کھلاڑی کسی بھی ملک کا ہو، اس کے لیے سب سے بڑا خواب ہوتا ہے اولمپک میں میڈل جیتنا۔ اپنے ملک کے پرچم کو سر بلند ہوتے ہوئے دیکھ کر نہ صرف کھلاڑی بلکہ عوام بھی اپنے آنسو نہیں روک پاتے۔ لیکن اگر انھی لوگوں کے ساتھ کچھ ایسا سلوک ہو تو؟

یہ ہیں وہ ریسلرز جنھوں نے انڈیا کے لیے اولمپکس میں میڈل جیتے ہیں، جن میں سے کئی خواتین کا کہنا ہے کہ ٹیم کے کوچز بلکہ خود ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ ان کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں ملوث ہیں۔

ان کھلاڑیوں کا مظاہرہ تقریباً ایک مہینے سے جاری تھا۔ جب ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں  کی گئی تو کھلاڑیوں نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے باہر مظاہرے کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی پولیس ان پر پل پڑی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ملزمان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟ آپ کا اندازہ بالکل درست ہے، جی ہاں! شرن سنگھ کا تعلق حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے۔

مظاہرین میں 2016 کے ریو اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی ساکشی ملک بھی شامل ہیں اور کامن ویلتھ گیمز میں تین گولڈ میڈلز جیتنے والی ونیش پھوگٹ بھی۔ مرد ریسلرز بھی ان کے شانہ بشانہ ہیں جن میں 2020 ٹوکیو اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والے بجرنگ پونیا بھی شامل ہیں۔

ونیش  کے مطابق ایسی لڑکیوں کی تعداد 10 سے 20 ہے جنھیں کوچز اور فیڈریشن کے صدر نے جنسی طور پر ہراساں کیا ہے۔

ساکشی کہتی ہیں کہ کیا بھارت میں آمریت ہے؟ دلّی پولیس نے شرن سنگھ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے میں 7 دن لیے لیکن کھلاڑیوں کے خلاف سات گھنٹے بھی نہیں لگے حالانکہ وہ پر امن مظاہرہ کر رہے تھے۔

بجرنگ پونیا کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی ہے ہماری بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کی۔

واضح رہے کہ ریسلنگ اولمپک تاریخ میں ہاکی کے بعد انڈیا کا کامیاب ترین کھیل ہے۔ ہاکی کے 12 کے بعد سب سے زیادہ 7 تمغے اسی کھیل کے ہیں۔ اتنے اہم کھیل میں بھی کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک؟ جب کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر محض انصاف چاہتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاست کی کھیل میں مداخلت کس حد تک تباہ کن ہو سکتی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں