بچپن میں ہم ریاضی کے مضمون میں ٹیبلز یاد کیا کرتے تھے، ٹو ٹو "زا" فور، ٹو تھری "زا" سِکس۔ ایک روز میرے ذہن میں سوال آیا کہ یہ ’ٹو ٹو "زا" فور میں ’’زا‘‘ کیا ہے؟ یہ سوال میں نے اپنے نیوز روم میں موجود لوگوں سے پوچھا۔ اس وقت وہاں کوئی دس پندرہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن کی عمر اوسطاً تیس کے آس پاس تھی یوں میں ان میں سب سے عمر رسیدہ تھا۔ سب کافی دیر سوچتے رہے لیکن اکثر کو اس کا جواب سمجھ نہیں آیا۔ ایک صاحب نے تکّا لگانے کی کوشش کی اور کہا کہ اصل میں ’’ٹو ٹو زا فور‘‘ میں جو ’’زا‘‘ ہے وہ دراصل اردو کے لفظ ’’ضرب‘‘ میں ’’ض‘‘ کی آواز ہے۔
یہ ہے ہماری تعلیم کی ایک ہلکی سی جھلک۔ بہرحال، اگر آپ کو بھی نہیں پتہ کہ 'ٹو ٹو "زا" فور' میں ’’زا‘‘ کیا ہے، تو جناب یہ ’’زا‘‘ نہیں دراصل ’’آر‘‘ یعنی are ہے۔ اب اس کو دوبارہ پڑھیے تو آپ کو مکمل معانی سمجھ آئیں گے کہ ’’ٹو ٹوز آر فور‘‘ ہے۔ اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ سمجھانا تھا کہ اسکول میں جو تعلیم ہمیں دی جا رہی ہے اس کا معیار کیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف شہرِ کراچی میں والدین اپنے بچوں کی کوچنگ اور ٹیوشن پر دو سے چار ارب روپے ماہانہ خرچ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تخمینہ اس کے علاوہ ہے جو بچوں کی اسکولنگ پر خرچ کیا جاتا ہے اور وین وغیرہ کی فیس ادا کی جاتی ہے۔ یعنی ماں باپ اپنے ہاتھ اور پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہیں، لیکن اس تعلیم سے کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔
اس انتہائی اہم موضوع پر بات کرنے کے لیے ہم نے عباس حسین صاحب کو دعوت دی جو انتہائی کرشماتی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیچرز ٹیولپمنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر اور ٹرینر بھی ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر، آپ کتابوں کے رسیا ہیں جس کا اندازہ ان کا ذاتی کتب خانہ دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جس میں تیرہ ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔
ماہرِ تعلیم عباس حسین صاحب نے گفگتو کے دوران اسکولنگ سسٹم کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔ تعلیم کے شعبے میں دہائیوں پر مشتمل تجربے کی روشنی میں اس نظام کی بنیادی خامیوں کی نشان دہی بھی کی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے نجی تعلیم کے کردار سے لے کر طلبہ میں سیکھنے کی صلاحیتیں اجا گر کرنے پر بھی بات چیت کی۔
عباس صاحب نے فرسودہ تدریسی طریقوں، بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں، زندگی کی مہارتوں اور جذباتی و تنقیدی سوچ جیسی مہارتوں پر توجہ نہ دینے جیسے مسائل پر کہا کہ موجودہ نظام طالب علموں کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ انھوں نے تعلیم میں والدین کی شمولیت اور بچوں کی جذباتی ضروریات کو نظر انداز کرنے کے مضر اثرات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزاریں اور مثبت تعلیمی ماحول کو فروغ دینے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔
عباس صاحب نے والدین کے لیے تین اہم مشورے بھی دیے جنہیں بچوں کے لیے اسکول کا انتخاب کرتے ہوئے مدنظر رکھنا بے حد ضروری ہے۔ انھوں نے ’’امتحانات‘‘ کے بارے میں بھی دلچسپ تاریخ بیان کی اور بتایا کہ کئی ممالک میں اب آٹھویں جماعت یعنی چودہ سال کی عمر میں امتحانات ہوتے ہی نہیں۔ لیکن پھر بچوں کی جانچ کیسے ہوگی؟ ہمارے مہمان نے اس کا بہترین حل پیش کیا۔
اس پوڈکاسٹ میں سی ایس ایس امتحان اور پاکستان میں تعلیمی منظر نامے کا بھی جائزہ لیا گیا جہاں والدین کوچنگ اور ٹیوشن میں اربوں روپے خرچ کرنے پر مجبور ہیں باوجودیکہ اس کا حاصل حصول کچھ نہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے انگریزی کو تعلیم کی زبان قرار دیے جانے کے بارے میں ہم نے تجویز دی کہ بچپن کی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے لیکن اس گزارش کو صرف نظر کر دیا گیا۔
عباس حسین صاحب نے چیٹ جی پی ٹی، مصنوعی ذہانت، ہوم اسکولنگ جیسے اہم موضوعات پر کیے جانے والے سوالوں کے تفصیل سے جوابات دیے۔ اگر آپ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ہوم اسکولنگ ایک قابل عمل حل ہے؟ ہمارے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہے؟ کیا تعلیم زیادہ اہم یا ہنر حاصل کرنا زیادہ اہم ہے؟ یہ اور اس جیسے بہت سے اہم سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے مکمل پوڈکاسٹ ملاحظہ کیجیے۔