بھارت نے ایک مرتبہ پھر نوٹ بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اس مرتبہ نشانہ بنا ہے 2 ہزار روپے کا نوٹ۔ وہی جو 2016 کی بدنامِ زمانہ نوٹ بندی کے موقع پر جاری کیا گیا تھا۔
ریزور بینک آف انڈیا نے کہا ہے کہ جس کے پاس بھی 2 ہزار روپے کے نوٹ ہیں، وہ 23 مئی سے بینک سے بدلوا سکتے ہیں۔ لیکن ایک وقت میں 20 ہزار روپے سے زیادہ رقم ایکسچینج نہیں کر سکتے۔
2 ہزار روپے کے نوٹ پہلی بار نومبر 2016 پیش کیے گئے۔ مارچ 2018 میں ان ان کی سرکولیشن 6.73 ٹریلین روپے تک پہنچ گئی جو اُس وقت زیرِ گردش نوٹوں کا 37.3 فیصد بنتی ہے۔ البتہ اس کے بعد یہ گرتے گرتے مارچ 2023 میں 3.62 ٹریلین رہ گئی، یعنی صرف 10.8 فیصد۔
مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ عوام 2 ہزار روپے کا نوٹ لین دین میں استعمال تو کر سکتے ہیں، لیکن بہتر یہی ہے کہ 30 ستمبر 2023 سے پہلے بدلوا لیں۔
بھارتی حکومت نے یہ فیصلہ اُس وقت کیا ہے جب ملک میں ریاستی انتخابات ہو رہے ہیں اور اگلے سال 2024 میں عام انتخابات بھی ہیں۔ یعنی یہ سیاسی مفادات کے لیے اٹھایا گيا قدم بھی ہو سکتا ہے اور وجہ وہی ہوگی: "کالے دھن کا خاتمہ۔"
بہرحال، اس فیصلے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ کچھ ماہرین کے خیال میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ 2016 کے مقابلے میں آج بھارت میں ادائیگی کا نظام بہت حد تک ڈجیٹائز ہو چکا ہے۔ البتہ چھوٹے کاروباری ادارے، دیہی علاقے اور ایسے کاروبار جن میں نقدی کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، وہ ضرور متاثر ہوں گے۔