افتخار احمد نے پوری پوری کوشش کی، لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کو جتوا نہیں سکے۔ اب اسے اُن کی قسمت کہیں یا کچھ اور، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ افتخار کی بہترین اننگز میں سے ایک تھی۔

پاک-نیوزی لینڈ پانچویں ون ڈے انٹرنیشنل میں افتخار احمد نے 72 گیندوں پر دو چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے ناٹ آؤٹ 94 رنز بنائے۔ وہ بھی ایسے وقت پر جب 300 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے پاکستان کے 66 پر چار آؤٹ ہو چکے تھے۔

لیکن افتخار کی دھواں دار بیٹنگ معاملہ آخری چار اوورز میں 49 رنز تک لے آئی۔ بس مصیبت یہ تھی کہ وکٹ صرف ایک بچی تھی۔ یہاں حارث رؤف دوسرا رن لینے کی کوشش میں اپنی وکٹ دے گئے۔ ڈیپ کوَر سے پھینکا گیا کول میک کونچی کا زبردست تھرو براہِ راست وکٹوں پر لگا اور اس کے ساتھ ہی دو کام خراب ہو گئے۔

ایک یہ کہ افتخار احمد اپنی پہلی ون ڈے سنچری نہیں بنا سکے اور دوسرا یہ کہ پاکستان انتہائی ضروری کلین سوئپ نہیں کر پایا۔ پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف ابتدائی چاروں میچز جیت کر سیریز تو اپنے نام کر لی تھی، لیکن یہ آخری مقابلہ جیتنا بہت ضروری تھا کیونکہ پاکستان کا نمبر وَن رینک داؤ پر لگا ہوا تھا۔

جی ہاں! اس شکست کے ساتھ ہی پاکستان صرف دو دن میں اپنی نمبر وَن پوزیشن سے محروم ہو چکا ہے اور اب ون ڈے رینکنگ میں تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ خیر، یہ ورلڈ کپ کا سال ہے، ابھی بہت سے موقع ملیں گے اور پھر رینکنگ میں سالانہ اپڈیٹ بھی ہوگا۔ تو امید ہے پاکستان ان کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ پہلے نمبر پر آ جائے گا۔

لیکن اس میچ سے کچھ اور سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ یہ کہ کیا افتخار احمد ایک اچھے فنشر نہیں ہیں؟ اسی سیریز میں دیکھ لیں جب ٹی ٹوئنٹی سیریز کے تیسرے میچ میں افتخار احمد نے 24 گیندوں پر 60 رنز کی کمال اننگز کھیلی۔ آخری چھ اوورز میں جب 76 رنز کی ضرورت تھی، تب انھوں نے ایک کمال اننگز کھیلی اور معاملے کو آخری اوور میں 15 رنز تک لے آئے۔ یہاں بھی انھوں نے پہلی تین گیندوں پر ایک چھکا اور ایک چوکا بھی لگا دیا۔ لیکن جب صرف ایک شاٹ کی ضرورت تھی، وہاں افتخار سے غلطی ہو گئی۔ وہ لانگ آن پر کیچ دے گئے اور پاکستان یہ میچ صرف 4 رنز سے ہار گیا۔

اس کے کچھ ہی دن بعد پھر یہی ہوا۔ گو کہ اس مرتبہ غلطی افتخار کی نہیں تھی، قسمت کا بھی دخل تھا لیکن پھر بھی وہ ایک بار پھر پاکستان کو جیت کے قریب پہنچا کر بھی جتوا نہیں پائے۔

یہ بات البتہ ماننے کی ہے کہ افتخار نے اپنی کرکٹ کو بہت بہتر بنایا ہے۔ انھوں نے بد ترین حالات، خاص طور پر سوشل میڈیا ٹرولنگ، کا مقابلہ کرتے ہوئے خود کو منوایا ہے۔ بس اب انھیں ایک قدم اور آگے بڑھنا ہے۔ ثابت ہے کہ جب تک وہ کریز پر موجود ہیں، پاکستان کی جیت کا امکان بھی برقرار رہے گا۔

پاکستان کو اس وقت ایک فنشر کی سخت ضرورت ہے۔ اس وقت بھی ہمارا زیادہ تر انحصار ٹاپ آرڈر پر ہے۔ بابر اعظم، فخر زمان اور محمد رضوان چلے تو ٹھیک، ورنہ اللہ اللہ خیر صلّا۔ افتخار کو دکھانا ہوگا وہ ہیں اصل 'ڈینجر مین'، اور وہ واقعی جیت کر دکھائیں گے۔ بس تب تک ہمیں یہ غم رہے گا کہ میچ جیتتے یا نہ جیتتے، لیکن افتخار کی سنچری ہی ہو جاتی۔

شیئر

جواب لکھیں