شہر سے بارہ میل پرے ہے اک البیلی بستی۔ ساٹھ کی دھائی میں یہ گیت زبان زد عام تھا۔ اخبارات میں ’’شہر سے بارہ میل پرے‘‘ کے نام سے کالم لکھے جاتے تھے۔ اس البیلی بستی سے نکلنے والے تو دنیا میں نام بنا رہے تھے، مگر افسوس نہ جانے کس کی بری نظر اس حسین بستی کو کھا گی۔

تو جناب آج ہم کراچی سے بارہ میل پرے جس بستی کی بات کر رہے ہیں وہ ایک یونیورسٹی کی کہانی ہے۔ اس یونیورسٹی سے کئی لوگوں کی اچھی یادیں بھی جڑی ہیں اور شاید بہت بری بھی۔ اس جامعہ کی تعمیر میں بہت پیار اور خلوص شامل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی تعمیر کے لیے بہت بڑے آرکیٹیکٹ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ یہ وہ آرکیٹیکٹ تھا جس کے تعمیراتی کام کو بین الاقوامی ورثہ قرار دیا گیا اور اس نے دنیا کے کئی ممالک کی جامعات اور پروجیکٹس پر کام کیا۔

میں جس موضوع پر بات کر رہا ہوں وہ کراچی کے تقریباً ہر گھر سے جڑا ہے۔ اس کہانی کو دیکھنے اور سننے کے بعد آپ کا جی دھک سے رہ جائے گا۔ تو چلیں کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔

پچاس کی دہائی میں ایک بڑی علمی شخصیت پروفیسر ابوبکر احمد حلیم المعروف ابا حلیم کو کراچی یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر منتخب کیا جاتا ہے۔ اس عمارت کے اسکول جس کے چند ہی کمرے تھے۔ احمد حلیم نے اپنے گھر کے برآمدہ کو ہی عارضی دفتر بنا لیا تھا۔ وسائل کم مگر عزم بہت بڑا تھا۔

پروفیسر ابوبکر احمد حلیم 1951 سے 1957 تک جامعہ کراچی کے وائس چانسلر رہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس وقت جامعہ کی خدمت کے لیے بھارت، یورپ و امریکا کے مشہور researchersاور educatorsکی ہائرنگ کی گئی تھی۔ چونکہ جامعہ کی ذمہ داریاں بڑھ رہی تھیں اس لیے اب اس کو وسیع بنانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔

پہلے یہ فیصلہ ہوا کہ جامعہ کراچی کو ساحل سمندر کے قریب بنایا جائے گا مگر سمندری ہواؤں اور نمی کے ڈر سے فیصلہ تبدیل کر دیا گیا اور جامعہ کراچی کے لیے کنٹری کلب روڈ کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہ ہی روڈ تھا جسے آج یونیورسٹی روڑ کہا جاتا ہے۔ تب کراچی کا زیرو پوائنٹ گرو مندر تھا اور گرومندر سے 12 میل دور جامعہ کراچی کی بنیاد رکھ دی گی۔

یہ وائس چانسلر جناب پروفیسر بشیر احمد ہاشمی کا دور تھا۔ ہاشمی صاحب نے جامعہ کی تعمیر اور ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح 18 جنوری 1960 کو عالمی شہرت یافتہ فرانسیسی آرکیٹیکٹ مائیکل ایکوشاخ کے پلان کے مطابق کام شروع کر دیا گیا۔

تو جناب اس جامعہ کی بنیاد چاند بی بی روڈ پر ایک پرانی عمارت میں کرایہ کے ایک ٹائپ رائٹر کے ذریعے رکھی گئی۔ آج آپ اس پرانی عمارت کو ٹراما سینٹر کے سامنے واقع گرلز کالج کے نام سے جانتے ہیں۔ اب وہ 1279 ایکڑ اراضی پر عالی شان کراچی یونیورسٹی بننے جا رہی تھی۔ یہاں ایک بہت دلچسپ بات بتانا چاہوں گا۔

جب یونیورسٹی بن رہی تھی تب وائس چانسلر، ٹیچرز طلبا و طالبات، جامعہ کے ملازمین اور شہر کے معززین اور حفاظ کرام نے مل کر کنٹری کلب روڈ سے جامعہ کراچی کی مرکزی انتظامی عمارت تک ایک قافلے کی صورت میں سفر کیا۔ اس سفر کے دوران 30 حفاظ کرام نے مل کر پورا قرآن مکمل کیا، یعنی ہر حافظ قرآن کے ذمے ایک سپارہ کی تلاوت کو مکمل کرنا تھا۔ اس طرح جامعہ کراچی کا یہ نیا مقام جامعہ نگر کہلایا۔

60ء کی دہائی کے آخر میں ایک نظم بہت مقبول ہوئی، جس کا مصرعہ تھا ’’شہر سے بارہ میل پرے ہے اک البیلی بستی‘‘۔ یہ مصرعہ تب زبان زد عام تھا۔ اخبارات میں جامعہ کے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں پر کالم ’’شہر سے بارہ میل پرے‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے جاتے تھے یہ کالم عالمی شہرت یافتہ سائنس دان ڈاکٹر افضال قادری صاحب کی بیٹی راشدہ افضال لکھا کرتی تھیں۔ یہ کالم اتنے مقبول تھے کے ہر کوئی انہیں پڑھ کر جامعہ میں داخلہ حاصل کرنے کے خواب دیکھتا۔

صحافی اور پروفیسر ڈاکٹر توصیف بتاتے ہیں کہ جب پاکستان کی خارجہ پالیسی اچھی تھی تب باہر سے لوگ بہت آتے تھے۔ فلسطین کے ہزاروں سینکڑوں طالب علموں نے کراچی یونیورسٹی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ مصریوں نے، سعودی عرب والوں نے اور اُردن والوں نے بھی۔ ایک زمانے میں عرب والے پڑھنے بہت آتے تھے۔ تھائی لینڈ سے بھی لوگ پڑھنے آتے تھے۔

70 کی دہائی کی بات کریں تو یقین مانیں جامعہ کراچی میں ایسے ایسے ہیرے اور روشن خیال اساتذہ تھے جو دنیا کے عظیم اساتذہ کا مقابلہ کرتے تھے۔ ماہر تعلیم عباس صاحب بتاتے ہیں:

ڈاکٹر مظفر حسین نقوی لندن میں یونیورسٹی آف لندن میں لٹریچر کی پی ایچ ڈی کے لیے گئے۔ ڈاکٹر مظفر بتاتے ہیں کہ میرے تھیسز کا ایک حصہ پورا ایک حصہ نامکمل تھا، وہ میں نے اپنی سپروائیز اور کمیٹی کو جمع کروایا کیا اور ان کو بتایا کہ اس رخ کو اس طرف سے نکال رہا ہوں۔ انہوں نے اپنے جملوں کے اندر میں ایک فقرا لکھا تھا جو ڈاکٹر باربرا ہارڈی نے انڈرلائین کر کے کہا یہ غلط ہے۔ ڈاکٹر حسین نے کہا کہ نہیں، اس سیاق و سباق میں صحیح ہے اس کے سوا غلط ہے۔ فورا ہی ڈاکٹر باربرا نے کہا کہ اچھا؟ چلیں ہمیں اس کی مثال لا دیجے یعنی ہمیں اس کی سند لا دیجے۔ ڈاکٹر حسین نے کہا کہ جی بالکل۔ اوکسفرڈ انگریزی ڈکشنری جو اوریجنل انگلش ڈکشنری ہے تیرہ جلدوں والی وہ نکالی گی، وہ جلد لائی گئی اور ڈکشنری میں وہ لفظ باقاعدہ ڈھونڈا گیا۔ اس سے ثابت ہوا کے ٖڈاکٹر مظفر حسین ٹھیک بات کر رہے تھے کہ صرف اور صرف اس سیاق و سباق میں وہ جملہ ٹھیک ہے اس کے سوا غلط ہے۔ ڈاکٹر باربرا ہارڈی نے فوراً ہی اس جملہ کو ٹک مارک کیا اور کہنے لگیں کے واہ بھی اعلی! مجھے یقین ہے انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا ہوگا۔ اس مقالہ کے بعد ایک ہفتے بعد ڈاکٹر مظفر کو ایک خط ملا اور اس میں لکھا تھا کہ اب آپ باقی کی محنت نہ کریں، آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دے دی ہے۔ تو ٖڈاکٹر مظفر حسین پاکستان کے ان عظیم لوگوں میں سے ہیں جن کی آدھی تھیسز پر پوری تھیسز سمجھا گیا۔

کیا وقت تھا! طلبا بھی زمانے کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں تھے ہر چہرہ ہشاش بشاش نظر آتا۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہاں ہر پڑھنے والا ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتا ہے۔ محمود حسین لائبریری آدھی رات تک کھلی رہتی۔ پروفیسر عباس صاحب مزید بتاتے ہیں:

یہ بات سن کر احباب کو خاصی حیرت ہوگی کہ رات بارہ بجے تک لائبریری کھلی رہتی تھی۔ اس وقت کی روشنیوں رونقوں کے اندر میں جس طرح ہم سب پڑھائی کرتے تھے اور اس کو نارمل سمجھتے تھے۔ آج کا طالب علم تصور بھی نہیں کر سکتا کہ شام کے وقت رات کا کھانا کھا کے میں پڑھائی کے لیے ڈینسو ہال سے کراچی یونیورسٹی پہنچتا تھا، تقریباً رات نو بجے۔ ہم یونیورسٹی میں محمود لائبریری کے اندر بیٹھتے، تمام ریفرنس کی کتابوں میں سے نوٹس بناتے۔ رات بارہ بجے ہم کہتے کہ ہم یہ ریفرنس کی کتاب اپنے کمرے میں لے جائیں گے۔ رولز میں یہ بات تھی کہ آپ ریفرینس کی کتاب لے کر جا سکتے ہیں مگر صبح 8 بجے میں واپس کرنا لازمی ہوتا تھا۔ ہم وہ کتاب ساتھ لے جاتے اور اپنے دوست اظہر کے ساتھ بیٹھ کر رات تین بجے تک نوٹس بناتے۔ پھر تھوڑی دیر سونے کے بعد 8 بجے ہی کتاب لائبریری میں واپس کرتے۔ یہ نادر کتابیں آج بھی کراچی کی لائبریری میں موجود ہیں اور یہ آپ کو آن لائن بھی نہیں مل سکتی۔

خوبصورت درختوں کی چھاؤں میں سڑک کنارے مختلف طلبا یونینز کے رنگین اسٹالز ایک قطار میں سجتے اور جامعہ کراچی کی شان بڑھاتے۔ یقین جانیں، یہ جمہوری منظر بڑا ہی دل فریب ہوتا۔ ہر تنظیم کا رضا کار نئے طالب علم کو اپنی طرف پیار سے بلاتا اور داخلہ فارم کے حصول، فارم پُر کرنے میں معاونت اور جمع کرنے تک مدد کرتا۔ یہ سب تو اپنی یونین میں شامل کرنے کے لیے ہوتا۔ اس دوران ہلکی پھلکی نوک جھونک چلتی مگر کبھی بھی بات ہاتھا پائی تک نہ پہنچتی۔ طلبہ و طالبات کو اس قسم کی سیاسی و جمہوری تربیت بھی بہترین لوگوں کے ہاتھوں میں تھی یہ ہی وجہ تھی کے ان طلبہ یونینز میں سے بڑے بڑے سیاسی قائدین، صحافی اور دانشور سامنے آئے۔ ڈاکٹر توصیف بیان کرتے ہیں:

کراچی یونیورسٹی کی یہ خصوصیت ہوئی کہ اس میں اسٹوڈنٹ یونین کا ادارہ تخلیق ہوا اور اسٹوڈنٹ یونین جب تک رہی، اس میں تمام تر اختلافات کے باوجود نظریاتی بحث و مباحثہ کے باوجود اسٹوڈنٹ یونین نے ایک ماحول پیدا کیا۔ طالب علموں کی برداشت کا، ان کے سیکھنے کا۔ جب ہم پڑھا کرتے تھے تو ظاہر ہے جمعیت بھی تھی اور ہم لوگ این ایس ایف میں تھے، شدید بحث ومباحثہ بھی ہوتا تھا اور جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ مگر اس کے ساتھ ایک رواداری کا ماحول بھی تھا کہ ایک بجے کے بعد کوئی جھگڑا نہیں ہوتا تھا۔ پھر وہ سب لوگ مل کر کھانا کھاتے تھے، الیکشن کے زمانے میں مختلف ٹولیوں میں۔ تو وہ سارا بحث و مباحثہ کا جو ماحول تھا، وہ ایک بجے تک رہتا تھا۔ تو اس وقت میں نے رواداری سیکھی۔ اور میں نے یہ سیکھا کہ دوسرے نظریات کے حامل جو طالب علم ہیں، وہ بھی بہت کچھ جانتے ہیں۔ ان کی باتوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ تو یہ سب میں نے کراچی یونیورسٹی میں سیکھا۔

مگر یہ سنہرا دور بھی زیادہ دیر نہ رہا۔ اب پاکستان کی مقبول ترین جامعہ کی ترقی اور روشن خیالی کے چراغ بج رہے تھے۔ ایسا کیوں ہورہا تھا؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا ہوگا۔

1968 میں ایک طرف فیلڈ مارشل ایوب خان دس سالہ اقتدار کی کامیابی کا جشن منا رہے تھے تو دوسری طرف طلبا تنظیم (این ایس ایف) نے اس آمرانہ نظام کو سڑکوں پر لانے کی ٹھان لی تھی۔ اب آپ کہانی کے اس موڑ پر ہیں جہاں طاقت کے حصول کے لیے رسا کشی عروج پر تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو، ایوب کابینہ سے مستعفی ہو کر ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ملک بھر میں طوفانی دورے کر رہے تھے۔ 7 نومبر 1968 کو بھٹو صاحب راولپنڈی پہنچتے ہیں۔ وہ ایک جیپ پر کھڑے ہو کر اپنے مخصوص انداز میں راولپنڈی پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ کے سامنے طلبا کا عوامی جذبہ بھڑکاتے ہیں اور اپنی جیپ کو لے کر آگے نکل جاتے ہیں۔ ان کے جانے کے باوجود طلبہ کا سڑکوں پر رش ختم نہیں ہوتا۔ آمریت کے خلاف جنون تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اس دوران ٹریفک بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔ پولیس بھی طلبا کو منتشر کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ بس پھر پولیس کی گولی چلتی ہے جو نوجوان طالب علم عبد الحمید کو چیرتی ہوئی نکل جاتی ہے۔ عبد الحمید چند ہچکیاں لیتے ہی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ جواں سال موت کے بعد پورا ملک نہ تھمنے والے طوفان کی زد میں تھا۔

طلبا یونین کی تحریک زور پکڑ کر عوامی تحریک میں بدل چکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی تخت ایوب گرانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ویسے تو 7 نومبر 1968 کو چلنے والی گولی کے پیچھے کئی اور راز بھی دفن ہیں اگر وہ بتانا شروع کیے تو بات کہی اور نکل جائے گی۔ ہم اسٹوری پر رہتے ہیں۔

خیر این ایس ایف کی تحریک نئی سوچ لے کر جامعہ کراچی کے دروازے پر بھی دستک دیتی ہے اور اسے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ جنرل ایوب خان کے خلاف کراچی یونیورسٹی کی این ایس ایف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی تھی۔ جمہوریت اور آمریت کی اس جنگ میں روشن خیال اساتذہ بھی طلبا تنظیموں کا ساتھ دے رہے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب طلبا یونینز انتخابات کرتیں اور اپنے نمائندے سامنے لاتیں۔ اب میں 70 اور 80 کی دِہائی کا ذکر کروں گا مگر اس سے پہلے یہاں آپ کو ’’رائٹ‘‘ اور ’’لیفٹ‘‘ کیا تھا؟ یہ سمجھانا ضروری ہے۔

ترقی پسند اور ماڈرن طلبہ و طالبات جو سوشلزم کے حامی تھے وہ ’’لیفٹ ونگ‘‘ کے لوگ کہلاتے۔ اور یہ سب آزاد خیال اور جدید علم کی بات کرتے تھے۔ روس اور چین کی ترقی کو پسند کرنے والے یہ طلبا اپنے تعلیمی اداروں میں ایشیا سرخ ہے کا نعرہ لگاتے۔ جبکہ اسلامی نظام کے نفاز اور مشرقی روایات کے حامی طلبہ ’’رائٹ ونگ‘‘ کے لوگ کہلاتے۔ مسلم ممالک کے اتحاد کی خواہش رکھنے والے یہ طلبا اپنے تعلیمی اداروں میں ایشیا سبز ہے کا نعرہ لگاتے۔

بس اب کراچی یونیورسٹی دائیں بازو کے اسلام پسندوں اور بائیں بازو کے ترقی پسندوں کے درمیان تناؤ کا مرکز بنتی جا رہی تھی۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ اس دور میں اساتذہ کی عزت کم کرنے کے کے ایک واقع نے ماحول کو بری طرح سے متاثر کیا۔

یہ غالباً 1977-78 کا زمانہ تھا ڈاکٹر احسان رشید کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ اس دور میں طلبہ یونین کے انتخابات ہوتے ہیں اور جمعیت کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لبرل (مشترکہ الائنس) کے مصطفین کاظمی جمعیت کے سلیم مغل کو شکست دے کر صدر منتخب ہو جاتے ہیں۔

مصطفین کاظمی اپنے کچھ مطالبات کی فہرست وائس چانسلر ڈاکٹر احسان رشید کے سامنے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر احسان کے مطابق یہ مطالبات ناجائز تھے اس لیے وہ انہیں ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ انکار کیوں کیا؟؟؟ اس بات پر ڈاکٹر احسان کے ساتھ شدید بد تمیزی کی جاتی ہے اور ان کو دفتر سے بے دخل کر کے وہاں تالا لگا دیا جاتا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ان کی کرسی کو سڑک پر رکھ کر جلا بھی دیا جاتا ہے۔ اس واقع کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ کے جو لوگ آواز اٹھاتے ہیں ان کو بھی زد و کوب کیا جاتا ہے۔

انیس سو ستتر میں ملکی سیاست میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ایک بار پھر آمریت مسلط کردی گی۔ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی ملک میں ایک بار پھر سیاسی بھونچال آ جاتا ہے۔ ضیاء الحق اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے ایک انتہائی قدم اٹھاتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی سزا سنا دی جاتی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد نہ صرف ملک کی سیاست میں انتہا پسندی دیکھنے میں آئی۔ بلکہ اس کے اثرات طلبا تنظیموں تک بھی پہنچنے لگے شروع شروع میں امریت کے خلاف جمعیت نے دیگر طلبہ تنظیموں کے ساتھ مل کر احتجاج تو کیا مگر کچھ محققین کے مطابق جماعت اسلامی نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مک مکا کر لیا اور بھٹو کی موت پر خاموشی اختیار رکھی۔ کیا سچ مچ مک مکا ہوا تھا؟

اس بات کا جواب میرے پاس نہیں مگر اتنا معلوم ہے کہ بھٹو کے دور کو بھی ڈیموکریٹک ڈکٹیٹر شپ کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کے دور میں لسانی فسادات اور کئی قتل ہوئے۔ اردو بولنے والے بھی ناراض ہوئے۔ نو ستارہ تحریک بھی چلی جہاں بہت سے لوگ بھٹو کی پھانسی پر غمگین تھے وہیں بہت بڑی تعداد خوش بھی تھی۔ شاید اسی لیے جمعیت نے بھٹو کی پھانسی پر احتجاج کی بجائے خاموشی اختیار کی اور شاید اسی لیے اس خیال نے جنم لیا کہ جمعیت کا آمریت کے ساتھ مک مکا ہو گیا ہے۔ خیر اسٹوری کو آگے بڑھاتے ہیں۔

یہ وہ دور تھا جب اسلامی جمعیت طلبہ خود کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر رہی تھی۔ اس دور میں اسلامی جمعیت طلبہ پر الزام لگا ان کے پاس ایک ’’تھنڈر اسکواڈ‘‘ ہے جو عسکری ونگ کا کام کرتا ہے۔ انیس سو اٹھتر میں الطاف حسین جامعہ کراچی میں۔ ٓال پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اے پی ایم ایس او کے زیادہ تر اراکین لبرل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھتے تھے انیس سو اکاسی میں اے پی ایم ایس او یونائیٹیڈ اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوگی جو جنرل ضیاء الحق کے خلاف بنائی گئی تھی۔

بھائی یہ وہ ہی (اے پی ایم ایس او) ہے جس کے طالب علموں کو کوٹا سسٹم کی وجہ سے ایڈمیشنز نہیں دیے جاتے تھے۔ کراچی یونیورسٹی سمیت سندھ کے تعلیمی اداروں میں مہاجر طلبا کی اسناد چھین کر پھاڑنے کے کئی واقعات سامنے آئے۔ اے پی ایم ایس او کے بانی الطاف حسین کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں جامعہ سے بھی نکالا گیا۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ اسی تنظیم کے ارکان رکشوں بسوں کا کرایہ بھر کر ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور وفاقی اور صوبائی وزرا بن کر سامنے آتے ہیں۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟؟ اس کہانی کا ذکر کچھ آگے جا کر ہوگا۔

اب انیس سو اناسی کا دور شروع ہوتا ہے یہ سال جامعہ کراچی میں خون ریزی کی ابتدا کا سال تھا۔ سینیر صحافی مظہر عباس بتاتے ہیں:

12اگست 1979 کو اسٹوڈنٹ یونین کے جو الیکشن ہوئے تھے اس کی حلف برداری تھی صدر حسین حقانی صاحب ہو کر آئے تھے اور جو جنرل سیکریٹری تھی وہ پروگریسیو فرنٹ کے تھے رفیق پٹیل۔ تو اس الیکشن پر کوئی تنازع تھا، تو پروگریسیو فرنٹ اور لبرل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے لوگ تھے، انہوں نے یہ طے کیا کہ مارچ لابی سے جہاں حلف برداری ہو رہی تھی وہاں تک مارچ کریں گے، پروٹیسٹ مارچ کریں گے۔ اس وقت کیفے ٹیریا کے پیچھے ایک بہت زبردست حال ہوتا تھا، باقاعدہ وہاں پوری اسمبلی کا سیشن ہوا کرتا تھا جو بھی منتخب لوگ ہوتے تھے۔ تو وہاں جو جلوس جا رہا تھا تو اس پر فائرنگ ہوگئی اور پہلی بار اسٹین گن سے فائرنگ کی گئی۔ اس سے کوئی 17 سے 18 طلبا و طالبات زخمی ہوئے۔ وہ اس وقت تک کا سب سے بڑا واقع تھا۔ پھر یہ بات رکی نہیں۔

انیس سو اناسی سے انیس سو تراسی کے دوران دائیں اور بائیں بازو کے طلبا میں درمیان کئی تصادم ہوئے۔ خونریزی کے باعث دونوں ونگز افغان پناہ گزینوں سے ہتھیار خریدتے رہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں ریاست کہاں تھی؟ طلبا یونینز کے پاس اسلحہ کہاں سے آ رہا تھا؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 80 کی دہائی میں اسلامی جمعیت طلبہ کو سرکاری آشیرباد حاصل تھیں اور اسلامی جمعیت طلبہ آمرانہ مزاج کی حامل جماعت تھی جو تمام طلبا کو اپنے ریڈار پر رکھتی۔ اگر کوئی پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھنے والا طالب علم ’’جیے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگاتا تو وہ مخبری پر سیدھا حوالات میں جاتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے نجمی عالم کہتے ہیں:

کراچی یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ اسلحہ کا استعمال جمعیت نے ہی کیا۔ کراچی یونیورسٹی میں انہوں نے وہاں اسٹین گن سے فائرنگ کی۔ اس زمانے میں اے پی ایم ایس او تو تھی نہیں، جمعیت کراچی میں dominant کرتی تھی۔ ہمیں یاد ہے جب ہم اسٹوڈنٹ دور میں ہوتے تھے تو ہم این ایس ایف میں ہوتے تھے یہ ہمیں بھی مارتے تھے بلکہ ضیاء الحق کے دور میں تو انہوں نے ہمارے لوگوں بہت تنگ کیا تھا۔ پی ایس ایف کے لڑکوں کو بلکہ کراچی یونیورسٹی، اردو کالج کے لڑکوں کو یہ لوگ بیج نہیں لگانے دیتے تھے اور ان کو انتظامیہ کی فل اسپورٹ تھی ضیاء الحق کا دور تھا جماعتی ان کے چہیتے تھے۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے فرخ سعید اسے پراپگنڈہ قرار دیتے ہیں ہوئے کہتے ہیں:

پراپگنڈہ ایسی چیز ہے جو مسلسل کیا جائے، ایک ہی بات کو بار بار دہرایا جائے تو پھر وہ لوگوں کے ذہنوں میں گھس جاتا ہے۔ میں نے معاملات کو بہت گہرائی سے دیکھا ہے، اس طرح کی کوئی صورتحال نہیں تھی۔ اس زمانے میں جمعیت کے لوگ پکڑے بھی جاتے تھے اور ان پر مقدمے بھی ہوتے تھے۔ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں دیکھا کہ ضیاء الحق صاحب کی حکومت ہے اور ہمیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اس کے برعکس دوسرے لوگوں کو زیادہ مراعات حاصل تھیں۔ اس زمانے میں بھٹو صاحب کے دور کے لگائے ہوئے پولیس افسران ان کی طرف داری کرتے تھے، ان کو گرفتار نہیں کرتے تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں الیکشن بھی ہوئے ہیں، جمعیت کامیاب بھی ہوئی ہے۔ تو کسی اور نے آ کر ووٹ تو نہیں دلوائے۔ انہیں طلبا نے ہی ووٹ ڈالے ہیں۔ جمعیت کا بڑا فئیر الیکشن ہوتا تھا۔ کبھی کسی پر کوئی الزام نہیں لگتا تھا دھاندلی کا۔

انیس سو اسی میں این ایس ایف اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان ایک جھڑپ ہوتی ہے۔ اس جھڑپ میں این ایس ایف کا ایک لڑکا ’’قدیر عابد‘‘ گولی لگنے سے مارا گیا۔ ایکشن کا ری ایکشن تو ہوتا ہی ہے۔ بس اب بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جتنی بھی طلبا تنظیمیں تھیں، انہوں نے عسکری ونگ بنانا شروع کر دیا۔ اب جامعہ کراچی میں مشکوک لوگوں کی آمدو رفت بڑھ گئی۔ شہر سے بارہ میل پرے دور جو بستی بڑے پیار سے سجائی گئی تھی اب اس بستی پر نفرتوں کے سائے تیزی سے منڈلا رہے تھے۔

مارچ 1981 میں ایک اور حیران کن واقع پیش آتا ہے۔ ضیاء الحق حکومت کے خلاف پورے پاکستان میں پی ایس ایف ایک موومنٹ چلا رہی تھی۔ ملک بھر میں تمام یونیورسٹیز بند تھیں مگر کراچی یونیورسٹی کھلی تھی۔ کراچی یونیورسٹی کو بند کرنے کے لیے پی ایس ایف کے طلبا نعرے بازی کر رہے تھے کہ ایک آرمی کی جیپ ایڈمنسٹریشن بلاک آکر رُکتی ہے۔ اس میں سے ایک میجر ایڈمن بلاک میں چلے جاتے ہیں۔ پی ایس ایف کے طلبا کو جب آرمی جیپ کا پتہ چلتا ہے تو وہ آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ کچھ طلبا پی ایس ایف کے جنرل سیکریٹری اکرام قائم خانی کو سارے معاملے سے آگاہ کرتے ہیں۔ اکرام قائم خانی لڑکوں کے ساتھ مل کر جیپ کے پاس پہچتے ہیں اور یہ نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

فوج کا جو یار ہے
غدار ہے غدار ہے
جنرل کرنل کی سرکار
نہیں چلے گی، نہیں چلے گی

مشتعل لڑکے باوردی ڈرائیور کو بھگا دیتے ہیں اور آرمی جیپ کو جلا دیتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ایک میجر صاحب تو اپنی بیٹی کا ایڈمیشن کروانے کے لیے کراچی یونیورسٹی میں آئے تھے۔ آرمی جیپ جلنے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ اکرم قائم خانی نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس دن تھنڈر اسکارڈ کے لڑکوں نے ان پر حملہ کیا تھا اور ان لڑکوں میں زرار خان اور فرخ سعید شامل تھے۔

ان ہی سالوں میں مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی تنظیم ’’الذوالفقار‘‘ کے رکن سلام اللہ ٹیپو کراچی سے پشاور جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 326 کو دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر اغوا کرتے ہیں اور اس پرواز کو افغانستان کے شہر کابل میں اتارا جاتا ہے۔ پھر الذوالفقار ضیاء الحق حکومت کے سامنے کچھ مطالبات رکھتی ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بھٹو برادران نے اس ہائی جیکنگ کو جمہوریت کی بحالی کے لیے درست اقدام قرار دیا تھا۔

آپ سن کر حیران ہوں گے کہ اس جہاز کو ہائی جیک کرنے والا سلام اللہ ٹیپو پی ایس ایف عسکری ونگ کا کارکن تھا۔ طیارہ ہائی جیک کرنے سے پہلے امریت سے شدید نفرت کرنے والا سلام اللہ ٹیپو اکثر کراچی یونیورسٹی آتا جاتا رہتا اور اپنی دہشت پھلاتا رہتا۔

26 فروری 1981کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے ایڈمنسٹریشن بلاک کے سامنے ایک کار آکر رکتی ہے۔ کار سوار روسی ہینڈ گرینیڈز، رائفلرز اور لائٹ مشین گنز سے لیس تھے۔ اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اس بار گولی جمعیت طلبہ کے رکن اور ایم ایس ای کیمسٹری کی ڈگری حاصل کرنے والے ’’حافظ اسلم‘‘ کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ سر پر گولی لگنے سے حافظ اسلم آرٹس لابی کے سامنے گرتے ہیں اور موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ جانتے ہیں حافظ اسلم کو مارنے کا الزام کس پر آتا ہے؟ جی ہاں حافظ اسلم کو الذوالفقار کے رکن سلام اللہ ٹیپو نے قتل کیا تھا اور اس حادثہ کے چند روز بعد وہ جہاز ہائی جیک کرتا ہے اور فرار ہو جاتا ہے۔

ویسے حافظ اسلم کو بھی ٹارگٹ نہیں کیا گیا تھا۔ دراصل سلام اللہ ٹیپو اور اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن ’’رفیق افغان‘‘ کا اپس میں یہ محلے کا جھگڑا تھا جو کراچی یونیورسٹی تک جا پہنچا۔ اور اس جھگڑے نے ایک ہونہار طالب علم کی جان لے لی۔ حافظ اسلم جامعہ کراچی کی طلبا کونسل کے اسپیکر بھی تھے۔ ان کا قتل اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا۔

اب دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں میں تناؤ مزید شدت اختیار کر چکا تھا۔ حافظ اسلم کی موت کے چند روز بعد طلبا یونینز کا الیکشن تھا۔ اس روز بائیں بازو کی جماعت پی ایس ایف کا رکن ’’شوکت چیمہ‘‘ Green Yamaha پر گھومتا ہوا آتا ہے اور اپنے سامنے کھڑے اسلامی جمعیت کے لڑکوں کو دیکھ کر بائیک کا اکسیلیٹر گھومانا شروع کردیتا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکے بھی خوب نعرے بازی کر رہے تھے۔ ایک طرف بائیک کے سلنسر سے انجن کی آواز گونج رہی تھی تو دوسری طرف نعرے کانوں کے پردے پھاڑ رہے تھے۔

ان دنوں شوکت چیمہ اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے درد سر بنے ہوئے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ کبھی خود بھی اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ رہ چکے تھے۔ شاید شوکت چیمہ جان بوجھ کر اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکوں کو irritate کر رہے تھے۔ اچانک ایک گولی چلتی ہے اور شوکت چیمہ کی جان لے لیتی ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق یہ گولی مسجد سے چلی تھی اور گولی چلانے والا اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن پٹھان ’’جہانزیب خان‘‘ تھا۔

ان دنوں کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں رہنے والے زیادہ تر پنجابی اور پٹھان اسلامی جمعیت کے حامی تھے اور یہ ہاسٹلز جمعیت کے لیے کسی قلعہ سے کم نہیں تھے۔ الیکشن کے اگلے روز این ای ڈی اور جامعہ کراچی میدان جنگ بن جاتی ہے۔ این ای ڈی سے بلوچ طلبا فائرنگ کر رہے تھے اور کراچی یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت نے محاذ کھول رکھا تھا۔ اور اب 7MM کی گولی اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکے دانش غنی کو لگتی ہے۔

مظہر عباس ان حالات کو یوں بیان کرتے ہیں:

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس پیریڈ میں کوئی دس پندرہ دن تک ایک گروپ جو کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹل سے فائرنگ کر رہا ہے تو دوسرا گروپ این ای ڈی کے ہاسٹل سے فائرنگ کر رہا ہے تو یہ باقاعدہ کراس فائرنگ رہی کئی دن تک

صحافی رفعت سعید بھی اس کی گواہی دیتے ہیں، کہتے ہیں:

اسی کی دھائی میں کراچی یونیورسٹی پر اسلامی جمعیت طلبہ کا بہت ہولڈ رہا ہے۔ تو جس کا ہولڈ ہوتا ہے چلتی بھی اسی کی ہے۔ لوگ بھی اسی کی سنتے ہیں۔ تب حالات اتنے خراب ہو گئے تھے کہ ہاسٹل بھی تقسیم ہو گئے تھے۔ این ای ڈی یونیورسٹی بالکل برابر میں تھی۔ این ای ڈی یونیورسٹی میں بلوچ طلبا کا بہت زیادہ ہولڈ ہوتا تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ کراچی یونیورسٹی اور این ای ڈی یونیورسٹی کے ہوسٹلز کے درمیان مسلسل فائرنگ ہوا کرتی تھی۔ اس وقت جدید ہتھیاروں کا استعمال ہوتا تھا۔ مشین گن سے لے کر دیگر اسلحہ استعمال ہوتا تھا۔ اس طرح کشیدگی بڑھتی گئی۔ بالآخر کراچی یونیورسٹی بلکہ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی اسلحہ کا استعمال بڑھ گیا۔ پھر جب جھگڑا ہوتا تھا تو ایک تنظیم کو دباؤ کا سامنا ہے، تو اس کی مدد کے لیے لوگ باہر سے بھی پہنچتے تھے۔ بات کراچی یونیورسٹی سے ہی نکلتی تھی بات پھیلتے پھیلتے شہروں تک نکل گئی۔ اسلحہ سب نے استعمال کیا میں کسی ایک پر الزام نہیں لگاؤں گا، تو یہ بلیم گیم چلتا رہے گا۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلحہ آیا ہی کیوں اور آنے کس نے دیا؟

