انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی آمدنی تقسیم کرنے کا ایک نیا ماڈل پیش کیا گیا ہے، جس میں کرکٹ کی گورننگ باڈی کی تقریباً 40 فیصد آمدنی بھارت کو جائے گی۔ اگلے چار سال کے لیے تجویز کردہ اس ماڈل کے تحت آئی سی سی کی خالص اضافی آمدنی کو تمام 12 فل ممبرز میں تقسیم کیا جائے گا۔ یہ 2014 میں پیش کیے گئے متنازع 'بگ تھری' کے مقابلے میں ایک زیادہ "مناسب" ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ 'بگ تھری' کی جگہ انٹرنیشنل کرکٹ کو 'بگ وَن' بنانے دے گا۔

خود اندازہ لگا لیں: بھارتی کرکٹ بورڈ اگلے چار سال میں، یعنی 2024 سے 2027 کے دوران آئی سی سی کی ہر سال 600 ڈالرز کی آمدنی میں سے 230 ملین ڈالرز بھارتی کرکٹ بورڈ کی جیب میں جائیں گے، یعنی 38.5 فیصد۔

بھارت کے مقابلے میں باقی سب ملک بہت بہت پیچھے ہیں۔ دوسرے نمبر پر موجود انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ صرف 6.89 فیصد حصہ پائے گا، جو 41.33 ملین ڈالرز ہوگا۔

بگ تھری پلان کا تیسرا کردار کرکٹ آسٹریلیا 37.53 ملین ڈالرز یعنی 6.25 فیصد کے حصے کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

ان تینوں کے علاوہ صرف ایک ملک ہے جسے 30 ملین ڈالرز سے زیادہ ملیں گے، وہ ہے پاکستان۔ پی سی بی کو ہر سال آئی سی سی کی کل آمدنی میں سے 5.75 فیصد حصہ ملے گا جو 34.51 ملین ڈالرز ہوگا۔

باقی ماندہ 9 فل ممبرز میں سب کی آمدنی 5 فیصد سے کم ہوگی۔ کُل 600 ملین ڈالرز میں سے 88.81 فیصد حصہ 12 فُل ممبرز کو ملے گا، یعنی 532.84 ملین ڈالرز۔ باقی 67.16 ملین ایسوسی ایٹ اراکین کو دیے جائیں گے۔

یہ ماڈل چار بنیادوں پر بنایا گیا ہے: ملک کی کرکٹ تاریخ، پچھلے 16 سالوں میں آئی سی سی ایونٹس میں مردوں اور عورتوں دونوں کی کارکردگی، آئی سی سی کی کمرشل آمدنی میں حصہ اور فل ممبر ہونے کی وجہ سے برابر کا حصہ۔ بس یہ جو کمرشل آمدنی کا حصہ ہے، اس نے بھارت کو بہت بڑا ایڈوانٹیج دے دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کرکٹ کی کل آمدنی کا 70 سے 80 فیصد بھارت سے آتا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں