جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد نو رکنی بینچ تحلیل ہونے کے بعد فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت 7 رکنی بینچ نے کی۔

ابتدا میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 9 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ اس بنچ کو بنچ نہیں سمجھتے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس وقت تک کسی بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے جب تک سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 سے متعلق کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا جس کا مقصد چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کے دفتر کو انفرادی حیثیت میں ازخود نوٹس لینے کے اختیارات سے محروم کرنا ہے اور جو بعد میں قانون بن چکا ہے۔

اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وہ خود کو اس کیس کی سماعت سے الگ نہیں کر رہے ہیں۔ جسٹس طارق مسعود نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خیالات سے اتفاق کیا تھا۔

بعد ازاں تمام ججوں کے کمرہ عدالت سے چلے جانے کے بعد سماعت ملتوی کردی گئی۔ تاہم چیف جسٹس نے کیس کی سماعت آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسعود کو چھوڑ کر 7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔

دوبارہ سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جس کسی کو بھی 7 رکنی بینچ کے حوالے سے تحفظات ہیں وہ فوری طور پر اس سے آگاہ کرے۔ اعتزاز احسن اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی بنیاد پر دو ججوں نے اعتراض کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ شاید وہ نہیں جانتے کہ اٹارنی جنرل نے اس معاملے میں مزید وقت مانگا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بنچ سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے، انھوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ "خدا کی مخلوق" کے حق میں فیصلہ کرنے کے لیے موجود ہے۔

دلائل اور ریمارکس

سماعت کے دوران اعتزاز احسن کے وکیل نے لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 245 نافذ ہونے کے بعد ہائیکورٹس کا 199 کا اختیار ختم ہو گیا ہے۔ اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ فوج طلبی کا وہ نوٹیفیکیشن واپس ہو چکا ہے۔

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا 9 مئی کے ناقابل تردید شوہد ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لیے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا؟

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جی پریس ریلیز میں یہ ہی کہا گیا ہے۔ انھوں نے پریس ریلیز پڑھ کر عدالت میں سنائی۔

ان کا کہنا تھا  7 جون کو فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ آیا۔ فارمیشن کمانڈر میں کرنل سے لے کر سب آتے ہیں۔  متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ ذمے داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ ملک کی تمام ملٹری قیادت نے بیٹھ کر فیصلہ دے دیا ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا یہ دستاویز ان کی ویب سائٹ پر ہے۔ اس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ یہ پریس ریلیز آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر لگی ہوئی ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز نے جب کہہ دیا ناقابل تردید شواہد ہیں تو ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟

انھوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں کہتا کہ 9 مئی کے ذمے داروں کو چھوڑ دیا جائے۔ کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔

جسٹس منصور علی خان نے کہا کہ یہ سب بیانات ہیں، ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا؟ اس پر لطیف کھوسہ نے انسداد دہشتگردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کردیے۔

جسٹس منصور علی خان نے پوچھا کیا انسداد دہشتگردی عدالت میں کسی ایف آئی آر کے تحت کیس تھا؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جی مختلف ایف آئی آر درج کی گئیں۔ جنھوں نے پریس کانفرسیں کیں وہ بری الذمہ ہو گئے۔

لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ کورکمانڈر یا جناح ہاوس حملے میں کسی اہلکار کو کوئی خراش نہیں آئی تھی۔  جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ایف آئی آر کے تحت کتنے لوگ گرفتار ہوئے؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پچاس لوگوں کو 10 مئی کے روز گرفتار کیا گیا، اسی رات 5 مختلف ایف آئی آر درج کی گئیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کیا سارے ملک میں ایف آئی آرز دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہوئیں؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ سارے مقدمات انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیے گئے، کسی ایف آئی آر میں آرمی ایکٹ کا حوالہ نہیں۔

لطیف کھوسہ کے مطابق ان قدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی سمیت تمام قائدین کو نامزد کیا گیا، مجموعی طور پر ملک بھر میں چار ہزار مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ جن افراد کے خلاف کارروائی شروع کی گئی کیا انھوں نے ملٹری ایکٹ کے تحت چیلنج کیا؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میں ان ملزمان کی نمائندگی نہیں کرتا مجھے معلوم نہیں۔

اس موقع پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہم نے ایک درخواست دائر کی ہے، سپریم کورٹ میں ہماری اس درخواست پر نمبر لگ گیا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ کیا وہ فیصلے چیلنج ہو سکتے ہیں؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ کس کی ہمت ہے، کون وہ چیلنج کرے گا۔

لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ پوری ایف آئی آر پڑھ لیں کہیں ملٹری ٹرائل کے رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے درخواست کے ساتھ جو چیزیں لگائیں وہ مکمل نہیں ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں اور اعتزار احسن ملزم تو نہیں ہم 25 کروڑ عوام کی فکر میں آئے ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ ملک بھر سے کتنے لوگوں کو فوجی عدالتوں کے تحت ٹرائل کے لیے بھیجا گیا۔ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ کسی جگہ سے 10 کسی جگہ سے 20 ملزمان کو بھیجا گیا۔

