وہ تھا تیز، تیز سے بھی تیز!

گیند اُس کے ہاتھوں سے نکلتی تو گویا اُس میں آگ لگ جاتی تھی۔ پھر وہ غصے والا بھی تھا، اور ذرا کھسکا ہوا بھی، ایک typical اینگری ینگ مین!

جب وہ آؤٹ کرنے پر آتا تو دنیا کا بڑے سے بڑا بیٹسمین ٹک نہ پاتا۔ ایسے زمانے میں جب کرکٹ تیزی سے بیٹسمین فرینڈلی ہوتا جا رہا تھا، وہ تیز بالنگ کی آخری جھلک تھا۔ اُس کے بعد تو فاسٹ بالنگ کا وہ دور ہی ختم ہو گیا، شاید ہمیشہ کے لیے۔

ہم بات کر رہے ہیں تاریخ کے تیز ترین بالر ’’شعیب اختر‘‘ کی۔

جیسا اُن کا کرکٹ کیریئر تھا۔ اُن کی زندگی کی کہانی اس سے بھی زیادہ عجیب ہے اور یہی کہانی آج ہم آپ کو بتائیں گے۔ تو چلیے شعیب اختر کی زندگی میں۔

ایک لاکھ بمقابلہ 11

یہ ہے کولکتا کا ایڈن گارڈنز، مڈ فروری، 1999۔ میچ ہے انڈیا اور پاکستان کا۔ میدان میں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی ہیں، وہ شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی دے رہی ہے۔ اس ہنگامے میں ایک نوجوان بھی تھا، صرف 23 سال کا۔ اس کا کُل تجربہ تھا صرف 8 میچز کا اور اب اسے سامنا تھا زندگی کے سب سے بڑے امتحان کا کیونکہ سامنے تھی دنیا کی بہترین بیٹنگ لائن جس میں وی وی ایس لکشمن بھی تھے تو راہول ڈریوڈ، بھی محمد اظہر الدین بھی تو ساتھ ہی سارو گانگلی بھی اور سب سے بڑھ کر سچن تنڈولکر۔

اس بیٹنگ لائن کے سامنے تو بڑے بڑوں کو پسینہ آ جاتا تھا، لیکن نوجوان نہیں گھبرایا۔ اس کے اندر confidence تھا اور بہت تھا۔ کالر کھڑے ہوئے، سینے کے بٹن کھلے ہوئے، آنکھیں گھورتی ہوئی اور قدم بہت تیزی سے بڑھتے ہوئے۔

اُس نے پہلے ہی اسپیل میں وی وی ایس لکشمن کی بڑی وکٹ لی۔ لیکن اب 50 اوورز ہو چکے تھے، انڈیا دو وکٹوں پر 147 رنز بنا چکا تھا۔ پاکستان کو فوراً وکٹ چاہیے تھی۔ تب گیند پکڑائی گئی ایک مرتبہ پھر اس نوجوان کو، جس نے اس اوور میں وہ بال پھینکی جس نے "وال" میں ہول کر دیا، راہول ڈریوڈ کو کلین بولڈ کر دیا۔

لیکن میدان میں لاکھوں لوگوں کو کوئی پروا نہیں تھی۔ کون آؤٹ ہوا؟ کیسے آؤٹ ہوا؟ کیوں آؤٹ ہوا اور کس نے آؤٹ کیا؟ اُن کی نظریں تو بس پویلین کی طرف تھیں، جہاں سے اب ’’وہ‘‘ نکلنے والا تھا۔ ’’وہ‘‘ کہ جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ بے تاب ہوتے تھے۔

اور ’’وہ‘‘ میدان میں داخل ہوا: سچن رمیش تنڈولکر۔ تماشائیوں نے سچن سچن کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اگلی بال پر کیا ہونے والا ہے؟ ایک نوجوان، جسے لوگ زیادہ جانتے نہیں تھے، وہ کیا کرنے والا ہے؟ پھر اُس نے وہ گیند پھینکی، ایسی گیند جو آسمان سے اترا شاہکار تھی، ’’ایک پرفیکٹ بال‘‘ جس نے پلک جھپکتے میں سچن مہان کی گلیاں اڑا دیں!

وہ جو پہلے کبھی فرسٹ بال ڈک پر آؤٹ نہیں ہوا تھا۔ اُسے ناشتے میں انڈا کھانے کو ملا۔ اور ہاں! صرف ایک بال پہلے جس میدان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اب وہاں خاموشی تھی، اور اس خاموشی کی وجہ بننے والا نوجوان اپنے دونوں ہاتھ فضا میں اٹھائے خوشی منا رہا تھا۔ شعیب اختر کی آمد کا اعلان ہو گیا تھا!

ابتدائی زندگی

لیکن یہاں تک پہنچنے کا سفر بہت پہلے شروع ہوا تھا۔

اس میدان سے تقریباً 2 ہزار کلومیٹرز دُور راولپنڈی میں اور لگ بھگ 24 سال پہلے، جب 13 اگست 1975 کو شعیب اختر کا جنم ہوا۔ اپنے ماں باپ کا پانچواں بیٹا۔ سب سے کمزور، سب سے بیمار بچہ۔

اس کا تو نام بھی اپنا نہیں تھا۔ جو بیٹا اس سے پہلے پیدا ہوا تھا، اصل میں اس کا نام شعیب تھا۔ لیکن وہ بچپن ہی میں چل بسا۔ ماں نے اُسی کی یاد میں اپنے اِس بیٹے کا نام بھی رکھا: شعیب۔ یہ بھاری نام تھا، مگر ننھے شعیب نے اس کی لاج رکھ لی۔

خیر، ہم بات کر رہے تھے اس کمزور اور بیمار بچے کی۔ اس بچے کا ایک اور مسئلہ تھا: وہ flatfooted تھا یعنی اُس کے پیر بالکل سیدھے تھے۔ وہ تین سال کا ہو گیا تھا لیکن چل نہیں پاتا تھا۔ یہ مصیبت کیا کم تھی کہ اسے کالی کھانسی بھی ہو گئی۔ یہ بیماری تو اتنی بڑھی کہ گھر والے نا امید ہو گئے۔ لیکن والدہ نے ہمت نہیں ہاری، ان کی محبت، شفقت اور مستقل علاج سے بالآخر شعیب بچ گیا۔

پھر اس کمزور بچے نے طاقت پکڑنا شروع کی اور ایسی پکڑی کہ جو چل نہیں پاتا تھا، چلنا بلکہ دوڑنا شروع ہو گیا۔ دوڑنا بھی ایسا کہ پورے علاقے میں کوئی اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ہر کام دوڑتے ہوئے کرنے لگا، بلا وجہ دوڑتا رہتا۔ سمجھیں وہ اپنے زمانے کا فورسٹ گمپ تھا۔

عمر بڑھتی گئی، شعیب کی شرارتیں بھی بڑھتی گئیں۔ پھر بچہ پنڈی کا ہو اور پتنگیں نہ لوٹتا ہو؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ شعیب بھی پتنگوں کے پیچھے پنڈی کی گلیوں میں دوڑتا پھرتا۔ اُس جیسا چلبلا اور شرارتی کوئی نہیں تھا۔ نہ محلے میں، نہ اسکول اور نہ ہی کالج میں۔ سب سے زیادہ شکایتیں اُسی کی آتی تھیں اور یہی چیز ہمیں بعد میں کرکٹ ورلڈ میں بھی نظر آئی، یہاں بھی سب سے زیادہ شکایتیں شعیب ہی کی آتیں۔

بہرحال، انہی گلیوں میں دوڑتے پھرتے شعیب بڑا ہو گیا اور اسکول سے کالج پہنچ گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کرکٹ دنیا میں عمران خان کا راج تھا۔ شعیب بھی عمران خان کے بالنگ ایکشن کو کاپی کرنے لگا۔ کرکٹ کا شوق بڑھتا چلا گیا اور یہی شوق اسے پنڈی کلب لے آیا۔

کیریئر کا آغاز

اسی کلب میں ایک دن بڑا مزے کا واقعہ پیش آیا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم پریکٹس کے لیے آئی۔ وسیم اکرم اور وقار یونس جنہیں دیکھنا ہر کسی کا خواب تھا، شعیب کی نظروں کے سامنے کھیل رہے تھے۔ شعیب اختر بتاتے ہیں کہ پاکستانی پلیئرز کو دیکھ کر میں نے اپنے دوستوں سے کہا تھا، ’’آج کا دن یاد رکھو! اگلے کچھ سال میں آپ کا بھائی اِن کے ساتھ کھیل رہا ہوگا۔‘‘

دوست تو دوست ہوتے ہیں۔ اس بات پر بہت ہنسے۔ ایک نے تو یہ تک کہہ دیا کہ بہت ہوا بھری ہوئی ہے بھائی تجھ میں۔ اس میں تھوڑی سی ہمیں دے دو، سائیکلوں میں بھرنے کے کام آئے گی۔ دوست جو بھی بولیں۔ شعیب کو یقین تھا۔ اور جب آپ میں صلاحیت ہو اور خود پر یقین بھی ہو تو راستہ نکل ہی آتا ہے۔

اور پھر وہ دن آ گیا۔ یہ 1994 کے ابتدائی دن تھے۔ راولپنڈی کرکٹ ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے شعیب کو کھیلتے ہوئے دیکھ لیا۔ تب اسے ایک میچ کھیلنے کے لیے لاہور بلایا گیا، پرفارمنس اچھی تھی۔ اسی لیے نیوزی لینڈ انڈر 19 کے پاکستان ٹؤر کا ایک سائیڈ میچ بھی کھلایا گیا۔ اس میچ میں شعیب نے 11 وکٹیں لیں اور اُن کا نام پاکستان انڈر 19 میں آ گیا۔ اب شعیب نظروں میں تھے۔

مگر بھئی شوق جتنا بھی زیادہ ہو، جتنا بھی اچھا ہو، پیٹ کو تو کچھ چاہیے نا؟

تو شعیب کرکٹ تو کھیلتے، لیکن کماتے کیسے؟ اس کی اپرچونٹی انہیں ملی پی آئی اے کے ٹرائلز میں جس کے لیے وہ راولپنڈی سے لاہور گئے۔ یہ لاہور کے سفر کی کہانی بھی بہت عجیب ہے بلکہ شعیب اختر کی زندگی کی سب سے عجیب یاد ہے۔

اس سفر میں شعیب کے ساتھ تھے اُن کے دوست اعجاز ارشد۔ دونوں کی جیب میں پیسے کم تھے، اس لیے فیصلہ کیا کہ بغیر ٹکٹ لیے بس میں جائیں گے۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا؟ تو دونوں اڈے پر کھڑی ایک بس کی چھت پر جا کر لیٹ گئے۔ بس چل پڑی اور پھر کنڈیکٹر کو شک ہو گیا۔ وہ اوپر آنے لگا تو دونوں کو اندازہ ہو گیا کہ اب پکڑے جائیں گے۔ وہ بس کی دوسری طرف لٹک گئے تاکہ کنڈیکٹر سمجھے کہ اوپر کوئی نہیں پھر بس جب کسی اسٹاپ پر رکتی، تو وہ اس سے پہلے چھلانگ مار کر اتر جاتے اور جب چلنا شروع ہوتی تو دوڑ کر چڑھ جاتے۔

اسی آنکھ مچولی کے ساتھ وہ بالآخر لاہور پہنچ گئے جہاں ان کے سامنے تھا ایک اور چیلنج!

مشن لاہور

لاہور پہنچنے کا مشن تو پورا ہوا، لیکن اب حال یہ تھا کہ 12 روپے شعیب کی جیب میں اور 13 روپے اعجاز کی جیب میں۔ یعنی ٹوٹل 25 روپے۔ کسی بھی سستے ہوٹل میں ٹھیرنے کا خرچا تھا تو سہی مگر ایسا کرتے تو کھانا کیسے کھاتے؟

اب مشن لاہور کا پارٹ II شروع ہو گیا۔

انہیں اگلی صبح تک وقت گزارنے کے لیے ایک جگہ چاہیے تھی اور یہ کام کیا خود شعیب نے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر وہ ایک ٹانگے والے سے ملا اور اسے کہا کہ میں ایک کرکٹر ہوں۔ ٹانگے والے نے وہی سوال کیا، جو کوئی بھی کرتا۔ کیا پاکستانی ٹیم سے کھیلتے ہو؟

یہاں شعیب نے کہا ابھی تو نہیں، لیکن آگے ان شاء اللہ ضرور کھیلوں ہوگا، اور یہ چانس جب بھی ملا واپس آ کر آپ سے ملوں گا۔ دونوں کا سودا ہو گیا۔ عزیز خان ٹانگے والے نے دونوں لڑکوں کو سونے کی جگہ بھی دی، کھانا بھی کھلایا اور صبح ماڈل ٹاؤن تک بھی چھوڑنے بھی آیا۔

یہ وہ احسان تھا جو شعیب اختر کبھی نہیں بھولے۔ وہ عزیز خان سے دوبارہ کب ملے؟ یہ آگے چل کر بتائیں گے، فی الحال چلتے ہی پی آئی اے کے ٹرائلز کی طرف۔ جہاں پاکستان کرکٹ کے دو بڑے نام موجود تھے۔ ایک ایشین بریڈمین ظہیر عباس اور دوسرے پاکستان کے مایہ ناز وکٹ کیپر معین خان۔

جب ظہیر عباس نے شعیب کو بالنگ کرتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ انہوں نے شعیب سے کہا، ’’میرے لیے کھیلو گے؟‘‘ یوں شعیب اختر پی آئی اے کی ٹیم میں سلیکٹ ہو گئے۔ لیکن یہ وقت اُن کے لیے آسان نہیں تھا۔ انہیں زیادہ کھیلنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور شعیب کے گُن تب کھلے جب 1996 میں وہ زرعی ترقیاتی بینک کی ٹیم میں آ گئے۔ یہاں انہیں کھل کر چانسز ملے۔

پہلے ہی سیزن میں ہی شعیب اختر نے 75 وکٹیں لیں اور وہ 'مائٹی خان' ماجد خان کی نظروں میں آ گئے جو اُس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے بگ باس تھے۔ انہی کے کہنے پر شعیب اختر کو پاکستان اے کے انگلینڈ ٹؤر کے لیے سلیکٹ کیا گیا۔ یہ شعیب کی پہلی اُڑان تھی لیکن یہی وہ ٹؤر تھا جہاں ٹیم مینجمنٹ نے ان کی پہلی شکایت لگائی۔ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر شعیب اختر کو پاک انڈیا سہارا کپ کی ٹیم سے باہر کر دیا گیا اور ان کا ٹیسٹ ڈیبیو ایک سال لیٹ ہو گیا۔

پنڈی میں ڈیبیو

لیکن یہی وہ سال تھا جس میں ورلڈ کپ کھیلا گیا: ورلڈ کپ 1996، پاکستان میں ہونے والا آخری ورلڈ کپ۔ ایسا ٹورنامنٹ جسے جیتنے کے لیے پاکستان فیورٹ تھا۔ لیکن سب سے بڑے مقابلے میں بہت بڑی ہار کھا لی۔ پاکستان ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں انڈیا سے ہار گیا۔ اور پھر وہی ہوا جو ہر ورلڈ کپ کے بعد ہوتا ہے، ٹیم میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ اور جو نئے نام ٹیم میں آئے، ان میں دو ایسے تھے جو پاکستان کے تیز ترین بالرز تھے: ایک محمد زاہد، دوسرے شعیب اختر۔

1997 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئی اور شعیب اختر کو ٹیسٹ کیپ ملا۔ شعیب نے اپنے شہر راولپنڈی میں ڈیبیو کیا۔ تقریباً یہی زمانہ تھا جب پاکستان کرکٹ ٹیم پر میچ فکسنگ کے الزامات بھی لگے۔ بات بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وسیم اکرم کو ٹیم سے نکال دیا گیا۔ وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے بالرز کے ہوتے ہوئے ٹیم میں کون انٹری دے سکتا تھا؟ لیکن اس سچویشن نے شعیب اختر کو موقع دے دیا۔ وہ 1998 میں ساؤتھ افریقہ ٹؤر کے لیے سلیکٹ ہو گئے، بات بن گئی اور کہانی میں ایک نیا موڑ آ گیا۔

ڈربن کا استاد

ساؤتھ افریقہ کے ٹؤر پر پاکستان کے کپتان تھے عامر سہیل۔ شعیب آج بھی کہتے ہیں عامر سہیل وسیم اکرم کے مقابلے میں ایک پازیٹو کیپٹن تھے۔ ایسے کیپٹن جو ’’سینس آف ہیومر‘‘ بھی رکھتے تھے اور نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ مطلب، وسیم اکرم میں یہ خوبیاں نہیں تھیں؟؟

خیر، شعیب اختر کی باتیں اپنی جگہ اور پرفارمنس اپنی جگہ۔ پہلا ٹیسٹ ڈرا ہوا اور دوسرا ٹیسٹ ہوا ڈربن میں۔ یہ میدان تو سمجھیں شعیب اختر کا ہی wait کر رہا تھا۔ شعیب نے پہلی اننگز میں ہی 43 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ اُن کی فاسٹ بالنگ کی اصل کاٹ اسی میدان پر نظر آئی۔ پاکستان کے لیے میچ سیٹ ہو گیا۔ بعد میں مشتاق احمد کی شاندار بالنگ کی وجہ سے پاکستان جیت بھی گیا، صرف اور صرف 29 رنز سے۔

یہ پاکستان کی تاریخ کی بہترین کامیابیوں میں سے ایک تھی اور شعیب اختر کا کردار اس میں بہت اہم تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کیریئر اسٹارٹ ہوتے ہی ہی اپس اینڈ ڈاؤنز بھی شروع ہو گئے تھے۔ اگلے ہی مہینے شعیب اختر اپنے ون ڈے ڈیبیو پر انجرڈ ہو گئے اور انہیں واپس بھیجنا پڑ گیا۔ پھر چھ مہینے تک وہ کچھ نہیں کھیل سکے اور نہ ہی پھر کوئی بڑی پرفارمنس نہیں دے پائے۔

شعیب اختر کا سال

یہ ہے 1999، ایسا سال جسے شعیب کا سال کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ ویسے ہی پاکستان میں نوجوان کھلاڑیوں کا زمانہ تھا۔ شاہد آفریدی کے بعد ثقلین مشتاق، اظہر محمود، عبد الرزاق اور شعیب اختر ٹیم کا حصہ بن چکے تھے اور اسی سال پاکستان کو ٹؤر کرنا تھا انڈیا کا اور ہمارے ہاں تو اسٹار وہی ہوتا ہے جو انڈیا کے خلاف اچھا کھیلے۔

شعیب اختر کو بھی اسٹار بننے کا موقع ملا ایک مہا مقابلے میں۔ یہ ایشین ٹیسٹ چیمپیئن شپ تھی، جس میں پاکستان اور انڈیا کا میچ کولکاتا کے تاریخی میدان پر ہوا۔ وہ میدان جہاں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی آ سکتے تھے، جو دنیا کا سب سے بڑا میدان تھا اور یہیں وہ ہوا جو ہم نے وڈیو کے شروع میں آپ کو بتایا۔

شعیب اختر نے مسلسل دو گیندوں پر راہل ڈریوڈ اور سچن تنڈولکر کو کلین بولڈ کیا اور ہمیشہ کے لیے کرکٹ تاریخ کا حصہ بن گئے۔ شعیب اختر نے اپنی کتاب Controversially Yours میں دعویٰ کیا ہے کہ میچ سے پہلے وہ سچن تنڈولکر سے ملے تھے اور ان سے پوچھا تھا کہ مجھے جانتے ہو؟ سچن نے کہا، ’’نہیں‘‘۔ شعیب نے جواب دیا کہ جلد جان جاؤ گے۔

شعیب نے یہ بھی لکھا ہے کہ سچن کو پہلی بال پھینکنے سے پہلے میں نے اللہ سے دعا کی کہ یہ وکٹ مجھے مل جائے اور پہلی ہی بال پر مل جائے، اور پھر ایسا ہی ہوا۔

ویسے اس میچ میں ایک controversy بھی ہوئی تھی اور شعیب کی وجہ سے ہوئی تھی۔ دوسری اننگز میں سچن تنڈولکر رن لیتے ہوئے شعیب اختر سے ٹکرا گئے اور اسی وقت ڈائریکٹ تھرو وکٹوں پر لگ گئی۔ امپائروں نے ری پلے دیکھنے کے سچن کو آؤٹ دے دیا۔ فیصلہ مشکل تھا، controversial بھی تھا، لیکن امپائر کا فیصلہ تھا، کرکٹ سمجھنے والے تو یہ بات مانتے ہیں لیکن ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو یہ بات کون سمجھاتا؟ انہوں نے وہ ہنگامہ کیا، وہ ہنگامہ کیا کہ ٹیمیں میدان سے واپس بلانی پڑیں اور جب تماشائی بات نہیں مانے تو پورا میدان خالی کروا کر میچ کھیلا گیا۔

پاکستان خالی میدان میں ایک یادگار میچ جیتا۔ شعیب اختر نے میچ میں آٹھ وکٹیں لیں اور امر ہو گئے۔ پاکستان واپس آئے۔ اور آنے کے بعد سب سے پہلے کہاں گئے؟ جی ہاں، بالکل ٹھیک سمجھے آپ، لاہور، عزیز ٹانگے والے سے ملنے کے لیے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُس دن بھی کھانا عزیز نے ہی کھلایا، اپنے پرانے دنوں کی یاد میں۔

شعیب کا عروج اور زوال

اب سب کی نظریں تھیں ورلڈ کپ 1999 پر۔ پاکستان کرکٹ ٹیم اپنی پیک پر تھی اور شعیب اختر بھی۔

ورلڈ کپ سے بالکل پہلے شارجہ میں کوکا کولا کپ ہوا۔ پاکستان جیتا، شعیب نے پانچ میچز میں 11 وکٹیں لیں اور مین آف دی سیریز ایوارڈ بھی لیا۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی بالرز نے بہت اچھا پرفارم کیا۔ وسیم اکرم نے ٹورنامنٹ میں پندرہ وکٹیں لیں۔ ثقلین نے سترہ، اظہر محمود اور عبد الرزاق نے تیرہ، تیرہ لیکن ورلڈ کپ میں سب کی آئی بالز تھیں صرف ایک پر، تیز رفتار شعیب اختر پر۔

یہ ٹورنامنٹ تو تھا ہی شعیب اختر کا۔ انگلش کنڈیشنز میں اتنی تیز گیندیں دیکھ کر تو سب دیوانے ہو گئے۔ ٹونی گریگ نے تو شعیب اختر کو نیا نام دیا، ’’راولپنڈی ایکسپریس‘‘۔ ٹورنامنٹ میں شعیب اختر کی گیندیں پہلے 97، پھر 98 اور پھر 99 میل فی گھنٹہ تک پہنچیں یعنی 100 میل فی گھنٹہ کا بیریئر توڑنے کے بہت قریب۔

پاکستان بھرپور ٹیم ورک کی وجہ سے ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچ گیا اور پھر اینٹی کلائمیکس ہو گیا۔ پاکستان فائنل ہار گیا، اتنی بری طرح ہارا کہ آج بھی سوچ کر دکھ ہوتا ہے، صرف 132 آل آؤٹ۔ کئی پاکستانیوں نے اُس دن کرکٹ دیکھنا چھوڑ دیا۔

ورلڈ کپ 1999 کے بعد ٹیم پاکستان پر بڑا زوال آیا۔ ٹیم پھر کبھی اُس عروج کو نہیں پہنچ سکی، جو اسے 99 میں حاصل ہوا۔

فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کی چولیں ہلا دیں اور ساتھ ہی شعیب اختر بھی ایک کے بعد دوسری controversy میں پڑتے چلے گئے۔ پہلی controversy تھی بالنگ ایکشن پر اعتراض۔

یہ 99 کے آخری دن تھے جب شعیب اختر آسٹریلیا کے ٹؤر پر گئے۔ ایسی جگہ جو پاکستان کے لیے ہمیشہ بہت پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ شعیب اختر کے لیے بھی آسٹریلیا بڑا مشکل ثابت ہوا۔ یہاں پہلی بار شعیب اختر کے بالنگ ایکشن پر اعتراض ہوا۔ یہ اعتراض دنیا میں صرف ایک ہی امپائر کر سکتا تھا، بدنامِ زمانہ ڈیرل ہیئر۔ ان کی رپورٹ کی وجہ سے شعیب اختر پر پابندی لگ گئی۔

شعیب اختر کہتے ہیں اُس کے بعد میں ڈپریشن میں چلا گیا اور سات دن تک اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلا۔ بالنگ ایکشن بعد میں کلیئر ہو گیا اور شعیب کا دماغ گھوم گیا۔ اب اس کے دماغ پر صرف ایک چیز سوار تھی، 100 مائلز پر آور!

100 میل فی گھنٹہ

آسٹریلیا کے ٹور پر ہی شعیب اختر کی ملاقات ہوئی جیف تھامسن سے۔ انہوں نے پوچھا کہ میرا ریکارڈ توڑنے جا رہے ہو؟ شعیب نے کہا کہ میرا گول تو نہیں، لیکن ہو سکتا ہے ٹوٹ بھی جائے۔ اور پھر وہ دن آ گیا۔

‏27 اپریل 2002، نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور میں ون ڈے سیریز کا آخری میچ۔ جب شعیب اختر کی ایک بال کے بعد لکھا آیا، 161.0 کلومیٹرز فی گھنٹہ یعنی 100 میل فی گھنٹہ۔ تاریخ کا پہلا بالر جس نے 100 مائلز کا بیریئر توڑ دیا تھا۔ لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کونسل یہ ریکارڈ نہیں مانی۔ آئی سی سی کا کہنا تھا یہ آفیشل اسپیڈ گن نہیں۔ شعیب آج بھی کہتے ہیں وہ ریکارڈ بالکل ٹھیک تھا لیکن اب انہیں ثابت کرنا تھا کہ وہ ایسا دوبارہ بھی کر سکتے ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اسپیڈ کے لیے مقابلہ ہوتا تھا شعیب اختر اور بریٹ لی کا اور اس مقابلے کے لیے ورلڈ کپ سے بہتر کیا ہو سکتا تھا؟ ایک کے بعد دوسری انجری، ایک کے بعد دوسری controversy، لیکن شعیب پھر بھی ورلڈ کپ کھیلے اور 22 فروری 2003 کا دن انہیں امر کر گیا۔

اُس دن پاکستان کا مقابلہ انگلینڈ کے ساتھ تھا۔ شعیب اختر اپنا دوسرا اوور کروا رہے تھے۔ اسپیڈ گن ایک کے بعد دوسری گیند کی اسپیڈ بتاتی جا رہی تھی۔ 95، 97، 98، 99 اور پھر آخری بال۔ اسکرین پر جگمگایا 161.3 کلومیٹرز فی گھنٹہ یعنی 100.1 مائلز پر آور۔ 100 میل کا بیریئر ٹوٹ گیا، ایک مرتبہ پھر۔ اس مرتبہ آئی سی سی کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا۔ ماننا پڑا کہ شعیب سب سے تیز ہے!

تنازعات

ورلڈ کپ 2003 میں پاکستان کو ملنے والی واحد خوشی بس یہی تھی۔ پاکستان اہم میچز ہارا، انڈیا سے بھی اور باقی ٹیموں سے بھی۔ ٹیم پہلے ہی راؤنڈ میں ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی اور شعیب اختر ٹیم سے۔ اس کے بعد ہم نے بہت بدلا ہوا شعیب دیکھا۔ ایک بے لگام شعیب، ایسا شعیب جس میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ایک میچ میں تو بال ٹیمپرنگ تک کر ڈالی، پابندی لگی اور فائن بھی۔ پھر ایک کھلاڑی کو گالیاں دینے کی وجہ سے کئی میچز کے لیے باہر بھی ہوا۔ کبھی کپتان سے لڑائی تو کبھی کھلاڑیوں سے پھڈا اور ان سب سے بڑھ اُن کی انجریز۔ شعیب اِن اینڈ آؤٹ ہوتے چلے گئے۔ کبھی آن کبھی آف!

انہوں نے 13 سال سے زیادہ کرکٹ کھیلی۔ لیکن دوسروں کے مقابلے میں کہیں کم میچز کھیلے۔ صرف 46 ٹیسٹ اور 163 ون ڈے۔ بس!

شعیب اختر کو آخری بار ایکشن میں دیکھا گیا ورلڈ کپ 2011 میں۔ نیوزی لینڈ کے ہاتھوں پاکستان کی ہار اُن کا آخری میچ تھا۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنے آخری اوور میں شعیب نے 28 رنز کھائے: تین چھکے، دو چوکے۔ اور کیریئر ختم ہو گیا، ہمیشہ کے لیے!

لیکن حیرت کی بات۔ عمر 35 سال تھی لیکن پھر بھی شعیب ورلڈ کپ میں مستقل 95 مائلز پر آور کی گیندیں پھینکتے نظر آئے۔ ایک ایسا کام جو آج کے نوجوانوں کے لیے بھی بڑا مشکل ہے اور جہاں تک بات ہے 100 مائلز پر آور کی۔ تو یہ ڈان بریڈمین کے ریکارڈ کی طرح شاید کبھی نہ ٹوٹے، شاید کبھی نہیں!

شعیب، ایک Maverick

شعیب اختر کی لائف بڑی مختلف ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ اصل شعیب اختر کون ہے؟ ایک سیلف سینٹرک بندہ؟ جو سمجھتا تھا پوری دنیا صرف اُس کے گرد گھومتی ہے؟ جس کا نام ہی شعیب ایکٹر پڑ گيا تھا۔

کئی لوگ شعیب کو کھسکا ہوا سمجھتے تھے، لیکن اُس کے خیال میں کچھ پانے کے لیے کبھی کبھی تھوڑا سا پاگل پن ضروری ہوتا ہے۔

ہاں! شعیب کی پرسنالٹی کی ایک اور سائیڈ بھی ہے، ایسی سائیڈ جس پر بہت کم بات ہوتی ہے۔ شعیب نے تب کرکٹ شروع کی تھی، جب میچ فکسنگ پیک پر تھی۔ کیا پاکستان؟ کیا انڈیا؟ دنیا کی شاید ہی کوئی ٹیم اس سے بچی ہوئی ہو۔ پاکستان کرکٹ ٹیم میں تو تقریباً ہر چھوٹے بڑے کھلاڑی پر اس کا الزام لگا لیکن شعیب اُن چند کھلاڑیوں میں سے ایک تھے، جن پر کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ نہ وہ کبھی ٹیم پالیٹکس میں نظر آئے، نہ کبھی کسی کپتان کے خلاف لابنگ کا حصہ بنے اور نہ کبھی کسی کے خلاف سازش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ شعیب ایک maverick تھا، ایک swagger تھا، ایک باغی روح، ایک آزاد پنچھی!

وہ آشیانہ بنانے والا نہیں، وہ تو پہاڑوں میں بسیرا کرنے والا شاہین تھا۔ اور ایک تیز بالر کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہے نا؟

شیئر

جواب لکھیں