مہنگائی نے تو سارے ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ صورت حال اتنی بُری ہے کہ لوگ آٹے کے لیے جانیں دے رہے ہیں۔ وفاقی ادارۂ شماریات نے کچھ نمبرز جاری کیے ہیں۔ دیکھ کر میرے تو ہوش اڑ گئے ہیں۔

مارچ کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 35.4 فیصد رہی۔ پچھلے سال اسی مہینے میں جب پی ٹی آئی کی گورنمنٹ تھی تو مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تھی۔ صرف سرکاری ریٹ ہی دیکھ لیں، آپ حیران رہ جائیں گے:

20 کلو آٹے کا تھیلا پچھلے سال مارچ میں 1180 روپے کا تھا، لیکن اب 2635 روپے کا ہو چکا ہے۔ لاسٹ ایئر چائے کی پتی کا جو پیکٹ 258 روپے کا تھا، اب 511 روپے میں آتا ہے۔ انڈے 130 سے 256 روپے درجن ہو چکے ہیں۔

ویسے تو کراچی میں دودھ 210 روپے لٹر ہے مگر اس سرکاری ڈیٹا کو ہی مان لیں تو دودھ ایک سال میں 117 سے 161 کا ہوچکا۔ کوکنگ آئل کا پانچ کلو والا پیک 2367 کا تھا، لیکن اب 3319 کا ہے۔

ہمارے سُٹا لگانے والے دوستوں کے ساتھ تو بڑا ظلم ہوا ہے۔ ایک سال پہلے 83 روپے میں ملنے والا سگریٹ کا پیکٹ اب 221 کا ہے۔

ارے ہاں! بات مہنگائی کی ہے تو پٹرول کو کیسے بھولیں؟ پچھلے سال مارچ میں پٹرول 150 روپے لٹر تھا، مگر اب یہ ہے 272 روپے کا۔ اور کوئی بھروسہ نہیں جب آپ یہ وڈیو دیکھ رہے ہوں، تب یہ 300 بھی کراس کر چکا ہو۔

اور ہاں ڈالر! ایک سال پہلے تقریباً 180 پر کھڑا تھا، لیکن اب 285 روپے پر پہنچ چکا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پچھلے ساڑھے تین سال میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں تقریباً ڈبل ہو چکی ہیں۔

اس دوران سستا کیا ہوا ہے؟ صرف اور صرف ایک چیز، انسانی جان، جو آٹے کے ایک تھیلے کے برابر رہ گئی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں