انکم کا پرامس کیا تھا کیا میں کما کر دے رہا ہوں، وہ کہتی ہاں، پھر مجھ سے ٹائم مت مانگو، برتھ ڈے نہیں بھولتا، جس اسکول میں تمہاری بہن کے بچے جاتے اس میں ہی جاتے ہیں، فارن کا ٹرپ بھی لگا دیا تمہارا، ڈونٹ آسک۔ کہ میں بچوں کی پرورش میں حصہ دوں، تمہاری اموشنل ویلمنگ کروں، کیونکہ میری اموشنل ویلمنگ پر کوئی کام نہیں کر رہا۔

 اور اِسی نفسہ نفسی کے درمیان سیم کی پرورش ہو رہی تھی۔ سیم ابھی نو ماہ کا ہی ہوا تھا کہ مہوش پھر پریگننٹ ہو گئی۔ دانش بہت خوش تھا ۔ مگر اس نے ایک بار بھی مہوش کے چہرے کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ خوش ہے یا نہیں؟ وہ تو فیملی پلاننگ چاہ رہی تھی۔ مگر دانش سخت خلاف تھا۔ اُس کا ماننا تھا کہ اُس کے پاس تو پیسہ ہے وہ پال سکتا ہے۔ فیملی پلاننگ کی کیا ضرورت؟

ارم بنت سفیہ مزید کہتی ہیں:

وہ عورت بچے پر بچہ پیدا کر رہی ہے رحم نہیں آرہا ہے۔ اس عورت پر رحم نہیں آتا کسی کو ۔ کیونکہ بچہ پید ا کرنے کے بعدسب سےپہلا جو ہوتا ہے۔ تربیت تو عورت کرتی ہے ماں پہلی تربیت کرتی ہے ۔ یار وہ عورت اس قابل رہ گئی ہے کہ وہ درسگاہ بھی بنے، ہم کسی انسان کی صحت کو فار گرانٹڈ لیتے ہیں، مرغی تھوڑی ہے اس نے انڈے دیتے جانا ہے، دو تین سال لگتا ہیں ہارمنز کو واپس نارمل ہونے میں۔

مہوش اینزائیٹی اور ڈپریشن کا شکار ہونے لگی۔ ابھی پہلے بچے کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن ختم نہ ہوا تھا کہ دوسرے بچے کی ذمہ داری کا خوف اُسے ستانے لگا مگر دانش اور اُس کا خاندان اینزائیٹی ڈپریشن وغیرہ کو بھی تسلیم نہیں کرتے مہوش کے بلا وجہ رونے کو سُسرال والے ڈرامہ کہتے۔ بار بار موت کا خوف ستانے پر اُسے ڈرپوک کہتے۔ رات بھر نیند نہ آنے پر وہ اُسے راتوں کو جاگنے والی بگڑی ہوئی لڑکی کہتے اور جب وہ اپنے شوہر سے اینزائٹی ڈپریشن کا ذکر کرتی تو وہ کہتا یہ ڈاکٹرز کا خبط ہے ۔ انسان خود خوش رہنا چاہے تو خوش رہ سکتا ہے۔ وہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ مہوش خوش رہنا چاہتی ہے۔ مگر اس کے ذہن میں بننے والے نیگیٹیو تھاٹس اسے خوش نہیں رہنے دیتے دونوں کے درمیان بڑھتے ہوئے جھگڑوں کو دیکھ کر کیا گھر والے اور کیا باہر والے۔ سب نے کہنا شروع کر دیا کہ لو میرج کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔

 ذہنی آمراض کے ماہر ڈاکٹر آفریدی کہتے ہیں:

 شادی کے معاملے پر چلتے پھرتے فیصلے ہوتے ہیں جو جلد بازی والے فیصلے ہیں اکثر ناکام ہوتے ہیں کیونکہ یکطرفہ ایک کوالیٹی کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں شخصیت پر نہیں ہوتے، بالکل ارینج بھی ٹھیک نہیں ہے، وہاں بھی مسئلہ ہے کہا جاتا ہے آپ کی شادی ہوگئی بس آپ کی لاش گھر آئے گی۔ اُدھر بعض لوگ سوال اٹھا رہے تھے کہ مہوش اور دانش کی شادی ارلی ایج میں ہو گئی ہے۔ ان بَن اور جھگڑوں کی وجہ کم عمری کی شادی ہے۔

ارم بنت سفیہ مزید کہتی ہیں:

ایگزیکٹلی پرفیکٹ ایج سوسائٹی میں ہے 23 گرل ، 26 بوائے، اور اس کے باوجود فیل ہو جائے تو پھر کس کی غلطی تھی، اور اگر دوسرا جوڑا چھوٹا ہے اسکول میں ہی شادی ہو گئی، ساتھ پڑھے اچھے دوست ہیں، چل گئی شادی، لیکن اس کی بھی گارنٹی نہیں ہے کہ چل جائے گی۔

مگر مہوش کے گھر والے تو کہہ رہے تھے کہ اصل مسئلہ نہ لو میرج ہے ناں ارلی میرج۔ مسئلہ ہیں دانش کے گھر والے۔ وہ جب بھی دانش سے مہوش کو لیکر الگ گھر میں رہنے کی بات کرتے تو وہ کہتا کہ میں ماں باپ کو چھوڑنے کا گناہ نہیں کر سکتا۔

ارم بنت سفیہ مزید کہتی ہیں:

جوائنٹ فیملی سسٹم جو تھا کیا وہ سنت ہے؟ گھر سب کے پاس پاس ہوتے تھے مگر بیڈ روم تک کسی کی رسائی نہیں ہوتی تھی، کلچرل ویلیوز اور ریلیجیس ویلیوز کے فرق کو سمجھیں، یہ کلچرل ہے مذہب نہیں۔

اَن ہیپی میرجز میں سب سے بڑا مسئلہ پتہ ہے کیا ہوتا ہے؟ کہ آپ کو اصل مسئلہ ہی نہ پتہ ہو۔ دانش اور مہوش کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ اس میرج کے اَن ہیپی ہونے کی وجہ ہی نہیں معلوم، دونوں ایک دوسرے کو برائی کی جڑ سمجھتے تھے۔ جب لڑائیاں ہوتی ہیں تو دل دور ہوتے ہیں اور جب دل دور ہوتے ہیں تو دل کی باتیں کیسے ہوں گی اور آپ کو یہ تو پتہ ہی ہے۔ ٹائم فلائز۔ اسی شور شرابے کے درمیان کب سیم بڑا ہو گیا ۔ اس کپل نے یہ Feel بھی نہیں کیا۔ لیکن اب سمجھیے گا۔ سیم کا ذہن بیلیف پیٹرن بنا رہا تھا۔ مطلب ایک بچہ بچپن سے ہی جو کچھ اپنے آس پاس دیکھتا ہے۔ جیسا ماحول ہوتا ہے۔ جو کچھ وہ آبزرو کرتا ہے ۔ وہی بلیف پیٹرن بنتا ہے۔ اس بات کو ایک اورExample  سے سمجھاؤں تو۔ جیسے ایک کمپیوٹر کے مدر بورڈ میں جو فنکشن فیڈ کیا جاتا ہے۔ یا جو پروگرامنگ اُسے دی جاتی ہے۔ وہی آؤٹ پُٹ ہوتا ہے۔ اور کچی عمر میں بچوں کے ذہن میں جو سافٹ ویئر انسٹال ہوجائے پھر وہ پوری عمر نہیں نکلتا۔  مگر ٹینشن ناٹ کنکلوژن میں اِس کا حل بھی پیش کروں گا۔

پھر ایک روز سیم کی طبعیت بگڑ جاتی ہے۔ اسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ ہاتھ میں بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ تھامی ڈاکٹر والدین سے کہتی ہے آپ کو نہیں معلوم کہ سیم آئس کا نشہ کرتا ہے۔ یہ سُن کر دونوں پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔ دونوں میں نا اتفاقی اتنی بڑھ گئی تھی کہ اِس غم کو بانٹ نہیں رہے تھے بلکہ ایک دوسرے پر چلائے جارہے تھے۔  اور اس کی وجہ تھی لیک آف کمیونیکشن۔ اسے سمجھنا ضروری ہے۔

خیر!  سیم تو اب ریہیبلیٹیشن سینٹر میں تھا۔ اس کی ماں اسپتال کے سائیکو ڈیپارٹ میں ایڈمٹ اور دانش رات رات بھر گھر سے باہر رہتا اور دن میں دفتر جا کر بزنس میں لاسٹ کی خبر سنتا۔  اپنی بیوی اور بچے کی طرح وہ بھی ڈپریشن اور اینزائٹی کا شکار ہوچکا تھا مگر ماننے کو تیار نہ تھا۔ اور سائیکریٹرسٹ کے پاس جانے سے یہ کہہ کر منع کردیتا کہ آئی ایم ناٹ آ سائیکو پیشنٹ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 58 فیصد لوگ آئنزیٹی یا ڈپریشن سے گزر رہے ہیں۔ جبکہ 34 فیصد ایسے ہیں جنہوں نے سائیکریٹرسٹ یا سائیکولوجسٹ سے رجوع کیا۔ ان میں پینتالیس فیصد عورتیں ہیں جبکہ مرد اکیس فیصد ہیں۔ یہ صرف ایک دانش مہوش اور سیم کی کہانی نہیں۔ ایسے لاکھوں کروڑوں کپل اپنے بچوں کا مستقبل برباد کر رہے ہیں۔

  کیونکہ According to phycology جذبات احساسات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ وہ بچے کے ذہن یا جسم کے مختلف حصوں میں اسٹور ہو جاتے ہیں اور کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح باہر آتے ہیں۔ جیسے سیم نشے میں پڑ گیا۔ لاکھوں کروڑوں بچے کسی اور مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ ان ہیپی میرجز کی وجوہات ۔ کبھی لو اور کبھی ارلی اور کبھی جوائنٹ فیملی پرابلم سمجھ کر کپلز ساری زندگی لڑتے رہتے ہیں۔

 تو چلیے آج سب ری اسٹارٹ کرتے ہیں۔ مجھ سے شروعات کرتے ہیں۔ میں مہوش اور دانش کی کہانی کو ری اسٹارٹ کرکے سب اچھا  ردیتا ہوں۔ اور جو چیزیں میں بتانے جا رہا  ہوں آپ چاہیں تو اسے رائٹ ڈاؤن کرلیں۔ بلیو می اگر آپ نے اِس پیٹرن پر لائف ری اسٹارٹ کرلی۔ تو رشتوں میں سکون آجائے گا ۔ زندگی  چھی گزرے گی اور مجھے دعائیں دیں گے۔

پھر سے شروعات

آپ کو میں نہیں۔ یہ سمجھائیں گے۔ انیسویں صدی کا انجینئر نکولا ٹیسلا جس کی تھیوری تھی کہ کوئی بھی آئیڈیا ، انوینشن، ڈسکوری پہلے سب کونشیز مائنڈ میں ہی بنتی ہے۔ جی ہاں! ذہن کا وہ حصہ جو کونشیز مائنڈ سے کئی گنا بڑا اور پاور فل ہوتا ہے۔ بالکل اس آئس برگ کی طرح۔ جب مجھے یہ ڈاکیومینٹری اسائن ہوئی تو میں نے اپنے سب کونشیز مائنڈ کی مدد سے

اس کا پورا خاکہ تیار کرلیا اور ایک مکمل کہانی وجود میں آگئی۔ یہ ہماری کہانی اور آپ کی لائف کو ری اسٹارٹ کرنے میں کیسے مدد کرے گا۔ ابھی پانچ منٹ میں سمجھ جائیں گے آپ۔ دیکھیے اس سب کونشیز مائنڈ میں ہی ہوتے ہیں۔ آپ کے Beliefs، Emotions,، Habits،  Values، Protective Reactions، Long term Memory، Imagination  اور سب سے امپورٹںٹ Intuition انٹیو ایشن جب آپ کو غصہ آنے لگتا ہے۔ چڑچڑاہٹ ہوتی ہے۔ بے چینی یا بہت ڈی موٹی ویٹڈ ہوتے ہیں۔ تو اصل میں آپ کا سب کونشیز مائنڈ آپ کےخلاف کام کر رہا ہوتا ہے۔ جو کہ ہماری کہانی کے دانش، مہوش اور سیم کا اصل مسئلہ تھا۔ لیکن اب ہم۔ اِن کے سب کونشیز مائنڈ کو اُن کی حمایت میں استعمال کریں گے۔

چلیے ری اسٹارٹ کرتے ہیں

دانش نے دفتر سے گھر لوٹتے ہی اپنے بچوں کو گلے لگایا بچوں کے سامنے اپنی بیوی مہوش کو بھی ہگ کیا۔ اس سے بچوں کے سب کونشیز مائنڈ میں محبت کا میسج اسٹور ہوتا ہے۔ اب دانش اپنے کمرے میں بچوں سے ساری باتیں سن رہا ہے۔ بلکہ رسپانڈ بھی کر رہا ہے۔ اصل میں والد کے پازیٹیو آنسرز ہی اولاد میں سب سے زیادہ کنفیڈنس پیدا کرتے ہیں۔ پھر کچھ وقت وہ مہوش کے ساتھ بیٹھ کر اُس کی شکایات تامل مزاجی سے سنتا ہے۔ مہوش مسلسل کڑوا بول رہی ہے۔ اس کے گھر والوں کی شکایات کر رہی ہے۔ مگر دانش ہر بات پر مسکرا کر جواب دے رہا ہے۔ اپنے سب کونشیز مائنڈ کی پاور کی مدد سے وہ مہوش سے ملنے والے نیگیٹیو رجحان کو خود پر حاوی نہیں ہونے دے رہا اور اپنے Emotions اورProtective reactions کو پازیٹیو استعمال کر رہا ہے۔ جس کا رزلٹ یہ نکلا کہ مہوش بولتے بولتے خاموش ہوگئی اور آخر میں دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر گلے لگالیا۔ اصل میں ہیومن سائیکلوجی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب انسان غصے میں ہو تو لاجیکل یا پرابلم سولور برین کام نہیں کر رہا ہوتا۔ اُس وقت برین کا اموشنل حصہ ایکٹیو ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ سب کونشیز مائنڈ کا اموشنل حصہ آپ کے مخالف ایکٹیو ہوجاتا ہے۔ اس وقت انسان لاجک سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ لیکن یہ اموشنل برین کچھ ہی وقت میں نارمل ہونے لگتا ہے۔ بہتر ہے اس وقت خاموش رہا جائے ۔ ریٹیلیٹ نہ کیا جائے۔ خیر۔ اب رات دیر تک دانش اور مہوش بچوں کی پرورش، مستقبل اور فیملی پلاننگ کرتے۔ مہوش نے سورہ بقرہ کا حوالہ دیتے ہوئے ترجمہ بتایا کہ ماؤں کو پورے دو سال دودھ پلانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ٹیکنکلی اسپیکنگ ۔ اگر آپ بچوں کی پیدائش میں گیپ نہیں دیتے اور عورت ہر سال پریگننٹ ہوجاتی ہے تو مطلب آپ نے ایک بچے کے دودھ کا حق مارا ہے۔ ہمارے ویورز جینزی بھی ہیں تو ان کے لیے اور وضاحت کردوں کہ جب عورت پریگننٹ ہوتی ہے تو قدرتی دودھ آنا بند ہوجاتا ہے ۔ یعنی وہ بچہ جو ابھی نو ماہ کا ہے اس کے باقی گیارہ ماہ کا دودھ کا حق مارا گیا۔ دانش یہ بات سمجھ گیا اور فیملی پلاننگ کے لیے راضی ہو گیا۔ دانش اور مہوش نے طے کر لیا کہ وہ کسی بھی بات پر بچوں کے سامنے جھگڑا نہیں کریں گے تاکہ بچوں کے سب کونشیز مائنڈ میں کوئی نیگیٹیو رجحان پیدا نہ ہو۔ پہلے بچے کے بعد ہونے والے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کو بھی دانش نے سمجھا اور فورا مہوش کو سائیکریٹریسٹ اور سائیکلوجسٹ کے پاس علاج کے لیے لے گیا۔ مگر ان دواؤں اور تھراپی سے بڑھ کر تھا مہوش کے لیے دانش کا پیار۔ وہ ہر روز اس کے لیے ایک گلاب کا پھول ساتھ لے جاتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ تم میری زندگی میں آئیں۔ یہ عمل اور یہ الفاظ مہوش کے لیے فیول کا کام کرتے اور یہاں ایک بات اور مینشن کردوں۔ آپ کسی بھی مذہب سے ہوں۔ آپ جس خدا کو مانتے ہو اگر اس کا شکر ادا کرتے رہو گے۔ تو آپ کے سب کونشیز مائنڈ کو پازیٹیو میسج ملتے ہیں جو ہیپی میرج لائف کے لیے ہیلتھی ثابت ہوتا ہے۔  ہر پرابلم سے نمٹنے کے لیے وہ دونوں ساتھ کھڑے ہوتے۔ دانش اپنی بیوی سے ہر معاملے میں مشورہ کرتے ہوئے اسے یہ جتاتا۔ کہ بیوی سے مشورہ ایک سنت عمل ہے۔ شوہر کی سب سے بڑی مشیر اس کی بیوی ہی ہوتی ہے۔ ان دونوں کی زندگی ری اسٹارٹ کر کے میں نے پرابلمز کو گڈ بائے کہہ دیا۔  چلیے آپ کے لیے آسان کیے دیتا ہوں۔ میں نے کیا کیا؟ صرف اپنے کریکٹرز کی زندگی میں نیگیٹیو کو پازیٹیو سے ریپلیس کردیا۔ آپ کو پتہ ہے اپنے پارٹنر کی خوشی کے لیے تو لوگ کیا کچھ کرتے ہیں۔ مرد اور عورت دونوں کی بات کر رہا ہوں۔ آپ نے رفتار پر رضا حیدر کی ڈاکیومینٹریز دیکھی ہی ہوں گی۔ اس لڑکے نے مجھے بڑا انسپائر کیا کہ جب اس نے بتایا کہ وہ یہاں صرف اپنی بیوی کی خوشی پوری کرنے کے لیے آیا ہے۔

رفتار کے پرودیوسر رضا حیدر کہتے ہیں:

 اس سے پہلے جس ادارے میں تھا وہاں مجھے یہاں سے زیادہ مراعات مل رہی تھیں۔ لیکن میری بیوی کی خواہش تھی کہ مجھے رفتار کی اسکرین پر دیکھے۔ میں بھی آپ لوگوں کی طرح ڈاکیومینٹری بناؤں اور اسکرین پر بیٹھ کر پرفارم کروں۔

یہاں مجھے عامر لیاقت حسین یاد آگئے۔ ان کی تو ایک نہیں۔ تین تین ان ہیپی میرجز تھیں۔ اُس شخص نے تو زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لیا تھا۔ مگر گھر کا سکون نہیں ملا ڈاکٹرعامرلیاقت کی زندگی پر بنی میرا یہ آرٹیکل آپ کو بہت متاثر کرے گا۔ وہ بندہ موت کے داہنے پر تھا۔ اور صرف یہی خواہش تھی کہ کوئی اس کی زندگی Restart کردے۔  آپ کے پاس وقت ہے۔ بھئی۔ کوئی کمپیوٹر، موبائل یا اور کوئی مشین ہینگ ہوجائے تو سب سے پہلی ایفرٹ ری اسٹارٹ ہی ہوتا ہے۔ تو بھلا دیں سب کچھ۔ اب تک آپ کی میرج لائف میں جو کچھ ہوا۔ یا بچپن میں جو کچھ بلیف پیٹرن بنے۔ بھلا دیں۔ ابھی وقت ہے اپنی لائف کو ۔ اپنے ذہن کو ایک بار ری اسٹارٹ کر لیں۔ نیگیٹیو کو پازیٹیو سے ریپلیس کرلیں ۔ بلیو می ۔ زندگی میں سکون آجائے گا۔ ایسا نہیں کہ مسائل نہیں ہوں گے ۔ کیوں کہ بے رنگ زندگی مزیدار نہیں ہوتی لیکن ان پرابلم کا آپ ہنسی خوشی، ایک مضبوط ذہن اور اپنے پارٹنر کے ساتھ سامنا کرسکیں گے ۔ اپنی پرابلم سے نمٹ سکیں گے۔ ایک بار۔ ری اسٹارٹ۔

شیئر

جواب لکھیں