1983 میں اسلامی جمعیت طلبہ، کراچی یونیورسٹی کے انتخابات میں کامیاب ہوگئی مگر پنجاب کے بیشتر کالجوں، یونیورسٹیوں میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آہستہ آہستہ اسلامی جمعیت طلبہ کی مقبولیت کم ہو رہی تھی۔ دوسری جانب ترقی پسند طلبا تنظیمیں مضبوط ہو رہی تھیں۔

انیس سو چوراسی میں تشدد کے واقعات بڑھ رہے تھے۔ بجائے اس کے کہ ریاست ان چھوٹی موٹی لڑائیوں کو کم کرنے میں مدد کرتی۔ ضیاء الحق حکومت نے طلبا سیاست اور یونینز پر پابندی لگا دی۔ شاید یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ پابندی کے باوجود بھی پُر تشدد واقعات چلتے رہے۔ بلکہ اُن میں اضافہ ہو گیا۔

اس وقت پی ایس ایف کراچی کی گرلز پریذیڈنٹ راحیلہ ٹوانہ بتاتی ہیں کہ یہ وہ دور تھا جب پی ایس ایف مارشل لا کے خلاف ڈنکے کی چوٹ پر لڑرہی تھی۔ کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کے طلبا اور وائس چانسلر پی ایس ایف کے طلبا و طالبات کو ایڈمیشن نہیں دیتے تھے۔ ایڈمیشن لینے کے لیے شدید جھڑپیں بھی ہوتی تھیں۔1987 میں انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اسلحہ آتا دیکھا۔ راحیلہ ٹوانہ کہتی ہیں:

ہمارے لیے ٹف ٹائم آگیا جماعت کی طرف سے۔ جماعت اسلامی کی طرف سے کیونکہ وہ ایک بڑی جماعت تھی اور وہ لوگ تھوڑا اپنی پاور کو استعمال کرتے تھے۔ وہ دو طریقے سے استعمال کرتے تھے۔ ایک تو ان کی لڑکیاں برقعہ پہنتی تھیں اور ہمیں نہیں پتہ چلتا تھا کہ برقعوں کے اندر سے کیا آ رہا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ لہذا وہ ہمارے لیے بہت بڑی پرابلم ہوتی تھی کیونکہ دیگر تنظیموں کے اندر ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ میری مراد اسلحہ سے ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ہماری یونیورسٹی میں اسلحہ آنا شروع ہو چکا ہے۔ ہاسٹلز پر قبضے ہونا شروع ہو چکے ہیں اور کلاسز بھی کسی کی مرضی سے ہوتی ہیں اور نہیں ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں ہمارے لیے بڑی مشکل ہوگئی تھیں۔ تاہم ہم پڑھائی کے علاوہ فائیٹ کے موڈ میں آتے جا رہے تھے۔ اسٹوڈینٹس غصہ میں آتے جا رہے تھے۔ صرف ہم ہی نہیں دیگر تنظیمیں بھی ڈی ایس ایف تھی این ایس ایف تھی یہ زیادہ مشہور تھیں اس کے اندر پی ایس اے تھی اس وقت ’’جیے سندھ‘‘ کے لڑکے تھے۔

اس دور کے کچھ سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ طلبا تنظیموں پر پابندی کے باوجود جمعیت کے کارکنان اپنا کام کرتے رہتے تھے جبکہ دیگر تنظیموں کے کارکنان کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جاتا تھا۔

آمریت سیاسی شطرنج پر ایک اور نئی چال چل رہی تھی۔ ضیا حکومت کو مارشل لا کی حمایت کے لیے اردو بولنے والوں کو ساتھ ملانا تھا۔ 15 اپریل 1985 کو کراچی کے وسطی علاقے ناظم آباد کی چورنگی پر ٹریفک حادثے میں سرسید گرلز کالج کی مہاجر طالبہ بشری زیدی کی جان چلی جاتی ہے۔ طلبہ کی ہلاکت پر شروع ہونے والا احتجاج لسانی رنگ اختیار کرتا ہے اور فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔

اس جنگ میں مہاجر نعرے کو وہ سیاسی مقبولیت ملی جس کی توقع اے پی ایم ایس او کو کبھی بھی نہیں تھی۔ شاید اس مارشل لا میں ایم کیوایم کو پیپلز پارٹی کے خلاف ایک نئی قوت بنایا جا رہا تھا۔ ساری توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف تھا۔ رکشوں پر بیٹھ کر ایوانوں میں آنے والے ایم کیو ایم کے ارکان کیسے مضبوط ہو رہے تھے؟ یہ جاننے کے لیے رفتار کی ڈاکیو مینٹری ’’سانحہ علی گڑھ‘‘ ضرور دیکھیں۔

17 اگست 1988 کو ملک کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق طیارہ حادثے میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور 2 دسمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو اقتدار میں آ جاتی ہیں۔ اسی سال محترمہ بے نظیر طلبا تنظیموں سے پابندی ہٹا دیتی ہیں۔ مگر ابھی تک مارشل لا کے اثرات ختم نہیں ہوئے تھے۔ اسلحے کا لگا بیج، تنا آور درخت بن چکا تھا۔ طلبہ سیاست میں تشدد کے واقعات آئے روز بڑھ رہے تھے۔

اس دور میں الطاف حسین کا ڈنکا بج رہا تھا ایم کیو ایم شہر میں قومی و صوبائی اسمبلی کی تقریباً تمام نشستوں پر کامیاب ہو کر کراچی کی واحد نمائندہ جماعت کا اعزاز حاصل کر چکی تھی۔ اب جامعہ کراچی میں اے پی ایم ایس او اور پیپلز فیڈریشن کے عروج کا دور شروع ہوتا ہے۔ اب ہم کہانی کے اس موڑ پر جہاں موت رقص کر رہی ہے۔

1990 کے اوائل کا ذکر کریں تو اے پی ایم ایس او اور پی ایس ایف کے پاس جدید ترین اسلحہ اچکا تھا یہ سال خونی سال تھا۔ نیشنل کالج کے اندر ایڈمیشن کے لیے کیمپ لگے ہوئے تھے کہ اچانک نامعلوم افراد فائرنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ فائرنگ میں پختون خواں طلبہ تنظیم کا لیڈر قاسم خٹک اور طالب علم ندیم مارا جاتا ہے اور سارا ملبہ نیشنل کالج اور پی ایس ایف کے ضلعی صدر چوہدری ہارون رشید پر آ جاتا ہے۔

اب یہاں اے پی ایم ایس او مرنے والے طالب علم ندیم کو اپنا کارکن DICLARE کر دیتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں بھی ایڈمیشن کی لسٹیں لگنے والی تھیں۔ اپنے ایڈمیشن کے لیے ایکسائیٹیڈ چوہدری ہارون رشید راحیلہ ٹوانہ، سہیل رشید، عزیز اللہ اجن فٹ پاتھ پر بیٹھے تھے کہ ہارون نے ایسا منظر دیکھا ہے جس سے اسے اپنی موت قریب نظر آنے لگی۔

چند لوگ مختلف بیگز یونیورسٹی میں لا رہے تھے اور ان بیگز میں نہ تو کوئی اسپورٹس کا سامان تھا اور نہ ہی کتابیں۔ اسے پتہ چل جاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور وہ راحیلہ کو کہتا ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں کچھ ہونے والا ہے۔ تین دن کے بعد کراچی یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے لیے لسٹیں لگ جاتی ہیں اور چوہدری ہارون رشید صبح 8 بجے بھی اپنے ساتھیوں کو لے کر ایڈمیشن لسٹ دیکھنے جاتا ہے۔

راحیلہ ٹوانہ اس واقعے کے بارے میں بتاتی ہیں:

تین دن کے بعد یہ ہوا کہ جب یہ بچے لسٹ دیکھنے کے لیے گئے ہیں، تو ان کو ایڈمیشن بلاک کے پاس گھیر لیا گیا۔ وہاں ان سب کو آرڈر دیا گیا کہ سب ایک لائن میں کھڑے ہوجاؤ۔ یہ سب لائن میں کھڑے ہو گئے۔ پی ایس ایف کے تقریباً گیارہ یا بارہ لڑکے تھے۔ باقی دیگر پی ایس ایف کے لڑکے روٹین کے مطابق وہاں موجود تھے۔ اچانک ان سب کو دیوار کے ساتھ لگا کر پوچھا گیا کہ تم میں سے ہارون رشید کون ہے تو 9 لڑکے نے کہا کہ میں ہوں، میں ہوں، میں ہوں۔ تو آخر میں ہارون نے کہا کے تمہارا مسئلہ کیا ہے ہارون سے تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کو جواب دینا چاہتے ہیں قاسم خٹک کے حوالے سے۔ وہ ایم کیو ایم کے لڑکے تھے کسی اور جماعت کے لڑکے نہیں تھے اے پی ایم ایس او کے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس کا جواب دینا چاہتے ہیں کیونکہ ہارون نے ہمارا لڑکا شہید کیا ہے انہوں نے کہا کے ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان لڑکوں میں سے ایک زیادہ عمر کا آدمی سامنے آیا اور اس نے سیدھے برسٹ مار دیے۔ اس نے جو گالیاں چلائیں تو ہمارا جو ہارون ہے گیارہ فٹ تک اس کا بھجا اڑ کر گیا۔ عزیز اللہ اجن کو ایک گولی ماری انہوں نے سر کے اوپر ایک اس کے دل کے اوپر۔ جو ایک سہیل رشید وہاں سے بھاگا تو اس کے اوپر گن رکھ کر گولیاں ماری صرف ریڑھ کی ہڈی بج گئی باقی سارا گوشت اڑ گیا۔ یہ طلبا کے ساتھ ہو رہا ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ محمود کو گولیاں ماری اور اس کی ٹانگیں اڑا دی شاید وہ زندہ ہے ابھی بھی۔

آپ سن کر حیران ہوں گے اتنا بڑا واقع ہونے کے باوجود مبینہ ٹاؤن پولیس کی اتنی جرات نہ تھی کہ وہ کراچی یونیورسٹی میں قدم رکھتی۔ کئی گھنٹے تک لاشیں پڑی رہیں اور ہارون رشید کے نکلے بھجے پر مکھیاں بھنبھناتی رہیں۔ دہشت کی فضا کئی روز تک قائم رہی۔ روشن روشن یونیورسٹی اندھیروں میں ڈوب گئی۔ کراچی یونیورسٹی نو گو ایریا بن چکی تھی اور طلبا کریمنل!

اکثر باہر سے لوگوں کو اغوا کر کے لایا جاتا اور ہوسٹلز میں رکھا جاتا۔ جامعہ سیاسی جماعتوں کا اکھاڑا بن چکی تھی۔ بس پھر کیا تھا گورنر فخرالدین ابراہیم این ای ڈی کے ایڈیٹوریم میں میٹنگ کرتے ہیں اور سندھ کے تمام وائس چانسلرز کو بلایا جاتا ہے۔ بند کمرے میں ایک تاریخی فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف کراچی یونیورسٹی بلکہ کراچی کی ہر مشکل کا توڑ سمجھا گیا۔ یونیورسٹی کے دروازے رینجرز کے لیے کھول دیے گئے جو آج تک بند نہیں ہوئے۔

کہانی ابھی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ انڈر ورلڈ کے لوگ کیسے کراچی یونیورسٹی آتے تھے؟ وہ کون تھا، جس سے پوری اے پی ایم ایس او اور الطاف حسین تھر تھر کانپتے تھے؟ نوے کی دہائی کے بعد سے اب تک کراچی یونیورسٹی میں کیا کچھ ہوتا رہا؟ یہ سب جاننے کے لیے آپ کو ہماری اگلی رپورٹ کا انتظار کرنا پڑے گا۔

شیئر

جواب لکھیں