جب بھی اسٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کرتا ہے، لگتا ہے قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ٹی وی اسکرینیں بریکنگ نیوز سے لال ہوجاتی ہیں اور اخبارات کے کئی صفحے کالے کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی interest rate میں اضافہ ہونا معیشت کے لیے اتنا بُرا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا فائدہ کیا ہوتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ شرح سود بڑھنے کے اثرات پوری معیشت پر پڑتے ہیں۔ اس سے صارفین کے اعتماد کو بُری طرح ٹھیس پہنچتی ہے، روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں، تنخواہیں گھٹ جاتی ہیں، اسٹاک مارکیٹ میں اسٹاکس کی قیمتیں گر جاتی ہیں، اور اگر بہت کم عرصے میں کئی مرتبہ شرح سود بڑھائی جائے تو اس سے کساد بازاری (recession) بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

تو آخر اسٹیٹ بینک ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس کے لیے ہمیں معیشت کی کچھ بنیادی چیزیں سمجھنا پڑیں گی، جن میں سب سے پہلے خود شرح سود ہے۔

شرحِ سود ہے کیا؟

Raftar Bharne Do

آپ نے کبھی بینک سے کوئی قرضہ لیا ہے؟ تو آپ جانتے ہوں گے کہ قرضے کی ادائیگی پر آپ کو اضافی رقم ادا کرنا پڑتی ہے تاکہ ادھار دینے والوں کو یہ مشکل کام کرنے پر کچھ فائدہ تو ملے۔ اسی کو شرح سود کہتے ہیں۔

مرکزی بینک مالیاتی پالیسی میں شرح سود مقرر تو کرتا ہے مگر اس کے بعد مختلف بینکوں کے اپنے الگ کمرشل ریٹ بھی ہوتے ہیں۔ ہاں! سرکاری شرح سود کا اثر ضرور ہوتا ہے کیونکہ آخر اسٹیٹ بینک بینکوں کا باپ ہے۔

تو جس طرح آپ اپنے سیونگز اکاؤنٹ پر منافع حاصل کرتے ہیں، اسی طرح بینک بھی اسٹیٹ بینک کے پاس پیسے رکھ کر اس پر کما سکتے ہیں۔ کیسے؟  اسٹیٹ بینک ٹی بلز کے ذریعے ان سے رقم قرض لیتا ہے اور انھیں منافع دیتا ہے۔

آخر شرحِ سود بڑھائی کیوں جاتی ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اسٹیٹ بینک شرح سود بڑھاتا کیوں ہے؟ آپ کو شاید جان کر حیرت ہوگی کہ وہ افراطِ زر (inflation) کو کنٹرول کرنے کے لیے کرتا ہے۔ انفلیشن اصل میں کسی خاص عرصے میں چیزوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کو کہتے ہیں۔ دنیا بھر کے سینٹرل بینکوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انفلیشن کو ایک سال میں 2 فیصد کے اندر اندر رکھیں۔

لیکن جب انفلیشن بڑھ جاتی ہے تو بینکِ شرح سود میں اضافہ کرتے ہیں تاکہ اس کی شرح کو سُست کر سکیں۔ اس کے اثرات پورے مالیاتی نظام پر پڑتے ہیں۔ کیسے؟

شرحِ سود بڑھنے کے اثرات

Raftar Bharne Do

شرح سود بڑھنے سے گھر بنانے، کارخانہ لگانے، مشینری خریدنے یا پھر گاڑی خریدنے کے لیے قرضہ لینے میں مشکلات بڑھ جاتی ہیں کیونکہ سُود حد سے زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

پھر شرح سود بڑھتی ہے تو لوگ اپنا پیسہ بینکوں میں رکھنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ اچھا خاصا منافع مل رہا ہوتا ہے اور پیسہ بھی محفوظ رہتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی کاروبار کریں تو اس میں نقصان کا دھڑکا لگا رہتا ہے مگر بینک میں رکھنے سے پیسہ بھی محفوظ اور منافع بھی کھرا۔

یوں کیش فلو گھٹ جاتا ہے، اور ایسا ہونے سے لوگ خرچے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں کاروباری ادارے قیمتیں بڑھانے میں ذرا احتیاط کرتے ہیں اور یہی عمل انفلیشن میں کمی لانے کا باعث بنتا ہے۔

لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے کافی قربانی دینا پڑتی ہے۔ کاروباری اداروں کے لیے قرضہ حاصل کرنے اور سرمایہ لگانے میں مشکلات سے معاشی سرگرمیاں گھٹتی ہیں، جس سے روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں اور یوں آمدنی گھٹنے سے اخراجات بھی کم ہو جاتے ہیں یعنی معیشت کی مجموعی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔

انفلیشن کو کم کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ امریکا جیسے ملک کو بھی 70 سال سے زیادہ لگے تب جا کر وہ انفلیشن کو 5 فیصد سے نیچے لا پایا، وہ بھی بغیر کساد بازاری (recession) کے۔

انفلیشن کچھ عرصے کے لیے رہے، اور تھوڑی سی رہے، تو مسئلہ نہیں۔ لیکن اگر یہ بہت کم وقت میں بڑھے اور بہت عرصے تک رہے تو اس سے بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کاروباری اداروں کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، زیادہ تنخواہ کے مطالبات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے، عام ضروریات کی چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور اگر پاکستان جیسا ملک ہو تو بہت زیادہ انفلیشن ہونا اور ساتھ ہی سُست معاشی سرگرمیاں ہونا، معیشت کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج پیدا کر سکتا ہے۔

شرح سود میں ایک فیصد اضافے کے اثرات بھی کوئی دو سال میں جا کر نظر آتے ہیں۔ اتنے عرصے میں کیا کچھ بدل سکتا ہے؟ پاکستان جیسے ملک میں تو کچھ بھی بعید نہیں لیکن پھر بھی ہمارا اسٹیٹ بینک شرح سود میں اضافے جیسا خطرناک ٹول استعمال کر جاتا ہے، وہ بھی ایک نہیں کئی بار۔ شاید اوپر سے، یعنی آئی ایم ایف، سے آرڈر ہے۔

شیئر

جواب لکھیں