انڈیا میں ایک گاؤں ایسا ہے جہاں کے باسی اپنی بربریت میں حیوانوں سے بازی لے گئے ہیں۔ جن کی ہوس کی بھوک کسی کمزور کو نشانہ بنائے بغیر نہیں مٹتی۔ اور یہ کہانی بھی اسی گاؤں ہاتھرس کی ہے جہاں ایک 19 سالہ لڑکی کے ریپ نے پھر سے انڈیا میں طوفان مچا دیا ہے۔
14 ستمبر 2020، اترپردیش میں صدی بدل چکی ہے لیکن ٹھاکروں کے لچھن نہیں۔ لڑکی مر چکی ہے اور دَلِت عورتیں ٹھاکروں کے خلاف پھر سے بندوق اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ اُن کی چیخیں اور سسکیاں فضا میں جذب ہو رہی ہیں۔ نزدیک ہی ایک دریا، تین ریاستوں پر پھیلے چنبل کے ویرانے کو چیرتا ہوا گزر رہا ہے۔
یہ کچھ ایسا ہی منظر ہے جیسا پاکستان میں کچے کا علاقہ۔ اور جہاں کچے کا علاقہ وہاں ڈاکو تو لازمی ہیں۔
لیکن چنبل اب ڈکیتوں کے لیے پہلے جیسا زرخیز نہیں۔ اب یہاں کی چٹانوں اور ٹھاکروں کو ہلانے کی کسی میں ہمت نہیں۔ ہاں ایک لڑکی نے یہ کام ضرور کیا تھا، جس کی بات ہم آگے چل کر کریں گے۔ واپس چلتے ہیں ہاتھرس، جہاں سے ٹھیک پانچ گھنٹوں کی دوری پر ایک گاؤں بہمائی ہے۔
یہ اُن 84 گاؤں میں سے ایک ہے جہاں ٹھاکروں کا راج ہے۔ یہیں ایک دیوار پر خون کی سرخی سے 22 افراد کے نام لکھے ہیں۔ ان کی موت کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے۔
چالیس سال پہلے، فروری کی ایک سرد شام کو یہ سب مرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ بندوق ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کے ہاتھ میں تھی۔ یہ وہی لڑکی تھی، جس کے ساتھ ٹھاکروں نے ایک سال پہلے، مسلسل تین ہفتے گینگ ریپ کیا تھا۔
اس نے تو اپنا بدلہ لے لیا لیکن ٹھاکر اس ماس مرڈر کا انتقام آج بھی دَلِت عورتوں سے لے رہے ہیں۔
دریا کے دو جانب ایک عجیب سا فرق ہے۔ ایک گاؤں میں ٹھاکروں کی موت کا سوگ ہوتا ہے، تو دوسرے میں ان کو قتل کرنے والی لڑکی کا مجسمہ دیوی کی طرح پوجا جاتا ہے۔
ملاحوں کی برداری میں آج بھی کوئی شادی، کوئی تہوار ایسا نہیں جہاں اس لڑکی پر بنے گیت نہ گائے جاتے ہوں۔ اُس باغی لڑکی کی رومانوی داستان چنبل کی فضاؤں میں آج بھی بکھری ہے۔
- ڈاکوؤں کو ساتھ لیے گھومتی وہ لڑکی کون تھی؟
- وہ ایک ڈاکو تھی یا دیوی؟
- مجرم تھی یا مسیحا یا پھر کوئی رابن ہوڈ؟
ایسا کیا ہوا کہ وہ ڈاکو حسینہ سیاست میں آئی، الیکشن جیتا اور پھر اپنے ہی خون کے تالاب میں ڈوب گئی! ذرا سنبھل کر بیٹھیں کہ یہ حیرت سے بھری داستان ہم آپ کو سنانے لگے ہیں۔ پھولن دیوی کی کہانی!
پھولن دیوی کا انتقام
14 فروری 1981، دریائے جمنا کو دیکھیں تو لگتا ہے کوئی بڑا اژدہا سب کچھ نگلنے کو بے قرار ہے۔ اس کے کنارے سخت سردی میں ٹھٹھرتے چند لوگ گھٹنوں کے بل بیٹھے ہیں۔ وہ شکار کرنے نہیں، بلکہ خود شکار ہونے والے ہیں۔ ان کے سر سینوں پر جھکے ہیں اور ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہیں۔
کچھ دیر پہلے پولیس جیسی خاکی وردی میں چالیس افراد نے ٹھاکر فیملیز کے گاؤں پر دھاوا بولا تھا۔ یہ بدنام زمانہ ڈاکوؤں کا گینگ ہے اور اس کی لیڈر۔ اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے یہاں پہنچی ہے۔
بتاؤ حرام زادو! بتاؤ کہ شری اور لالہ کہاں ہیں، بتاؤ؟
ایک دھاڑتی ہوئی آواز کانوں سے ٹکراتی ہے۔ وہ جو جانوروں کی طرح ہنکا کر جمنا کنارے لائے گئے تھے، اب سر دھیرے دھیرے اوپر اٹھاتے ہیں۔ خاکی لباس، سر پر سرخ پٹی اور شرٹ پر گولیوں کی بیلٹس۔ زمینداروں کے سروں پر موت کی دیوی ہاتھ میں رائفل لیے کھڑی تھی۔ وہ غصے اور حقارت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ اسے ایک ایک لمحہ یاد آنے لگا۔ کس طرح ٹھاکر اسے زبردستی اٹھا لے گئے، زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اور پھر کس طرح وہ ان کے چنگل سے نکل کر انڈیا کی سب سے خطرناک ڈاکو بنی۔
مگر آج بدلے کا دن تھا۔ ٹھاکروں کی بے عزتی کا دن۔ وہ بھی ایک دَلِت، ایک کمزور لڑکی کے ہاتھوں۔ غصے اور خوف کے مارے ٹھاکروں کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔ وہ جواب نہیں دیتے، ہونٹ سی لیتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں رائفل سے نکلتی گولیاں ان کے سروں کے پرخچے اڑا دیتی ہیں۔ جمنا کے کنارے پر ہی نہیں دور افق پر بھی خون کی سرخی چھا جاتی ہے۔
22 افراد کے اس قتل نے پورے انڈیا کو لرزا دیا ہے۔ اندرا گاندھی کے پاس فوراً آپریشن لانچ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اتر پردیش کے پہاڑوں میں 15 گھنٹے سے پولیس مقابلہ جاری ہے۔ درجنوں گینگسٹرز اور پولیس والے مارے گئے ہیں، لیکن دیوی ایک بار بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔
پھولن دیوی کی زندگی
ملاحوں کے ہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی، نام رکھا ’’پھولوں کی دیوی‘‘۔ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی ملاح شادی بیاہ کی تقریبوں میں پھولن کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔
خیر جب پھولن نے بولنا شروع کیا تو پہلا بول گالی تھا۔ وہ لڑکوں کو پتھر مارتی اور ان سے لڑتی۔ وہ غصے کی بہت تیزی تھی۔
پھولن کے گاؤں کے پاس چنبل ندی بہتی تھی۔ گاؤں کے لوگ وہاں ناو چلاتے اور مچھلی بیچتے پھولن کے باپو دیبیدن کا بھی یہی کام تھا۔ اس کی ایک چھوٹی سی زمین تھی۔ جب چچا اور اس کے بیٹے نے زمین پر قبضہ کیا۔ تو دس سال کی پھولن بہن کے ساتھ تھانے کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئی۔
’’ارے یہ کیسی لڑکی زاد ہے؟‘‘ دیبیدن نے بیوی سے شکوہ کیا۔ اس کے دل میں پھولن کی طرف سے خوف بیٹھ چکا تھا۔ پھر اس نے وہی کیا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ پھولن گیارہ سال کی ہوئی تو باپو نے ہاتھ پیلے کردیے۔ چالیس سالہ پٹی لال نے بدلے میں گائے اور سائیکل دی۔
پٹی لال کی دو بیویاں پہلی سے تھیں۔ وہ دن بھر پھولن سے کام کرواتیں اور مار الگ لگاتیں۔ چھوٹی سی پھولن یہ برداشت نہ کر پائی اور پٹی لعل سے بھاگ کر گھر آنے لگی۔
باپ نے جان چھڑانے کے لیے پھولن پر انگوٹھی چرانے کا پرچہ کر ادیا۔ وہ تین دن تھانے میں رہی جہاں چودہ سال کی عمر میں اس کا پہلا ریپ ہوا۔ اس کی حالت اتنی بگڑی کہ اسے ایک کونے میں پھینک دیا گیا۔
ٹھیک ہوئی تو گھر والوں نے پھر سسرال بھیج دیا۔ اُدھر پٹی لعل ایک اور شادی کر چکا تھا۔ وہ اسے کہاں رکھتا، سامان سمیت باہر پھینک دیا۔
پھولن کا یہ حال دیکھ کر ماں مولا دیوی نے باپ کو راضی کر ہی لیا۔ یوں پھولن پھر سے گھر آ گئی۔
گاؤں میں آج بھی سب بیٹیوں کو چڑیا کہہ کر بلاتے ہیں۔ پھولن دیوی کی موت کے بعد اس کا مجسمہ یہاں لگایا گیا تو پھولن کی ماں نے کہا تھا کہ ان کی چڑیا لوٹ آئی ہے۔ خیر واپس چلتے ہیں۔
ایک روز پھولن کھیت سے گزر رہی تھی کہ سرپنچ کے لڑکے نے زیادتی کی کوشش کی۔ پھولن نے اسے کھینچ کر پتھر دے مارا۔ ابھی وہ گھر نہ پہنچی تھی کہ ٹھاکر کے لڑکے پہنچ گئے۔ ایک کے بعد ایک، سب نے پھولن سے زیادتی کی۔ بےچاری پھولن مدد مانگتی رہی لیکن کوئی نہ آیا۔ وہ سسکتی بلکتی گھر لوٹ گئی۔
میں کیسی دیوی ہوں، جسے جب چاہے جو چاہے لوٹ لیتا ہے۔ میرا کیا قصور ہے؟ یہ کہ میں ایک دَلِت ہوں، اوپر سے ایک لڑکی۔
پھولن واقعی ایک دھتکاری ہوئی لڑکی بن چکی تھی۔
ایک بار تو عجیب معاملہ ہوا۔ پیار کرنے والی ماں نے اسے گاؤں کے کنویں میں کود کر جان دینے پر مجبور کیا۔ لیکن نہیں، وہ ایسے ہار ماننے والی نہیں تھی۔ اس نے سوچ لیا کہ وہ جان نہیں دے گی، بلکہ دوسروں کی جان لے گی۔
پھر ایک دن یوں ہوا کہ وہ گاؤں سے اچانک غائب ہو گئی۔
پھولن کی بغاوت
انڈیا کی غریب اور لاچار آبادی کے لیے پھولن دیوی ایک ایسی جیتی جاگتی کہانی ہے جو بالی ووڈ کے خوابوں سے بھی نہیں گزری۔ جہاں وہ پیدا ہوئی اور جہاں اس نے ڈاکو بن کر زندگی گزاری وہاں کم عمری کی شادی کا رواج تھا۔ ظلم سہنا، بوجھ اٹھانا، جانوروں کی طرح کام کرنا، زیادتیاں برداشت کرنا، یہ سب عورت کی اُس زندگی کا حصہ تھا جس کے خلاف دیوی نے بغاوت کی۔ اور اس بغاوت کا واحد راستہ رائفل کی نالی سے ہو کر گزرتا۔
پھولن کی ملاقات وکرم ملاح سے ہوئی جس کا تعلق ڈاکوؤں کے گروہ سے تھا۔ پھولن کو کاندھا ملا تو اس نے اپنی زندگی وکرم کے آگے کھول کر رکھ دی۔ وکرم کا دل پہلے ہی اس کے لیے دھڑک رہا تھا۔ جب اسے سب پتہ چلا تو اس نے پھولن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وکرم نے پھولن کو گینگ کے لیڈر بابو گجر سے ملایا۔
پھولن کو دیکھتے ہی بابو کی نیت خراب ہو گئی۔ ایک رات جب سب سورہے تھے، تو ایسا واقعہ ہوا جس نے سب کچھ بدل دیا۔ رات کے کسی پہر بابو پھولن کے خیمے میں گھس گیا۔ وکرم تک پھولن کی چیخیں پہنچیں تو اس نے وہاں پہنچ کر اپنے ہی سردار کو گولی ماردی۔ اس کے اگلے ہی دن وکرم گینگ کا لیڈر بن گیا۔ اس نے پھولن کے ہاتھ میں بھی بندوق تھما دی
پھولن پہلے ہی ظلم کی چکی میں پس کر پاگل ہو چکی تھی۔ یہیں سے اس کا نیا جنم شروع ہوا۔ اور وہ بینڈٹ کوئین بن گئی۔
دیوی سے ڈاکو
پھولن کی نئی زندگی شروع ہو گئی لیکن وہ اپنے پرانے زخم نہ بھولی۔ ایک ایک کر کے اسے سب سے حساب لینا تھا۔ پھولن نے اپنے شوہر سے بھی حساب چکتا کیا۔ اپنے گینگ کے ساتھ وہ اس کے گھر پہنچی۔ پٹی لعل کو مٹی میں گھسیٹتی ہوئی لائی اور بیچ چوراہے پر لٹا دیا۔
اسے دیکھ کر پھولن کے سارے زخم ہرے ہوگئے۔ اسے اپنا مسلا ہوا بچپن یاد آگیا۔ پٹی لعل کو اتنا مارا کہ وہ ادھ مرا ہو گیا۔ وہ اپنی زندگی کی بھیک مانگتا رہا۔ پھر پھولن نے اسے چھوڑ دیا اور گاؤں کے تمام مردوں سے کہہ دیا کہ اگر پھر کسی بچی سے شادی کی ہمت بھی کی تو میں خود آ کر گولی ماروں گی۔
گاؤں گاؤں پھولن کی دہشت بیٹھ چکی تھی۔ پولیس سے لے کر میڈیا تک کسی کے پاس اس کی تصویر تک نہ تھی لیکن خبروں میں اسے ’’ڈاکو حسینہ‘‘ پکارا جانے لگا۔
چنبل کی رابن ہڈ
پھولن دیوی اور وکرم ملاح کا گینگ کبھی گاڑیاں تو کبھی پیسے لوٹتا۔ وہ رقم کا بڑا حصہ غریبوں میں بانٹ دیتے۔ پھولن جب گاؤں آتی تو لڑکیوں کی شادی کے لیے زیور بھی ساتھ لاتی۔
پھولن کا کہنا تھا کہ وہ صرف ظالموں کو لوٹتی ہے، ٹھاکر جیسے ظالموں لوگوں کو جو غریب لڑکیوں کی عزت سے کھیلتے ہیں یا پھر و ہ جو نچلی ذات والوں کو اچھوت سمجھتے ہیں۔
پھولن کی کہانی سے متاثر ہو کر ایک امریکی مصنف نے اسے ’’بھارت کی رابن ہڈ‘‘ کا نام دے ڈالا۔ بھارتی میڈیا میں بھی اسے ایسا ہی دکھایا جانے لگا۔ لڑکیاں تو پھولن کو ’’دُرگا کا اوتار‘‘ سمجھنے لگیں۔
وکرم مارا گیا
ذرا وقت کا پہیہ الٹا گھماتے ہیں۔
بابو جب گینگ لیڈر تھا تو اس نے اپنے دو آدمی شری رام سنگھ اور لالا رام سنگھ ایک گاڑی چرانے کے لیے بھیجے۔ چوری کرتے ہوئے ان سے ایک شخص قتل ہو گیا۔ یوں دونوں کو جیل ہو گئی۔ جب دونوں چھوٹ کر آئے تو انہیں پتہ چلا کہ بابو کو وکرم نے قتل کر دیا ہے اور اب وہ گینگ کا سربراہ ہے۔
شری اور لالہ دونوں ہی ذات کے ٹھاکر تھے۔ خوب پیسے اور اونچی ناک والے۔ انہیں ملاحوں کا وکرم بطور لیڈر قبول نہ تھا۔ اور ایک دن شری رام نے وکرم کو پورے گینگ کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا۔ وکرم کی لاش پر پاؤں رکھ کر وہ خود گینگ لیڈر بن گیا۔
ادھر پھولن پھر اکیلی ہو چکی تھی لیکن اب وہ کوئی ڈری سہمی عورت نہیں تھی۔ اس کے ساتھ گینگ کے تمام لوگوں کی ہمدردیاں تھی۔ شری رام اور لالہ رام سے یہ سب برداشت نہیں ہوا۔ بھلا ایک عورت ہماری برابری کیسے کر سکتی ہے؟ دونوں نے وکرم کے بعد پھولن کو بھی راستے سے ہٹانے کی ٹھان لی۔
پھولن دیوی زیرِ عتاب
ایک دن شری رام پھولن کو بہانے سے کہیں دور لے گیا۔ یہ وہی بہمائی گاؤں ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا، جہاں آج پھولن کے نام سے ہی لوگ کانپنے لگتے ہیں۔ لیکن اس وقت پھولن بے بس تھی۔ اسے تین ہفتے ایک ٹھاکر کے گھر میں قید رکھا گیا جہاں اسے مسلسل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا۔
پھولن کی چیخیں کئی لوگ سنتے لیکن کان نہ دھرتے۔ جس ٹھاکر کا وہ گھر تھا اس نے بھی پھولن کو نہ چھوڑا۔ یہی نہیں۔ پھولن کے ساتھ زیادتی کرنے میں گاؤں کے اور لوگ بھی شامل ہو گئے۔ اسی پر بھی بس نہ کیا، پھولن سے گھر کا کام کروایا جاتا، برہنہ حالت میں اس سے کنویں پر پانی بھرنے بھیجا جاتا۔
لوگ یہ تماشا دیکھتے لیکن کچھ نہ کہتے۔ گاؤں والوں کے لیے اس کی حیثیت جانور سے بدتر تھی۔ پیچھے چنبل کے پہاروں میں ڈاکو بے تاب تھے۔ پھولن کو غائب ہوئے تین ہفتے ہو چکے تھے۔ اس کے ساتھیوں نے تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ پھولن تو دور کسی گاؤں میں قید ہے۔
پھولن کی واپسی
گینگ کے کچھ لوگ پھولن کو تو بچا کر لے آئے لیکن وہ کچھ بولنے کے قابل نہ تھی۔ اس کی ہمت ٹوٹ چکی تھی۔ آخر پھولن نے خود کو سمیٹ کر پھر سے گینگ بنانے کا فیصلہ کیا۔ وکرم ملاح کے ساتھی اس کے ہمراہ تھے اور پھولن اب ان کی لیڈر تھی۔
اس گروہ کا پہلا مشن شری رام اور لالا رام کو ڈھونڈ کر ٹھکانے لگانا تھا۔ پھر وہ تاریخی واقعہ ہوا جس کا ہم نے شروع میں ذکر کیا۔ پھولن دیوی نے بائیس افراد کو گولوں سے اڑا کر ٹھاکروں پر اپنی دھاک بٹھا دی۔
پھولن دیوی سرینڈر پر رضامند
کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ مجرم ریاست کو یہ بتائے کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟ وہ گرفتار ہونے سے پہلے اپنی شرط رکھے؟
جب ساری کوششوں کے باوجود پھولن دیوی پولیس کے ہاتھ نہ آئی تو اندرا سرکار کی جیسے بس ہو گئی۔ نہرو کی بیٹی سر پکڑ کر بول پڑی:
اگر پھولن کو گرفتار نہیں کر سکتے تو ڈیل ہی کر لو!
بس یہی ایک تجویز چنبل سے ڈاکو راج کے خاتمے کا سبب بنی۔ وہ پولیس کے لیے خوف کی علامت تھی لیکن نہ جانے اس کے من میں کیا سمائی کہ پھولن دیوی نے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر اس کی کچھ شرطیں تھیں، وہ بھی ایک دو نہیں، پوری چھ شرطیں۔
پہلی یہ کہ وہ یوپی میں سرنڈر نہیں کرے گی کیونکہ وہ یوپی کی ہی پولیس تھی جس نے جیل میں اس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ پھولن نے مدھیہ پردیش میں سرنڈر کرنے کی شرط رکھی۔ سرنڈر کرتے وقت وہ کسی کو رائفل نہیں دے گی بلکہ اپنی رائفل گاندھی کی تصویر کے نیچے رکھے گی۔
چوتھی شرط یہ تھی کہ پھولن دیوی سمیت اس کے پورے گینگ کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔ نہ ہی جمنا قتل عام پر انہیں کبھی پھانسی دی جائے گی۔ یہ بھی شرط لگائی گئی کہ گینگ کے کسی بھی فرد کو 8سال سے زیادہ جیل نہیں ہوگی جب کہ آخری شرط یہ تھی کہ اس سرنڈر کو نیشنل ٹی وی پر لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا۔
کافی بحث ہوئی لیکن پھر ایک سال بعد سرکار نے ساری کی ساری شرطیں مان لیں اور 1982 میں دہشت کی علامت پھولن دیوی نے سرنڈر کر دیا۔
ڈکیت بنی دُرگا
12فروری 1983، ضلع بھنڈ، مدھیہ پردیش۔ ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہے۔ ان میں عام لوگ بھی ہیں، سیاستدان بھی اور صحافی بھی۔ پورا میڈیا پھولن دیوی کا سرنڈر دکھانے یہاں موجود ہے اور پھر وہ لمحہ آن پہنچا۔
اپنے گروہ کے آگے آگے وہ کسی شیرنی کی طرح چل رہی تھی۔ لوگ اسے چہرے سے نہیں پہچانتے مگر اس کا انداز بتا رہے کہ یہی پھولن دیوی ہے۔ وہ چنبل کے گھنے جنگلوں سے باہر نکلی تو لوگ خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔
پھولن نے انہیں مسکرا کر دیکھا اور اپنے ہاتھ جوڑ لیے۔ وہ وہاں سے مڑ کر گاندھی اور درگا کے سامنے اپنی رائفل نیچے رکھ دیتی ہے۔ یوں انڈیا میں اسلحہ بردار ڈاکوؤں کے راج کا چیپٹر کلوز ہو جاتا ہے۔
پھولن اور اس کے عاشق مان سنگ سمیت پورا گروہ وزیر اعلی کے ساتھ چبوترے پر موجود ہے۔ اُن پر رہزنی اور ڈکیتی کے ستر مقدمات ہیں۔ ان پر پچاس افراد قتل کرنے کا بھی الزام ہے۔ پھولن سے پہلے انڈیا میں پُتلی بائی اور حسینہ دو بڑی ڈکیت گزری ہیں لیکن آج تک چنبل کے پہاڑوں نے پھولن جیسا کوئی ڈاکو نہیں دیکھا۔
عدالت میں کیس چلا تو پھولن نے تمام الزامات سے انکار کردیا۔ سزا ہوئی اور پھولن دیوی گیارہ سال گوالیار جیل میں رہی۔ وہاں اس نے پانچویں کلاس تک تعلیم حاصل کی۔ طبیعت خراب ہوئی تو سرکار نے تہاڑ جیل بھیج دیا اور وہیں سے رہائی ہوئی۔
جیل سے نکلنے کے 3دن بعد ملائم سنگھ یادو نے پھولن پر دائر 48 مقدمات ختم کر دیے۔ یوں پھولن دیوی ایک آزاد شہری بن گئی۔ وہاں اس نے غریبوں کے لیے کچھ کرنے اور ملاح کمیونٹی کو ایک کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
سیاست میں قدم
پھولن لالو پرساد اور کئی رہنماؤں کے ساتھ جلسوں میں حصہ لینے لگی۔ 1995 میں اس نے سماج وادی پارٹی میں شامل ہو کر سب کو حیران کر دیا لیکن یہ تو محض ابتدا تھی۔
مرزا پور سے الیکشن لڑا تو تین لاکھ ووٹ لے کر بھارتی لوک سبھا کی سیٹ جیت لی۔ نچلی ذات کی پہلی عورت، اور وہ بھی پارلیمنٹ میں۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ بھارتی سیاستدان بھی پھولن دیوی کو قبول نہ کر پائے اور پھولن کو سیاست میں کافی اسٹرگل کا سامنا کرنا پڑا۔
الیکشن جیتنے کے بعد پھولن دیوی نے ایک بیان دیا جس نے سب کو حیران کر دیا۔ پھولن دیوی نے کہا کہ بھارت کے ہر گاؤں ہر دیہات میں اسپتال اور اسکولز ہونے چاہییں۔ وہاں بجلی اور صاف پانی ہونا چاہیے۔
پھولن چاہتی تھیں کہ چائلڈ میرج کا خاتمہ ہو اور عورتوں کو حقوق ملیں۔ وہ حقوق جو پھولن کو کبھی نہ ملے۔ ایک انٹرویو میں پھولن سے جب پوچھا گیا کہ آپ کی کمزوری کیا ہے تو بولی، ’’میرا غصہ‘‘۔
پھولن دیوی ڈاکو بنی تھی ٹھاکروں سے بدلے کی خاطر، نظام کو بدلنے کی خاطر لیکن وہ ایک انسان بھی تو تھی۔ اس کی بھی پسند ناپسند تھی۔ ایک بار انٹرویو میں اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو کون سا ہیرو پسند ہے تو پھولن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’شاہ رخ خان‘‘۔
پھولن سے پوچھا گیا کہ آپ فلم بنائیں گی؟ تو اس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہ میرا کام نہیں، بس سماج سیوا ہی ٹھیک ہے۔
اسی دوران پھولن دیوی نے اپنا گھر بسا لیا اور ایک بلڈر امیت سنگھ سے شادی کرلی۔ بکریاں چرانے والی پھولن اب بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم رہی تھی۔ لوٹ مار پر گزارا کرنے والی اب قیمتی زیورات اور ساڑھیاں خرید رہی تھی۔ میاں بیوی نے دلی میں ایک عالیشان مکان بنوایا جس کا نام پھولن پیلس رکھا گیا۔
پھولن کی شادی تو ہو گئی لیکن شوہر سے جھگڑے خبروں میں آنے لگے۔
پھولن دیوی کا قتل
25 جولائی 2001، نئی دلی میں دوپہر ڈیڑھ بجے تھے۔ پھولن ایک سیاسی میٹنگ سے گھر واپس آرہی تھی۔ ابھی وہ گاڑی سے اتری ہی تھی کہ گھات لگائے تین افراد نے پھولن کی گاڑی پر فائرنگ کر دی۔ حملہ آوروں نے نقاب پہن رکھے تھے۔ نو فائر ہوئے جن میں سے پانچ پھولن کو لگے۔ ایک گولی ماتھے پر لگی جس نے پھولن کی جان لے لی۔ حملہ آور بچ نکلے۔
واقعے کے دو روز بعد ایک نامعلوم شخص نے قتل کی ذمہ داری قبول کی اور تھانے جا کر گرفتاری دے دی۔ اس کا نام شیر سنگھ رانا تھا۔ اس نے کہا کہ پھولن کو قتل کر کے اس نے ٹھاکروں کے مرڈر کا بدلہ لے لیا ہے۔ یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ پھولن پر خود اس کے شوہر امیت سنگھ نے گولیاں چلوائیں تھیں۔
پھولن دیوی دنیا بھر میں مشہور ہو چکی تھی۔ جیل سے آزادی کے بعد اسے دنیا کے 80 ملکوں نے دعوت دے کر بلایا۔ بیس ملکوں نے انہیں نوبیل پرائز کے لیے نامزد کیا لیکن بھارتی حکومت کے ٹھاکروں نے یہ بات آگے نہ بڑھنے دی۔
پھولن دیوی نے درجنوں افراد کو قتل کیا لیکن خود اس کے قتل پر بھارت میں سوگ تھا۔ کیونکہ وہ نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے دیوی سمان تھی۔ بھارت میں 50 کروڑ سے زائد افراد مفلسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ پھولن دیوی نے ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ لیکن اسی پھولن کو قتل کر کے سامراج نے اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ اس کے مرنے کا غم طبقاتی جنگ میں پسنے والے بھارتی ہمیشہ مناتے رہیں گے۔
وہ کہتی تھی کہ وہ ڈاکو پیدا نہیں ہوئی، سماج نے ایسا بننے پر مجبور کیا۔ پھولن دیوی کی کہانی ایک غریب اور مظلوم لڑکی سے شروع ہو کر ایک دلیر ڈاکو اور مقبول سیاست دان پر جا کر ختم ہوئی۔ اس نے بغاوت کا وہ راستہ چنا جو آسان نہ تھا۔
آج بھی اُس کا گاؤں دنیا سے الگ تھلگ ہے۔ نہ وہاں دریا پر پل بنا اور نہ ہی کالج۔ وہ زندہ رہتی تو یہاں کا نقشہ ضرور بدلہ ہوا ہوتا۔ گاؤں کی لڑکیاں آج بھی اسے یاد کرتی ہیں۔ ایک ڈاکو یا سیاست دان نہیں بلکہ ایک ایسی عورت کے طور پر، جو مر گئی لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