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ آپ عموعی نوعیت پر دلائل دے رہے ہیں، آپ نے صرف قانون کو چیلنج کیا اس پر تو عدالت پہلے فیصلہ دے چکی ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ لوگ بہترین جج ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہمیں شرمندہ نہ کریں۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کو تھپکی دی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید پوچھا کہ کیا اے ٹی سی میں ملزمان کی ملٹری حوالگی سے پہلے کوئی بحث ہوئی؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ کئی جگہوں پر نہ ملزمان عدالت میں موجود تھے نہ ان کے وکیل۔

لطیف کھوسہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرا کیس یہ ہے کہ عام شہریوں کا کیس فوجی عدالتوں میں نہیں چل سکتا۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیس اے ٹی سی میں چل سکتا ہے؟ اس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ اے ٹی سی میں چل سکتا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ فوجی عدالتوں میں  ملزمان کی حوالگی صرف ان کے اپنے افراد کی ہو سکتی ہے، سویلین کی حوالگی تو نہیں ہو سکتی؟

لطیف کھوسہ نے اس پر جواب دیا کہ یہی تو ہمارا کیس ہے کہ عام شہری کا ٹرائل فوجی عدالت نہیں کر سکتی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا اے ٹی سی جج فیصلہ دے سکتا ہے کہ کیس آرمی ایکٹ کا بن سکتا ہے یا نہیں؟ انھوں نے کہا کہ سویلین کو ملٹری کورٹس میں بنیادی حقوق کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کا آئینی حق ہوتا ہے، بنیادی حقوق کا معاملہ سپریم کورٹ لایا جا سکتا ہے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کو سیکشن 549 تھری کے تحت اے ٹی سی نے ملٹری حکام کے حوالے کیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ معذرت خواہ ہوں وزارت قانون کی ویب سائٹ پر 549 کی سب سیکشن تھری ہے ہی نہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سزا کم ہے اور عام قانون میں سزا زیادہ ہے۔ اس پر جسٹس منصور علی خان نے کہا کہ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ ادھر آنا چاہتے ہیں یا ادھر جانا چاہتے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں ملٹری کورٹس کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا، آپ کہہ رے ہیں کہ فوجی عدالت کا فیصلہ پبلک نہیں ہوتا اس کی وجوہات واضح نہیں ہوتی، آپ آگے چلہں اور دلائل ختم کریں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ تو آرمڈ فورسز میں کام کرنے والوں کے متعلق ایکٹ ہے، آپ نے اس ایکٹ کو چیلیج کیا؟

لطیف کھوسہ کے دلائل کے بعد سماعت ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے  لطیف کھوسہ کی فوری حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی،

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں اور سویلین عدالتوں میں پیش ہونے والے 9 مئی کے ملزمان کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

کیس کی سماعت کے دورانر بحث و دلائل سننے والوں کا رش لگ گیا تھا۔ سپریم کورٹ کا کمرہ عدالت نمبر 1 کچھا کھچ بھرا ہوا تھا، کمرہ عدالت میں اضافی کرسیاں منگوائی گئی تھیں۔

فوجی  عدالتوں میں مقدمات کے خلاف درخواستیں کس کس نے دائر کی ہیں؟

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل خواجہ احمد حسین کے توسط سے درخواست دائر کی تھی جس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف مقدمے کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

سابق چیف جسٹس نے استدعا کی کہ پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعہ 2 (1) (ڈی) (1) (1) اور (2) آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتی لہذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ عبوری اقدام کے طور پر ان دفعات کی بنیاد پر شہریوں کے خلاف تمام کارروائیاں معطل کی جائیں یا متبادل کے طور پر کسی بھی فوجی عدالت کو دفعات کی بنیاد پر شہریوں کے خلاف کسی بھی معاملے میں حتمی حکم جاری کرنے سے روکا جائے۔

اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے پانچ ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے توسط سے ملک میں 9 مئی کو ہونے والے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

اسی طرح اعتزاز احسن نے جو سابق وزیر قانون بھی رہ چکے ہیں اور 2007 ء میں وکلاء کی تحریک کی قیادت بھی کر چکے ہیں وضاحت کی کہ ان کی درخواست کا بنیادی مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ 9 مئی کے تشدد میں مبینہ طور پر حصہ لینے اور مقدمے کے لیے نامزد کیے جانے والے ہزاروں شہریوں میں سے کسی پر بھی فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہ چلایا جائے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی قانونی طور پر قائم فوجداری عدالت کے سامنے کسی سویلین کے مقدمے کی سماعت کو روکنا نہیں چاہتے۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنی درخواست میں پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 اور آفیشل سیکریٹس ایکٹ 1923 کے تحت امن کے دوران عام شہریوں کی گرفتاریوں، تحقیقات اور مقدمے کے خلاف حکم سنانے کی استدعا کی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں