پاکستان کے انٹیریر منسٹر اور سابق میجر جرنل نصیر اللہ بابر کے یہ الفاظ تھے:
Terrorism can be killed with terrorism
جو کراچی کی لہو میں نہائی سڑکوں کو مزید سرخ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ کلفٹن کے بھوپال ہاؤس میں چند طاقتور لوگوں کی بیٹھک لگی۔ سب کا خیال تھا کہ لوہے کو لوہے سے ہی کاٹا جا سکتا ہے۔
انٹیریر منسٹر نے آئی بی چیف، ڈی آئی جی کراچی اور آئی جی سندھ کو یقین دلایا کہ اس بار کوئی نرمی نہیں ہوگی۔ ہر رکاوٹ توڑ دی جائے گی۔ اس بار وہ روتھلیس تھے، اب ایم کیو ایم کا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنا تھا۔ جناح پور کے مبینہ منصوبے اور میجر کلیم کے اغوا کا بدلہ لینا تھا۔
لیکن ایک سوال تھا، یہ کام کرے گا کون؟ ایم کیو ایم تو وہ قوت تھی جسے 1992 کا فوجی آپریشن بھی نہیں توڑ پایا تھا۔ تو وہ کون ہوگا جو پیپلز پارٹی کے سیاسی قلعے کو ایم کیو ایم کی گرفت سے نکالے گا اور پھر فیصلہ ہوا کہ یہ کام سندھ پولیس ہی کرے گی۔ لیکن ایک منٹ، اس کے لیے تو بڑے خطرناک قسم کے آفیسرز کی ضرورت تھی، جنہیں لائسنس ٹو کل دے کر کھلی چھوٹ دے دی جائے اور پھر ان ہی افسروں میں سب سے اوپر ایک نام تھا۔ ذیشان کاظمی کا۔
’’سنگھم‘‘ اور ’’گنگا جل‘‘ جیسی فلمیں دیکھ کہ ہم ہر پولیس افسر کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ لیکن اکثر فلمیں حقیقت سے بہت دور ہوتی ہیں۔ آج کا مضمون بھی ایک ایسے ہی کردار کے بارے میں ہے۔ وہ ایک ایماندار فرض شناص پولیس آفیسر تھا یا پھر ایک کرپٹ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ؟ یہ فیصلہ آپ کریں گے۔
ذیشان کاظمی کون؟
پینسٹھ کی جنگ زوروں پر تھی۔ اسی سال آثار قدیمہ کے ملازم بیدار کاظمی کے گھر ذیشان کاظمی پیدا ہوا۔ جب ذیشان کاظمی بڑا ہو رہا تھا تو گھر والوں کو ایسا لگتا کہ وہ بڑے پائے کا آرٹسٹ بنے گا۔ اسے میوزک، لٹریچر اور ویڈیو میکنگ سے بے انتہا لگاؤ جو تھا۔ اسی لیے جب 1986 میں اکیس سالہ ذیشان کاظمی پولیس میں شامل ہوا، تو سب حیران رہ گئے۔
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر کہتے ہیں:
ظاہر ہے اگر مہاجر کمیونٹی کی میں خاص طور پہ بات کروں، تو وہ تو پڑھی لکھی، ادب لحاظ اور تعلیم یافتہ، لٹریچر، موسیقی، یہ سارا کراچی کا کلچر تھا ماضی میں، کراچی تو اس کے بعد تباہ ہوا۔ وہ سارا ماحول وہ ساری چیزیں، فیڈرل بی ایریا کے رہنے والے ذیشان کاظمی میں بھی تھیں۔
جرنلسٹ فہیم صدیقی کہتے ہیں:
یہ وہ دور تھا، جب ایم کیو ایم ایک طریقے سے جوان ہو رہی تھی، نوجوانوں کی خاص طور پہ جو اکثریت ہے اس کا رجحان ایم کیو ایم کی طرف تھا اور مہاجر پلیٹ فارم سے ہو کر، کراچی کے نوجوان لڑکے پولیس کا حصہ بنے، ان ہی میں سے ایک تھے ذیشان کاظمی۔
ذیشان کاظمی کو ابھی کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ ہاں وہ باتیں بہت بڑی بڑی کرتا تھا۔ اس دور کے کراچی والوں کی طرح اسے بھی الطاف بھائی بڑے فیسینیٹ کرتے تھے۔
کسی کو کیا معلوم تھا کہ ایم کیو ایم کی پرچی پر پولیس میں آنے والا کاظمی، خود پارٹی کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوگا۔ کاظمی آیا تو اے ایس آئی تھا، مگر بڑی تیزی سے انسپکٹر کے رینک تک پہنچ گیا۔ ان دنوں شہر کا حال یہ تھا کہ بانوے کا آپریشن کلین اپ فوج پر بھاری پڑ چکا تھا۔ سوویت کولیپس کے بعد افغانستان میں سول وار کے شعلے دہک رہے تھے۔ جن کی تپش کراچی میں محسوس کی جا رہی تھی۔ پرائم منسٹر بے نظیر نے اپنے ٹرسٹ وردی انٹیریر منسٹر کو ایک اور آپریشن کا گو اہیڈ دے دیا۔ حیران ہوں کہ طالبان مخالف بے نظیر کو طالبان کے آرکیٹیکٹ پر اتنا بھروسہ کیوں تھا۔ خیر۔ فیصلہ ہوا کہ آپریشن بلوفاکس میں سندھ پولیس اور رینجرز کے جوان حصہ لیں گے۔ وہ حالات کیا تھے، ذرا ایک لمحے کو سوچیں۔ جناح اسپتال کا اسٹاف لاشوں کے پاس بیٹھ کر ناشتا کیا کرتا مگر دل نہیں لرزتا۔ اصل میں وہ یہ سب دیکھ دیکھ کر اتنا سُن ہو چکے تھے کہ اندر کا احساس ہی مر چکا تھا۔ ڈاکٹرز نہیں پولیس والوں اور صحافیوں کا بھی کچھ یہی حال تھا۔ اسی دوران پنڈی کے ڈی آئی جی شعیب سڈل کو کراچی آپریشن کی کمان سونپی گئی۔ چارج سنبھالتے ہی سڈل کی نظریں ذیشان کاظمی پر ٹہر گئیں۔
آپریشن بلو فاکس
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر اس بارے میں کہتے ہیں:
جب کراچی میں حالات گڑبڑ ہوئے تو اس وقت پولیس افسروں کی ضرورت ہوئی تو اس طرح کے جو بہادر، نڈر اور لڑنے والے پولیس افسر تھے تو ان کا ایک یونٹ بنایا اور اس میں ذیشان کاظمی کو افسر لیا گیا۔
جرنلسٹ فہیم صدیقی بتاتے ہیں:
جب کراچی آپریشن جو 92 میں شروع ہوا، اس کے نتائج فوری طور پہ حاصل نہیں کیے جا سکے۔ وہ مکمل فوجی آپریشن تھا اور اس طرح کے جو آپریشن ہوتے ہیں نا وہ مکمل ہیومن انٹیلجنس کی بنیاد پہ ہوتے ہیں۔ تو فوج اور فورسز کو پریشانی تھی، کہ ان کو ہیومن انٹیلجنس نہیں مل رہی تھی۔ تو پھر یہ سوچا کہ کون اس آپریشن کو کامیاب بنا سکتا ہے؟ تو اس وقت کراچی پولیس مین وہ چہرے ڈھونڈے گئے جو جب کراچی پولیس میں آئے تھے تو پلیٹفارم سے گزر کر آئے تھے اور نمبر ۲ یہ کہ وہ مہاجر، اردو اسپیکنگ تھے اور نمبر تھری یہ کہ وہ فنٹر ٹائپ تھے۔
ذیشان کاظمی کا عروج
اب کاظمی ایس ایچ او بن چکا تھا۔ وہ بڑا عجیب دور تھا۔ صولت مرزا ہو یا ذیشان کاظمی، سب کو اپنا نام بنانے کی فکر سوار تھی۔ رستہ جو بھی ہو، بس دبدبہ اور ٹیکا چاہیے تھا۔ کاظمی بھی یہی چاہتا تھا کہ اس کا نام سنتے ہی جسموں پر کپکپی طاری ہو جائے اور ایسا ہوا بھی۔
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر کہتے ہیں:
اس کی یہ خاص بات تھی کہ یہ خود اس علاقے میں گشت کرتا تھا۔ اس گشت کے دوران یہ مشکوک لوگوں کو مشکوک چیزوں کو، ان کے مزاج کے خلاف یا ان کی توقع کے خلاف جو چیزیں ہوتی تھیں، ان کو وہ فوکس کرتا تھا۔ افر کوئی ترم خانی دکھا رہا ہے یا کوئی اکڑ دکھا رہا ہے تو اس کو پکڑتے تھے، مقصد یہ سمجھتے تھے کہ اگر اس علاقے میں یہ ایس ایچ او ہین تو ان کی سلطنت ہے وہاں پہ۔ مجھے یاد ہے ان کی پوسٹنگ ہوئی ملیر کے علاقے میں تو انہوں نے باقاعدہ وہاں پہ اعلانات کرائے کہ کوئی بندا اگر کلف لگے کپڑے پہنا نظر آگیا تو اسے بند کرو تھانے لا کہ۔ اسی طرح جینز پہننے پہ بھی پابندی لگا دی۔ بیسک مقصد کیا تھا ’’لوگوں میں خوف ڈالنا‘‘۔
جرنلسٹ ذیشان شاہ کہتے ہیں:
ایسے دیکھیں کوئی سپیسفکلی اعلان نہیں ہوتے۔ لیکن کچھ چیزیں، کچھ ایریاز میں کاٹن والے کو پکڑ کے بٹھا لیا۔ جب پاور آپ کے پاس بیانڈ باؤنڈریز ہو، آپ کے پاس پیسوں کا کنٹرول نہ ہو، مطلب پیسا حد سے زیادہ ہو، آپ کے پاس مین پاور بہت زیادہ ہو تو پھر اس قسم کی چیزیں سامنے آ ہی جاتی ہیں۔
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر کہتے ہیں:
مزہبی تنظیم تھی ایک۔ مزہبی تنظیم کے ایک لیڈر کو انہوں نے اٹھایا تھا گھر سے فیڈرل بی ایریا سے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لیڈر براہ راست ان کے ایس ایس پی آفس میں فون کر کے کہتا تھا کہ اپنے ایس ایس پی سے کہنا فلاں نے کال کی تھی مجھے رنگ بیک کریں، تو ایس ایس پی نے شکایت کی ذیشان کاظمی سے کہ یہ فلاں فلاں ہے اور مجھے بڑی رعونت سے فون کرتا ہے اور برا برہم اپنا دکھاتا ہے مجھے۔ تو اس پہ پھر انہوں نے اسے اٹھایا اور اسے کئی دن تک نیو کراچی میں قید رکھا اور اس سے کافی انہیں شہرت ملی۔
جرنالسٹ فہیم صدیقی کہتے ہیں:
ذیشان کاظمی بہادر علی سے انسپائر بھی تھا اور بہادر علی کے بعد اس نے اپنا ایک نام بنانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں وہ اس طرح کے کچھ کام کر گیا جس سے اس کی شہرت جو ہے نا بڑھتی چلی گئی۔ کہ بہادر علی کے حوالے سے تھا کہ وہ چیرا لگاتا ہے۔ اس طرح کی چیزیں تھیں جس سے اس کو جو ہے شہرت کا چسکا لگ گیا۔ اس وقت کے خبروں کا جو ذریعہ تھا وہ اخبار ہی تھے اور جب ایوننگرز لکھتے تھے تو پڑھنے والوں کو بھی ایسی خبریں سننے میں مزا آتا تھا اور ذیشان کاظمی کی شہرت بھی بڑھتی جا رہی تھی۔
گزرتے وقت کے ساتھ کاظمی اداروں کی آنکھ کا تارا بنتا جا رہا تھا۔ یہ بات مشہور ہو گئی کہ وہ آصف زرداری اور بے نظیر کا خاص آدمی ہے۔ وہ کیسے اپنے ٹارگٹ تک پہنچتا، اس کے پیچھے بھی ایک کہانی تھی۔ جو کسی کو نہ ملتا کاظمی اسے چٹکی بجاتے ڈھونڈ نکالتا۔
جرنلسٹ ذیشان شاہ کہتے ہیں:
ان کی کوالٹی یہ تھی کہ ان کا انٹیلیجنس کا نظام بہت زبردست تھا۔ اگر انہوں نے کسی لڑکے کو پکرا اور وہ بالکل کلئیر ہے، تو اس کو ایز اے انفارمنٹ یوز کرنا اور پھر وہ یوٹلائز بھی ہوتے تھے۔
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر کہتے ہیں:
دیکھیں انفارمیشن بیسڈ چیزیں ہوتی ہیں، آپ کے پاس جتنی انفارمیشن ہے آپ اتنے ہی طاقتور ہیں۔ تو اسی انفارمیشن بیسڈ چیزوں پہ آپ نے اپنی ایک عمارت کھڑی کی ہے، گورنمنٹ کے ٹاسک پورے کیے ہیں، وہ ٹاسک پورے کرتے کرتے ہی۔ اس نے کوئی خود جا کے تو اعلان نہیں کیا نا کہ میں بہت بڑا تیس مار خاں ہوں۔ ظاہر ہے اس نے کام کیے تو خود بخود ایک پروفائل بنتی گئی۔ یہ چراغ سے چراغ جلتا ہے بنیادی طور پہ اگر میں آپ کو بتاؤں۔ ایک کوئی لو کیٹگری کا کرمنل اٹھا لیا، جب اس کرمنل کو لا کہ انہوں نے انٹیروگیٹ کیا، اس کی تفتیش اس انداز سے کی جیسے کے مخصوص انداز ہوتا ہے پولیس کا، تو پھر وہ آگے کے لوگوں کے بارے میں بتاتا ہے۔
دیکھا جائے تو ذیشان کاظمی کی بیکبون اس کی انٹلجنس تھی اور وہ انٹلجنس انفارمرز سے ملتی تھی۔ لیکن اپنے انفارمرز کے ساتھ ذیشان کاظمی کا بڑا ہی عجیب برتاؤ ہوا کرتا۔
انویسٹی گیٹو جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
جیسے ایک دفع نئی کراچی میں ہوا۔ ایک انفارمر بیٹھا تھا اور وہ اس کو چائے بھی پلا رہا ہے بسکٹ بھی کھلا رہا ہے، بڑی عزت دے رہا ہے، تو میں سمجھا کوئی معزز آدمی ہے، تو جب وہ اٹھا تو ذیشان کاظمی سے میں پوچھا تو وہ بولا یہ انفارمر ہے۔ دوسرے دن میں پھر آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ہی معزز آدمی لاک اپ میں بند تھا۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ ذیشان کاظمی کہ پاس چوری کی گاڑی آئی تو اس میں ایک گاڑی کا ہینڈل تھا اسے بہت پسند آگیا تھا۔ تو پتا چلا وہ تو اس مخبر نے نکال لیا۔ تو اس کا تو دماغ خراب ہوگیا، اس نے اسے کوٹا بھی اور لاک اپ میں بند کردیا۔ ایسے جو لوگ ہوتے تھے وہ ایک دن پہلے آپ کو بہت اچھی حالت میں ملتے تھے اور دوسرے دن بہت بدترین حالات میں ملتے تھے۔
ذیشان کاظمی کا تاریک پہلو
کہتے ہیں نا:
.Power Corrupts and absolute power corrupts absolutely
اختیارات ہو یا طاقت، دہشت ہو یا شہرت، یہ سب کاظمی کی جھولی میں آگری تھیں۔ مگر اس بے پناہ طاقت کے ساتھ آنے والی ذمہ داری سے اسے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ جسے چاہتا اٹھاتا، ٹارچر کرتا، کچھ نہ ملتا تو بھی پیسے لیے بغیر نہ چھوڑتا۔ جو افسر شہر کو دہشت سے پاک کرنے آیا تھا، اس کی دہشت سے پورا شہر کانپ رہا تھا۔
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر بتاتے ہیں:
ایک گھر میں اگر چار مرد ہیں، تو انہیں انہی کی قمیصوں سے آنکھوں پہ پٹی ڈال کہ لایا جاتا تھا۔ قطار میں چلا کر انہیں گراونڈ میں لاتے تھے۔ گراونڈ میں بیٹھ کہ ان کی آنکھوں پہ پٹی بندھی ہوتی تھی، پھر ان کے ساتھ اپنے انفارمر ہوتے تھے، پھر فرض کریں ان میں سے ڈیڑھ سو لوگ آپ نے آج رات اٹھایا ہے تو صبح دس بارہ بجے تک ان کی شناخت پریڈ ہو رہی ہوتی تھی۔ عزت کی دھجیاں تو وہیں اوڑھ گئیں جب آپ نے اس کی بہن بہو بیٹی کے سامنے، اگر آپ نے اسے گن پوائنٹ پہ لیا ہے اور کپڑے اتروائے ہیں اور جانوروں کی طرح لے کہ گئے ہیں تو عزت تو ساری وہیں ختم ہو گئی۔ لیکن اس کے بعد ہوتا یہ تھا، کہ بہت سارے لوگ سامنے آئے کہ انہیں اسی احساس کی وجہ سے کرمنل بنتے دیکھا۔ کہ آپ نے ایک کرمنل کو یا دو کرمنل کو ڈھونڈنے کے لیے ڈیڑھ سو دو سو لوگوں کو یرغمال بنا کہ ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کسی کرمنل کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ تو اس کے بعد ظاہر ہے، بیشتر لوگ اس میں کرمنل بن جاتے تھے۔
انویسٹی گیٹو جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
ذیشان کاظمی کا تو سسٹم یہ تھا کہ اگر اس نے بندا پکڑ لیا تو وہ ایک لاکھ روپے سے کم میں چھوڑتا نہیں تھا اسے۔ بہت سارے اور بھی گیم ہیں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کوئی پرسنل کسی کے خار میں یا سیاسی دشمنی ہوتی ہے تو وہ ایسے ایس ایچ او سے رابطہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں یار یہ فلاں آدمی آپ ٹھوک دو یا فلاں آدمی آپ فلاں کیس میں بند کر دو اور اس کے بدلے ہم آپ کو یہ مال دیں گے۔ بہت سارے کیسز اس نے اپنی پرسنل ترجیحات کی وجہ سے مفت میں بھی چھوڑے۔
ذیشان کاظمی نے بھی کچھ چیزیں کی ہیں اور بہت سے لوگ صرف مومن ہیں تو رلیز کر دیے۔ یہ مجھے اس نے ایک دفع بتایا کہ میرا خالہ کا بیٹا ایم کیو ایم میں وانٹڈ ہے، لیکن میں اس کو سپورٹ کرتا ہوں خیال کرتا ہوں اس کا۔ تو اسی طریقے ے نارتھ کراچی کا جو سیکٹر انچارج تھا رضا، اسے بھی ایسے ہی رلیز کیا۔
جرنالسٹ فہیم صدیقی کہتے ہیں:
آپ تو صرف پیسوں کی بات کر رہے ہیں، میں نے ان افسران کو اس شہر کی بہنوں بیٹیوں کو اس بات پہ مجبور کرتے دیکھا ہے کہ وہ ان کے ساتھ رات گزاریں۔ یہ اسی کراچی آپریشن کے دوران ہوا تھا۔ ہم صرف اور صرف ایک رخ دکھا رہے ہوتے ہیں، ہم یہ نہیں دکھاتے کہ اس شہر میں ایک وقت وہ بھی تھا جب اس شہر میں جنازے اٹھانے کے لیے مرد موجود نہیں ہوتے تھے۔ جب اس شہر میں ہر تیسرے گھر کا نوجوان یا تو جیل میں تھا، یا لا پتہ تھا یا مفرور تھا۔
آپریشن کلین اپ میں پولیس والے وردی پہننے سے ڈرتے تھے کہ کہیں مار نہ دیے جائیں۔ نئے آپریشن میں بازی پلٹ چکی تھی۔ اب کاٹن کی شلوار قمیص یا جینز پہننا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مشکوک اور متنازعہ پولیس مقابلے شروع ہوئے۔ علاقوں کا محاصرہ ہوتا اور گھر گھر تلاشی، نہ کوئی چادر دیکھتا نہ چار دیواری۔ یوں کالی وردی کے کالے کرتوت کھل کر سامنے آنے لگے۔ کاظمی کئی بار رشوت لینے پر گرفتار بھی ہوا، مگر آپ تو جانتے ہیں، ذیشان کاظمی سے لے کر راؤ انوار تک۔ جس کے سر پر اَن دیکھا ہاتھ ہو، اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔
انویسٹی گیٹو جرنلسٹ مبشر فاروق اس بارے میں کہتے ہیں:
دیکھیں اگر آپ پولیس میں کرپشن کی بات کرتے ہیں تو وہ ان کے جو ہے نا سارے سسٹم کا حصہ ہے۔ کراچی آپریشن میں ایسا ہوا کہ کیونکہ ایم کیو ایم کے خلاف کھلی چھوٹ تھی ان لوگوں کو، تو اس میں یہ ہوا کہ کروڑوں روپے بھی شاید میں کم کہ رہا ہوں اتنا زیادہ مال آیا۔ تو ذیشان کاظمی کا طریقہ یہ تھا کہ مال جمع کیا اور جب جمع ہو گیا تو وہ، اس نے پینٹ کھول کہ دونوں پائنچوں میں نوٹ ہی ںوٹ بھر لیتا تھا اور اس کے بعد شرٹ میں بھی سب بھر کے آستینوں میں سب بھر کے کہتا تھا یار مبشر میں گھر جا رہا ہوں تم بیٹھو اپنا، پھر ملاقات ہو گی۔
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر بتاتے ہیں:
ذیشان کاظمی اس وقت نیو کراچی میں ایس ایچ او تھا۔ تو کسی عورت سے دو ہزار روپے رشوت لینے کے الزام میں ان کو اینٹی کرپشن پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ تو میں بھی جیسے دوسرے رپورٹر جا رہے تھے وہاں گیا تھا ان سے پوچھنے کے لیے کہ کیا ہوا۔ تو اس کے اندر اس وقت میں نے خوف دیکھا۔ وہ بہت ہی منت سماجت کر رہا تھا کہ ان کی جو تصویر ہے وہ نہ کھینچی جائے۔ کیونکہ وہ کہتے تھے کہ مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ میں کرپشن کے الزام میں پکڑا گیا ہوں، لیکن اس کو فکر اس بات کی تھی کہ الزام صرف دو ہزار روپے کا تھا۔
کاظمی بمقابلہ الطاف
ذیشان کاظمی کی سنچری مکمل ہونے والی تھی۔ کرکٹ کی نہیں لاشوں کی سنچری۔ اس دور میں پولیس والوں میں یہ ریس لگی تھی کہ کون سب سے پہلے ۱۰۰ انکاؤنٹر مکمل کر کے اعزاز اپنے نام کرے گا۔ ہم نے اس موضوع پر کئی آرٹیکلز لکھے ہیں جنہیں پڑھ کر آپ جان چکے ہوں گے کہ ان انکاؤنٹرز کی اصل حقیقت کیا تھی۔ لیکن چلیں، ایک اور مثال سے سمجھاتے ہیں۔
جرنالسٹ فہیم صدیقی کہتے ہیں:
لیاقت آباد تھانے سے فون آیا، کہ انکاؤنٹر انکاؤنٹر کھیلنے چلنا ہے۔ تو ہم فوٹوگرافر کے ساتھ چلے گئے۔ دو بندے لاک اپ سے نکالے گئے اور لیاقت آباد میں جھنڈا چوک پہ لے جا کہ مار دیے گئے فیک انکاؤنٹر میں اور اس کے بعد فوٹوگرافر نے تصویریں بھی بنا لیں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ ارے ارے ہتھکڑیاں تو کھولی نہیں۔ رک جاؤ یہ تصویریں نہیں دینا، ہتھکڑیاں کھول لیں تو بنانا۔ ہتھکڑیاں کھولی گئیں پھر تصویریں بنائیں گئیں۔
ذیشان کاظمی نے جعلی مقابلوں میں ایم کیو ایم کے اَن گنت لوگ ٹھکانے لگا دیے تھے۔ وہ تنظیم کا دشمن نمبر ون بنا ہوا تھا۔ ایم کیو ایم والے بھی انتظار میں تھے کہ کب موقع ملے اور وہ بہادر علی کی طرح کاظمی کا قصہ بھی تمام کریں۔ لیکن کاظمی تو بلا کا ہوشیار تھا۔ جب گشت کے لیے نکلتا تو جیپ میں اپنی سیٹ پر بیٹھنے کے بجائے ہیلمٹ میں چہرہ چھپا کر بائیک پر بیٹھتا۔ مگر وہ کون شخص تھا جو اس سفاک پولیس آفیسر کے دل و دماغ پر آسیب کی طرح سوار تھا۔ جس کے حملے کا اسے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا۔
انویسٹی گیٹو جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
تو ذیشان کاظمی نے اتنے ظلم کیے تھے، تو خوف تو تھا اس کا۔ اس کو جو ہے نا الطاف حسین کا فوبیا ہوگیا تھا۔ اخبارات جیسے آئے، اگر الطاف حسین کی تصویر چھپی ہوئی ہے، تو اس نے بندا لگایا ہوا تھا، وہ موٹے مارکر سے تصویر کو متا دیتا تھا۔
مجھے کہنے لگا یار مجھے کچھ ویڈیوز چاہیے ہیں، ایم کیو ایم کی۔ وہ ساری میں نے خرید لیں اور ایک تھیلے میں ڈال کہ نئی کراچی ہم چلے گئے۔ پرائوٹ روم میں بیٹھے، اس کو فوری تجسس ہوا کہ دیکھوں۔ اس نے کہا لگاو وی سی آر۔ تو وی سی آر لگایا۔ ایک دھماکے کے ساتھ وہ بڑا زبردست شروع ہوا کہ مظلوموں کا ساتھی اور اس کے بعد جب الطاف حسین کا اس نے چہرا دیکھا تو ایک دم ہیبت سی ہوگئی اس کو۔ بند کرو بند کرو، چیخنے لگا ایک دم۔ تو وہ تصویر جب بندا اخبار میں نہ دیکھ سکے تو وڈیو کیسے سنے گا؟ جب یہ وڈیو والا واقعہ ہوا تو مجھے کہنے لگا، کہ جب میں سو جاؤں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ الطاف حسین میرے سینے پہ چڑھ کے میرا گلا دبا رہا ہے۔
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر کہتے ہیں:
ہر بندے میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ اسے کس طرح مار دیا جائے۔ ان کے گھر سے کھانا بھی آ رہا ہے، ایک تو بازار کا کھانا کھاتے ہوئے میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا، اگر کھانا بنا ہے تو اس کے گھر سے آتا تھا، تو ایک خیال پیدا ہوتا تھا کہ گھر سے کھانا آتے ہوئے کوئی اس میں کوئی چیز ملا دے۔ اس کے گھر سے جو ٹفن آتا تھا اس کے اوپر بھی لاک لگا ہوتا تگا تاکہ کوئی ملاوٹ نا کر دے۔
کاظمی بمقابلہ حقیقی
ایم کیو ایم کو ڈسمینٹل کرنے کے لیے، اداروں نے حقیقی کو پروان چڑھایا تھا۔ یہ پالیسی دہشت کا خاتمہ تو کیا کرتی ایک ہی گھر میں دو بھائیوں کو آمنے سامنے لے آئی۔ لانڈھی جیسے علاقے نو گو ایریاز بن گئے۔ شہر میں خون پانی کی طرح بہنے لگا۔ اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔ ابھی زرا کاظمی کی طرف واپس چلتے ہیں۔ یہاں ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے کاظمی اور حقیقی کو آمنے سامنے کر دیا۔
ایم کیو ایم حقیقی کی کہانی تو آپ جانتے ہی ہیں۔ الطاف حسین نے بغاوت کی بو سونگھ کر اکیانوے میں ہی عامر خان اور آفاق احمد کو الگ کر دیا تھا۔ جب وہ روپوشی سے واپس آئے تو ایم کیو ایم کو اندازہ ہو گیا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ ریاست کی بیکنگ سے حقیقی وجود میں آ چکی تھی۔ کاظمی شاید شہر کا وہ واحد پولیس آفیسر تھا جس کی حقیقی سے دشمنی تھی۔ ایس ایچ او کھوکرا پار بنتے ہی اس نے حقیقی کے ہائیڈ آوٹس پر کئی ریڈز کیے۔ جواب میں حقیقی نے سعود آباد کے قریب کاظمی کے کانوائے پہ اٹیک کیا جس میں ایک سپاہی مارا گیا۔ اب تو کاظمی کا پارہ ہائی ہوگیا۔ اسے خبر ملی کہ اس حملے کے پیچھے ایس ایچ او سعید آباد ناصر لودھی کا ہاتھ تھا۔ پھر کیا تھا، ذیشان کاظمی نے ٹیم تیار کی اور سعید آباد تھانے پہنچ گیا۔
انویسٹی گیٹو جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
غصے میں ذیشان کاظمی پہنچ گیا اور اندر انہوں نے پورے عملے کو یرغمال بنالیا اور ذیشان نے ہتھیار نکال لیے اندر۔ ذیشان کاظمی کا یہ تھا کہ ماردوں ان کو اور سارا الزام حقیقی پہ لگا دونگا۔ تو یہ تو بہت بڑا کیس بن جائے گا حقیقی کے خلاف۔ تو ذیشان تو بالکل آ پے سے باہر تھا اس وقت۔ پھر میں گیا میں نے ذیشان کے پستول پہ ہاتھ رکھا اور کہا کہ بھائی پولیس کا آپس کا معاملہ ہے یہ نا کرو بہت مسئلہ بن جائے گا۔
کاظمی کی پولیس ڈپارٹمنٹ میں یہ واحد دشمنی نہیں تھی۔ وہ ایک اور طاقتور افسر کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ اس افسر کو تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں، بلکہ ہم نے اس پر بھی یہ آرٹیکل لکھا ہے، ٹائم نکال کر پڑھیے گا ضرور:
کاظمی بمقابلہ چودھری
کراچی کی شیریں جناح کالونی منشیات سے لے کر مرڈر تک ہر طرح کے غلط دھندے کے لیے بدنام رہی ہے۔ اس دور میں طور خان یہاں ایک بڑا ڈرگ ڈیلر ہوا کرتا تھا۔ وہ اتنا طاقتور تھا کہ پولیس والے بھی اس کے لیے کام کرتے تھے۔ لیکن پھر نصیر اللہ بابر نے طور خان کے اڈے پر ریڈ کا حکم دیا۔ جب چوہدری اسلم اپنی فورس کے ساتھ وہاں پہنچا تو طور خان نے بھر پور مقابلہ کیا۔ مجبوراً چوہدری کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ وہ اتنا خوفزدہ ہوا کہ اپنی ایس ایم جی بھی وہیں چھوڑ آیا۔ آپ تو رفتار کے ریگولر پڑھنے والے ہیں، آپ کو پتا ہی ہو گا کہ پولیس مین اپنا ویپن کسی حال میں مسپلیس نہیں کر سکتا۔ چوہدری بہت پریشان تھا اور اسی دوران طور خان نے ویپن واپس کرنے کی شرط رکھ دی۔ اس کی شرط یہ تھی کہ چوہدری کو پیر پڑ کر معافی مانگنا ہو گی۔ مرتا کیا نہ کرتا، چوہدری نے معافی مانگی اور طور خان نے بندوق واپس کر دی۔
چوہدری اسلم کی ناکامی کے بعد طور کو ٹھکانے لگانے کا ٹاسک ذیشان کاظمی کے سپرد کیا گیا۔ کاظمی کے لیے پولیس میں اپنی دھاک بٹھانے کا یہ سنہری موقع تھا۔ طور کا باڈی گارڈ پولیس میں اے ایس آئی رہا تھا۔ کاظمی نے اسے ٹریس کر کے ایک ڈیل کر لی۔ طے یہ ہوا کہ گارڈ طور کو نشانہ بنائے گا اور کاظمی باڈی قبضے میں لے کر کریڈٹ لے جائے گا۔ بدلے میں گارڈ کو ایک بھاری رقم دینے کا وعدہ ہوا۔
پلان کے مطابق جب ذیشان کاظمی نے علاقے کا محاصرہ کیا تو گارڈ نے طور کو فائر کر کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد وہ خوش خوش رقم لینے کاظمی کے پاس آیا۔ وہاں اسے انعام تو نہ ملا مگر گولی ضرور مل گئی۔ اس واقعے نے کاظمی کو عرش پر پہنچا دیا۔
انویسٹی گیٹو جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
تو ذیشان کاظمی چہیتا اس وجہ سے تھا کہ چوہدری وہ کام کر ہی نہیں پا رہا تھا جو ذیشان کاظمی کر رہا تھا۔ ان کی وہاں سے جو دشمنی بنی تو وہ پھر کاظمی کی موت تک چلی۔ چوہدری مجھ سے کہتا تھا کہ ایک جنگل میں صرف ایک شیر رہ سکتا ہے، اسی طرح سندھ پولیس میں یا میں رہ سکتا ہوں یا کاظمی۔
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر کہتے ہیں:
ایک مقابلہ تو اس وقت تھا۔ جب ذیشان کاظمی کوئی بڑا انکاؤنٹر کرتا تھا تو اس کی بو ہمیں چوہدری اسلم سے آتی تھی۔ جب چوہدری کوئی بڑا مقابلہ کرتا تھا تو ذیشان کاظمی اس سے حسد کھاتا۔
طور کی موت نے شہر پر کاظمی کی دھاک بٹھا دی۔ یہ اس کے کیریر کا پیک پوائنٹ تھا۔ تین سال میں کاظمی نے ترقی کی جتنی منزلیں طے کیں، باقی افسر پوری زندگی لگا کر بھی وہاں نہ پہنچ سکے۔
لیکن وہ کہتے ہیں نا، ہر عروج کو زوال ہے۔ برائی بتا کر نہیں آتی۔ ستمبر 1996 میں ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے کاظمی کی نوکری داؤ پہ لگا دی۔
کاظمی بمقابلہ مرتضیٰ
مرتضیٰ بھٹو قتل کیس پر آپ نے میرا یہ آرٹیکل تو پڑھا ہوگا۔ اُس دور میں پولیس کا کراچی پر کمپلیٹ کنٹرول تھا۔ مرتضیٰ نے کراچی آکر اداروں اور پولیس کی ناک میں دم کر دیا۔ مرتضی کے جیالے بندوقیں لیے پھرتے اور اداروں کو کھلم کھلا چیلنج کرتے۔ مرتضیٰ کا کوئی گارڈ گرفتار ہو جاتا تو وہ اسے چھڑانے کے لیے تھانے پہ دھاوا بول دیتا۔ اسی دوران کاظمی نے مرتضی کے رائٹ ہینڈ علی سنارا کو گرفتار کر لیا۔ اس کا مقصد الذوالفقار اور را کا کنیکشن معلوم کرنا تھا تو وہیں مرتضی کو بھی فکس کرنا تھا اور پھر چند روز بعد تین تلوار کے نزدیک مرتضی بھٹو ایک ڈسپیوٹڈ پولیس مقابلے میں قتل ہو گئے۔
جرنلسٹ افضل ندیم ڈوگر کہتے ہیں:
منصوبہ اس وقت، دو منصوبے بنے تھے۔ ایک آف رکارڈ ایک آن رکارڈ۔ جو آن رکارڈ منصوبہ تھا، وہ یہ احکامات دیے گئے تھے کہ جو میر مرتضیٰ کے ساتھ مسلح لوگ تھے ان کو کسی بھی طریقے سے غیر مسلح کرنا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کو، ستر کلفٹن سے پہلے ان کے قافلے کو روکنا ہے اور مرتضیٰ کی گاڑی کو ستر کلفٹن تک جانے دینا ہے، باقی تمام لوگوں کو روک لینا ہے۔ لیکن دوسرا جو پلین بی تھا وہ یہ تھا کہ جب اس کے بندے روک لیے جائیں گے اور مرتضیٰ بھٹو اکیلا ہوگا، تو اس وقت میر مرتضیٰ پہ اٹیک کر کہ انہیں مارا جائے گا اور وہ اٹیکر کسی بھی پلین میں شامل نہیں تھا۔ وہ وائٹ کلر کی ایک پجیرو گاڑی میں تھا۔ انہوں نے اسی منصوبے کے تحت جب گارڈز کو پیچھے روک لیا گیا، انہیں غیر مسلح کرلیا گیا، تو ابھی یہ عمل جاری ہی تھا اور وہ مزاحمت کر رہے تھے آگے جانے کے لیے تو اس دوران میر مرتضیٰ بھتو پر فائرنگ کی آواز آئی۔
پرائم منسٹر کی حکومت میں ان کے بھائی کا قتل کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ دو ماہ بعد کراچی پولیس کے فیک انکاؤنٹرز اور مرتضی مرڈر کو بنیاد بنا کر بے نظیر گورنمنٹ ڈسمس کر دی گئی۔ جن پولیس والوں نے مرتضی کے ساتھ انکاؤنٹر میں حصہ لیا تھا ان پر کیس بنا کر مقدمہ چلایا گیا۔ ذیشان کاظمی انہی میں ایک تھا۔
جرنالسٹ فہیم صدیقی اس بارے میں کہتے ہیں:
اس سے میری آخری ملاقات تھی ذیشان کاظمی سے۔ وہ بڑی انٹرسٹنگ تھی۔ اس دن اس کی درخواست ضمانت پہ فیصلہ آنا تھا۔ وہ اور میں کھڑے ہوئے گفتگو کر رہے تھے، اندر کسی وقت فیصلہ آگیا اور فیصلہ یہ تھا کہ درخواست ضمانت مسترد کر دی سپریم کورٹ نے۔ تو اہلکار جو ہے کورٹ کے، باہر نکلے اسے گرفتار کرنے کے لیے، اس نے اچانک صورتحال کو بھانپا اور میں جو سامنے کھڑا تھا، اس نے مجھے دھکا دیا اور سپریم کورٹ کے ایگزٹ کی طرف بھاگا۔ جب تک پولیس والے اس تک پہنچتے، وہ ایک اسٹارٹ کار میں بیٹھا اور وہاں سے فرار ہو گیا۔
کاظمی کی روپوشی
جرنلسٹ ذیشان شاہ کہتے ہیں:
عدالت میں انہوں نے بیل کی کوشش کی تھی اور بیل ان کی رجکٹ ہو گئی تھی۔ جس کے بعد یہ وہاں سے فرار ہو گئے تھے۔ اس کے بعد مختلف جگہوں پہ انہوں نے رہنا شروع کیا تھا۔ اس وقت کے ایس ایچ او ہوتے تھے سرور کمانڈو تو ان سے انہوں نے کچھ ٹائم کے لیے پولیس موبائل بھی لی تھی تاکہ ان کو سپورٹ رہے اور کوئی انہیں ٹریک نہ کر سکے اور اس دوران۔ ان کی ایک یہ بھی چیز بڑی مشہور ہے کہ یہ حلیہ وغیرہ تبدیل کر کے گھوما کرتے تھے۔ پی پی پی حکومت چلی گئی تھی تو جس ادارے کی ان کو سپورٹ تھی اس کے لوگ بھی چینج ہو گئے تھے۔
انویسٹی گیٹو جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
تو ہوا یہ کہ یہ میرے گھر آگیا۔ میرا فلیٹ گراونڈ پہ ہی تھا۔ تو جب بیل بجی اور میں نے دیکھا تو ایک آدمی کھڑا ہوا، اس کے لمبے لمبے بال، داڑھی مونچھیں اور ایک مشکوک بندے کا حلیہ تھا۔ تو میں نے ایک دم پستول اس کے سینے پہ رکھ دیا۔ تو اس نے کہا یار میں ہوں ذیشان ذیشان۔ تو میں اسے کمرے میں لایا۔ آپ یہاں سے ایران نکل جاؤ۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں لاہور نکل رہا ہوں۔ یہ چلا گیا لاہور۔ ذیشان کاظمی نے اس دوران مختلف نام رکھے اپنے، مختلف کوڈ ورڈز۔ تو لاسٹ نام اس کا چل رہا تھا ڈاکٹر عزیز۔ میں نے موبائل میں بھی اس ہی نام سے سیو کیا تھا۔ کال کرتا رہتا تھا، ہماری بات چیت ہوتی رہتی تھی۔
لاہور میں ذیشان کاظمی کا زیادہ دل نہ لگا اور عرصے بعد وہ پھر کراچی لوٹ آیا۔
جرنلسٹ ذیشان شاہ کہتے ہیں:
ایک ٹائم ایسا آیا کہ جو افسران ذیشان کاظمی کے گھر کے سامنے بیٹھتے تھے، تبادلہ کروانے کے لیے، انہوں نے بھی ذیشان کاظمی کا فون لینا چھوڑ دیا۔ کافی سارے جو ساتھ کام کرنے والے افسر تھے انہوں نے ان کو۔ میں سب کی بات نہیں کروں گا لیکن میجورٹی آف دیم۔ انہوں نے ان کو لفٹ کرانی بند کر دی تھی۔ ذیشان کاظمی ایک برائی بن گئی تھی اور کوئی اس کو سپورٹ نہیں کر رہا تھا۔
انویسٹی گیٹو جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
مجھے مختلف تھانوں سے پولیس والے بتانے لگے، کہ ذیشان کاظمی پیسے بھی مانگ رہا ہے، شراب بھی مانگ رہا ہے اور لڑکیاں بھی مانگ رہا ہے۔ مقصد یہ کہ ساری چیزیں اس کو چاہیے ہیں۔ پھر میں نے اسے فون کیا اور میں نے کہا کہ ذیشان تم نے جتنے بھی لوگ پکڑے ہیں، کس چیز پہ وہ پھنسے۔ تو اس نے کہا کہ یہی شراب اور لڑکی۔ تو میں نے بہر حال اس کو ایڈوانس خبردار کیا، کہ تمہارے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔
اور ہوا بھی یہی۔ اب کاظمی کو تین اطراف سے خطرہ تھا۔ نمبر ایک ایم کیو ایم، جس کے کئی کارکن اس نے قتل کیے تھے۔ نمبر دو، الذولفقار، جو اسے مرتضیٰ کی موت کا ذمہ دار سمجھتے تھے اور نمبر تین، حساس ادارے، جن کے کئی راز اس کے سینے میں دفن تھے۔ وہ جو شہر میں دندناتا پھرتا تھا اب انچولی کے ایک چھوٹے سے گھر میں چھپا تھا۔ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ اصل حلیے میں باہر نکلتے ہوئے بھی ڈرتا تھا۔ ایسے میں کراچی انڈر ورلڈ کے ڈان شعیب خان نے اسے ایک آفر کی۔ کاظمی شعیب خان کو پہلے سے جانتا تھا۔ وہ اس پر ٹرسٹ کر کے اپنی ہائیڈ آوٹ سے نکل آیا اور یہی اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
14 اکتوبر 2003
کاظمی ملنے جا تو رہا تھا، مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ شعیب خان اسے قربانی کا بکرا بنانے والا ہے۔ دراصل شعیب خان، کاظمی کو الذوالفقار کے حوالے کرنے کا پلان بنا چکا تھا۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ مرتضی قتل کے بعد اس کے جیالے کاظمی کے خون کے پیاسے تھے۔ شعیب خان بدلے میں انہی لوگوں سے اپنے ایک دشمن کو ٹھکانے لگوانا چاہتا تھا۔
جرنلسٹ ذیشان شاہ کہتے ہیں:
شعیب خان کے قریبی کہتے تھے کہ شعیب خان ایک مشہور یار مار آدمی ہے۔ دو انفارمیشنز ہیں، ابتدائی طور پہ وہ گزری میں واقع شعیب خان کے بنگلے میں گئے اور وہاں دعوت کا ماحول تھا۔ وہاں پہ جا کہ یہ بیٹھے، انہیں کچھ پینے پلانے کو دیا اور اس میں کہتے ہیں کہ بے ہوشی کی دوا تھی۔ ہی فینٹڈ۔ انہیں پھر سونارا لوگوں کے حوالے کر دیا۔
اور جب آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ ان کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ دو لوگ تھے جنہوں نے اس پہ تشدد کیا اور وہ ذیشان کاظمی جو ایک وقت لوگوں پہ تشدد کرتا تھا آج اس کا وہی حشر ہوا تھا۔ پھر اس نے فائٹ بیک کیا۔ اس نے ہتھکڑی توڑ دی اور اسی دوران اس کو گولی لگ گئی۔ آنکھ میں گولی ماری گئی تھی اور پھر پی ای چی ایچ ایس میں خالد بن ولید روڈ پہ ان کی لاش ایک کچرا کنڈی میں پھینک دی گئی الزام پورا ایم کیو ایم پر لگا۔ 2006 میں اس زمانے میں ایک ایس ایس پی ہوتے تھے فاروق عوان۔ انہیں کاروائی کر کہ گرفتار کیا تھا اور اس میں جو دو افراد تھے، عاشق کھوسہ اور نہال۔ یہ دو افراد تھے جنہوں نے ایکسپٹ کیا تھا کہ مرڈر انہوں نے کیا ہے۔ اس کے بعد پھر کلئیر ہوا کہ ایم کیو ایم نہیں بلکہ شہید بھٹو کا جو اسکری ونگ تھا الزولفقار، اس نے مارا تھا انہیں۔
لیکن کچھ ایکسپرٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کاظمی کو شعیب خان نے نہیں بلکہ پولیس میں ایک اینٹی لوبی نے سہراب گوٹھ بلا کر ٹھکانے لگایا۔ حقیقت جو بھی تھی، کاظمی کا آغاز جتنا تابناک تھا، انجام اس سے کہیں زیادہ بھیانک رہا۔ اور کاظمی ہی نہیں، بہادر علی، چوہدری اسلم، توفیق زاہد اور ایسے تمام پولیس آفیسرز شہر کو آگ و خون میں دھکیل کر خود بھی تاریکیوں میں گم ہو گئے۔
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم کیوں گڑے مردے اکھاڑتے رہتے ہیں۔ ماضی کے کردار اور ان کی بھلی بری حقیقتیں سامنے لانے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ تو جان لیں، اگر کسی پرابلم یا رڈل کا حل کرنا ہو تو پہلا قدم اسے سمجھنا ہوتا ہے، پھر اسے حل کیا جاتا ہے۔ کراچی بھی ایک ایسا ہی سوال ہے، ایک پہیلی ہے۔ اسے حل کرنے کا دعوی تو سب کرتے ہیں، سمجھتے بہت کم ہیں۔ تو پھر اپنے شہر اور ملک کی بہتری کے لیے سمجھیے اور رفتار کے ساتھ آگے بڑھیے۔